Friday, July 23, 2021

قسط نمبر 37 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

 Molana-620x410


 

معاشی اور سماجی ڈھانچہ:
معاش کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت تھی۔ اور چونکہ سوائے مالیہٴ اراضی کے، جو تمام پیداوار کا چوتھا یا پانچواں حصہ ہوتا تھا، اور کوئی محصول واجب الادا نہیں ہوتا تھا اس لیے عوام نسبتاً خوش حالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ شہروں میں صنعت وحرفت کے چھوٹے چھوٹے مرکزوں میں کاریگر متعین ہوتے جن کے ہنر کے شاہکار اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے جس سے ملک کی دولت اور ناموری میں اضافہ ہوتا۔

تجارت میں ترقی ہوتی اور کاریگروں کا حوصلہ بڑھتا۔ اگرچہ شہروں کی تعداد کم تھی اور لوگ زیادہ تر دیہات میں رہتے تھے، تاہم تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ شہروں کی آبادی میں متواتر اضافہ ہوتا رہتاتھا اور کئی شہر ایسے تھے جن کی آبادی کا شمار لاکھوں میں ہوتا تھا۔

مثلاً خوارزم، بخارا اور، سمرقند، وغیرہ ماوراء النہر میں اور مرو، نیشا پور، اوررَے وغیرہ خراسان بڑے پُررونق ثقافتی مرکز تھے۔

اور چونکہ اُس عہد کی لڑائیاں ایک ادھ دن میں ختم ہوجاتیں اور زیادہ تر ان کی حیثیت مقامی ہوتی تھی اس لیے رعایا کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
آب پاشی کے لیے دریاؤں، جھیلوں، ندیوں اور چشموں کے پانی سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ دریائے جیحوں کے مشرق کنارے سے ایک بہت بڑی نہر نکالی گئی تھی۔ ۱ جسے گاؤ خوارہ کہتے تھے۔ یہ نہر اتنی بڑی تھیکہ اس میں کشتی رانی ہوسکتی اور ترب وجوار کی تمام راضی کو سیراب کرتی تھی۔

دریائے جیحوں کے مغربی کنارے سے کئی نہریں نکالی گئی تھیں جن میں سے ایک نہر وہ تھی جس سے ہزار اسپ کا علاقہ سیراب ہوتا تھا۔ نیز ہزار اسپ سے کوئی دو فرسنگ دور اسی دریا سے ایک اور نہر نکالی گئی جس سے پیداوار میں بہت اضافہ ہوا۔اس سے ذرا آگے چل کر تیسری نہر نکالی گئی تھی جسے نہر خیوا کہتے تھے۔ یہ ثانی الذکر سے بھی بڑی نہر تھی جس سے خیوا کا تمام علاقہ سیراب ہوتا تھا۔

خیوا سے تھوڑی دور ایک اور نہر نکالی گئی تھی جسے نہر مدرا کہتے تھے جو نہر گاؤ خوارہ سے تقریباً دگنی تھی۔
۱۔ یاقوت: ج ۲، ص ۵۶۷ - یاقوت : ج ۴ة ص ۱ - ۹
صویبہ خراسان میں بھی اسی طرح نہروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ مرو سے تھوڑی دور مرو الرود کے پانی کو روک کر ایک جھیل بنا دی گئی تھی جس سے چار نہریں نکالی گئی تھیں جو شہر کے مختلف حصوں کو سیراب کرتی تھیں۔

ان نہروں میں سے ایک نہر شہر کے درمیان میں سے گزر کر میدانوں سے ہوتی ہوئی کچھ فاصلے پر ریگستان میں غائب ہوجاتی تھی۔ ان میں سے ایک کا نام عرمزفرہ، دوسری کا نام ماجان، تیسری کا نام زرک اور چوتھی کا نام اسدی تھا۔ زرک کا پانی مرو کے بعض حصوں سے گزرتا تھا۔ شہر سے باہر بہت سے تالاب تھے جن میں اس کا پانی اہلِ شہر کے استعمال کے لیے جمع کردیا جاتا۔

نہر ماجان سے ماجان نامی ایک اضافی بستی سیراب کی جاتی تھی۔ نیز عوامی چوک،سرکاری عمارتوں اور جیل خانے میں اسی نہر کا پانی استعمال ہوتا تھا۔ ہرمزفرہ نامی نہر مذکورہ بالا نہر کے شمال میں بہتی تھی اور کچھ فاصلے پر ایک اسی نام کی بستی کے قریب پہنچ کر ریگستان مرغاب میں ختم ہوجاتی تھی۔
نیشاپور کے شمال اور مشرق میں جو پہاڑ واقع تھے ان سے ندی نالے نکل کر میدانوں میں داخل ہوتے تھے اور زمینوں کو سیراب کرتے تھے اور پھر کچھ دور جا کر ریگستانوں میں جذب ہوجاتے تھے۔

نیشا پور کے شمال میں پانچ فرسک کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی جھیل تھی جس سے دو نہریں نکالی گئی تھیں جن میں سے ایک مشہد کی وادی میں داخل ہوجاتی تھی۔ نیشا پور کے صوبے کے چار ضلعے شادابی اور زرخیزی کے لیے مشہور تھے جو مختلف ندی نالوں سے سیراب ہوتے تھے۔ اس علاقے کی سب سے بڑی ندی کو شوارہ رود کہتے تھے۔ یہ بھی مذکورہ بالا ندیوں کی طرح زمینوں کو سیراب کرنے کے بعد ریگستانوں میں ختم ہوجاتی تھی۔

ان علاقوں کی زمینیں بڑی زرخیز تھیں۔ چنانچہ ان میں کثرت سے اناج، دالیں اور پھل پیدا ہوتے تھے۔ اسی طرح کثرت سے کپاس بھی پیدا ہوتی۔ چراگاہوں میں ہر طرف مویشیوں کے گلے او ر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چرتے دکھائی دیتے جن سے کھالیں اور اون حاصل کی جاتی۔ خوارزم قیمتی سنجاب کی کھالوں کے لیے مشہور تھا جو دساور کو برآمد کی جاتیں اور بڑی قیمت پاتی تھیں۔

پھلوں میں انگور، کشمش، انجیر، اخروٹ، بادام، اور پستہ قابلِ ذکر ہیں۔ نیز اونی غالیچے، سوتی اور ریشمی پردے اور اسی طرح مختلف رنگوں کے کپڑے بھی برآمد کیے جاتے تھے۔
آذر بائیجان کا علاقہ پہاڑی تھا جس میں کثرت سے پھل اور اناج پیدا ہوتا۔ باغات کی بہتات تھی۔ لیکن یہ شہر سرحد پر واقع تھا اور دشمن کے ساتھ کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی اس لیے زندگی میں تلخیاں بھی تھیں اور بہت سے لوگ انہی تلخیوں سے گھبرا کر اندرونِ ملک میں ہجرت کرجاتے تھے۔

اسی طرح مارواء النہر کا سارا صوبہ بڑا زرخیز اور شاداب تھا۔ بلخ میں اتنا غلہ پیدا ہوتا کہ اگر کبھی ضرورت پڑتی تو خراسان کے سارے صوبے کی ضروریات یہیں سے پوری کی جاتی تھیں۔ جرجان کا ریشم بہت مشہور تھا اور تمام قلمرو کے امرا اسے بڑے شوق سے خریدتے تھے۔ اسی طرح طبرستان میں بھی ریشم پیدا ہوتا تھا جو دساور کو بھیجا جاتا تھا۔ اکثر وبیشر دریاؤں میں کشتی رانی ہوسکتی تھی اور سامانِ تجارت لانے اور لے جانے کا یہی ذریعہ زیادہ آسان اورسستا تھا۔

خلاط کی مچھلی بڑی مشہور تھی جو بلخ اور غزنی کے بازاروں تک برآمد کی جاتی۔ بخارا کے اردگرد کثرت سے پھلوں کے باغات تھے جن میں اس کثرت سے مختلف پھل پیدا ہوتے کہ صوبے کے اکثر اضلاع کی مانگ یہیں سے پوری کی جاتی تھی۔ بالخصوص مرو شاہ جان میں، جو سلجوقیوں کا دارالسلطنت تھا، ان کی بڑی مانگ تھی۔ دامنان کا سیب بڑا لذیذ تھا اور عراقی تاجر اسے بہت پسند کرتے تھے۔

سجستان کے صوبے میں بھی کثرت سے ندی نالے پائے جاتے تھے جو کام علاقے کی زرخیزی اور ترقی کا ذریعہ تھے۔ ہر چھوٹے بڑے مکان میں باغیچہ لگا ہوتا جس میں پھل اور پھول اگائے جاتے تھے۔ خوارزم، سمرقند، بخارا، مرو اور نیشاپور کے علاوہ، تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں شہروں کا جال بچھا ہوا تھا اور مکانوں کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ پانی کی چھوٹی بڑی نالی ہر گھر سے گزرتی تھی۔

یہ پانی پینے اور نہانے دھونے کے کام آتا تھا۔ بڑے شہروں کے بازاروں اور سڑکوں کے دو رویہ اس کثرت سے درخت لگائے جاتے کہ مکان نظروں سے چھپے رہتے۔ بعض شہروں میں پَن چکیاں اور ہوائی چکیاں بھی پائی جاتی تھیں۔ مثلاً سجتسان میں ہوائی چکیوں سے آٹا پیسنے کا کام لیا جاتا تھا۔
مارواء النہر میں مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کی بڑی کثرت تھی۔ نیز سوق اور ریشمی کپڑے اور ترکمانی بھیڑوں کی اون دساور کو برآمد کی جاتی تھی۔

اسی طرح اس صوبے میں لوہا، فولاد، سونا اور چادی کثیر مقدار میں دستیاب ہوتی تھی۔ کستوری، زعفران، سنجاب اور لومڑی کی قیمتی کھالیں تبت سے درآمد کی جاتی تھیں۔
تقریباً تمام قصبوں اور شہروں کے اردگرد فصیلیں تعمیر کی جاتیں۔ بعض سرحدی مقامات میں ایک سے زیادہ فصیلیں بھی پائی جاتی تھیں۔ ان میں لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے جو سرشام بند کردئیے جاتے تھے۔

فصیل کے گرد خندق ہوتی جو پانی سے بھر دی جاتی تاکہ فصیل تک رسائی آسان نہ رہے۔ ان خندقوں پر، آنے جانے کے لیے، مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے لکڑی کے پل ہوتے جو بالعموم رات کو ہٹا دئیے جاتے تاکہ شہر کو باہر کا کوئی خطرہ نہ رہے۔ فصیل مشک خارا سے بنائی جاتی جس پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برجیاں اور مورچے بنے ہوتے، جن میں ہر وقت حفاظت کے لیے سنتری موجود رہتے۔

تقریباً ہرشہر کے وسط میں ایک قلعہ ہوتا جو اہلِ شہر کی آخری پناہ گاہ سے تعمیر کیے جاتے تھے۔ ان قلعوں میں سامان رسد اور ہتھیاروں کا معتد بہ ذخیرہ موجود رہتا تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ بارہا دیکھا گیا کہ محصورین نے کئی کئی مہینوں تک بڑی پامردی اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور کثرت سے ایسی مثالیں مل سکتی ہیں کہ دشمن تھک کر واپس چلا گیا مگر اہل شہر کے دم خم میں کوئی فرق نہ آیا۔

مکانوں کی تعمیر میں لکڑی، گارا، پتھر اور اینٹیں استعمال کی جاتی تھیں۔ رے اور طہران میں تہہ خانوں کا عام رواج تھا۔ آخر الذکر کے متعلق مشہور ہے کہ اصالتاً یہ شہر زمین کے نیچے آباد ہوا اور عرصہٴ دراز تک لوگ وہیں آباد رہے۔ بعد میں رفتہ رفتہ انہوں نے سطح زمین پر مکان بنانا شروع کیے۔ رے میں صورتِ حال بالکل برعکس تھی؛ یعنی یہاں اصالتاً شہر پہلے سطح زمین پر آباد ہوا، بعد میں جب امن وامان کی حالت مخدوش ہوگئی توباشندگانِ شہر نے خفیہ زمین دوز پناہ گاہیں بنانا شروع کردیں۔

اسے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ باقی شہروں میں ایسا زمین دوز انتظام نہیں موجود تھا، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جب سلطان محمد کی وفات کے بعد مغلوں نے خوارزم پر حملہ کیا اور طویل محاصرے کے بعد شہر فتح ہوا تو مغلوں نے قتلِ عام کا حکم دیا۔ چنانچہ تقریباً چھ لاکھ انسان تہِ تیغ کر دیے گئے۔ لیکن چونکہ مغلوں کو زمین دوز تہ خانوں کا علم تھا اور انہیں یقین تھا کہ ہزاروں اہلِ شہر ان تہ خانوں میں پناہ لیے ہوں گے اس لیے انہوں نے دریائے جیحوں سے ایک نہر کاٹ کر اس کا رخ خوارزم کی طرف کردیا جس سے تمام عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور پناہ گزیں غرقِ آب ہوگئے۔

اسی طرح جب جوجی نے نیشاپور پر حملہ کیا اور تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد شہر فتح ہوگیا تو قتلِ عام کی ظالمانہ رسم یہاں عمل طویل عرصے تک جاری رہا کیونکہ انسانوں کی اتنی کثیر تعداد کو قتل کرنے کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ لیکن چونکہ جوجی کو معلوم تھا کہ زمین دوز تہہ خانے وہاں بھی پائے جاتے ہیں اور کافی اہلِ شہر ان میں چھپ گئے ہیں اس لیے اس نے محسور کیا کہ اس کے کافرانہ نصب العین کی تکمیل میں ابھی کچھ کسر باقی ہے۔

چنانچہ کچھ سوچ کر کوچ کا حکم دیا۔ جب دو چار روز کے انتظار کے بعد پناہ گزینوں کو یقین ہوگیا کہ مصیبت ٹل گئی ہے اور مطلع صاف ہوگیا ہے تو آہستہ آہستہ دیکھا دیکھی پناہ گاہوں سے نکل آئے۔ ہفتہ عشرہ ہی گزرا ہوگا کہ جوجی پھر سے اچانک سر پر آدھمکا۔ اس مختصر وقفے کے دوران میں شہر میں بیس ہزار آدمی جمع ہوگئے تھے۔ چونکہ بچاؤ کا کوئی انتظام نہ تھا اس لیے اکثر وبیشتر قتل کردئیے گئے اور جنہیں موقع مل سکا وہ پھر سے تہ خانوں میں گھس گئے۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں، مکانوں کی کثیر تعداد پتھروں اور اینٹوں سے تعمیر کی جاتی تھی۔ لیکن خوارزم، بخارا اور سمرقند میں لکڑی کے مکانوں کا بھی رواج تھا۔ کچھ مکان ایسے بھی تھے جن کا ڈھانچہ پہلے لکڑی سے تیار کرلیا جاتا اور بعد میں خالی جگہوں میں پتھر اور اینٹیں بھر دی جاتیں۔ جب بخارا فتح ہوا اور اہل شہر کے قتل عام کے بعد چنگیز نے شہر کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا تو چونکہ شہر کی اکثر عمارتیں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں لہٰذا آگ اس سرعت سے پھیلی کہ دیکھتے دیکھتے شہر راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔










SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: