بغداد کی طرف روانگی:
621ھ میں سلطان نے شوستر جانے کا ارادہ کیا۔ ایلچی پہلوان کو آگے آگے بھیجا۔ شاہ پور میں کچھ دیر قیام کیا۔ یہاں لور قبیلہ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور امداد کا وعدہ کیا۔ جب گھوڑے موٹے ہو گئے تو بغداد کی راہ لی۔ خلیفہ الناصر کے پاس آدمی بھیجا تاکہ صلح کر لی جائے اور گزری ہوئے باتوں پر مٹی ڈالی جائے لیکن عاقبت نااندیش نا عاقبت اندیش خلیفہ نے قشتمور کو بیس ہزار سواروں کے ساتھ مقابلے میں بھیجا اور دبیل سے مظفر الدین کو بھی فوج لاکر سلطان سے مقابلے کیلئے لکھا۔
خلیفہ کی فوج کی شکست:
قشتمور کو اپنی زیادہ طاقت کا گھمنڈ تھا۔ اس نے مظفر الدین کا انتظار نہ کیا اور سلطان سے جنگ کرنے کی ٹھان لی۔ لیکن سلطان کی فوج نے کمی کے باوجود اپنی خدا داد قابلیت سے فتح پائی اور بغداد کا رخ کیا۔
دوسری بغدادی فوج کی شکست:
سلطان کے جاسوسوں نے مظفر الدین کی فوج کشی کی خبر دی لیکن سلطان نے اس سے ایک جنگی چال چل کر قید کر لیا اور اس نے جلد ہی سلطان سے صلح کر لی۔
آذربائیجان کی فتح:
یہاں اس وقت اتابک ازبک حاکم تھا۔ لیکن مقابلے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھاگ گیا۔
سلطان اور گرجیوں کی جنگ:
گرجی اصل میں عیسائی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ سلطان کو شکست دے کر تبریز پر قبضہ کریں اور بغداد پہنچ کر خلیفہ کی جگہ جاثلیق پادری کو بٹھا دیں اور مسجدوں کو گرجوں میں تبدیل کر دیں۔
جب سلطان کو اہل گرجستان کی تیاری کی خبر ہوئی کہ وہ تیس ہزار بہادروں کے ساتھ لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔سلطان نے تھوڑے سے آدمیوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں نشے میں چور گرجیوں پر حملہ کیا اور وہ درہ گربی کی غار میں بھاگتے ہوئے گر کر تباہ ہو گئے۔ شلوہ اور ایوانی گرجی سردار قید ہوئے۔ غرض سلطان فتح یاب ہو کر تبریز پہنچ گیا۔
شلوہ اور ایوانی کی منافقت:
شلوہ اور ایوانی ظاہری مسلمان تھے اور اندر سے بدستور عیسائی تھے۔ انہوں نے گرجستان کی بادشاہ قیز ملک کو کہلا بھیجا کہ سلطان جس وقت درہ مارکاب پہنچے وہاں گھیر کر ختم کر دیا جائے لیکن ملک ”طشت وار“ کو ان کی منافقت کا پتہ چل گیا اور سدسہ کی گھاٹی میں قیز ملک کی فوج کو شکست دی۔دوسرے دن صحرائے لوری میں پہنچ کر بچے کھچے گرجیوں کو ختم کیا اور لوری باشندوں کو امان دے کر علی آباد کے قلعے میں آ گئے جہاں جب سلطان شکار کی غرض سے نکلا تو گرجیوں نے گھیر لیا۔ لیکن سلطان کی فوج کے پہنچتے ہی بھاگ کر دریائے کر میں ڈوب مرے سلطان نے پیش قدمی کی قیز ملک نے خزانہ دریا کے نذر کر دیا اور صلح کر لی۔یہاں سے سلطان کو بہت مال غنیمت ہاتھ آیا۔
براق حاجب کی بغاوت:
سلطان کو گرجستان میں ہی پتہ چلا کہ براق باغی ہو گیا ہے۔ سلطان عراق واپس لینے کے ارادے سے کرمان سے چل پڑا۔ لیکن براق حاجب نے ڈر کر تحفے تحائف پیش کرکے صلح کر لی۔
منگولوں کا حملہ:
سلطان کو دو مغل سردار ناعماس اور تانیال کے عراق پہنچنے کی خبر ملی۔ تو وہ تبریز سے اصفہان آیا۔ اس وقت مغل رے تک پہنچ چکے تھے۔سلطان لڑائی کی تیاری کرنے لگا۔ سلطان نے فوج کو مرنے مارنے پر تیار کیا۔ دائیں بازو کو بے وفا بھائی غیاث الدین کے سپرد کیا اور مرکز میں خود ٹھہرا لیکن بھائی نے بے وفائی کی اور ایلچی پہلوان کے ساتھ روگردانی کی۔ سلطان نے پھر بھی مقابلہ کیا۔ آخر کہاں تک بھاگ کرلورستان میں پناہ لی۔ جب تاتاری لوٹ گئے تو پھر اصفہان آیا اور جن لوگوں نے غداری کی تھی۔ان کو عبرت ناک سزائیں دیں اور جنہوں نے بہادری دکھائی تھی انہیں ”خان“ اور ملک کے خطاب دیئے۔
گرجستان کو واپسی:
625ھ میں سلطان کو معلوم ہوا کہ روم شام آرمینیہ کے علاقوں کے بادشاہ ہراساں ہیں اور ایک دوسرے سے عہدو پیمان کر رکھے ہیں۔ اس لئے گرج الان تک زی قفچائی سوینی انجاز وغیرہ علاقوں سے لشکر جمع کر لئے ہیں۔سلطان نے قریب پہنچ کر مندور میں ڈیرے ڈال دیئے اور اپنے وزیر یلدرجی اور درباریوں سے اپنی طاقت کی کمی کے متعلق مشورہ کیا۔
یلدرجی نے یہ مناسب خیال کیا کہ جوان مردوں کی تعداد دشمن کا سواں حصہ بھی نہیں۔ اگر ہم مندور سے نکل کر ان کی رسد کا راستہ بند کر دیں تو وہ موسم گرما میں کمزور ہو جائیں گے لیکن سلطان یہ سن کر غصے میں آ گیا اور جو دوات اس کے سامنے رکھی تھی۔وزیر کے سر پر دے ماری اور کہا کہ وہ بھیڑوں کا ریوڑ ہیں۔ شیر کو گلے کی کثرت کی کیا تکلیف ہو سکتی ہے۔ یلدرجی اپنے نامناسب مشورے سے نادم ہوا اور غلطی کے عوض دس ہزار دینار بطور جرمانہ ادا کئے۔
سلطان نے کہا کہ اگرچہ کام بہت دشوار ہے کوئی نہیں جان سکتا کہ فتح کس کی ہوگی۔ صرف اللہ پر بھروسہ ہی اس کا چارہ ہے۔ خزانوں کے منہ کھول کر فوج کو سازو سامان سے آراستہ کیا۔جب تیاری مکمل ہو گئی تو سلطان کی فوج دشمن کے مقابلے میں ایسی لگ رہی تھی جیسے آٹے میں نمک ہو یا سمندر کے مقابلے میں ندی۔
جب گرجیوں کا شکر آگیا تو سلطان کے لشکر نے بھی ہتھیار لگا لئے سلطان دشمنوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک اونچے ٹیلے پر چڑھا اور دیکھا کہ قنچاقیوں کے جھنڈے اور نشان دائیں طرف ہیں اور کوئی بیس ہزار چیدہ بہادر ہیں۔ سلطان نے قشقر کو پاس بلایا اور اسے ایک عدد روٹی اور قدرے نمک دے کر قنچاقیوں کے پاس بھیجا تاکہ انہیں اپنا احسان یاد کرائے جو سلطان نے اپنے باپ کے زمانے میں جبکہ اس نے انہیں قید اور ذلیل کر رکھا تھا۔تو سلطان ہی نے انہیں طرح طرح کی تدبیروں سے رہائی دلائی تھی۔ اس پر وہ لڑائی سے باز رہے اور اپنی جگہ سے ہٹ گئے۔
آخر گرجیوں کے لشکر نے صفیں آراستہ کیں سلطان نے اپنا قاصد ایوانی کے پاس بھیجا جو ان کا سردار تھا کہ ایوانی کو کہے کہ آج تم دور سے آئے ہو۔ گھوڑے تھکے ہوئے ہوں گے اور ساتھ ہی سپاہی بھی تھکے ہارے ہوں گے۔ آج اسی طریقہ پر کہ ایک ایک بہادر کو میدان میں بھیجیں اور جارہانہ اور مدافعانہ طور پر لڑائی کریں تاکہ آج ہم یہ نظارہ دیکھیں اور عام لڑائی کو کل پر چھوڑ دیں۔
ادھر سے ایک پہلوان میدان میں آیا اور ادھر سے بھی سلطان بھیس بدل کر شیر کی طرح لشکر سے نکلا۔ سلطان نے ایک سردار اور تین اس کے بیٹوں کو ختم کیا۔ اب سلطان کا گھوڑا بہت تھک گیا تھا۔ اس لئے نیچے اتر آیا اور پانچویں کو بھی کاری ضرب لگائی اس پر دشمن کی فوج میں مایوسی اور خوف طاری ہو گیا۔ سلطان نے چابک کے اشارے سے فوج کو حملہ کا حکم دیا۔گرجی بھاگ نکلے اور اتنا بے انداز مال غنیمت ہاتھ لگا کر بھیڑوں بکریوں اور گھوڑوں کی طرف کسی نے دھیان نہ دیا۔ دشمن پر سلطان کا رعب چھا گیا اور یہاں سے اخلاط کو روانہ ہوا۔
اخلاط میں آمد اور فتح:
جب سلطان پہلی مرتبہ عراق جانے کے ارادے سے اخلاط واپس آیا تو اخلاط کے حکمران قلعے تعمیر کرکے اس کی دیوار کو درست کر چکے تھے جب سلطان وہاں پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے محاصرہ کر لیا اور شہر کے دونوں طرف منجنیق نصب کر دی گئیں۔جب محاصرہ نے طول کھینچا تو خلیفہ سے سفارش کروانے لگے۔ لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اخیر دس ماہ کے محاصرے کے بعد سلطان نے شہر فتح کر لیا اور قتل عام کا حکم دیا۔ دوپہر کو قتل عام بند کرنے کا حکم دیا۔ سلطان ملک اشرف کے محل میں اترا اور ملک اشرف کا بھائی مجیر الدین اور اس کا غلام عزالدین ایبک اندرونی قلعہ میں چلے گئے۔ پھر مجیر الدین نے عزالدین کی جان بخشی کی درخواست کی۔لیکن سلطان نے ہیجڑے غلام کی ایلچی گیری سے منع کیا۔ اس نے سلطان کو ختم کرنے کی سازش کی۔ لیکن دربانوں نے دور اندیشی سے کام لے کر تمام سازشیوں کا کام تمام کر دیا۔ سلطان کو ملک اشرف کے خزانے سے بہت سا مال غنیمت ملا اور لشکر بھی لوٹ مار سے مالا مال ہو گیا۔
قیصر روم سے مقابلہ:
سلطان اخلاط سے ملا زجرد کی طرف آیا۔ وہاں سے خرتبرت گیا۔اب سلطان پر ضعف غالب آ چکا تھا۔ اسی اثناء میں سلطان ارض روم اس حق کے بدلے جو اس نے اخلاط کے محاصرہ کے وقت رسد رسانی میں مدد دے کر حاصل کیا تھا۔ طرح طرح کے احسانات و انعامات سے مشرف ہوا۔ اس نے عرض کیا کہ سلطان علاؤ الدین نے شام اور حلب کے حکمرانوں سے مصالحت کر لی ہوئی ہے اور سلطان کے مقابلے کیلئے اتفاق کرکے لشکروں کی فراہمی میں مشغول ہیں اور ہمیشہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر سلطان کو اخلاط میں ارض روم سے مدد نہ پہنچتی تو وہاں قدم جمنے مشکل ہو جائیں گے۔
سلطان نے باوجود ضعف کے غلبے کے اور طاقت کی کمی کے وہاں سے کوچ کیا اور جب لشکر بیابان موش میں پہنچا تو چھ ہزار نوجوان جو شام کی مدد کیلئے جا رہے تھے سلطان کا راستہ روک لیا۔ لیکن لحظہ بھر میں ختم کر دیئے گئے۔ چند روز بعد ایک دوسرے لشکر سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ سلطان روم ملک اشرف اور دوسرے ملکوں کے حکمرانوں نے سلطان کے خلاف اتحاد کرکے اتنا سازو سامان جمع کیا اور تیار کیا جو شمار سے باہر ہے۔آخر ایک ٹیلے پر صف بستہ ہوئے۔ تیر انداز گائے کے چمڑے کی ڈھالیں لئے ہوئے سواروں اور پیادوں کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ جب لڑائی کا وقت آ گیا تو سلطان پر ضعف اس قدر غالب تھا کہ گھوڑے کی باگ بھی نہیں پکڑ سکتا تھا۔ اس لئے سلطان کے خاص آدمی اسے واپس لائے تاکہ آرام کرے اس لئے خاص جھنڈے واپس لائے گئے۔ فوج نے جب یہ کیفیت دیکھی تو سمجھے کہ سلطان بھاگ گیا ہے وہ بھی مڑے دشمن لشکر اسی خیال میں شاید یہ کوئی جنگی چال ہے۔اس لئے تعاقب سے باز رہا۔
سلطان نے اخلاط کا رخ کیا۔ مجیر الدین کو خلیفہ کی سفارش پر واپس بھیج دیا۔ اس کی بیوی کو بھی واپسی کی اجازت دی۔ حسام الدین قیمری بھاگ گیا۔ عزالدین ایبک قلعہ وژمار میں ہلاک ہو گیا۔
مغلوں کا تعاقب:
سلطان کو خبر ملی کہ جورماغون نے دریائے اموریہ کو عبور کر لیا ہے۔ اپنے وزیر شمس الدین یلدرجی کو قلعہ کیران کی حفاظت کیلئے مقرر کیا اور اپنے اہل و عیال اس کے سپرد کرکے تبریز آ گیا۔سلطان کو روم و شام کی مخالفت کے باوجود مغلوں کے لشکر کی آمد اطلاع دی اور مشترکہ دشمن کی تباہی سے بھی آگاہ کیا۔ جب سلطان کو خبر ملی کہ مغلوں کا لشکر سراب پہنچ گیا ہے۔ تو سلطان بھی فوراً بشکین کے علاقے میں پہنچ گیا۔ رات کو سلطان نے جس سرائے میں قیام کیا۔ اس کی چھت گر پڑی۔ سلطان نے اس سے فال لی اور سمجھا کہ یہ بری علامت ہے اور اس کی اقبال مندی کے کنگرے گرنے والے ہیں۔دوسرے دن وہ موغان کو روانہ ہوا اور پانچ دن کے قیام کے بعد مغلوں کا لشکر اس کے تعاقب میں پہنچ گیا۔ سلطان نے شام کے وقت خیمے وہیں چھوڑ کر قیان کی پہاڑیوں میں چلا گیا۔ مغلوں نے جب سلطان کا خیمہ خالی دیکھا تو اسی وقت واپس چلے گئے۔ 628ھ کا جاڑے کا موسم ارومیہ اور اشنو میں گزارا۔
جب سلطان کو یلدرجی کی نمک حرامی کا پتہ چلا کہ اس نے حرم اور خزانہ میں خیانت کی ہے اور سلطان کی آمد کی خبر سن کر ڈر کی وجہ سے نہ آیا۔تو سلطان نے بوقو خان کو بھیجا کہ وہ اسے باہر لائے۔ جب وہ باہر لایا گیا تو سلطان نے اس کی جائیداد ضبط کرکے اسے زندہ درگور کر دیا۔
جب مغل جورماغون واپس پہنچے تو چنگیز نے سلطان کو گرفتار نہ کرنے پر سخت سست کہا۔ نائماس اور چند سرداروں کو سلطان کے تعاقب میں تیزی سے بھیجا۔ بوقو خان جس کو سلطان نے جاسوسی کیلئے بھیجا تھا عراق سے واپسی کی خوشخبری سنائی اور یہ بھی بتایا کہ ان علاقوں میں ان کا کوئی نام و نشان نہیں۔سلطان نے بوقو خان کی اطلاع کو درست خیال کرکے جشن منانا شروع کیا اور شاہی دربار موسم بہار کے باغ کی مانند پر رونق ہو گیا۔ دو تین دن اسی طرح گزر گئے۔ لیکن ایک رات اچانک اور خان نے مغل سردار نائماس کی آمد کی خبر سوئے ہوئے سلطان کو سنائی۔ سلطان نے اور خان کو مقابلے کیلئے مقرر کیا اور خود بھاگ نکلا مغل باقی ماندہ لشکریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر ناکام واپس ہوئے۔
انجام:
سلطان کے انجام کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کردوں نے قیمتی کپڑوں کے لالچ میں مار ڈالا۔ جب وہاں کے حاکم کو معلوم ہوا تو اس نے کردوں کے اس گروہ کو قتل کرا دیا اور سلطان کی لاش کو شاہانہ شان سے دفن کرایا۔ بعض کہتے ہیں کہ گودڑی پہن کر صوفیانہ طریقہ اختیار کرکے پھرتا رہا۔ غرض جس حال میں بھی تھا فوت ہو گیا۔ عراق کا گورنر اشرف الدین علی طبرشی مدتوں ان افواہوں کی تحقیق میں لگا رہا۔بعض لوگ سلطان ہونے کا دعویٰ کرتے اور وہ قتل کر دیئے جاتے غرض دیر تک افواہیں اڑاتی رہیں۔ لیکن سلطان کے انجام کے بارے میں آج تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ مغلوں کا سلطان نے چٹان بن کر مقابلہ کیا۔ تاریخ ایران اسے شہاب ثاقب کے نام سے یاد کرتی ہے۔
چنگیز خان کی واپسی:
1218ء سے 1222ء تک شہاب ثاقب کی سی تیزی سے مغل اس زمانے کی معلوم دنیا میں یلغار کرتے رہے۔پامیر کو عبور کرکے وہ سمرقند کی لمبی زرخیز وادی میں داخل ہوئے۔ یہاں سے وہ ایران کے قلب میں پہنچے۔ ایران کے کوہستانوں سے ہو کر بحیرہ خزر تک جا پہنچے۔ یہاں سے وہ مرغزاروں میں ہوتے ہوئے تبریز اور موصل تک پہنچے ساتھ ہی ساتھ ہندوکش کی برف پوش چوٹیوں کے نیچے نیچے افغانستان کے چٹیل کوہستان سے ہوتے ہوئے وہ دریائے سندھ کے کنارے جا نکلے۔یورپ میں روسیوں کو شکست دے کر ابھی آگے بڑھنے کیلئے پرتول رہے تھے کہ چنگیز خان نے انہیں واپس آنے کا حکم دیا۔ بادل نخواستہ یہ دشت میں واپس پلٹے اور اپنے ساتھ بے شمار مال و جواہر سمیٹ کر لے گئے۔ اس سارے دارو گیر کے عالم میں بوڑھے مغل کا سب سے چھوٹا بیٹا تولائی خان کردار کے لحاظ سے اردو کا سب سے نڈر سردار معلوم ہوتا تھا۔ بڑے بڑے شہروں کے مسمار کرنے کی خدمت اس کے سپرد تھی۔شہروں کو مسمار کرنے کیلئے وہ منجنیق استعمال کی جاتیں جو چینی انجینئر مشرق سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ان میں ممکن ہے بارود بھی استعمال ہوتا ہو۔ مغلوں کے محاصرے کی ہیبت اور زیادہ بڑھاتی تھیں۔ محاصرے کے وقت تولائی سنہری تخت پر بیٹھا شہر کی تسخیر کے احکام صادر کرتا رہتا اس وقت تک دم نہ لیتا جب تک قلعہ سر نہ ہو جاتا اور مغل جو اس کے تحت لڑ رہے تھے اسے فتح و ظفر کا دیوتا سمجھنے لگے تھے۔
0 Comments: