قسط نمبر 29 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات
منافقت کا انجام:
خوارزم شاہ تکش کے عہد میں دو بھائی تھے جو سلطان کے معتمدین میں سے تھے اور سرخس کی حکومت پر متعین تھے۔ جب تکش فوت ہوگیا تو دونوں بھائی وہاں سے سلاطینِ غور کے پاس آگئے اور بہت جلد متعمدین میں شمار ہونے لگے۔ چنانچہ غیاث الدین کو ان پر اتنا اعتماد تھا کہ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لینا اور ان کی رائے کو وقیع خیال کرتا۔
لیکن دل سے یہ لوگ سلطان علاء الدین کے وفادار تھے اور دربارِ غور کے تمام راز خفیہ طور پر خوارزم شاہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ جن دنوں دربار غور کا سفیر سلطان کی قید میں تھا، اسے کسی طریقے سے ان بھائیوں کی غداری کا علم ہوگیا۔ چنانچہ اس نے سلاطینِ غور کو اپنے بھائی عمر بن محمد کی معرفت، جو ہرات کا قائم مقام صوبہ دار تھا، بذریعہ خط اطلاع دی کہ ان بھائیوں کی منافقت سے ہوشیار رہیں۔
لیکن عیار بھائیوں نے خلوص اور صداقت کی وہ دھاک بٹھا رکھی تھی کہ کسی نے سفیر کی بات پر کان نہ دھرا۔ اس اثنا میں سفیر نے اتفاقاً ان بھائیوں کا ایک خط پکڑ لیا اور دعوے کے ثبوت میں سلاطینِ غور کے پاس بھیج دیا۔ جب یہ خط وہاں پہنچا تو غیاث الدین نے دونوں بھائیوں کو دربار میں طلب کر کے وہ خط ان کے سامنے رکھ دیا۔ چونکہ وہ کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے اس لیے قتل کردئیے گئے۔
۲
۲۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۸۱ - ۸۲ - ابن خلدون: ج ۵ ، ص ۹۹ -
سلطان کی شکست:
علا ء الدین محمد نے ہرات پہنچ کر خود شہر کا محاصرہ کرلیا اور فوج کا ایک حصہ طالقان کی فتح کے لیے، جس پر اس وقت محمد بن جریک قابض تھا، روانہ کیا۔ محمد اس عہد کا بہترین سپہ سالار شمار ہوتا تھا۔ چنانچہ اس نے خوارزم شاہی فوج کا ایسا مکمل صفایا کیا کہ بقولِ ابنِ خلدون اس کا ایک سپاہی بھی زندہ نہ بچ سکا۔
۳
۳۔ ابن خلدون: ج ۵، ص ۹۹ -
جب غیاث الدین کو سلطان کے محاصرے کا علم ہوا تو اس نے اپنے بھتیجے الپ غازی کو فوج دے کر اہل ہرات کی مدد کے لیے روانہ کیا اور کچھ دنوں کے بعد خود بھی ادھر کا رخ کیا۔ شہاب الدین ابھی تک ہندوستان سے واپس نہیں آیا تھا۔ غیاث الدین نے ہرات پہنچ کر پڑاؤ کیا اور بھائی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ چالیس دن گزر گئے لیکن محصورین کے دم خم میں کوئی فرق نہ آیا۔
اسی دوران سلطان شہاب الدین کی ہندوستان سے واپسی کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ دونوں طرف سے سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔ خوارزم شاہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہرات کے فتح ہونے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی تو کیوں نہ شہاب الدین کے آنے سے پہلے مصالحت کے لیے سلسلہ جنبانی کر کے اس نازک موقع کو ٹال دے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو خاموشی سے محاصرہ اٹھا کر واپس چلا جائے۔
غوری دربار کا سفیر حسین بن محمد ابھی تک خوازم شاہ کی قید میں تھا۔ اسے طلب کر کے مصالحت کی مہم پر روانہ کردیا۔ خود موقع کی تاک میں تھا۔ جوں ہی غوری سپاہ کی توجہ اس سے ہٹی، علاء الدین نے محاصرہ اٹھا کر مرو کی راہ لی اور اس طرح بچ کر نکل گیا۔ یہ واقعہ ۵۹۸ھ / ۱۱۰۲ ع میں پیش آیا۔
جب ہندوستان سے واپی پر شہاب الدین کو خوارزم شاہ کے محاصرہٴ ہرات کا علم ہواتو غصے سے لال پیلا ہوگیا اور سلطان کو اس گستاخی کا مزا چکھانے کے لیے براہِ بلخ خوارزم پر چڑھائی کردی۔
سلطان ابھی تک مرو میں ہی تھا۔ بہت سخت معرکہ ہوا، جس میں دونوں طرف سے سینکڑوں آدمی مارے گئے۔ چونکہ جنگ کا پلڑا تقریباً برابر رہا تھا اس لیے سلاطینِ غور نے خوارزم پر حملے کا ارادہ سردست ملتوی کردیا۔ علا ء الدین نے بھی بہتری اسی میں سمجھی کہ اس جھگڑے کو مزید طول نہ دیا جائے۔ چنانچہ وہ ادھر سے فارغ ہو کر خوارزم کو روانہ ہوگیا۔
غیاث الدین کی وفات:
جاڑا شروع ہوچکاتھا۔
غوریوں نے فیصلہ کیا کہ سردیاں طوس میں گزاری جائیں اور جب موسم بہار میں آمد ورفت کی دقتیں ختم ہوجائیڈ تو مزیدفوج بھرتی کر کے خوارزم پر چڑھائی کی جائے۔ اہلِ طوس یوں بھی غوریوں سے نالاں تھے۔ جب انہوں نے وہاں پہنچ کر اہالیانِ شہر سے فوج کی ضرورت کے لیے خورد ونوش کے ذخائر طلب کیے تو اہلِ شہر بھڑک اٹھے اور حالات اتنے مخدوش ہوگئے کہ لوگ مرنے مارنے پر تیار ہوگئے۔
۱ اسے حسنِ اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ اس دوران غیاث الدین فوت ہوگیا اور شہاب الدین بسرعتِ تمام ہرات واپس چلا گیا۔
۱۔ جہاں کشا : ج ۲، ص ۵۱ -
۵۹۹ھ/۱۲۰۳ع میں علاء الدین نے محمد بن جریک کے خلاف، جو ابھی تک طالقان پر قابض تھا، ایک اور فوج روانہ کی۔ اسے بھی حسبِ سابق سخت شکست ہوئی اور تقریباًساری سپاہ ماری گئی اور بہت تھوڑے لوگ جان بچانے میں کامیاب ہوسکے۔
اس کے بعد سلطان نے ایک اور فوج منصور ترکی کی کمان میں روانہ کی۔ پھر سخت جنگ ہوئی جس میں محمد بن جریک کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس نے بھاگ کر مرو میں پناہ لی۔ منصور ترکی تعاقب میں تھا۔ چنانچہ مرو پہنچ کر شہر کا محاصرہ کرلیا۔ بمشکل پندرہ دن ہی گزرنے پائے تھے کہ محمد بن جریک کی فوج راشن ختم ہوجانے سے بھوکوں مرنے لگی۔ مجبوراً اس نے صلح کے لیے سلسلہ جنبانی شروع کی لیکن منصور نے اس کی درخواست کو اعتنا نہ خیال کیا۔
آخر محمد بن جریک پکڑا گیا اور قتل کردیا گیا۔ اس بہادر کماندار کیموت سے شوریوں کی ہوا اکھڑ گئی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام غوری قلمرو میں اس جانباز سیاہی کی وفات کا تی روز تک سوگ منایا گیا۔ ۲
۲۔ جہاں کشا: ج ۲ ، ص ۵۲ -
ادھر بھائی کی وفات سے شہاب الدین کی کمر ٹوٹ گئی تو ادھر خوارزم شاہ کا حوصلہ کئی گناہ بڑھ گیا۔
چنانچہ اس نے ۶۰۰ھ/ ۱۲۰۰۴ ع میں ہرات پر چڑھائی کردی۔ الپ غازی ان دنوں ہرات کا صوبہ دا ر تھا۔ علاء الدین نے شہر کا محاصرہ کر کے چاروں طرف منجنیقیں نصب کردیں اور پتھر برسانے شروع کردئیے۔ جلد ہی اہلِ شہر گھبرا اٹھے اور صوبہ دار کو مجبور کیا کہ وہ سلطان سے صلح کے لیے گفت وشنید شروع کرے۔ چنانچہ شرائطِ صلح میں طے پایا کہ آیندہ فریقین ایک دوسرے کی ملکی حدود کا احترام کریں گے اور نیز یہ کہ جب معاہدہ صلح پر دستخط ہوجائیں گے تو صوبہ دار ہرات ایک خاص بڑی رقم بطور تاوان سلطان کی خدمت میں ادا کرے گا۔
تکمیلِ معاہدہ کے بعد الپ غازی اظہارِ اطمینان کے لیے سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چنانچہ سلطان اس سے احترام سے پیش آیا۔ لیکن جب واپسی پر اہالیانِ شہر سے تاوان کی رقم جمع کرنے لگا تو لوگ چِلّا اٹھے اور صاف انکار کردیا۔ سلطان کو اس بات کا علم ہوا تو تاوان معاف کردیا اور لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ الپ غازی اس اثنا میں بیمار پڑ گیا تھا۔
جب اسے سلطان کی اس دریا دلی کا علم ہوا تو دوبارہ اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سلطان کی قیام گاہ کو روانہ ہوا۔ لیکن راستے میں وفات پاگیا۔ ۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۸۶ - ابن خلدون: ج ۵ ، ص ۱۰۰ -
یہ واقعات سلطان شہاب الدین کی غیر حاضری میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ سلطان، اپنے بھائی غیاث الدین کی وفات کے بعد ہندوستان کی ایک مہم پر گیا ہوا تھا۔
جب واپسی پر اسے علاء الدین کی زیادتیوں کا علم ہوا تو غصے سے کانپ اٹھا اور خوارزم پر چڑھائی کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ سلطان ابھی تک مرو میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا کہ اسے بھی شہاب الدین کے ارادے کا علم ہوگیا۔ اسی اثنا میں اسے یہ اطلاع بھی ملی کہ ترکانِ خطا کا ایک سپہ سالار تانیکو اور سمرقند کا حاکم بھاری لشکر لیے خوارزم پر حملے کے ارادے سے آرہے ہیں۔
علاء الدین نے شہاب الدین کو لکھا کہ بہتری اسی میں ہے کہ تم واپس چلے جاؤ ورنہ میں پھر ہرات پر حملہ آور ہو کر اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ شہاب الدین نے جواب میں کہلا بھیجا کہ اب اس بات کا فیصلہ یہاں نہیں بلکہ خوارزم کے میدانِ جنگ میں ہوگا۔ حالات ایسے تھے کہ خوارزم شاہ زیادہ دیر تک دارالسلطنت سے غیر حاضر نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ بسرعتِ تمام اس نیادھر کا رخ کیا۔
ساتھ ہی اس نے ترکانِ خطا پر بھی ڈورے ڈالنا شروع کردئیے اور شہاب الدین کے خلاف طالبِ اسداد ہوا۔ علاء الدین نے انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ شہاب الدین دونوں حکومتوں کا جانی دشمن ہے اور اس کا ارادہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے دونوں ملکوں کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کرلے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ دونوں مل کر اس کا مقابلہ کریں، تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ ۲
۲۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۸۶- جامع التواریخ: ورق ۱۰۱۴ - جہاں کشا: ج ۲، ص ۵۴-
0 Comments: