Tuesday, July 20, 2021

قسط نمبر 22 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

Molana-620x410


 
اتسز سے درگزر:
ہرچند سنجر اتسز کی شوریدہ سری سے سخت بیزار تھا لیکن جب بھی وہ اس سے انتقام کا ارادہ کرتا، اس کی سابقہ خدمات شفیع بن کر سامنے آ جاتیں اور سلطان کو مجبوراً اپنے ارادے سے دستبردار ہونا پڑا۔ لیکن تابکے، آخر ۵۳۸ھ/۱۱۴۴ء میں سلطان نے خوارزم کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن اتسز ایسی بے جگری سے لڑا کہ سلطان کو محاصرہ اٹھانا پڑا۔
غالباً اتسز کے دل میں اس موقع پر یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ سلطان اس رسوائی کا ضرور انتقام لے گا اور ممکن ہے کہ اس وقت وہ اپنا دفاع نہ کر سکے۔ چنانچہ بہ نظرِ عاقبت اندیشی طالبِ معافی ہوا اور وعدہ کیا کہ آئندہ اطاعتِ سلطانی سے روگردانی نہیں کرے گا۔ سلطان نے بھی جھگڑے کو طول دینا مناسب نہ سمجھا۔ خود تو خراسان کو واپس چلا گیا اور ادیب صابر کو جو سنجر کے دربار کا مشہور شاعر تھا، بطور نمائندے کے خوارزم میں چھوڑ گیا تاکہ اتسز کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے۔


ادیب صابر کا قتل:
سوے اتفاق کہ اتسز کا مزاج کسی آئین کا پابند نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے سلطان سے انتقام لینے کے لیے دو جرائم پیشہ آدمیوں کو جیل سے رہا کرتے سلطان کے قتل پر آمادہ کیا۔ ادیب صابر کے کانوں میں بھی بھنک پڑ گئی۔ اس سلطان کو خبردار کر دیا اور دونوں مجرموں کا حلیہ لکھ بھیجا۔ خفیہ آدمی تلاش میں لگ گئے۔ چنانچہ دونوں آدمی ایک شراب خانے سے گرفتار کر لیے گئے اور سلطان کے حکم سے قتل کر دیے گئے۔
سلطان تو بچ گیا لیکن ادیب صابر کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اتسز نے حکم دیا کہ اسے رسیوں سے باندھ کر دریائے جیحون میں پھینک دیا جائے۔
وطواط کو معافی:
ہر چند سلطان بڑا بردبار تھا لیکن بے گناہ شاعری کی ظالمانہ موت نے سلطان کو اتسز کی گوشمالی پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ ۵۴۲ھ/۱۱۴۸ء میں ہزار اسپ، جو مملکتِ خوارزم میں ایک اہم چھاؤنی تھی، محاصرہ کر لیا۔
انوری، دربار سنجر کا ملک الشعرا سلطان کے ہم رکاب تھا۔ اس نے مندرجہ ذیل رباعی ایک تیر پر لکھ کر شہر میں پھنکوائی:
ای شاہ ہمہ ملک زمین حسب تراست
وزدولت و اقبال جہان کسب تراست
امروز بیک حملہ ہزار اسپ بیگر
فردا خوارزم و ھزاراسپ تراست
رشید وطواط نے جواباً ذیل کی رباعی
کہہ کر بذریعہٴ تیر شاہی لشکر میں
پھنکواری:
شاھا درجامت می صافی است نہ درد
اعدای تراز غصہ خون باید خورد
گر خصم تو ای شاہ بود رستم گرد
یک خرز ہزار اسپ فتواند برد
جب یہ رباعی سلطان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے قسم کھائی کہ اگر رشید اس کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ اس کے سات ٹکڑے کر ڈالے گا۔
محصور بن زیادہ عرصے تک مقابلے کی تاب نہ لا سکے۔ چنانچہ شہر فتح ہو گیا اور بے چارے شاعر کی جان پر بن گئی۔ یکے بعد دیگرے تمام امراء کی خدمت میں بہ غرضِ سفارش حاضر ہوا لیکن کسی نے حامی نہ بھری۔ آخر منتخب الدین بدیع الکاتب کو رشید کی بے بسی پر ترس آ گیا اور امداد کا وعدہ کیا۔ ایک دن باتوں باتوں میں رشید کا ذکر چھڑ گیا۔ بدیع الکاتب نے عرض کیا: ”جہاں پناہ! حضور نے قسم کھائی تھی کہ اگر رشید ہاتھ آ گیا تو اس کے ساتھ ٹکڑے کر دیے جائیں گے لیکن چونکہ وہ دبلا پتلا آدمی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ بجائے سات کے دو ٹکڑے کیے جائیں۔
“ سلطان مسکرا دیا اور شاعر کو معاف کر دیا۔
چشم پوشی:
#ہزار اسپ کی فتح کے بعد سلطان خوارزم پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا تھا کہ اتسز کو ایک نئی سیاسی چال سوجھی۔ آہو پوش نامی ایک صاحبِ دل سے سلطان کو بڑی ارادت تھی۔ اتسز نے اس سے درخواست کی کہ وہ اس کی تفصیرات سے درگزر کرنے کے لیے سلطان سے سفارش کرے۔ آہو پوش کی خاطر داری کے لیے سلطان نے حسب معمول پھر چشم پوشی کر لی۔
اتسز نے دربار میں حاضر ہو کر آداب بجا لانے کی اجازت طلب کی۔ ہر چند سلطان کے دل میں ابھی تک کدورت باقی تھی لیکن بہ نظر مصلحت یہ کڑوا گھونٹ بھی پینے پر راضی ہو گیا۔ اتسز سلطان کے حضور میں پیش ہوا تو گھوڑے پر سوار تھا۔ بجائے نیچے اتر کر آداب بجا لانے کے وہیں بیٹھے بیٹھے سر جھکا دیا اور واپس چلا گیا۔ چونکہ سلطان اس شوریدہ سر سے اس وقت الجھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے خاموش ہو رہا۔
وطواط کی سرزنش:
کمال الدین ارسلان خان حاکم جند اور اتسز کے تعلقات دوستانہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے مل کر ہمسایہ ریاستوں کے بعض دور افتادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اتسز نے ۵۴۷ھ/۱۵۳ ء میں سقناق کو فتح کرنے کے ارادے سے جند کا قصد کیا۔ چونکہ کمال الدین اتسز کو پورے طور پر قابلِ اعتماد نہیں گردانتا تھا اس لیے جب وہ نواحِ جند میں پہنچا تو کمال الدین شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔
اتسز حاکم جند کی اس غیر متوقع حرکت سے بڑا سٹپٹایا۔ اہلِ دربارنے تمام الزام رشید و طواط کے سر پر تھوپ دیا کیونکہ کمال الدین سے اس کے روابط مخلصانہ تھے۔ اتسز بگڑ بیٹھا اور ناکردہ گناہ شاعر کو حاضری دربار سے قطعاً روک دیا۔ ہم چشموں میں وطواط کا سر نیچا ہو گیا۔ چنانچہ اس موقع پر اس نے اپنی بے گناہی کے بارے میں کئی قصیدے کہہ کر دربار میں گزارے، لیکن اتسز کا دل نہ پسیجا۔
اس کا ایک مشہور شعر ہے:
لیکن مثل زنند چون مخدوم شد ملول
جوید گناہ و بندئہ بی چارہ بی گناہ
جب اتسز واردِ جند ہوا تو اس نے اپنے بیٹے ایل ارسلان کو کمال الدین کے پاس رفع بدگمانی کے لیے روانہ کیا۔ چنانچہ ولی عہد حاکم جند کو شیریں زبانی سے بہلانے پھسلانے میں کامیاب ہو گیا۔ جب کمال الدین اتسز کے سامنے آیا تو اس نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا، جہاں وہ چند دنوں کے بعد مر گیا۔
اتسز ایل ارسلان کو وہاں کا حاکم مقرر کر کے خود خوارزم کو واپس چلا گیا۔
سنجر کی گرفتاری:
۵۴۸ھ/۱۱۵۴ء میں سلطان سنجر کو غزوں کے ہاتھوں سخت ذلت آمیز شکست ہوئی۔ چنانچہ سلطان اور اس کی والدہ گرفتار کر لیے گئے۔ ان وحشیوں کے ہاتھوں سنجر کی گرفتاری نہایت عبرت ناک سانحہ تھا۔ سلطان کے جانشین اور وفادار امرا سخت مضطرب تھے، لیکن ان میں کوئی ایسا جاندار نہ تھا جو غزوں سے سلطان کی شکست کا بدلہ لینے کی جرأت کر سکتا۔
صرف اتسز ہی ایسا آدمی تھا جو سلطان کا انتقام لینے کی ہمت رکھتا تھا لیکن اس کا ذہن کسی اور ادھیڑ پن میں مصروف تھا۔ دربار سے اسے بلاوے پر بلاوا آ رہا تھا کہ وہ بھی ان مشوروں میں شریک ہو جو سلطان کی رہائی کے لیے سوچے جا رہے تھے، مگر اتسز باقاعدہ کسی نہ کسی بہانے پہلو تہی کرتا چلا آ رہا تھا۔ امرائے درباربھی اس پخت و پز سے غافل نہ تھے، لیکن ان کی کوشش یہ تھی کہ جس طرح بھی ان پڑے اسے کوئی ناشائستہ اقدام نہ کرنے دیں۔
سلطان کی گرفتاری سے سلطنت کا نظام درہم برہم ہو رہا تھا۔ امرا غزوں کی اس اتفاقی کامیابی سے ایسے بددل ہوئے تھے کہ ہر شخص اپنی خیر منانے کی فکر میں تھا۔ غزوں نے بھی سلجوقی امرا کے اس احساس نامردی کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ نتیجةً سارا خراسان ان کی یلغاروں کی زد میں تھا۔ لوٹ مار، قتل و غارت روز مرہ کا معمول بن گیا تھا۔ یہ سب کچھ اتسز کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔
وہ کیوں اور کیسے نچلاً بیٹھتا۔ چنانچہ آمویہ پر جو خوارزم سے بارہ فرسنگ کے فاصلے پر تھا، قبضہ کرنے کے ارادے سے کوچ کیا اور حاکم آمویہ سالانہ خراج روک لیتا۔ ان حرکتوں سے اس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا تھا کہ دربار سلجوقی کی سختی یا نرمی کا اندازہ لگا سکے۔ چونکہ سلطان سنجر اس کے معاملات میں مداہنت اور چشم پوشی سے کام لیتا تھا اس لیے وہ اسے کمزوری پر محمول کر کے اگلی بار اور زیادہ خود سری کا مظاہرہ کرتا۔
اس زمانے میں بھی عوام کو کوئی خاص اہمیت نہ دی جاتی تھی۔ بچارے سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں ہمیشہ نالا رہتے تھے۔ اتسز نے اس معاملے میں خاص احکام جاری کیے کہ رعایا کو باکل نہ ستایا جائے اور سوائے سرکاری مال گزاری کے جس کی ادائیگی جنس کی صورت میں بھی ہو سکتی تھی، اور کوئی رقم ان سے وصول نہ کی جائے۔
علاوہ ازیں خوارزم شاہ ادب پرور اور علم دوست بھی تھا۔ چنانچہ چھوٹے موٹے شعراء کے علاوہ رشید وطواط عمر بھر اس کے دربار سے وابستہ رہا۔ اہلِ علم کا قدردان تھا۔ جب فرصت ملتی ان کی علمی مجالس میں شریک ہو کر اکتساب فیض کرتا۔






SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: