دولت طاہریہ کا قیام(822ء تا 872ء) دولت طاہریہ کا قیام: مامون طاہر کی بے بہا خدمات اور خیر خواہیوں کا بڑا مداح تھا اور ممکن تھا کہ مسند وزات بھی اسی کی تحویل میں دے دیتا مگر اپنے بھائی امین کا قتل ہمیشہ اس کے دل میں کھٹکتا رہا اور جب بھی طاہر اس کے سامنے جاتا تو اسے اپنا مقتول بھائی یاد آ جاتا اور اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ طاہر کو بھی کسی طرح خلیفہ کی اندرونی کیفیات کا علم ہو گیا۔ اس لئے مناسب یہی سمجھا کہ دار الخلافہ سے کہیں دور چلا جائے۔ چنانچہ وزیراعظم احمد بن ابی خالد سے درخواست کی کہ اسے بغداد سے باہر کسی صوبہ کی امارت کیلئے بھیج دیا جائے۔ حسن اتفاق سے انہی دنوں خراسان سے خبر آئی کہ عبد الرحمن نامی ایک سردار خارجیوں سے لڑنے کیلئے فوج جمع کر رہا ہے۔ مامون کو خدشہ لاحق ہوا کہ یہ اجتماع کوئی فتنہ نہ برپا کر دے۔ اس لئے چاہا کہ کسی طاقتور آدمی کو وہاں کا حاکم مقرر کرے احمد بن ابی خالد نے یہ سن کر طاہر کو خراسان کا والی تعینات کر دیا۔ طاہر خراسان کا مستقل حکمران بن گیا۔ صرف سالانہ خراج دارالخلافہ کو بھیجتا اور خطبے میں خلیفہ کا نام لیتا تھا۔ باقی تمام امور میں خود مختار تھا۔ اس طرح خراسان میں طاہریہ حکومت کی بنیاد پڑی۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ طاہر نے خطبے میں خلیفہ کا نام حذف کر دیا مامون کا جاسوسی نظام اتنا مکمل اور منظم تھا کہ فوراً بغداد میں اس کی اطلاع پہنچ گئی۔ خلیفہ نے وزیراعظم احمد بن خالد کو حکم دیا کہ تمہاری سفارش پر اس کی تقرری ہوئی تھی اگر جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً حاضر کرو۔ لیکن دوسرے ہی دن اس کے انتقال کی خبر آ گئی اور احمد عتاب سے بچ گیا۔ طاہر کے بعد اس کا بیٹا عبد اللہ حاکم خراسان بنا۔ اس نے مرد کی بجائے نیشاپور کو دارالخلافہ قرار دیا اور اپنی سلطنت کی حدود کو ہندوستان تک وسیع کیا۔ اس کے بعد طاہر ثانی حاکم خراسان بنا۔ یہ دولت طاہریہ کا آخری حکمران تھا۔ اس کو یعقوب بن لیث صفاری نے 972ء میں شکست دے کر خراسان کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ دولت طاہریہ کا قیام بنی عباس کی عظیم سلطنت میں انتشار کی طرف ایران میں پہلا قدم تھا۔ اس دولت کے قیام نے اور بہادروں کو بیرونی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے شمع ہدایت کا کام دیا اور جوں جوں موقع ملتا گیا۔ مرکز سے قطع تعلق کرکے آزاد و خود مختار ریاستیں قائم کرنے لگے۔ دولت طاہریہ کی تاریخ میں اہمیت: آل طاہر کی حکومت خالص ایرانی تھی۔ اس کے عہد کے حکمرانوں نے فارسی زبان و ادب کی طرف خاص توجہ دی۔ اس لئے بخارا اور نیشاپور علم و ادب کے مرکز بن گئے۔ اس عہد میں پہلی مرتبہ شعراء نے اپنی ملکی زبان فارسی میں شعر کہنے شروع کئے اور اس عہد کا مشہور شاعر حنظلہ باد غیسی فارسی زبان کا وہ پہلا شاعر ہے جس نے اپنا دیوان مرتب کیا۔ دولت صفاریہ(867ء تا 903ء) خلیفہ المتوکل کے عہد میں سیستان میں صالح بن نصر ایک شخص تھا جو لوگوں کو دینی درس دیا کرتے تھے۔ اس درس میں اکثر نوجوان شریک ہوتے تھے۔ صالح نے نوجوانوں کی ایک فوج بھی منظم کی تھی۔ جس نے خوارج کو شکست دی جو آئے دن سیستان میں فتنہ برپا کرتے رہتے تھے۔ یعقوب بن لیث بھی صالح کا مرید تھا۔ یعقوب ذات کا ٹھٹھیرہ تھا لیکن اس نے پیشے کو ترک کرکے صالح کو فوجی جماعت منظم کرنے میں مدد دی۔ چنانچہ اسے سیستان کی اس فوج کا جرنیل بنا دیا گیا۔ صالح کی وفات کے بعد اہل سیستان نے یعقوب کو ہی اپنا میر منتخب کر لیا۔ یعقوب کے جب قدرے پاؤں جمے تو اس نے 867ء میں ہرات کا رخ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ پھر کرمان اور فارس کے علاقے فتح کرکے ایک وسیع سلطنت کا حکمران گیا۔ اس طرح خاندان صفاریہ کی آزاد حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ خاندان صفاریہ کی حکومت اگرچہ کم مدت کیلئے قائم ہوئی لیکن یہ خالص ایرانی حکومت تھی جو خلیفہ کی حکومت سے بالکل آزاد تھی۔ اس لئے ایرانیوں کے دل میں اس کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ یہ حکومت کچھ اس لئے بھی ایرانیوں کو عزیز تھی کہ یہ رستم کے وطن سیستان میں قائم ہوئی تھی۔ خاندان طاہریہ کا حکمران یعقوب کی یلغاروں کا منظر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اس کے اپنے علاقے بھی چھین لئے گئے۔ لیکن اس نے پھر بھی جنبش تک نہ کی۔ چنانچہ یعقوب نے خراسان پر حملہ کرکے طاہری عہد کا خاتمہ کر دیا۔ پھر طبرستان کی طرف بڑھ کر حسن بن زید کو شکست دے کر عہد علویہ کا بھی خاتمہ کر دیا۔ یعقوب اب تقریباً نصف ایران پر مسلط ہو چکا تھا۔ فتوحات کے نشے میں سرشار ہو کر اس نے 876ء میں یہ ارادہ کیا کہ خلیفہ سے بھی دو دو ہاتھ کرکے عربوں کا تسلط بھی ختم کر دے۔ چنانچہ سب سے پہلے اس نے خلیفہ معتمد سے صوبہ فارس کی حکومت مانگی۔ خلیفہ نے نہ صرف یہ کہ فارس کی حکومت اس کے سپرد کرنے سے انکار کیا۔ بلکہ خراسان کی حکومت بھی اس سے لے لی۔ یعقوب نے حالات بگڑتے دیکھے تو سیدھا بغداد کی طرف بڑھا۔ دارالخلافہ کے قریب خلیفہ کی فوج کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ لیکن شکست کھائی اس پر بھی اس کے حوصلے پست نہ ہوئے اور واپس آکر نیا لشکر فراہم کرنے میں مشغول ہو گیا۔ 879ء میں خلیفہ نے خیر سگالی کیلئے اپنا سفیر یعقوب کے پاس بھیجا۔ جب یہ سفیر پہنچا تو یعقوب اس وقت صاحب فراش تھا۔ اسے کھانا پیش کیا جا رہا تھا۔ جس میں صرف ایک روٹی اور ایک پیاز تھا۔ اسی حالت میں یعقوب خلیفہ کے سفیر سے ملا اور خلیفہ کو کہ بھیجا کہ اگر میں زندہ رہا تو ہمارا فیصلہ تلوار کرے گی۔ اگر مجھے فتح ہوئی تو جس طرح میں چاہوں گا ویسا ہی ہوگا اور اگر تمہیں فتح ہوئی تو میرے لئے یہ پیاز اور روٹی کا ٹکڑا تو ہے ہی جو شخص اس قسم کی غذا پر مطمئن ہو سکتا ہے اس پر تم فتح نہیں پا سکتے۔ لیکن یعقوب کا زندگی نے ساتھ نہ دیا جونہی سفیر خلیفہ کے پاس پہنچا یعقوب چل بسا۔ سیرت: یعقوب بن لیث دوست نوازی سخاوت اور سادہ زندگی بسر کرنے میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ انہیں صفات میں اس کی کامیابی کا راز تھا۔ اس کے پاس جو کچھ ہوتا تھا اپنے دوستوں کو کھلا پلا دیتا تھا۔ خود تکلیف اٹھا کر دوستوں کو راحت پہنچانے کا شوق رکھتا تھا۔ اس لئے اس کو اپنے جانثاروں کی جمعیت فراہم کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ اس نے اپنے لڑکپن کے دوستوں کو اپنی بادشاہت کے وقت مطلق فراموش نہیں کیا اور سب کو اعلیٰ مدارج پر پہنچایا۔ بادشاہت کی حالت میں بھی وہ ایک معمولی سپاہی کے لباس میں نظر آتا۔ معمولی سپاہیوں کی طرح زمین پر سونے اور خندق کھودنے سے اس کو عار نہ تھا۔ اس کے خیمے اور ایک معمولی سپاہی کے خیمے میں فرق نہ ہوتا تھا۔ اس کو عیاشی و بدچلنی سے سخت نفرت تھی۔ استقلال اوالعزمی اس کے ہر ایک کام اور ہر ایک بات سے ٹپکتی تھی۔ آخر کار ایران کے بہت بڑے حصے کا مطلق العنان فرمانروا بن گیا تھا اور بغداد کا دربار خلافت اس کے استیصال پر قادر نہ ہو سکا۔ عمرو بن لیث: یعقوب بن لیث کی وفات کے بعد اس کا بھائی عمرو بن لیث تخت پر بیٹھا اور اس نے اپنی حدود سلطنت کو اور بھی وسیع کیا۔ عمرو بن لیث میں اگرچہ اپنے بھائی کی نسبت عقل و دانائی زیادہ بیان کی جاتی ہے۔ مگر وہ ان سپاہیانہ اخلاق اور سادہ زندگی بسر کرنے میں اپنے بھائی سے کمتر تھا۔ خلیفہ معتمد کے بھائی موفق نے ایک مرتبہ اس کو شکست دی مگر اس نے جلد ہی اپنی حالت کو پھر درست کر لیا اور دربار خلافت کیلئے وبال جان بن گیا۔ آخر خلیفہ نے ماورالنہر کے حاکم اسمٰعیل سامانی کو عمرو بن لیث کے مقابلہ پر آمادہ کیا۔ عمرو بن لیث ستر ہزار سوار لے کر اسمٰعیل سامانی کے مقابلے پر آمادہ ہوا اور دریائے جیحوں کو عبور کیا۔ اسمٰعیل سامانی صرف بیس ہزار سواروں کے ساتھ مقابلہ پر آیا۔ عین معرکہ جنگ کے وقت عمرو بن لیث کا گھوڑا اپنے سوار کی منشاء کے خلاف اسے اسمٰعیل سامانی کے لشکر میں لے گیا اور وہاں بڑی آسانی سے گرفتار کر لیا گیا۔ صید راچوں اجل آید سوئے صیاد رود اسماعیل سامانی نے عمرو کو گرفتار کرکے بغداد بھیج دیا اور اس طرح دولت صفاریہ کی عظمت و شوکت کا قریباً خاتمہ ہو گیا۔ یعقوب اور عمرو میں سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ یعقوب ایک صعوبت کش اور سوکھی روٹیاں چبا کر گزارہ کرنے والا سپاہی تھا اور عمرو ایک شان و شوکت اور سامان عیش کے ساتھ بسر کرنے والا بادشاہ تھا۔ اس جگہ ایک لطیفہ نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جس روز عمرو گرفتار ہوا ، اس روز صبح کے وقت اس کے باورچی نے عرض کیا کہ باورچی خانے کا سامان اٹھانے کیلئے تین سو اونٹ ناکافی ہیں اس لئے بار برداری کیلئے کچھ اور اونٹ دیئے جائیں۔ اسی شام کو جب عمرو بن لیث گرفتار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے باورچی سے جو اس کے ساتھ قید خانہ میں موجود تھا بھوک کی شکایت کی۔ باورچی نے ہانڈی میں تھوڑا سا دلیا اور پانی ڈال کر پکنے کیلئے چولہے پر رکھ دیا۔ کیونکہ اس کے سوا اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ باورچی نے جب ہانڈی چولہے سے اتار کر رکھی اور کسی ضرورت سے دوسری طرف متوجہ ہوا کہ اتنے میں ایک کتا آیا اور ہانڈی کو اٹھا کر چل دیا۔ عمرو نے جب کتے کو ہانڈی لے جاتے ہوئے دیکھا تو اپنے باورچی کو آواز دے کر کہا کہ صبح تو شکایت کر رہا تھا کہ باورچی خانہ کا سامان اٹھا کر لے چلنے کیلئے تین سو اونٹ ناکافی ہیں۔ اب دیکھ لے یہ ایک کتا میرا سارا باورچی خانہ اٹھائے ہوئے لے جا رہا ہے۔ عمرو بن لیث کے بعد اس کی اولاد نے چند سال تک علاقہ سیستان کے محدود رقبہ میں اپنی برائے نام حکومت قائم رکھی۔ یعقوب بن لیث کا نواسا جس کا نام خلف تھا۔ محمود غزنوی کے زمانہ تک سیستان میں برسر حکومت رہا۔ خلف کے بیٹے نے باپ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ خلف نے خود کو بیٹے کے مقابلے میں کمزور دیکھ کر اس کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ باشندگان سیستان نے سلطان محمود غزنوی کی خدمت میں خلف کے خلاف شکایت کی عرضیاں بھیجیں اور لکھا کہ آپ ہم کو خلف کے مظالم سے نجات دلایئے۔ جب محمود نے چڑھائی کی اور خلف نے مقابلہ کی تاب نہ لاکر سلطان کی خدمت میں حاضر ہو کر رکاب کو بوسہ دیا اور اپنی داڑھی سلطان کے پاؤں سے مل کر کہا ”اے سلطان مجھے معاف کر دے۔“ محمود کو خلف کی زبان سے سلطان کا لفظ پسند آیا اور اپنا لقب قرار دیا۔ خلف کو سزا دینے کی بجائے اپنے ہمراہ غزنی لے گیا جہاں چار سال بعد فوت ہوا اور اس کے بعد دولت صفاریہ کا خاتم ہو گیا۔ عہد صفاریہ میں فارسی علم و ادب: عہد صفاری میں فارسی علم و ادب کو عہد طاہریہ کے مقابلے میں زیادہ ترقی ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عہد صفاریہ کا بانی یعقوب سیستان میں پیدا ہوا۔ جو ایرانی داستانوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ یعقوب عربی زبان سے نابلد تھا۔ اس لئے شعراء نے عربی زبان کی بجائے فارسی زبان میں اس کے قصائد کہنے شروع کئے۔ چنانچہ اس عہد کے شاعروں اور ادیبوں نے فارسی زبان کی طرف توجہ کی۔
urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.
0 Comments: