امین الدین اور سیف الدین کا جھگڑا:
امین ملک اور اغراق کے درمیان ایک اچھی نسل کے گھوڑے کی ملکیت پر جھگڑا ہو گیا۔ امین ملک نے طیش میں آکر سیف الدین اغراق کے سر پر کوڑا دے مارا۔ سلطان نے اس لئے باز پرس نہ کی کیونکہ اسے قنقلی لشکر پر بھروسہ نہ تھا کہ وہ باز پرس برداشت کریں گے۔ اغراق دن بھر ٹھہرا رہا لیکن رات کو کرمان کے پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا۔
سلطان کی طاقت اس کی مخالفت سے ٹوٹ گئی۔ اس لئے غزنی کا رخ کیا تاکہ دریائے سندھ کو عبور کر جائے۔
چنگیز خان کا حملہ:
چنگیز اس وقت طالقان کی مہم سے فارغ ہو گیا تھا اور اسے سلطان کے لشکر کی پھوٹ کا حال معلوم ہوا تو کوندتی ہوئی بجلی کی طرح ایک بے انداز لشکر کے ساتھ سلطان کی طرف یلغار کی جب اس کی خبر سلطان کو پہنچی تو اس نے مقابلہ کی تاب نہ لاکر دریائے سندھ کو عبور کرنے کیلئے کشتیاں تیار کرنے کا حکم دیا۔
آور خان جو ہر اول دستہ میں تھا چنگیز خان سے شکست کھا کر سلطان سے آملا۔ جب چنگیز خان کے ارادے کا پتہ چلا تو اس نے اس کا رستہ روکنے کیلئے آموجود ہوا۔ جب صبح ہوئی تو سلطان ایک طرف دریا اور دوسری طرف بھڑکتی ہوئی آگ کا سا لشکر دیکھا لیکن سلطان نے ہمت نہ ہاری اور جوانمردی سے لڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ چنگیز خان نے امین ملک کی فوج پر حملہ کیا۔
امین ملک شکست کھا کر پشاور کی طرف بھاگا۔ لیکن راستے میں مغلوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ بائیں بازو کی فوج کے بھی پاؤں اکھڑ گئے سلطان درمیانی فوج میں سات سو آدمیوں کے ساتھ ڈٹا رہا اور صبح سے دوپہر تک مقابلہ کرتا رہا کبھی بائیں سے دائیں اور کبھی بائیں سے مرکزی فوج پر حملہ کتا اور ہر حملے میں کئی کئی آدمیوں کو مار گراتا چنگیز خان کے آدمی آگے بڑھتے آتے تھے اور میدان کارزار سلطان پر تنگ ہوا جاتا تھا۔
جب سلطان نے دیکھا کہ تنگی کی حالت سخت ہو گئی ہے تو مجبوراً غمناک آنکھوں اور خشک ہونٹوں سے نام و نمود کا خیال ترک کیا۔ اجاش ملک نے جو سلطان کا ماموں زاد بھائی تھا اس کی باگ پکڑی اور واپس لے آیا۔ سلطان نے اپنے بیٹوں عزیزوں کو آنسو بہاتی آنکھوں اور جلتے ہوئے دل سے وداع کیا اور حکم دیا کہ گھوڑا تیار کیا جائے اور جب اس پر سوار ہوا تو ایک مرتبہ پھر مصیبت کے لشکر میں گھس گیا۔
لشکر کو پسپا کرکے گھوڑے کی باگ موڑی اور جسم سے زرہ بکتر اتار پھینکا۔ گھوڑے کو چابک مارا ساحل دریا سے پانی تک تیس فٹ کے فاصلے سے دریا میں گھوڑے کو اچھال کر ڈالا اور غیور بہادر کی مانند سیدھا دریا کو عبور کر گیا۔
چنگیز خان نے چاہا کہ مغلوں کا لشکر بھی اس کا تعاقب کرے اور اس بہادر شخص کو گرفتار کر لائے۔ لیکن اس بحرذخار میں گھوڑا ڈالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
چنانچہ چنگیز اور دوسرے فوجی دریائے سندھ کے کنارے رک گئے اور ان مٹھی بھر بہادروں پر تیروں کا مینہ برساتے رہے۔ یہاں کہ سو میں سے صرف سات آدمی معہ سلطان دوسرے کنارے پر پہنچ گئے اور کپڑے اتار کر جھاڑیوں میں قدرے سکھانے کیلئے ڈال دیئے۔ سلطان نے نیزہ زمین پر گاڑ کر اس کی نوک پر اپنا تاج رکھ دیا۔ جو کہ دریا عبور کرتے وقت ہاتھ میں پکڑ کر لایا تھا۔
اس کے نیچے دم لینے لگا اور گھوڑے کے زین کو اتار کر خشک ہونے کیلئے سامنے رکھ دیا چنگیز خان اور اس کے تمام مغلوں نے حیرانی سے منہ میں انگلیاں ڈال لیں۔ چنگیز خان نے جب یہ حال دیکھا تو بیٹوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا ”باپ کا بیٹا ایسا ہی ہونا چاہئے اور مبارک ہیں وہ مائیں جو ایسے شیروں کو دودھ پلاتی ہیں“ چونکہ آگ اور پانی کے دو غرقابوں سے پار اتر کر سلامتی کے ساحل پر پہنچ گیا ہے وہ بڑے بڑے فتنے فساد پیدا کرے گا۔
اس کے کام سے عقل مند کیوں کر غافل ہو سکتا ہے اگر یہ شخص زندہ رہا تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ دنیا سے مغلوں کا نام و نشان گم کر دے گا۔ جس طرح ممکن ہوا س کے قتل کی تدبیر سوچی جائے۔ مگر سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان متاسف و مغموم دریائے سندھ کے کنارے سے واپس چلا گیا۔ یہ واقعہ 625ھ کو وقوع پذیر ہوا۔
ہندوستان میں آمد:
جس وقت سلطان دریا کے پار ہوا تو اس وقت اس کے ساتھ صرف چھ جوانمرد تھے۔
جو دریائے کی تند و تیز لہروں سے بچ گئے۔ دو دن تک جنگل میں چھپے رہے حتی کہ پچاس آدمی اور آ ملے جاسوسوں نے سلطان کو خبر دی کہ ہندوستانی ڈاکو جن میں پیادہ اور سوار دونوں ہیں۔ دو فرسنگ کے فاصلے پر عیش و عشرت میں مشغول ہیں۔ سلطان نے سب ساتھیوں کو لاٹھیاں کاٹنے کا حکم دیا اور شب خون مار کر مویشی اور ہتھیار چھین لئے اس کے بعد کچھ اور آدمی سلطان سے آ ملے۔
جب سلطان کو اطلاع ملی کہ تین ہزار ہندوستانی سپاہی اس علاقہ میں موجود ہیں تو سلطان ایک سو بیس آدمی لے کر حملہ آور ہوا اور ان ہندوستانیوں پر فتح پائی۔ مال غنیمت سے فوج کے سازو سامان کو ٹھیک کیا۔ جلد ہی ہزار کی ایک اور ہندوستانی فوج سلطان پر حملہ آور ہوئی سلطان نے 500 سواروں سے اسے شکست دی اب سلطان کی فوج چار ہزار ہو گئی اور اس نئی طاقت کی خبر غزنی میں چنگیز خان کو پہنچی۔
چنگیز خان نے تو ربائی نقشی کی کمان میں سلطان کے خلاف فوج بھیجی سلطان نے مقابلہ کرنے کی بجائے دہلی کا رخ کیا مغلوں نے فرار کی خبر سن کر شاہ پور کے علاقے کو تباہ کر دیا۔
التتمش کے پاس کے پاس سفارت بھیجنا:
سلطان نے عین الملک کو سلطان التتمش کے پاس ایلچی بنا کر بھیجا اور کہا کہ شریف شریفوں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ چونکہ زمانے کے انقلاب کے سبب ہمسائیگی اور زیارت کا حق ثابت ہو گیا ہے اس قسم کی مہمانیوں کے کم مواقع آیا کرتے ہیں۔
اگر طرفین سے پاک دوستی کا اظہار ہو تو دشمن ہمارے اتفاق کی خبر سن کر حملے کی جرات نہیں کرے گا اور چند روز ٹھہرنے کیلئے مقام مقرر کرنے کیلئے التماس کیا۔
التمش نہایت دور اندیش حکمران تھا۔ وہ جلال الدین کی بہادری سے بھی خائف تھا اور دوسرے مغلوں کے حملے کی صورت میں ہندو رعایا کی بغاوت کا ڈر تھا۔ چنانچہ سلطان جلال الدین کو ٹالنے ہی میں خیریت سمجھی تحفے بھیج کر مقام مقرر کرنے کے متعلق معذرت کی کہ ان علاقوں کی آب و ہوا اچھی نہیں اور اگر سلطان پسند کرے تو دہلی کے مضافات میں ہم جگہ مقرر کر دیں گے۔
جہاں سلطان قیام کرے اور جس قدر علاقہ باغیوں سے صاف کرے وہ اسی کا ہو جائے گا۔
سلطان کو جب یہ پیغام پہنچا تو واپس ہو کر کرہستان نمک میں چلا گیا اور اطراف و جوانب سے بھاگے ہوئے سپاہی اس کے پاس جمع ہونے لگے اور دس ہزار ہو گئے تاج الدین بہت سا مال غنیمت لے آیا۔
قباچہ پر حملہ:
سلطان نے ناصر الدین قباچہ پر اوچ کے مقام پر حملہ کیا اور فتح پائی قباچہ بھکر کی طرف بھاگ گیا۔
داور کے قلعے کا محاصرہ:
اوچ کے بعد سلطان داور کے قلعے کا محاصرہ کیا اس جنگ میں سلطان کا ہاتھ تیر لگنے سے زخمی ہو گیا قلعہ فتح ہونے پر تمام لوگ قتل کر دیئے گئے۔ اس کے بعد قباچہ کے سالار لاجین خطائی کو شکست دی اور کشتی میں بیٹھ کر کردبیل کی طرف کوچ کیا اور یہاں ایک جامع مسجد تعمیر کرائی۔
عراق کی طرف روانگی:
عراق پر سلطان کا بھائی غیاث الدین قابض تھا اس کی رعایا کی ہمدردیاں جلال الدین سے تھیں نیز براق حاجب کرمان میں محاصرہ کئے ہوئے تھا اور مغلوں کے لشکر کی آمد کی بھی اطلاع ملی۔
سلطان وہاں سے مکران کے راستے چل پڑا۔ براق حاجب نے استقبال کیا اور اپنی لڑکی سلطان کے نکاح میں دے دی۔ سلطان نے اس کے لڑکے کو ”قراندش“ (بھائی) کا خطاب دیا۔
شیراز میں آمد:
یہاں پہنچ کے سلطان کو بہت سے تحائف ملے اور یہاں سے اصفہان کا رخ کیا۔ یہاں پر اتابک مظفر الدین ابوبکر کو اس کے باپ سعد نے قید کر رکھا تھا کیونکہ اس نے باپ کے خلاف بغاوت کی اور اسے زخمی کیا تھا۔
چونکہ یہ سلطان کا طرف دار تھا۔ اس لئے اس کی سفارش پر آزاد کرکے اس کے ساتھ کر دیا۔
غیاث الدین سے جنگ:
سلطان کو اطلاع ملی کہ غیاث الدین رے میں ہے۔ چنانچہ وہ اس پر جھپٹا اور شکست دی۔ غیاث الدین نے صلح کی درخواست کی کیونکہ وہ اپنی رعایا سے بد دل ہو چکا تھا۔ جب وہ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا تو سلطان نہایت مہربانی سے پیش آیا اس کے اہلکاروں کو اپنے اپنے کام پر بھیج دیا۔ اس طرح سلطان کی آمد سے ان صوبوں کے لوگوں میں حفاظت کی امید بندھ گئی۔
0 Comments: