Friday, July 23, 2021

قسط نمبر 36 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

 Molana-620x410




وزیر اعظم، جسے خواجہٴ بزرگ بھی کہتے تھے، نوکر شاہی نظام کا حاکم اعلیٰ شمار ہوتا۔ اس کا نشانِ امتیاز قلمدان مقرر تھا۔ وزیر اعظم کا دیانت داری، راست بازی، دین داری، اور اعتماد کی صفات سے متصف ہونا ضروری تھا، کیونکہ سلطنت کی آبادی اور بادشاہ کی مقبولیت کا انحصار بہت حدتک وزیر اعظم کے برتاؤ پر ہوتا اور وزیر کی ہر اچھی بات اور بری حرکت کا انتساب بادشا کی ذات سے کیا جاتا۔ اگر وزیر عوام کا ہمدرد اور خیر خواہ ہوتا تو عوام کا لگاؤ بادشاہ سے بڑھتا۔ لیکن اگر وزیر انجام نا اندیش اور خود غرض ہوتا تو رعایا کے دلوں میں سربراہِ مملکت کے خلاف جذباتِ نفرت وحقارت پیدا ہوتے رہتے۔ بعض مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں کہ جس طرح بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا وارث سمجھا جاتا تھا اسی طرح بعض وزرا کے خاندانوں میں بھی کچھ عرصہ تک یہ روایت چلتی رہی۔ مثال کے طور پر برامکہ اور نظام الملک طوسی کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ سلطان جلال الدین کا سوانح نگار احمد النسوی رقم طراز ہے کہ وزیر اعظم کو ملک کی تمام آمدنی کا دسواں حصہ بطور حق الخدمت ملتا تھا۔ وزیر کے بعد دوسرا درجہ مستوفی کا ہوتا۔ سلطنت کی تمام آمدنی اور خرچ کا حساب اسی کی تحویل میں رہتا۔ نیز ضروری اخراجات کی مد میں اسے ہر وقت اتنی رقم موجود رکھنا پڑتی کہ بوقتِ ضرورت اسے فوری طور پر خرچ کیا جاسکے۔ دیوانِ امور ریاست میں تمام شاہی فرامین اور احکامات محفوظ رکھے جاتے۔ اس دیوان کے حاکمِ اعلیٰ کو خواجہ عمید یا عمید الملک کہتے۔ تمام شاہی فرامین اسی دفتر سے جاری کیے جاتے اور ہر فرمان پر شاہی مُہر ثبت کی جاتی جو خواجہ عمید کی ذاتی تحویل میں ہوتی تاکہ کوئی شخص اس کا غلط استعمال نہ کرنے پائے۔ جس حکم پر شاہی مُہر ثبت نہ ہوتی اسے جعلی تصور کیا جاتا۔ نیز ہر حکم کی ایک نقل دفتر میں محفوظ رکھی جاتی۔ تمام افواج مع ترک افواج کے جس افسر کے ماتحت ہوتیں، وہ حاکمِ افواج یا سپہ سالار کہلاتا۔ اس کے علاوہ ایک سول افسر بھی ہوتا تھا جسے عارض کہتے تھے۔ اس محکمے کی دیکھ بھال اسی افسر کے سپرد ہوتی۔ یہ براہِ راست سپہ سالار اعظم کے ماتحت ہوتا اور فرائض کی بجا آوری میں اسی کے سامنے جواب دہ ہوتا۔ افواج کی تنخواہ کی ادائیگی اور ان کی دیکھ بھال بھی اسی کے سپرد ہوتی۔ عہدِ حاضر کی طرح افواج کی بھرتی اور ان کو علیحدہ کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ مرکز میں بادشاہ کی ذاتی فوج کے علاوہ اور کوئی فوج نہیں رکھی جاتی تھی۔ جب ضرورت پڑتی، فوراً فوج بھرتی کرلی جاتی۔ یا مختلف صوبوں کے صوبیداروں کو لکھا جاتاا ور فوج میدان میں پہنچنا شروع ہوجاتی۔ گورنروں کو اپنی فوجیں رکھنے کا اختیار تھا تاکہ اندرون ملک گڑبڑ نہ ہو اور دشمن طاقتیں حملہ آور نہ ہونے پائیں۔ جنگ کے موقع پر تمام افواج سلطان کی ذاتی کمان میں آجاتیں۔ اور چونکہ تمام اختیار اس کی ذات میں مرکوز ہوتے تھے اس لیے سپہ سالار اعظم ہونے کے علاوہ ملک کا حاکمِ اعلیٰ بھی وہی شمار ہوتا تھا۔ دیوانِ مراسلات صرف شاہی احکام کی ترسیل کے لیے مخصوص ہوتا۔ مرکز کے احکام صوبوں تک پہنچانا اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لینا اسی کے فرائض میں شامل تھا۔ نیز تمام صوبوں میں آزادانہ طور پر اس کی شاخیں مصروف کار رہتیں اور مرکز کے ساتھ باقاعدہ تعلق قائم رکھتیں۔ وہ شاہی احکام پر عوام اور خواص کے رد عمل کی اطلاع بھی مرکز کو بھیجتی رہتیں تاکہ صوبوں کے حاکم راہِ راست سے بھٹکنے نہ پائیں اور مرکز کے مفادات کا خیال رکھیں۔ دیوانِ خالصہ شریفہ کا کام یہ تھا کہ بادشاہ کی غیر منقولہ جائداد کی دیکھ بھال کرے۔ کیونکہ شاہی محل کے تمام اخراجات انہی جاگیرات کی آمدنی سے پورے کیے جاتے تھے۔ اور اگر کوئی افسر اپنی زیر کفالت جاگیرات کے انصرام میں غفلت برتتا تو اسے سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا۔ دیوانِ احتساب کے حاکم اعلیٰ کو محتسب کہتے تھے۔ اس کے کارندے گلی کوچوں، منڈیوں اور بازاروں میں چکر کاٹتے رہتے تاکہ کوئی دکاندار کسی گاہک کو دھوکا نہ دینے پائے نیز اشیائے خرید و فروخت کے نرخوں کا تعین بھی یہی لوگ کیا کرتے تھے۔ بعد میں عوام کے چال چلن کی نگہداشت بھی انہی کے سپرد کردی گئی تھی۔ شراب پینے والے اور دوسری نشہ آور اشیا کے استعمال کرنے والے ہمیشہ ان کے خوف سے رعشہ براندام رہتے۔ دیوانِ اوقاف کے اختیارات کا دائرہ تمام سرکاری اور نجی خیراتی اداروں پر حاوی تھا۔ چنانچہ سکولوں، مکتبوں، شفاخانوں، اور خانقاہوں کو اسی ادارے سے امداد ملتی تھی۔ نیز حکومت کی طرف سے بھی ہر سال ایک مقررہ رقم اس محکمے کوبطورِ سرکاری امداد ملا کرتی تاکہ رفاہِ عامہ کے کام سرمائے کی کمی کی وجہ سے رکنے نہ پائیں۔ عدلیہ کا حاکمِ اعلیٰ قاضی القضاة کہلاتا تھا۔ تمام فوجداری اور دیوانی مقدمات کے لیے رعایا قاضیوں کی طرف رجوع کرتی اور فیصلہ اسلامی قوانین کے مطابق کیا جاتا۔ چونکہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں انفصالِ مقدمات کے لیے قاضی مقرر ہوتے، اس لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تاکہ بے جا رواداری نہ ہونے پائے۔ مرکز کی طرح صوبوں میں بھی یہ تمام محکمے اور افسر پائے جاتے۔ صوبائی ناظم کے وزرا کو حاکم کہتے تھے جن کا تقرر بادشاہ کرتا تھا۔ یا صوبوں کا ناظم جس کے لیے بعد میں بادشاہ سے منظور حاصل کرلی جاتی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مستعفی ہونے والا افسر خود ہی اپنے جانشین کا انتخاب کر کے تقرری کے احکام جاری کردیتا۔ اول اول جمعہ اورعیدین کے خطبے خلفا خود دیا کرتے اور خود ہی امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ بعد میں جب ایرانی اور ترک حکمرانوں نے مختلف ممالک میں حکومتیں قائم کرلیں تو چونکہ وہ عربی زبان کے ماہر نہیں ہوا کرتے تھے اس لیے یہ خدمت بہ احسن وجوہ سر انجام دینا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظر دین ودنیا میں دونی کا تصور پیدا ہوگیا۔ دنیا بادشاہوں نے خود سنبھال لی اور احکامِ دین کی سربراہی خطیبوں اور اماموں کے سپرد کردی گئی۔ بادشاہ محلوں میں بند ہوگئے اور علما خانقاہوں اور مساجد میں۔ بادشاہوں کا انہماک کاروبارِ دنیا میں اتنا بڑھا کہ احکامِ دین سراسر فراموش ہوگئے۔ عوام سے ان کا ربط ضبط گھٹتے گھٹتے صفر کے درجے تک پہنچ گیا اور علما اور خطیبوں کی بن آئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ملّائیت کی بنیاد رکھی گئی۔ بادشاہوں کی دین سے بیزاری اور رعایاسے دوری بڑھتی گئی اور علما کا رسوخ ترقی کرتا گیا۔ چنانچہ وہ وقت بھی آگیا کہ دین ودنیا کے نمائندوں میں رقابت پیدا ہوئی اور وہ ایک دوسرے کے ممدو معاون ہونے کے بجائے رقیب ومعاند بن گئے۔ مولانا جلال الدین رومی کے والد مولانا بہاء الدین سے سلطانِ وقت صرف اس لیے ناخوش تھا کہ مولانا اپنے تقدس اور تقویٰ کی وجہ سے حد درجہ مرجع عوام وخواص تھے۔ ایک دفعہ سلطان، مولانا کی زیارت کو گیا۔ وہاں ہجومِ خلق کا یہ عالم تھا کہ بادشاہ کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ اور مقامِ حیف ہے کہ مولانا کی یہی مقبولیت ان کی جلا وطنی کا باعث بنی۔ چھوٹے موٹے قصبوں کی انتظامی ذمہ داری جس شخص کے سپرد ہوتی اسے رئیس کہتے تھے۔ یہ منصب بھی موروثی شمار ہوتا تھا۔ عوام میں امن وامان قائم رکھنا، ان کے جھگڑے چُکانا اور جائز مشکلات کا ازالہ کرنا اسی کے فرائض میں شامل تھا۔ نیز اپنے علاقے کے لوگوں کی حاجات کو حکام الٰہی تک پہنچانا اور ان کی تکلیف کا ازالہ کرانا بھی اسی کا کام تھا۔ اسی طرح شاہی احکام کی تعمیل کرانا اور وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے فرامین کو رعایا تک پہنچانے کا ذریعہ بھی یہی شخص ہوتا تھا۔ رعایا کی اکثریت خوش حالی کی زندگی بسر کرتی تھی۔ اس لیے وہ شور وشر کو حد درجہ ناپسند کرتے تھے۔ حکومت کا رویہ بھی عموماً ہمدردانہ ہوتا اور کسی شخص کو بلاوجہ بہت کم پریشان کیا جاتا، کسان اپنی موروثی زمینوں میں ہل چلایا کرتے، فصلیں اگانے اور خوشی سے سرکاری مالیہ ادا کرتے جو کسی حالت میں بھی تمام پیداوار کے چوتھے یا پانچویں حصے سے زیادہ نہ ہوتا۔ کبھی کبھی غیر معمولی حالات میں سال یا دو سال کی مالگزاری پیشگی بھی وصول کرلی جاتی۔ مثلاً جب چنگیز خاں سمرقند پر حملہ آور ہوا تو سلطان علاؤالدین مزید فوج بھرتی کرنے کے بہانے خراسان کو چل دیا اور وہاں کی رعایا سے دو سال کا مالیہ تازہ فوج کو مسلح کرنے کے بہانے سے پیشگی وصول کرلیا۔ بعد میں جب مغلوں نے اس علاقے کو فتح کیا تو انہوں نے بھی دو سال کے پیشگی مالیے کامطالبہ کیا جو رعایا کو پورا کرنا پڑا۔ خوارزم شاہی عہد میں رعایا کی حالت مقابلتاً بہتر تھی۔ جب بخارا فتح ہوا اور چنگیز خان اپنی وحشی اور غیر مہذب افواج کوساتھ لیے شہر میں داخل ہوا اور ا س نے زندگی میں پہلی دفعہ عالی شان محلات عظیم الشان مساجد، جلیل القدر مدرسے، پر رونق بازار اور منڈیاں دیکھیں اور اپنی قوم کی خانہ بدوشانہ زندگی پر نظر ڈالی تو وہ بھونچکا ہو کر رہ گیا اور شہر کے نمایندوں سے عوام کے جان ومال کے جو وعدے کیے تھے سب بھول گیا۔ اور حکم دیا کہ اہالیانِ شہر کو قتل کر کے شہر کو لوٹ لیا جائے۔ اس ایک ظالمانہ حکم سے چھ لاکھ انسان موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ اس قتل عام کے بعد، ہر شہر کے باشندوں کو قتل کرنے کے بعد شہر کو لوٹنا مغلوں کا معمول بن گیا۔ چنانچہ مال ودولت کی چمک دمک سے ان کی کایا پلٹ ہوگئی اور وہ اتنے لالچی ہو گئے کہ لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی چیر پھاڑ شروع کردیتے کیونکہ انہیں کسی نے کہہ دیا تھا کہ بعض لوگ قیمتی اشیا نگل لیتے ہیں۔ آمدنی کے ذرائع میں مالِ غنیمت کا نمبر پہلا تھا۔ قرآنی احکام کی رُو سے غنیمت کا پانچواں حصہ سرکاری خزانے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اور چونکہ اُس زمانے میں جنگوں پر کوئی خاص پابندی نہ تھی اس لیے جس طرح آمدنی ہوتی تھی اسی طرح اخراجات بھی بڑھتے گھٹتے رہتے تھے۔ آمدنی کی دوسری اہم مد زمینوں کا آبیانہ اور مالیہ تھا جو ہر فصل تیار ہوجانے کے بعد سرکاری کارندے نقد یا جنس کی صورت میں وصول کیا کرتے تھے۔ مالیے کی شرح کل پیداوار کاچوتھا یا پانچواں حصہ ہوتا تھا۔ اسی طرح مال کی درآمد اور برآمد پر بھی محصول وصول کیا جاتا۔ اور چونکہ اُس زمانے کی تجارت عہدِ حاضر کی پابندیوں سے آزاد تھی اور تجارتی قافلے مختلف ممالک کا سامانِ تجارت لے کر بلا خوف وخطر گھومتے پھرتے تھے اور اس لیے اس مد میں بھی کافی آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ آمدنی کی چوتھی مد وہ خراج تھا جو مختلف ریاستیں حکمران اعلیٰ کو ادا کرتی تھیں۔ ان باجگزار ریاستوں کی تعداد حالاتِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی تھی۔ اتنا ضرور ہے کہ خراج کی رقم اکثر غیر معمولی ہوا کرتی تھی۔ بلاشبہ ان مدات سے جو آمدنی حاصل ہوتی تھی، اس سے کچھ حصہ بڑے بڑے شہروں بالخصوص حکومت کے صدر مقام کی تزئین پر بھی ضرور سرف ہوتا ہوگا۔ مشہور جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتا ہے کہ میں نے خوارزم سے زیادہ پُرعظمت، خوبصورت اور امیر شہر اور کہیں نہیں دیکھا۔ جب سلطان محمد کا زمانہ عروج پر تھا، اس وقت کوئی اوراسلامی سلطنت بہ شمول خلافتِ بغداد شان وشوکت میں خوارزم حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ عام طور پر شہروں کی حالت نہایت اچھی تھی۔ ان کے اردگرد مضبوط فصیل کھینچ دی جاتی تھی۔ جو مضبوط پتھروں سے تعمیر کی جاتی تھی۔ بعض سرحدی شہر ایسے بھی تھے جن کے اردگرد ایک سے زیادہ فصیلیں بھی موجود تھیں۔ قلعے شہروں کی حفاظت کا بہت بڑا اور عمدہ ذریعہ تھے، اس لیے تقریباً ہر شہر کے وسط میں مضبوط قلعہ ہوتا جو محصورین کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح کارخانوں، سکولوں، کالجوں، کارواںِ سراؤں، حماموں، لائبریریوں اور خانقاہوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ شہروں اور قصبوں کے اردگرد نہایت عمدہ باغات لگائے جاتے۔ شہر بڑے بارونق اور آباد ہوتے تھے بلکہ بعض شہروں میں انسانوں کا بے پناہ ہجوم بھی پایا جاتا، جو دیہات کو چھوڑ کر یاسرحدی مقامات سے بھاگ کر نسبتاً محفوظ مقامات میں آباد ہوجاتے۔ نیز عاوام کی مالی حالت تسلی بخش تھی اور وہ اُس زمانے کے معیار کے مطابق خوش حال شمار ہوتے تھے۔





Part  01

Part  02

Part  03

Part  04

Part  05

Part  06

Part  07

Part  08

Part  09

Part  10

Part  11

Part  12

Part  13

Part  14

Part  15

Part  16

Part  17

Part  18

Part  19

Part  20

Part  21

Part  22

Part  23

Part  24

Part  25

Part  26

Part  27

Part  28

Part  29

Part  30

Part  31

Part  32

Part  33

Part  34

Part  35

Part  36

Part  37

Part  38

Part  39

Part  40

Part  41

Part  42

Part  43

Part  44

Part  45

 Last Part


SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: