خلیفہ بغداد کے خلاف فوج کشی اور اس کے اسباب:
ماوراء النہر کی فتح اور ترکانِ خطا کی شکست سے سلطان کے مزاج میں زبردست رعونت پیدا ہو گئی تھی اور وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک موقعے پر سلطان تکش نے معاصر خلیفہ کو اپنے نام کا خطبہ پڑھنے پر مجبور۳ (۳۔ جہانکشا: ج ۲ ، ص ۱۲۰)کیا تھا، نیز فتح غزنی کے موقعے پر جب سلطان نے سلاطین غور کے خزانے پر قبضہ کیا تھا تو وہاں سے خلیفہ کا ایک ایسا خط دستیاب ہوا تھا جس میں خلیفہ نے سلاطین غور کو خوارزم شاہ کے خلاف لشکر کشی پر ابھارا تھا۔اس کے علاوہ اس عود کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی مسلمان فرماں روا تخت نشیں ہوتا تو خلیفہ کے نمائندے اس جشن میں شریک ہوئے جسے دربارِ خلافت سے خلعت کے علاوہ پروانہ حکومت بھی عطا ہوتا۔
خوارزم شاہ کو خلیفہ کی طرف سے نہ تو خلعت عطا ہوا تھا اور نہ ہی پروانہ حکومت۔۱ (۱۔ ابن اثیر:ج ۱۲ ، ص ۱۴۵۔ روضة الصفا: ج ۴، ص ۱۴۹۔ جامع التواریخ: ورق ۱۰۳۱) چنانچہ سلطان خلیفہ کی اس حرکت سے بھی سخت بر افروختہ تھا۔
چونکہ باقی مخالفین کو وہ ایک ایک کر کے ختم کر چکا تھا اس لیے اب وہ خلیفہ سے دو دو ہاتھ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مزید برآں سلطان کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی تھی کہ خلیفہ نے محمد باواج کی معرفت جو چنگیز خاں کے دربار میں وزارت کے منصب پر فائز تھا، چنگیز کو خوارزم شاہ پر حملے کے لیے اکسایا تھا۔ چنانچہ سلطان کے ڈر سے پیغامبر کے منڈے ہوئے سر پر یہ پیغام سوئیوں سے کھودا گیا تھا اور جب اس کے بال اچھی طرح اگ آئے تھے تو اسے چنگیز کے دربار میں بھیجا گیا تھا تاکہ اگر پیغامبر پکیا بھی جائے تو پیغام کی نوعیت کا علم نہ ہو سکے۔نیز جو شخص سلطان کی طرف س حاجیوں کے قافلے کا سالار ہو کر گیا تھا اس نے واپسی پر سلطان کی طرف سے حاجیوں کے قافلے کا سالار ہو کر گیا تھا اس نے واپسی پر سلطان کو بتایا تھا کہ حج کے موقعے پر خلیفہ نے خوارزم شاہی پرچم کو جلال الدین حسن (جو اپنے پیشروؤں کے عقائد سے تائب ہو گیا تھا) والی الموت کے جھنڈے سے پیچھے رکھا تھا جسے خوارزم شاہ نے صریحاً اپنی توہین خیال کیا۔کچھ عرصہ پیشتر ایک ایسا موقع بھی آیا تھا کہ خلیفہ نے چند فدائیوں کی خدمت سلطان کے قتل کے لی حاصل کی تھیں لیکن حسنِ اتفاق سے سلطان پر ان کا داؤ نہیں چل سکا تھا۔ سلطان کے ایک جانباز سردار کو، جس کا نام اغلمش تھا، خلیفہ الناصر بالللہ کے اکسانے پر فدائیوں نے قتل کر دیا تھا۔ اگرچہ ان میں کاہر الزام اپنی جگہ پڑا وزنی اور سنگین تھا مگر سلطان کی مصروفیتوں نے اسے موقع نہیں دیا تھا کہ وہ خلیفہ کا قرض چکاتا۔اس گئے گزرے زمانے میں بھی تمام اسلامی دنیا میں خلیفہ بغداد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہونے کی وجہ سے بڑا وقار حاصل تھا۔ تمام مسلم ممالک میں جمعے اور عیدین کے خطبے میں خلیفہ کا نام لیا جاتا اور اس کی حکومت کے استحکام اور درازیِ عمر کے لیے دعا کی جاتی۔ ہرچند سلطان کے تعلقات خلیفہ کافی بگڑے تھے لیکن پھر بھی رعایا کی وجہ سے احترام کرتا۔لیکن خلیفہ بھی سلطان کے خلاف سازشوں سے باز نہ آتا جس سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی۔
فتحِ ترمذ:
ترمذ کا حاکم عبادالدین کا بیٹا تھا۔ جب بلخ خوارزمی قلمرو میں شامل کر لیا گیا تو سلطان نے حاکم ترمذ کو کہلا بھیجا کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنے والد کی طرح شہر ہمارے آدمیوں کے حوالے کر دو۔ چونکہ خوارزم شاہ سے لڑنا دیوار سے بر پھوڑنا تھا اس لیے حاکم ترمذ کے لیے سرتسلیم خم کیے بغیر چارہ نہ تھا۔لیکن سلطان نے غضب کیا کہ ادھر صوبے دار نے ترمذ کا قبضہ سلطان کے آدمیوں کے حوالے کیا، ادھر خوارزم شاہ نے اسے ترکانِ خطا کو بطور تحفے کے پیش کر دیا۔ علاء الدین کی اس غلط بخشی کو اردگرد کی تمام اسلامی ریاستوں نے بہت برا مانا اور ہر طرف سے صداے احتجاج بلند ہوئی لیکن سلطان ٹس سے مس نہ ہوا۔ ۲
۲۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۰۷۔ ۱۰۸، ابن خلدون: ج ۵، ص ۱۰۲۔
ہر چند سلطان کا یہ اقدام حد درجہ قابلِ اعتراض تھا جسے مسلمان حکمرانوں نے بہت ناپسند کیا لیکن سلطان کا اصل مقصد کچھ اور تھا۔ ترکانِ خطا مذہباً عیسائی تھے اور مسلمانوں کی جانی دشمن۔ خوارزم شاہ کی سرحد ان سے ملتی تھی اور چونکہ اتسز کے عہد سے باہمی تعلقات اچھے نہ رہے تھے اس لیے اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ سلجوقی خاندان ختم ہو چکا تھا اور ان کا پیشتر علاقہ خوارزم شاہی سلطنت میں شامل ہو گیا تھا۔محمد غوری کی وفات سے خاندانِ غور آخری دموں پر تھا اور ان کے شہر اورقصبے یکے بعد دیگرے سلطان کی قلمرو میں شامل ہوتے جا رہے تھے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے سلطان کو ترکان خطا کی طرف سے مکمل اطمینان چاہیے تھا۔ چنانچہ اس کی اس سے بہتر اور کوئی صورت نہ تھی کہ سلطان انہیں اپی نیاز مندی کا یقین دلا کر غوریوں سے نپٹ لے۔ یہ حربہ کارگر ہوا اور ترکانِ خطا یہ سمجھ کر کہ سلطان ان سے ڈرتاہے، اس کی طرف سے غافل ہو گئے۔چنانچہ جب وہ اِدھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تو اس نے ایک وار میں ہی ان کا سر کچل کر رکھ دیا۔ لیکن افسوس کہ سلطان کو یہ فتح گراں پڑی اور اس کی غلطی سے عالمِ اسلام کو وہ دھکا لگا کر جس کے صدمے سے وہ آج تک سنبھل نہیں سکا۔
فتح طالقان:
غیاث الدین محمود کی طرف سے طالقان کی حکومت سوناج نامی ایک کماندار کے سپرد تھی۔ ترمذ کی فتح کے بعد سلطان نے اُدھر کا رخ کیا اور حاکم کو کہلا بھیجا کہ خوں ریزی سے یہ بہتر ہو گا کہ وہ شہر سطانی افواج کے حوالے کر دے، لیکن حاکم نے بڑی حقارت کے ساتھ سلطان کے اس مشورے کو ٹھکرا دیا اور فوج لے کر میدان نکل آیا۔لڑائی شروع ہوئی تو اس بہادری اور بے جگری سے لڑا کہ سلطان عش عش کر اٹھا۔ تا آنکہ لڑتا بھڑتا اور صفوں کو الٹتا پلٹتا خوارزم شاہ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ سلطان غافل نہ تھا لیکن یہ دیھ کر اس کی حیرت کی حد نہ رہی جب قریب پہنچ کر اس نے تلوار ہاتھ سے پھینک دی اور سلطان کے قدموں پر گر پڑا اور لگا گڑگڑا کر معافی مانگنے۔ سلطان کو اس کا یہ ڈرامائی انداز دیکھ کر گمان گزرا کہ غالباً وہ نشے میں دھت ہے۔لیکن جب اصل حالات کا علم ہوا تو انتہائی نفرت سے منہ پھیر لیا۔ ”کم بخت! اگر تمہیں یہ بیہودگی ہی کرنا تھی تو سینکڑوں بندگانِ خدا کا خون بہانے کی کیا ضرورت تھی۔ تمہیں انسانوں کی طرح ہماری بات مان لینا چاہیے تھی۔“ چنانچہ سلطان نے اسے معزول کر دیا اور تمام جائیداد ضبط کر لی۔ ۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۱۴۔
ابن خلدون: ج ۵، ص ۱۰۱۔۱۰۲۔
سلطان بہ حیثیت ایک بہادر سپاہی کے:
یافعی اور اسی طرح کے اور قابلِ اعتماد موٴرخین کی رائے میں سلطان جلال الدین بڑا بہادر، شریف النفس اور جنگ جُو سپاہی، باپ کا نہایت فرمانبردار اور اطاعت شعار بیٹا اور تاجِ سلطنت کا نہایت قیمتی اور تابدار ہیرا تھا۔ جرأت اور بہادری میں رستم اور اسفند یار کا مثیل، فنونِ حرب کا ماہر اور حد درجہ بیدار مغز انسان تھا۔اس عہد میں سوائے سلطان کے کوئی شخص بھی چنگیز خان کا ایسی بے جگری سے مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے بھائی حددرجہ خودغرض، کوتاہ اندیش اور عیش وعشرت کے دلدادہ تھے۔ ہرچند سلطان نہیں چاہتا تھا کہ علاؤ الدین کے دور ابتلا میں عضوِ معطّل کی طرح مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کو بھاگتا پھرے بلکہ وہ ڈٹ کر چنگیز خان کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا لیکن باپ کے احترام کے پیشِ نظر اس کی غلط خواہش سے برتابی کی جرأت نہ کی۔۱
۱۔ ترجمہ طبقات ناصری، از میجر ریورٹی، ص ۲۸۵۰ -
سلطان کے حالاتِ زندگی میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں جن سے اس کی ذاتی شجاعت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان سے واپسی پر سلطان کو مغلوں کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑنا پڑی جس میں اس کا بھائی غیاث الدین عین اُس وقت دغا دے گیا جب لڑائی پورے زوروں پر تھی اور دشمن بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا تھا۔لیکن سلطان کے استقلال میں کوئی فرق نہ آیا اور وہ اپنے مقام سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا۔
ہندوستان جانے سے پہلے سلطان کو دو دفعہ خود چنگیز خان کے خلاف لڑنے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ بردان کے مقام پر جہاں چنگیز خان کو شکست ہوئی اور وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا۔ دوسری بار دریائے سندھ کے کنارے پر جہاں سلطان مغلوں کے نرغے سے ڈنکے کی چوٹ نگل گیا تھا اور تیس فٹ کی بلندی پر دریا میں چھلانگ لگا کر ایک ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور جسے دیکھ کر چنگیز عش عش کر اٹھا تھا۔
اسی طرح جب ہندوستان سے واپسی پر قرب وجوار کے تمام حکمران سلطان کے خلاف متحد ہو کر مقابلے پر ڈٹ گئے تھے اور شرف الملک نے سلطان کو مشورہ دیا تھا کہ چونکہ دشمن افواج کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے ہمیں آئندہ موسم بہار تک جنگ کو ملتوی رکھنا چا ہیے، توسلطان نے اس مشورے کو ناقابلِ عمل تصور کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور خم ٹھونک کر میدان میں اتر پڑا تھا۔
اخلاط کا محاصرہ دس مہینے تک جاری رہا تھا۔ اسی دوران مجید الدین نے قبول کرلیا تھا اور اس کی پیشانی پر بل تک نہیں پڑاتھا۔
ایک ایسا موقع بھی آیا کہ سلطان بذاتِ خود خلیفہٴ بغداد سے طلبِ امداد کے لیے حدود خلافت میں خیمہ زن ہوا تھا۔ چونکہ خلیفہ کا مزاج سلطان کے خلاف حددرجہ برافروختہ تھا، اس نے قشتمور کو کئی ہزار فوج دے کر حکم دیا تھا کہ سلطان کو حدودِ خلافت سے بھگا دے۔ چنانچہ وہ آتے ہی سلطان کے خلاف صف آرا ہوگیا تھا۔ اگرچہ سلطان کی کمان میں معمولی سپاہ تھی لیکن نتیجہ خلیفہ کے خلاف رہا تھا اور قشتمور مارا گیا تھا۔
0 Comments: