سلطان بہ حیثیتِ حکمران:
سلطان علاؤ الدین، اس نے اپنے عہدِ اقتدار میں سلجوق اور غوری سلطنتوں کی خود مختاری ختم کر دی تھی اور وہ معمولی باجگزار بن گئے تھے۔ اسی طرح سلطان بہت طویل عرصے تک تُرکانِ خطا کو تیس ہزار دینار سالانہ خراج ادا کرتا رہا تھا مگر بعد میں وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس وقت ان کا پیچھا چھوڑا جب وہ خود سلطان کے باجگزار نہ ہوگئے۔تقریباً یہی صورتِ حال خلیفہٴ بغداد کو پیش آئی سلطان کی یلغار سے اس لیے بچ گیا کہ بعض قدرتی حوادث سلطان کی راہ میں آڑے آگئے تھے۔
اس ہیبت ناک پس منظر کی موجودگی میں سلطان کو اپنے بارے میں حسنِ ظن پیدا کرنے اور باہمی منافرت کو دور کرنے کے لیے اپنے رویے میں خوشگوار تبدیلی پیدا کرنی چاہیے تھی۔ اور چونکہ مغلوں کے خلاف موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اس لیے اسے چاہیے تھا کہ مسلمان حکمرانوں کے ساتھ دوستی اور اپنائیت کا رویہ اختیارکرتا تاکہ یہ لوگ اس کے دست وبازو بن جاتے۔پرانی رنجشیں دوستی اور خیر اندیشی سے بدلی جاتیں۔ لیکن افسوس کہ سلطان نے اس باب میں کسی مصلحت اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا اور جب اس پر مشکل آپڑی تو اگرچہ وہ جانتے تھے کہ سلطان کی ذاتِ اسلام اور مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ہے لیکن کسی کے دل میں سلطان سے ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ سلطان کی رسوائی اور شکست ان کی مسرت اور شادمانی کا باعث بنتی رہی۔علاوہ ازیں ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن کی تمام ہمدردیاں مغلوں کے ساتھ تھیں۔ وہ انہیں خط لکھ لکھ کر سلطان کے خلاف اکساتے، جاسوسی کرتے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے تھے۔ یہ حالات متواتر دس سال تک رونما ہوتے رہے۔ رنجشیں بڑھتی رہیں، کدورتیں اور دشمنوں اور بدخواہوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ لیکن سلطان نے کسی موقع پر بھی اپنا احتساب نہیں کیا۔کبھی بھی یہ نہ سوچا کہ اس خانہ براندازِ طرزِ عمل کا منطقی نتیجہ کیا ہوگا۔ ملک صرف تلواروں سے فتح نہیں ہوا کرتے۔ مصلحت اندیشی اور حسنِ تدبیر سلاطینِ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ کارگر ہتھیار رہا ہے۔ جنہوں نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ افسوس کہ اس خاندان کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہرچند سلطان محمد کی ناکامی کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا لیکن جلال الدین نے اس سے کوئی سبق نہ لیا اور اپنی روش اور عمل میں کوئی خوشگوار تبدیل پیدا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
سلطان کی تند مزاجی اور جلد بازی کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ وہ مخالف کا نام سنتے ہی جاسے سے باہر ہوجاتا اور اس بات کی ذرا پرواہ نہ کرتا تھا کہ دشمن کو ن ہے، افواج کی تعداد کتنی ہے، حالات کا تقاضا کیا ہے، اس کی اپنی افواج لڑنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ سلطان ان تمام باتوں سے بالاتر تھا۔ چنانچہ ایسی شیر متوازن پالیسی کا جو قدرتی انجام ہونا چاہیے تھا وہ ہو کر رہا۔ایک موقع پر سلطان کرجیوں کے خلاف مصروفِ پیکار تھا کہ اطلاع موصول ہوئی کہ براق حاجب نے سلطان کی مصروفیات سے فائدہ اٹھا کر عَلَمِ بغاوت بلند کردیا ہے اور فوج لے کر عراق پر حملے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ سننے کی دیر تھی کہ سلطان نے گرجیوں سے نبٹنے کے لیے سردارانِ فوج کو مناسب ہدایات دے کر خود عراق کا رخ کیا اور براق کو اس وقت پتہ چلا جب سلطان سترہ دن کے بعد کوسوں کی مسات طے کر کے وہاں جا پہنچا۔اُس وقت سلطان کی کہان میں صرف تین سو آدمی تھے۔ اسے اتفاق کہیے کہ براق حاجب سلطان کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ اگر مقابلے پر ڈٹٹ جاتا تو سلطان کی شکست یقینی تھی۔
اسی طرح علاؤالدین کیقباد کے خلاف جب سلطان سردارانِ لشکر کی مرضی کے خلاف صف آرا ہوا، اُس وقت بھی سلطان کی تیاری حد درجہ ناقص تھی۔ افواج کی کثیر تعداد مختلف چھاؤنیوں میں رکی ہوئی تھی۔نیز فی الوقت سلطان کی صحت جنگ کی کلفتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اس قدر پیار تھا کہ گھوڑے کی پشت پر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ چنانچہ اس فرد گزاشت کا نتیجہ بھی سلطان کی شکست کی صورت میں برآمد ہوا۔ تمام لشکر بھاگ گیا اور سلطان بھی مشکل جان بچانے میں کامیاب ہوسکا۔
سلطان بہ حیثیتِ انسان:
انسان فطرةً جنگ جُو، خون ریز اور حد درجہ کینہ توز واقع ہوا ہے۔اگرچہ ہمیں اس کُلبے کے خلاف کچھ ایسی قابلِ احترام مستثنیات بھی ملتی ہیں جنہیں دیکھ کر اس کی صداقت مشتبہ معلوم ہونے لگتی ہیں، لیکن انسانوں کے اس وسیع سمندر میں ایسی مثالوں کی حیثیت چند قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔
جلال الدین بڑا عالی ظرف، بلند حوصلہ اور نیک فطرت انسان تھا۔ اس کی زندگی میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب بھی کسی شخص نے سرجھکا دیا، اس نے فی الفور اس کے تمام قصور معاف کردئیے۔
جب سلطان خلیفہٴ بغداد کی فوج کو، جو قشتمور کی کمان ہے۔ سلطان کے خلاف صف ارا ہوئی تھی، شکست دے کر واپس عراق جارا تھا تو راستے میں اس کا مظفر الدین حاکم اربیل سے آمنا سامنا ہوگیا جو خلیفہٴ بغداد کی کمک کو جارہا تھا۔ سلطان نے اچانک حملہ کر کے حاکم اربیل کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ وہ اپنے رویے کے پیش نظر سلطان سے کسی مروت کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا لیکن جب سلطان کے سامنے لایا گیا تو اس نے اسے معاف کردیا۔اس حسن سلوک نے مظفر الدین کو سلطان کا گرویدہ بنا دیا اور قدیم دشمنی پائیدار دوستی میں بدل گئی۔
براق حاجب سلطان کے ان وابستگانِ دربار سے تھا جو حد درجہ ناقابلِ اعتماد، موقع پرست اور قیامت کے ابن الوقت تھے۔ جب بھی موقع پاتا، سلطان کے خلاف بغاوت سے نہ چوکتا اور سلطان ہر دفعہ اسے بانشراحِ قلب معاف کردیتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عادتِ بد کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس یسلطان کی عالی ظرفی پر حد درجہ اعتبار تھا۔جب بھی بے بس ہوجاتا، کفن گلے میں ڈال کر سلطان کے پاؤں پر گر پڑتا اور قصور معاف کرانے میں کامیاب ہوجاتا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ سلطان اس باغی کی گوشمالی کے لیے سترہ دن کی لگاتار مسافت کے بعد آذر بائیجان سے عراق پہنچا تو براق نے گھبرا کر معافی مانگی اور سلطان نے بہ کشادہ پیشانی معاف کردیا۔
اسی طرح محاصرہٴ اخلاط کے دوران مجیدالدین اکثر بیشتر دیوار قلعہ پر کھڑا ہو کر سلطان کو فحش گالیاں دیا کرتا تھا۔جب شہر فتح ہوگیا اور مجید الدین سلطان کے سامنے لایا گیا تو حسب معمول درگزر سے کام لیا۔ مجیدالدین بہت عرصے تک سلطان کے ساتھ رہا۔ وہ اس ے اتنا متاثر ہوا کہ ازخود اس نے کئی دفعہ کوشش کی کہ الملک الاشرف کے تعلقات سلطان سے بہتر ہوجائیں۔ مجید الدین اگر ناکام رہا تواس کے خلوص پر حرف نہیں آسکتا۔
غیاث الدین سلطان کا سوتیلا بھائی عین اُس وقت جب مغلوں کے خلاف جنگ پورے شباب پر تھی، تیس ہزار سپاہی لے کر علیحدہ ہوگیا تھا اور علاؤالدین حاکم الموت کے پاس چلا گیا تھا۔جب سلطان نے علاؤالدین کو لکھا کہ غیاث الدین کو واپس بھیج دیا جائے اور علاؤالدین نے سلطان سے فارش کی کہ غیاث الدین کی لغرش سے درگزر فرمایا جائے تو سلطان نے اس بے وفا بھائی کو معاف کردیا تھا۔
سلطان کے کاتب اور سوانح نگار شہاب الدین محمد بن احمد بن علی بن احمد النسوی کی رائے اپنے مربّی کے بارے میں حسب ذیل ہے:
”جلال الدین خوارزم شاہ کا رنگ صاف اور قد درمیانہ تھا۔تُرکی اس کی مادری زبان تھی لیکن فارسی بھی نہایت روانی سے بول لیتاتھا۔ وہ بڑا رحم دل اور لوگوں کے قصوروں سے درگزر کرنے والا تھا۔ نیز وہ بڑا انصاف پرور اور غریب نواز تھا۔ وہ فوج سے حددرجہ پیار کرتا تھا اور جہاں تک بن پڑتا، انہیں خوش وخرم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ بہت کم گو تھا اور غیبت اور بدگوئی سے احتراز کرتا تھا۔ اگر کوئی خندہ آور بات سنتا تو صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا۔
۲ - خلیفہٴ بغداد کا حد درجہ احترام کرتا تھا۔ وہ اسے امیر المومنین، خلیفة المسلمین، ہمارے آقا اور سردار کہہ کر یا د کرتا اور خود کو اس کا فرمانبردار غلام کہتا۔“ ۱
۱۔ السیرة: ص ۲۴۰ - ۲۴۱ -
سلطان نے ماہ شوال ۶۲۸ ہجری مطابق اگست ۱۲۳۱ عیسوی میں وفات پائی ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
0 Comments: