Showing posts with label Urdu Stories. Show all posts
Showing posts with label Urdu Stories. Show all posts

Tuesday, July 27, 2021

موتی

موتی



 

پرانے زمانے کی بات ہے، ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا۔ پچھلے وقتوں میں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تاجر جس ملک میں تجارت کرنے جاتا، سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ سے ملاقات کرتا، اپنا سارا سامان تجارت دکھاتا اور اس کی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد پہنچنے کے بعد بادشاہ کے دربار میں پیش کردیا گیا۔ تاجر نے بادشاہ کے حضور تحائف پیش کیے۔ پھر مال تجارت نکالا اور ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرتے ہوئے دکھانے لگا۔ حضور، یہ پانی سے چلنے والی گھڑی ہے جو میں نے یونان سے خریدی ہے۔ یہ قالین ہے جو میں نے ایران سے خریدا ہے اور یہ خالص ریشم کے تار سے بنا ہے۔ یہ قلم ملاحظہ فرمائیے جو میں نے جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے۔ تاجر نے ایک ایک مال کی اہمیت بیان کی۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بہت خوب، تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران، یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاﺅ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایان شان کوئی چیز نظر آئی۔ تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کے لیے کہا، یوں تو بادشاہ سلامت آپ کے شایان شان بہت چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جبکہ میرے پاس صرف دو دن کا وقت تھا۔ بادشاہ نے پوچھا۔ اچھا وہ کیا چیز تھی۔ تاجر بولا، جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ اس کو کوئی چرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سارے زیور بھی بنا کر پہنے جاسکتے ہیں۔ بادشاہ بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا۔ میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو مع سامان و سواری اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔ وزیر اپنے مقصد کے لیے نکل پڑا۔ جنگلوں،سمندروں، پہاڑوں اور صحراﺅں غرض یہ کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری۔ وادی وادی گھوما، ہر شخص سے اس نادر و نایاب موتی کا پوچھا مگر سب نے یہ ہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں ہے جو چوری نہ ہوسکے اور اس سے بہت سارے زیور بن جائیں۔ لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے۔ مسافر پاگل ہوگیا ہے۔ یوں ہی مہینوںبیت گئے، ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وزیر نے ہر ممکن کوشش کرلی کہ ایسا موتی مل جائے لیکن یہ نہ ملا،سو اس نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔ وزیر اپنی ناکامی پر زارو قطار روتا ہوا جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی اور وزیر بہت تھک بھی گیا تھا۔ ایک درخت کے پاس آرام کے ادارے سے لیٹا ہی تھا کہ اسی لمحے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ پہلے تو وزیر ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا۔ ارے نوجوان ڈرو مت، میں اچھی پری ہوں۔ بتا تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تو مدتوں کا تھکا ہوا مسافر معلوم ہوتا ہے، بتا میں تیری کیا مدد کروں۔ وزیر نے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی، وہ کہیںنہیں ملا۔ اب اچھی پری وزیر کے سامنے آچکی تھی اور وہ وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنسنے لگی، پھر بولی۔ افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوںمارا مارا پھرتا رہا۔ وزیر بولا۔ اچھی پری،میں تمہارا مطلب نہیںسمجھا۔ وہ بولی، بھلے آدمی، وہ موتی دراصل علم کاموتی ہے لیکن تو اس کی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا۔ علم تو ایک ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دیے جاسکتے ہیں۔ کہیں اسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسے سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ لیکن اس سے زیور بنانے والی صفت۔ وزیر نے حیرت سے پوچھا۔ پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ علم کی بہت ساری صفات ہیں۔ تم اس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہو۔ یاد رکھو، ہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کے اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جس سے یہ حاصل ہوجائے، وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اسے کوئی چرا نہیںسکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔ وزیر بڑے غور سے پری کی بات سن رہا تھا اور بالآخر اس بات کا قائل ہوگیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو، وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے۔ وزیر نے پری کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہوگئی۔ اب وزیر بہت خوش تھا اور اپنی کامیابی کے گیت گاتا ہوا اپنے ملک روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ پیارے ساتھیوں! علم ایک ایسا موتی ہے جس کی چمک دمک زمین سے آسمان، فرش سے عرش تک ہے اور علم کے اس موتی کی روشنی میں ہی انسان اس کائنات کے خالق و مالک تک رسائی حاصل کرتا ہے
سوتیلی ماں

سوتیلی ماں

 



پاؤں سے کانٹا نکالتے ہوئے ننھے کریم کی چیخ نکل گئی۔ وہ ایڑی کو دونوں ہتھیلیوں سے دباتے ہوئے پکارا ’’ ہائے اماں !‘‘ وہ مبہوت و ساکن بیٹھ گیا اور سامنے ویران کھیتوں پر نگاہیں گاڑھ دیں، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی ماں کی آواز کا منتظر ہوتا ہے۔ ” میرے انمول لال! میں آئی، میں ابھی کانٹا نکالے دیتی ہوں !”۔۔۔ اس کے سر پر ایک کّوا کائیں کائیں کرتا ہوا گزرا اور لڑکھڑاتا ہوا ایک جھاڑی میں جا گرا کریم بھول گیا کہ اس کے پاؤں میں کانٹا ہے۔ وہ لنگڑاتا ہو بھاگا اور کّوے کو پکڑ لیا ۔ وہ اپنے پروں کو پھڑپھڑانے لگا۔ اڑنے کی کوشش کی مگر اس کا داہنا بازو زخمی ہوچکا تھا ۔ کریم نے زمین سے مٹی اٹھا کر اس کے زخم پر چھڑکی، دو چار ٹھنڈی سانسیں دیں کّوے کو آرام پہنچا تو کھلی ہوئی چونچ بند کر لی اور آنکھوں میں وحشت کی بجائے اطمینان چھلکنے لگا ۔ کریم نے بہت سے پتے اکھٹے کر کے سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی چوٹی پر جمائے ۔ کّوے کو ایک دو بار تھپک کر وہاں بٹھا دیا اور گھر کو لوٹ آیا ۔ اس مصروفیت میں اس کے پاؤں کے درد میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔ وہ ایک کسان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک سال ہوا اس کی ماں مر گئی۔ اس کے والد نے پچھلے دنوں ایک شادی کر لی تھی لیکن اب یہ نئی ماں اس سے عجیب طرح سے پیش آتی تھی۔ ’’ وہ برتن اندر کیوں نہیں رکھا؟‘‘ ’’ وہ پکار اٹھتا ۔‘‘ اندر ہی تو پڑا ہے۔‘‘ وہ اس کے جبڑوں میں گھونسا جماتے ہوئے کہتی۔ ’’ تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ وہ چیخ کر کہتا ۔’’ بتایا تو تھا میں نے!‘‘ کریم نے کئی بار محسوس کیا کہ گھونسے کے زور سے اس کا دل رک گیا ہے لیکن وہ کمبخت اچانک پھر دھڑک اٹھتا اور وہ سہمی ہوئی نظروں سے ایک اور گھونسا سر پر منڈلاتے ہوئے دیکھتا ۔ اوّل اوّل تو اس نے سوتیلی ماں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی۔’’ چھوڑ دے ۔ چھوڑ دے مجھے ۔ ورنہ میری امّی تیری بوٹیاں نوچ لے گی، چھوڑ دے مجھے ورنہ میرا ابّا تجھے مار ڈالے گا۔‘‘ لیکن ایک دن جب اس کی سوتیلی ماں نے یہ کہا کہ’’ تیری ماں کو تو قبر کے سانپ اور بچھو چمٹے پڑے ہوں گے، وہ تیرے باپ کا گھر تباہ کر کے اگلے جہاں میں آرام سے تھوڑا رہے گی!’’ تو ننھا کریم غصے سے بے بس ہو کر اس پر جھپٹا مگر دھکا کھا کر اوندھے منہ جا گرا ۔ دوڑا دوڑا باپ کے پاس گیا اور چیخنے لگا ’ ’ابّا، خالہ نے میرے دانت توڑ دیئے ۔ یہ دیکھو تو مسوڑھوں سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو نا میری کہنیاں چھل گئیں۔ وہ کہتی ہیں تیری ماں کو سانپ بچّھو کھا رہے ہیں۔ وہ جھوٹ بکتی ہے ابّا ۔ میری ماں ہر رات آ کر میرا ماتھا چوم ۔۔۔۔‘‘ تڑاخ کی آواز اور پھر کریم کا کان اس کے باپ کی انگلیوں میں تھا۔ کان کو اینٹھتے ہوئے بولا۔’’ خالہ کے خلاف بک رہا ہے ۔ اب تیری ماں کا راج نہیں رہا کہ گھر کا غلہ نکال کر دکانداروں کے آگے جا ڈالے اور گلچھڑے اڑائے، اب انسانوں کی طرح رہنا پڑے گا یہاں!‘‘ اس دن کے بعد اس نے باپ کے آگے کوئی شکایت نہ کی، نہ اپنی خالہ کے گھونسوں کا جواب کسی دھمکی سے دیا ۔ بس چپ چاپ گھونسے سہہ لیتا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر بازو کا تکیہ بنا کر سو جاتا ۔ صبح گھونسے سہہ کر باہر جاتا۔ مویشی چرا کر لاتا اور گھونسے سہ کر سو جاتا۔ اس دن وہ ایک بیل کے پیچھے بھاگا تو اس کی ایڑی میں کوئی بہت لمبا کانٹا چبھ گیا۔ زخمی کّوے کو گھونسلے میں بیٹھا کر گھر آیا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر لیٹ گیا جو صحن کے پرلے سرے پر بیلوں کے تھانوں کے پاس دن رات پڑی رہتی تھی۔ کھاٹ کیا تھی ایک جھولا تھا ۔ جس میں ننھا کریم گھٹنے سینے سے لگائے، بازو جسم سے چمٹائے پڑا رہتا تھا۔ اس کی خالہ چولہے کے سامنے بیٹھی تھی اور اس کا باپ پاس ہی ایک پلنگ پر لیٹا حُقّہ پی رہا تھا ۔ اس کی خالہ کہنے لگی ۔’’ ابھی تک کریم نہیں آیا جانے گاؤں میں کیا کرتا رہتا ہے۔ پرسوں کی بات ہے ہمسائی کے ہاں گیا اور کہنے لگا۔’’ مجھے میری نئی ماں مارتی ہے، روٹی نہیں دیتی ۔میں بھوکا ہوں ننگا ہوں۔‘‘ اب اس سے پوچھو میں نے اسے کب مارا ۔ میں نے اسے کب کھانا نہیں دیا ۔ کب کپڑے نہیں پہنائے۔ اس بچے کو سمجھاؤ، ورنہ یہ گھر گھر کھانے کو مانگتا پھرے گا، اور تم شریکوں کے سامنے سر نہ اٹھا سکو گے۔‘‘ اس تقریر کے دوران میں کریم نے ایک دو بار آواز دی ۔’’ میں آگیا ہوں ابّا ، میں آ گیا ہوں۔‘‘ لیکن نہ اس کے باپ نے کچھ سنا نہ اس کی خالہ نے۔ جب وہ سانس لینے کے لئے رکی تو کریم ان کے قریب آیا اور بولا ’’ میں تو کب کا بیٹھا ہوں خالہ ۔‘‘ اس کا باپ حُقّہ ایک طرف کر کے اس ک طرف بڑھا ۔’’ کیوں بے! تیری ماں کیا مری کہ تو ہر بندھن سے آزاد ہو گیا ۔ گھر گھر میرے گِلے ہو رہے ہیں ۔’’ ایک تھپڑ کریم کے منہ پر پڑا۔ اس کے جی میں آئی کہ باپ کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرے، مگر زبان بے حِس ہو کر رہ گئی ۔ وہ چپ چاپ اٹھا اور اپنی کھاٹ کا رُخ کیا ۔ ’’ آج لنگڑا کیوں رہا ہے ۔‘‘ اس کے باپ نے پوچھا۔ ’’ کانٹاچبھ گیا تھا جی ۔‘‘ کریم نے درد ناک لہجے میں جواب دیا۔ آخری الفاظ کہتے ہوئے اس کی آواز کانپ گئی۔ اس کا باپ گرجنے لگا ۔’’ کانٹا چبھ گیا امیر زادے کے ۔۔۔ آفت آ گئی، اور لنگڑا یوں رہا ہے، جیسے کسی نے پاؤں ہی اڑا دیا ہے۔ ادھر آ، سوئی لے کر دئیے کے پاس بیٹھ جا اور نکال اسے ۔‘‘ کریم اندر جا کر سوئی لے آیا ۔ دیئے کے پاس بیٹھ کر ایڑی اٹھائی اور سوئی سے کانٹے کے اِرد گرد کا گوشت کریدنے لگا۔ رہ رہ کر اِسے اپنی ماں یاد آ رہی تھی جو اِسے ہاتھوں پر اُٹھائے رکھتی تھی۔ جو اِس کے لئے قسم قسم کی چیزیں خرید لاتی تھی۔ کھانے کی چیزیں، پہننے کی چیزیں ۔ جس نے اپنی پڑوسن کو ایک دن کریم کے پاؤں سے کانٹا نکال رہی تھی کہا تھا۔’’ اری ذرا دھیرے دھیرے سوئی پھیر۔ بس یہ سمجھ تو میرے کلیجے پر سوئی پھیر رہی ہے!‘‘ کریم کو یہ بات یاد آئی تو اِس کی چیخ نکل گئی۔ اسکا باپ صحن کے پرلے سرے پر بیلوں کے آگے گھاس ڈال رہا تھا ۔ اس کی خالہ اٹھی اور اس کے پاس آ کر کہنے لگی۔ ” کیوں بے لونڈے، رو کیوں رہا تھا ۔ سانپ نے ڈس لیا ہے کیا؟‘‘ اس نے حسرت بھری نگاہیں اٹھائیں اور خالہ کی گھورتی ہوئی آنکھوں میں گاڑ دیں ۔ اس کی خالہ نے اس کی گردن پر غصے سے اُلٹا ہاتھ مارا۔ کریم دیئے پر جا گرا ۔ دیا لڑھک کر اس کی گود میں آ رہا ۔ اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ لہراتے ہوئے شعلوں سے چیخوں کا ایک طوفان بلند ہوا۔ ’’ ابّا، دوڑیو، میرے ابّا، میں جل مرا، ہو ابّا۔‘‘ اس کا باپ ہوا کی طرح اس کے پاس پہنچا۔ گھڑے پر گھڑا انڈیلنا شروع کر دیا۔ آگ بجھ گئی اور اب زمین پر کیچڑ میں لت پت بیہوش کریم آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا ۔ سارا محلہ اکٹھا ہو گیا ۔ لالٹین جلائی گئی۔ کریم کا داہنا بازو، داہنی ران اور داہنی پسلیاں بری طر ح جل چکی تھیں۔ کھال اڑ چکی تھی ۔ اور نیچے سفید چربی چمک رہی تھی ۔ اسے چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ حکیم جی نے زخموں پر مکھن ملنے کو کہا اور اب لوگ چلے گئے! اب اس کے باپ کا دل پسیجا ۔ اسے اپنی بیوی کی مغموم روح سامنے منڈیر پر اپنا چہرہ ہتھیلیوں میں سنبھالے بیٹھی آنسو گراتی نظر آئی۔ اس کی نگاہیں اپنے جلے ہوئے بیہوش بچے پر گڑی ہوئی تھیں۔ پھر اس نے تاروں کی طرف اڑتے وقت ایک سمت اشارہ کیا۔ کریم کا باپ سب کچھ سمجھ گیا ۔ اسے وہ دن یاد آ گیا جب شہر کے باہر بوڑھے نیم کی ٹیڑھی شاخوں کے گھنے سائے میں ان دونوں نے اپنے والدین کی باہمی دشمنی سے بے پروا ہو کر ہمیشہ کے لئے ایک ہونے کا عہد کیا تھا! اس کے روئیں روئیں سے پسینہ پھوٹ نکلا ۔ اس کا سارا جسم سو گیا۔ وہ غیر ارادی طور پر اپنے بچے کی طرف بڑھا ۔ جس نے اب آنکھیں کھول دی تھیں اور جس کی سوتیلی ماں روٹی پر گھی ڈال کر کھا رہی تھی ۔ وہ کریم کے قریب گیا ۔ ماتھے پر ہاتھ پھیر کر پوچھا ۔ ’’ میرے کریم کہاں کہاں درّد ہے تمہارے ؟ تمہارے کہاں کہاں درد ہے ؟ بتاؤ نا، مجھے بتاؤ کہ وہاں میں اپنے کلیجے کا خون نچوڑ دوں ۔ تم مجھے گھور کیوں رہے ہو ، میرے بچے تم مجھے اس طرح نہ دیکھو ، میرے ننھے اس طرح تمہارے کمینے باپ کی روح میں نشتر گڑ جاتے ہیں ۔ کہاں کہاں درد ہے تمہارے ؟ بتاؤ نا ‘‘ ’’ ایڑھی پر ابّا ۔ ‘‘ ایک نحیف آواز آئی ۔ ’’ وہاں کانٹا چبھ گیا تھا ۔ ‘‘ کریم کا باپ کلیجہ پکڑ کر رہ گیا ۔ ابھی تک کریم کو اپنے جلنے کی خبر نہیں تھی ۔ وہ بولے جا رہا تھا ۔ ’’ ابّا یہاں ایڑھی میں اتنا لمبا کانٹا چبھ گیا ، خالہ، ذرا سوئی دینا، میں کانٹا نکال لوں ۔ ‘‘ کریم کا باپ شدت درد سے بلبلا اٹھا، ’’ ہائے میرے بچے، میرے کریم، تم جل گئے ہو، تمہیں معلوم نہیں کیا ؟ اللہ تمہیں اچھا کر دے، بہت جلد اچھا کر دے ۔ میں اپنے کریم کے لئے اتنی چیزیں لاؤں گا کہ میرا کریم انہیں اٹھا تک نہ سکے گا ۔ ‘‘ کریم کو اب آہستہ آہستہ اپنے جلنے کا احساس ہو رہا تھا ۔ اس کا باپ اس کی رنگت کی تبدیلی دیکھ کر ہراساں ہو گیا ۔ ’’ اری لانا ذرا، کھانڈ لانا ۔ کریم کے منہ میں ڈالوں ۔ یہ تو پیلا پڑ رہا ہے ۔ ‘‘ وہ گھی میں لقمہ بھگو کر بولی ۔ ’’ اچھا ہو جائے گا۔ بچے جلتے ہی رہتے ہیں اکثر، تم پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ اچھا ہو جائے گا کمبخت، تم کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہو ۔ ادھر کھانا کھا لو، پروٹھے ٹھنڈے ۔۔۔۔ ! ‘‘ کسان کے بھاری جوتے نے اِسے آگے بڑھنے کی مہلت نہ دی ۔ لقمہ اس کے منہ سے نکل کر فرش پر جا گرا ۔ اس کی کھوپڑی تڑا تڑ جوتے کھانے لگی ۔ اس نے سارا محلہ سر پر اٹھا لیا۔ لوگ جمع ہو گئے ۔ اسے خاموش کرایا۔ کسان کو ضبط کرنے کی تلقین کی اور چلے گئے ۔ کریم اب چارپائی پر بل کھا رہا تھا گوشت کے ننھے ننھے پرزے آپ سے آپ گر رہے تھے، ساری رات اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا رہا ۔ صبح ہوئی تو کریم نے گھٹنے سے سر اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ’’ ابّا تم مجھے اب ماروں گے تو نہیں ؟ ‘‘ کسان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے پھوٹ بہے ۔ اس نے انتہائی ضبط سے کہا ۔ ’’ نہیں بیٹا ۔ ‘‘ کریم بولا ۔ ’’ تو ابّا ایک کام کرو۔ گاؤں کی پوربی چراگاہ کے اتری کونے پر نیم کے درختوں کا جھنڈ ہے نا ؟ سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی ٹہنی پر ایک کوّے کا گھونسلہ ہے ۔ اسے جا کر کچھ پانی اور دانے ڈال آؤ ۔ جاؤ گے ؟ ‘‘ ’’ ابھی جاتا ہوں ۔ ‘‘ کریم کے باپ نے جواب دیا ۔ لیکن کریم کی ان بے سر و پا باتوں کو نیم بیہوشی پر محمول کرنے لگا ۔ کچھ دیر کے بعد کریم نے آنکھیں کھولتے ہوئے پھر کہا ۔ ’’ کیا نہیں جاؤ گے ابّا ؟ ‘‘ ابھی جاتا ہوں میرے بچے، کریم یہ کہہ کر اٹھا ۔ پانی کے لئے مٹی کا ایک چھوٹا سا پیالہ لیا ۔ دانے مٹھی میں ڈال کر گاؤں کی مشرقی چراگاہ کی طرف گیا ۔ بڑے نیم کی اونچی ٹہنی پر ایک کوّا گھونسلے سے پر نکالے کائیں کائیں کر رہا تھا ۔ وہ اوپر چڑھا کوّے کے پاس پانی رکھ دیا دانے بکھیر دئیے ۔ کوّے کو اٹھا کر دیکھا اس کا ایک بازو بری طرح زخمی تھا ۔ وہ یہ معمّہ نہ سمجھا اس کا دماغ گھو منے لگا ۔ واپس ہوتے وقت ایک شخص نے اسے پوچھا ۔ کہاں گئے تھے آپ ؟ اس نے جواب دیا ۔ ’’ رات کو ۔ رات کو ۔ رات کو جلا ۔ بس دئیے نے کپڑوں کو آگ لگا دی اور جسم کا دائیا ں حصہ گل گیا ۔ ! ’’ پوچھنے والا شخص متعجب اور شرمندہ ہو کر گلی میں مڑ گیا ۔ کریم کا باپ اپنے بیٹے کے پاس آیا ۔ جھک کر پو چھا ۔ ’’ جاگ رہے ہو بیٹا ؟ ‘‘ ’’ جاگ رہا ہوں ابّا ، کوّے کا کیا حال ہے ؟ ‘‘ ’’ اچھا تھا میرے بچے ۔ تمہیں سلام کہتا تھا ۔ ‘‘ کریم نے ہنسنے کی کوشش کی ۔ ’’ تو میں خود اسے سلام کا جواب دوں گا ابّا ۔ اب ذرا بیل کھول دو ، باہر جانے کا وقت ہو گیا ! ‘‘ کسان ضبط نہ کر سکا ، بے اختیار رونے لگا ۔ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیوی کی طرف دیکھا جو ایک کونے میں بیٹھی اسے بے انتہا نفرت سے گھور رہی تھی ۔ اسے وہ دن یاد آ گئے ۔ جب بیلوں کے لئے ایک علیحدہ ملازم ہوتا تھا اور پھر جب کریم کی ماں چل بسی، تو ملازم کو نکال دیا گیا اور بیل کریم کے آگے لگا دیئے گئے، اسے اپنی ساری زندگی پر اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دینے لگا ۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ وقتی مسّرتوں کے سیلاب میں اس کی اوّلیں محبت اور خاندانی غیرت کا فولادی قلعہ جڑ سے اکھڑ کر بہہ گیا تھا ! وہ روزانہ صبح وشام کوّے کے لئے دانہ پانی لے جاتا اور پھر کریم کے پاس بیٹھا رہتا کوئی تیمار دار آتا اسے کہتا ۔ ’’ بلا ناغہ صبح حکیم جی آتے ہیں، دوا لگا جاتے ہیں ، لیکن کریم کی حالت گرتی جاتی ہے ۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ روزانہ کوئی اس کے زخموں کو چھیڑ دیتا ہے ۔ ‘‘ تیماردار کہتا ۔’’ کروٹ بدلنے سے کچے زخم چھل جاتے ہوں گے ۔ ‘‘ مگر اس کی تسلی نہ ہوتی ! کریم کی حالت روز بر وز ابتر ہوتی گئی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ کریم صبح کو بیہوش ہوا تو دوپہر تک اس کی آنکھیں نہ کھلیں ۔ اس کا باپ دیوانوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ بیٹھتا۔ بے مطلب بغیر کسی کام کے ۔ اس نے سر کو زانوؤں پر رکھا ۔ پیچھے دیوار سے سہارا لے کر بیٹھنا چاہا ۔ پاؤں پسار دیئے ۔گھٹنے سیکڑ لئے ، لیکن اس کے اندر کا غم اندوہ اور پشیمانیوں کا دوزخ دہک رہا تھا ۔ اسے ایک لمحہ بھی سکوں میسّر نہ آ سکا ، اور اس کی بیوی مکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر انگریزی صابن سے ہاتھ منہ اور پاؤں دھوتی رہی ۔ دوپہر کو کریم نے آنکھیں کھولیں ۔ حکیم جی پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے پکار کر کہا ۔ ’’ ملک جی بچہ ہوش میں آ گیا ۔ کریم کا باپ دوڑا آیا، کریم کی پیشانی کو اس نے اتنی محبت سے چوما کہ آس پاس کھڑی عورتوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ اس نے پوچھا ۔ ’’ کریم بیٹا، کیا حال ہے اب ؟ طبیعت کیسی ہے ۔ درد کہاں ہے ؟ جواب ملا ۔ ’’ ایڑی میں ابّا ، ایڑی میں درد ہے ۔ ایک لمبا سا کانٹا چبھ گیا وہاں ۔ ‘‘ آئینہ دیکھتی ہوئی سوتیلی ماں کانپ اٹھی ۔ کریم کا باپ بولا ۔ ’’ بیٹا کل تمہارا کوّا پر تول رہا تھا ، مجھے ڈر ہے وہ اُڑ نہ جائے ۔ ‘‘ کریم بولا ۔ ’’ تو ابّا ! آج آخری بار اسے دانے ضرور ڈال آؤ ۔ ‘‘ حکیم جی نے کہا ۔ ’’ اب بچے کی حالت اچھی ہے ۔ ‘‘ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ کریم کے باپ نے اپنی بیوی کو کریم کی دیکھ بھال کی تاکید کی اور مٹھی میں دانے دبائے کوّے کے گھو نسلے کی طرف بھاگا ۔ وہ گلیوں میں بگولے کی طرح اڑا جا رہا تھا ۔ چرا گاہ میں اس کے پاؤں ہوا میں تھرکتے ہوئے معلوم ہوتے تھے ۔ سورج آسمان کے سینے میں دہک رہا تھا ۔ ڈھیروں پر بھیڑیں، بکریاں اور بیل گردنیں جھکائے چر رہے تھے ۔۔۔ ساری کائنات اونگھ رہی تھی! کریم کا باپ تیزی سے بڑے نیم پر چڑھا ۔ گھونسلے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ کّوا ’’ پُھر ررر ‘‘ کی آواز پیدا کرتا گھونسلے سے باہر نکلا اور چراگاہ پر اڑتا، کھیتوں پر سے تیرتا، ڈھیروں پر سے لپکتا ہوا لرزتے ہوئے افق میں غائب ہو گیا ۔ اس کے حواس معطل سے ہو گئے ۔ وہ ٹہنیوں سے لٹک کر نیچے آ رہا ۔ پوری قوت سے گھر کی طرف بھاگا اور دروازے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔’’ بیٹا کریم وہ کّوا تو اڑ گیا!‘‘ کریم کے لبوں پر ہنسی کھیل رہی تھی جیسے وہ اپنے باپ کے جنون کا مضحکہ اُڑا رہا ہے! حکیم جی آئے۔ انہوں نے کریم کی نبضیں ٹٹول کر کہا۔’’ آج اس کے زخموں کو کسی نے بہت سختی سے چھیلا ہے، اسی لئے جانبر نہ ہو سکا۔ آپ کے گھر میں کون تھا ملک جی؟‘‘ نئی بیوی کے ہاتھ سے لقمہ گر کر پانی کے برتن میں جا گرا۔ کریم کا باپ کپڑے پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا۔’’ لوگو !میرے میرے بچے کی ایڑی میں کانٹا چبھ گیا ہے، اسے نکالو۔ نیم کے درخت میں ایک کوّا رہتا تھا۔ وہ آج پربت سے پرے اڑ گیا ۔ اس کو پکر لاؤ۔ میری بیوی نے میرے بچے کے زخم چھیل دیئے ان پر پھاہا رکھو ۔۔۔۔ لوگو ۔۔۔ لوگو! تم میرا منہ کیا تک رہے ہو! ‘‘
سبق

سبق

 






کپڑے دھوتے دھوتے شبانہ اختر کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے دل کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے درخت کے ساتھ اُگی ہوئی مضبوط شاخ کو توڑ کر الگ کرنا چاہتا ہو۔ سیدھے ہاتھ میں صابن پکڑے، فرش پر رکھے کپڑے کو وہ مل مل کر دھو رہی تھی۔ اس کا ہلتا ہوا بدن رک گیا، الٹے ہاتھ کو سینے پہ رکھ کے اس نے دل کی کیفیت محسوس کرنا چاہی… اندر کچھ قلابازیاں سی محسوس ہو رہی تھیں۔کل رات سوتے میں بھی اسے یوں لگا تھا جیسے کسی نے اس کے دل کو پکڑ کر زور سے کھینچا ہو۔ وہ گھبرا کر جاگی اور بیٹھ گئی۔اندھیرے میں بستر پر بیٹھی وہ آنکھیں جھپک جھپک کر اس کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ شاید کچھ اور بھی ہو۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ آنکھوں میں نیند کا خمار جوں کا توں تھا۔ وہ پھر سو گئی۔ معمول کے مطابق صبح اٹھی۔ وہ گھر کا سارا کام خود کرتی تھی۔ کچن اس نے کبھی کسی کے حوالے نہیں کیا تھا۔ شوہر کو ناشتا دیا۔ اسے آج گوجرانوالہ اپنی دکانوں کا کرایہ وصول کرنے جانا تھا، وہ چلا گیا۔ چھوٹی بیٹی ناشتا کرکے اپنے کلینک میں چلی گئی تھی۔ گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے کا دروازہ گلی میں کھول کے والدین نے اسے ایک ہومیوپیتھک کلینک کھول دیا تھا۔ پہلے اسے باقاعدہ 3 سالہ کورس بھی کروایا تھا۔ اس سے بڑی 3 لڑکیاں بیاہ دی گئی تھیں اور اکلوتا بیٹا لاٹری کے ذریعے کینیڈا چلا گیا تھا۔ چھوٹی بیٹی طلعت کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ لحیم و شحیم شوہر نے پہلےہفتے ہی اسے ہمیشہ کے لیے گھر بھیج دیا تھا۔ یہ دکھ شبانہ کے کلیجے کو لگ گیا تھا۔ اگرچہ باپ نے ہمت بندھاکے ایک اچھے کام پر لگا دیا تھا جہاں وہ غریبوں کا علاج مفت کرتی تھی۔جب دل کی کھچاوٹ اور گھبراہٹ بڑھتی ہی گئی تو شبانہ کپڑے چھوڑ کر ننگے پیر ننگے سر باہر آگئی۔ طلعت کو آوازیں دیں۔ اس وقت کلینک میں کوئی مریض نہیں تھا۔ وہ دوڑی آئی، زرد ہوتی ماں کو دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے امی؟ میرا دل ڈوبتا جا رہا ہے۔ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے؟ کوئی دوائی لائوں…؟ اس نے ماں کی نبض پکڑلی۔ نہیں… جلدی سے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔ تمہارے ابو تو ابھی کہیں راستہ میں ہوں گے۔ امی آپ کپڑے بدل لیں۔ آپ کے سارے کپڑے گیلے ہو رہے ہیں۔ میں باہر نکل کر رکشہ پکڑتی ہوں۔ اتفاق سے ایک خالی رکشہ سامنے نظر آیا۔ اس نے رُکنے کا اشارہ کیا، ماں کو بٹھایا اور محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہا ۔ان کو شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ فوراً کسی ہسپتال لے جائیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب ان کی توحالت غیرہو رہی ہے۔ وقتی طور پر کوئی دوائی تو دیں تاکہ یہ ہسپتال تک جانے کے قابل ہوسکیں۔‘‘ طلعت نے کہا۔نہیں نہیں… ڈاکٹر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وقت ضائع نہ کریں، فوراً جائیں، جلدی لے جائیں، جلدی جلدی… ڈاکٹر یوں گھبرا کر پیچھے ہٹا کہ طلعت کو سخت غصہ آیا حالانکہ وہ فیس اور دوائیوں کے پیسے ساتھ لے کر چلی تھی۔ مگر ڈاکٹر نے تو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ کیا۔ رکشہ ابھی باہر کھڑا تھا۔ گرتی پڑتی ماں کو اس نے رکشے میں بٹھایا اور رکشے والے سے کہا ،پبلک ہسپتال میں لے چلو۔ماں کو اپنے کاندھے سے لگا کر اس نے اس کی کمر میں بازو ڈال دیا تھا کہ رکشے کے جھٹکے اسے تکلیف نہ دیں۔ پھر بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اس کی نبض چیک کرتی جس کا سِرا نہیں مل رہا تھا۔ اپنے پہلو کے ساتھ لگا کر اس کی دھڑکنیں شمار کرنے کی کوشش کرتی۔ رکشے کے بے ہنگم شور میں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اگر ڈاکٹر وقتی طور پر کوئی دوائی دے دیتا تو کیاہرج تھا۔ ماں بے سدھ ہوئی جاتی تھی۔ راستہ بھی کافی لمبا تھا۔ پبلک ہسپتال آگیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے رکشہ والے سے کہا،وہاں سامنے جہاں ایمرجنسی لکھا ہے، لے چلو۔ باہر ہسپتال کے کچھ ملازم کھڑے تھے۔ اس نے رکشے سے اُتر کر ان سے کہا کہ سٹریچر لے آئیں۔ وہ دوڑ کر سٹریچر لے آئے جو باہر ہی پڑا ہوا تھا۔ اس نے رکشے والے کو پیسے دیے اور کراہتی ہوئی ماں کو ان لوگوں کی مدد سے سٹریچر پر لٹا دیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا اور پوچھا کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔ اتنے میں یونیفارم میں ملبوس ایک آیا قسم کی عورت بھی آگئی۔ اس نے دیکھا عورت مریضہ ہے تو باقاعدہ سٹریچر کو چلا کر ان کے ساتھ اندر آگئی۔ پھر اس نے طلعت کو بتایا کہ سیڑھیاں چڑھ کر ڈاکٹر قدیر کا دفتر ہے جو ایمرجنسی وارڈمیں ۲۴؍ گھنٹے رہتے ہیں۔ ان کے پاس جائیں، ان سے چِٹ لائیں یا ان کو ساتھ لے کر آئیں۔ پھر وہ جہاں کہیں گے وہ مریضہ کو لے جائیں گے۔ طلعت گھبرا گئی،میں اوپر جائوں گی میری ماں یہاں اکیلی پڑی رہے گی۔ ہائے بی بی آپا نے آگے آ کر کہا ، ہم کس مرض کی دوا ہیں؟ ہمارا یہی کام ہے مریضوں کے پاس کھڑے ہونا، ان کی حفاظت کرنا، آپ دوڑ کر جائیں، دیر نہ کریں۔ طلعت اپنی ماں کو ان کے پاس چھوڑ کر اوپر چڑھ گئی۔ ڈاکٹر صاحب دفتر میں موجود نہ تھے، وارڈ کا رائونڈ لینے گئے تھے۔ ان کو ڈھونڈھ کر بتانے اور لانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نیچے آْئے، جلدی جلدی مریض کو دیکھا مگر مریضہ تو رکشے سے اترنے کے بعد ہی اپنی منزل پر روانہ ہوگئی تھی، پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے اسے اچھی طرح دیکھا۔ نرس سارے آلے وہیں اٹھا لائی تھی۔ ساری کوششوں کے بعد ڈاکٹر نے ہمدردی سے طلعت کی طرف دیکھا اور کہا ’’آئی ایم سوری…‘‘ تو طلعت کی چیخیں نکل گئیں… ماں … ماں… یہ تو نے کیا کیا… ڈاکٹر کا انتظار بھی نہ کیا۔ طلعت کا ردِعمل قدرتی تھا۔ ڈاکٹر نے نرس سے کہا،جب ذرا سکون میں آئیں تو انہیں دفتر میں لے آئیں۔ ضروری کارروائی کرکے انہیں کاغذات دے دیے جائیں گے۔ تھوڑی دیر چیخ چلا کر طلعت نے پرس میں سے اپنا موبائل نکالا تاکہ باپ کو اطلاع دے۔ مگر ان کا نمبر ابھی تک بند مل رہا تھا۔ نرس اسے ساتھ لے گئی۔ کاغذات بنا کر دیے اور ایمبولینس پر میت لے جانے کی اجازت بھی لکھ کر دے دی۔ روتی ہوئی طلعت ماں کی لاش کے پاس آگئی۔ اس وقت ہسپتال کا ایک ملازم خود سٹریچر کے پاس آگیا۔ طلعت نے پوچھا ’’ایمبولینس کہاں سے ملے گی؟ اس آدمی نے جس کا نام سراج دین تھا،باہر نکل کر دفتر کا راستہ بتایا کہ پرمٹ وہاں دکھادیں ،ایمبولینس آپ کے ساتھ ہی آجائے گی۔ مگر میری امی یہاں اکیلی پڑی رہیں گی؟ اس نے روتے ہوئے کہا۔ہائے بی بی جی… ہم کس مرض کی دوا ہیں۔ آیانے پھر اسی انداز میں کہا۔ ہم یہاں آپ کی خدمت کے لیے کھڑے ہیں جی… آپ جائیں، جلدی جلدی جانے کا بندوبست کریں۔ جب وہ ایمبولینس کے دفتر کی طرف جا رہی تھی۔ اس کے والد کا فون آگیا۔ وہ ابھی گوجرانوالہ پہنچے ہی تھے۔ اس نے رو رو کر ساری بپتا اپنے والد کو سنائی۔ اس نے کہا ،وہ ابھی اسی بس سے واپس آرہا ہے۔ اس کے آنے تک حوصلے سے سارے کام کرے۔ طلعت کے جاتے ہیں آپا حنیفاں بیگم نے لاش کے اوپر پڑی ہوئی چادر اس طرح ہٹائی کہ اس کے چہرے اور کلائیوں کا جائزہ لے لیا۔ پھر کوئی بات سرگوشی کے انداز میں سراج دین کے کان میں کہی۔ سراج دین باہر نکل کر ایمبولینس کے دفتر کی جانب منہ کرکے کھڑا ہوگیا۔ حنیفاں بیگم نے بڑی مہارت سے لاش کی کلائیوں میں پہنی ہوئی سونے کی 12 چوڑیاں اور دونوں انگوٹھیاں اُتار لیں۔ کانوں کے ٹاپس رہنے دیے کہ ان پر کسی وقت بھی نظر جا سکتی تھی۔ ابھی سراج دین کی طرف سے ایمبولینس روانہ ہونے کا سگنل نہیں ملا تھا۔ اس لیے وہ جلدی سے نزدیکی غسل خانے میں گھس گئی۔ 12 چوڑیاں اور دونوں انگوٹھیاں اس نے ازاربند کے ساتھ باندھ لیں اور شلوار کے اندر بنائی گئی ایک جیب میں ڈال کے اطمینان سے باہر آگئی۔ طلعت کے والد نے کئی عزیزوں کو اطلاع دے دی تھی۔ اس لیے ایمبولینس میں بیٹھی طلعت ٹیلی فون وصول کرتی اور روتی رہی۔ سراج دین اور حنیفاں نے بڑی ہمدردی اور خلوص کے ساتھ ایمبولینس میں میت لٹانے کی کارروائی کی بلکہ حنیفاں تو طلعت کے گلے لگ کر روئی اور اسے تسلیاں بھی دیں۔ موت کی خبر پھیلتے ہی گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا۔ محلے میں جس نے بھی سنا، چلا آیا۔ جب بیٹیاں آگئیں تو نہلانے اور کفنانے کا مرحلہ شروع ہوا۔ ماں کے بدن پر پانی ڈالتی بڑی بیٹی رفاقت چونک گئی۔ طلعت کو بلایا اور کہنے لگی ’’امی تو ہمیشہ 12 چوڑیاں اور ہاتھوں میں 2 انگوٹھیاں پہنے رکھتی تھیں… کہاں ہیں وہ…؟‘‘ ہاں…‘‘ طلعت نے حواس باختہ ہوتے ہوئے ان کے کانوں کی طرف دیکھا۔ یہ 2 ٹاپس ہیں۔ رفاقت نے اسے دکھائے۔ ابھی نہانے والی نے ان کے کانوں سے اتار کر دیے تو مجھے چوڑیوں اور انگوٹھیوں کا خیال آیا۔ ہاں آپا جب میں انہیں رکشے میں ڈال کر لے گئی تھی۔ کئی بار ان کی نبض دیکھی تھی اور ہر بار چوڑیاں ہٹا کر ہی دیکھی تھی۔ اس وقت انگوٹھیاں ان کے ہاتھوں میں تھیں… اور جب ایمبولینس میں لا رہی تھی، اُس وقت دیکھی تھیں…؟؟ ’’سچی بات ہے آپا ،مجھے کہاں ہوش تھا…‘‘ طلعت پھر زور زور سے رونے لگی۔ میں اکیلی تھی، کوئی بڑا بھی پاس نہیں تھا ،بھاگتی اِدھر جاتی، بھاگتی اُدھر جاتی۔ اس پر فون بھی آنے لگے تھے۔‘‘ ’’اور کون تھا میت کے پاس…‘‘ ’’ہاں… ہاں…‘‘ اس نے دوپٹے سے آنکھیں صاف کیں۔ ’’ہسپتال کی ایک آیا تھی جو وہاں صفائی کاکام کرتی ہے اور ایک مددگار تھا۔‘‘ طلعت نے ساری تفصیل بہن کو بتائی۔ مزید باتیں کرنے کا وقت نہیں تھا، اس مرحلے میں ہر کام کا وقت متعین ہوتا ہے مگر یہ ذرا سی تشویش بھری کھسر پھسر سارے گھر میں پھیل گئی۔ ’’ہائے ہائے ہسپتال میں کسی نے میت کی چوڑیاں اتارلیں… توبہ توبہ… استغفراللہ…‘‘ سوئم کے بعد دونوں بہنیں رفاقت اور طلعت ہسپتال چلی گئیں، اسی طرح رکشے میں بیٹھ کر۔ سامنے دو تین ملازم کھڑے تھے۔ طلعت بہن کو لے کر اس طرف بڑھی۔ سب کو غور سے دیکھا۔ ان میں سراج دین کو پہچان گئی۔ ’’آپ کو معلوم ہے پرسوں میں اپنی امی جان کو لے کر آئی تھی اور وہ یہاں آتے ہی فوت ہو گئی تھیں۔‘‘ ’’بی بی جی! یہاں روزانہ سیکڑوں مریض آتے ہیں۔ کچھ فوت بھی ہو جاتے ہیں۔ اب ہم کس کس کو یاد رکھیں۔‘‘ ’’بھئی تمہارے ساتھ ایک عورت بھی کھڑی تھی یہاں۔ تم دونوں نے میری بڑی مدد کی تھی۔‘‘ ’’بی بی! ہمارا کام خدمت کرنا ہے۔ جو بھی آتا ہے ہم اس کی بڑھ کر خدمت کرتے ہیں۔‘‘ ’’بات کیا ہے بی بی؟‘‘ ایک نئے خدمت گار نے بڑھ کر پوچھا۔ ’’ہماری امی کی کلائیوں سے کسی نے سونے کی 12 چوڑیاں اور 2 انگوٹھیاں اُتار لی تھیں۔‘‘ ’’توبہ توبہ… اللہ معاف کرے۔ بی بی جی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ اگر ہسپتالوں میں ایسی حرکتیں ہونے لگیں تو خدا کا قہر نہ نازل ہوجائے۔‘‘ ’’مگر وہ عورت کہاں ہے؟‘‘ ’’کون سی عورت بی بی جی؟ یہ اردگرد ساری خدمت گار عورتیں پھر رہی ہیں۔ آگے بڑھ کر خود ہی پہچان لیں۔‘‘ پوچھنا… پھر قصہ دہرانا… پھر ایک جیسے ردعمل کا اظہار ہونا… ہائے وائے کے سوا کچھ نہ ملا۔ دونوں بہنیں ملال لیے گھر آگئیں۔ حنیفاں بیگم نے گھر جاتے ہی ایک ہفتے کی عرضی بھیج دی تھی کہ میری بیٹی شدید بیمار ہے اور میں کامونکی جا رہی ہوں۔ یہ عرضی لے جانے والا سراج دین تھا۔ حنیفاں کامونکی چلی گئی۔ اس کا داماد مقصود علی کسی سرکاری دفتر میں چپراسی تھا۔ اس کی شادی کو 3 سال ہوگئے تھے۔ اس نے جہیز میں موٹرسائیکل مانگی تھی۔ شادی کے وقت حنیفاں موٹرسائیکل نہیں دے سکی تھی مگر اس نے وعدہ کرلیا تھا کہ ایک سال کے بعد لے دے گی۔ اب ان کا ایک بچہ بھی ہوگیا۔ اس لیے اس کے داماد نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر موٹرسائیکل نہیں لے کر دینی تو اپنے بیٹی کو بچے سمیت لے جائو۔ کامونکی جا کر حنیفاں نے اپنے داماد کو بلایا اور چوڑیاں اس کے سامنے رکھ کر بولی ’’بیٹا! یہی میرا جینا مرنا ہے۔ ساری زندگی کی کمائی ہے جو میں نے بچا کر رکھی تھی، مگر یہ اپنی بیٹی اور داماد کی خوشیوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔ بیٹا! تم یہ چوڑیاں بیچ کرموٹرسائیکل لے لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ ’’اماں! تو کتنی چالاک ہے۔ تو نے شادی پر یہ چوڑیاں مجھے کیوں نہیں دیں؟‘‘ ’’اسی دن کے لیے رکھ چھوڑی تھیں۔ اب بھی تجھے نہیں، اپنے داماد کو دے رہی ہوں۔‘‘ اس نے بیٹی کے ہاتھ سے چوڑیاں چھین لیں جو بار بار پہن کر دیکھ رہی تھی اور داماد کی گود میں رکھ دیں۔ حنیفاں کے جانے کے بعد بیٹی اور داماد سوچ میں پڑ گئے۔ داماد تو سونے کی تازہ قیمت بھی پوچھ آیا تھا۔ چنانچہ طے ہوا کہ صرف ۴؍ چوڑیاں بیچ کر موٹرسائیکل خرید لی جائے اور باقی چوڑیاں کسی کڑے وقت کے لیے سنبھال کر رکھ لی جائیں۔ جس دن مقصود علی نئی موٹرسائیکل خرید کر لایا، تو بیوی نے منتیں کرکے باقی کی ۸؍ چوڑیاں کلائی میں کچھ روز پہننے کی اجازت مانگ لی۔ ؍ دن بعد حنیفاں واپس ہسپتال اپنی ڈیوٹی پر آگئی۔ فرصت ملتے ہی سراج دین اور حنیفاں ایک درخت کے سائے میں آ کر بیٹھ گئے۔ ’’کوئی آیا تھا؟‘‘ حنیفاں سے سرگوشی میں پوچھا۔ ’’ہاں تیسرے ہی دن 2 بیٹیاں آ گئی تھیں… تیرا پوچھ رہی تھیں۔‘‘ ’’پھر…؟‘‘ ’’ انہوں نے بڑا شور مچایا۔ اِک اِک سے پوچھا… ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بھی گئیں۔ ‘‘ ’’پھر…؟‘‘ ’’پھر کیا ہونا تھا، میں تو صاف مکر گیا کہ میں نے کبھی انہیں دیکھا ہو…‘‘ ’’میرا پوچھا تھا انہوں نے…؟‘‘ ’’ہاں جس کے ساتھ تو گلے لگ لگ کر رو رہی تھی، اُس نے بار بار پوچھا تھا۔‘‘ ’’تو نے کیا کہا؟‘‘ ’’میں نے کہا ،آپ کے اردگرد اتنی مائیاں گھوم پھر رہی ہیں،پہچان کر پوچھ لو۔ مجھے کیا پتا اُس دن کون آیا، کون گیا اور کون میرے ساتھ تھا۔‘‘ سراج اور حنیفاں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ ’’اچھا اب مستی مت کر، نکال میرا حصہ…‘‘ ’’سراج… سچ بات بتائوں۔ تجھے تو پتا ہے میں نے آزاربند کے ساتھ باندھ کر چوڑیاں لٹکالی تھیں مگر گرہ ذرا ڈھیلی لگی۔ جب میں جا رہی تھی تو مجھے پتا ہی نہیں چلا، ایک ایک کرکے چوڑیاں بس کے اندر ہی گر گئیں۔ وہ تو جب ایک مسافر نے ایک چوڑی اٹھا کر شور مچایا، تب مجھے پتا چلا۔‘‘ ’’تو بکواس کرتی ہے۔‘‘ سراج دین چلایا۔ ’’تیری نیت بدل گئی ہے، تو کمینی ہوگئی ہے۔ کم ذات، بے غیرت میں تجھے ابھی پکڑواتا ہوں۔‘‘ حنیفاں نے جیب سے 2 انگوٹھیاں نکا ل کر ہتھیلی پر رکھیں اور بولی ’’تو یہ لے لے… قسم سے یہی بچی ہیں۔‘‘ ’’میں تیرا گلا دبا دوں گا۔‘‘ ’’شور مچائے گا تو اپنا ہی کچھ بگاڑے گا۔ تو بھی اس واردات میں شامل تھا۔‘‘ ’’تیرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ میں تجھے ذلیل کروائوں گا۔‘‘ ’’سراج… اپنے آپ کو قابو میں رکھ… میں بھی ایم ایس کو بتا دوں گی۔ پچھلے ہفتے جو نوجوان حادثے میں گزر گیا تھا، تو نے ایمرجنسی وارڈ میں اس کی ڈھائی لاکھ کی گھڑی اسی وقت اُتار لی تھی۔ وہ لوگ گھڑی ڈھونڈتے رہے تھے… یاد ہے ان کا رونا دھونا…‘‘ ’’کمینی عورت! میں نے اس میں سے تجھے حصہ دیا تھا۔‘‘ ’’کتنا دیا تھا۔ صرف 5 ہزار روپے۔‘‘ ’’اور یہ چوڑیاں تو کئی لاکھ کی ہوں گی۔‘‘ ’’ہوں گی جن کے نصیبوں کی ہوں گی۔ میرے لیے تو ایک چوڑی بھی حرام ہے۔‘‘ ’’اللہ کرے تیرے کفن پر لگیں حنیفاں۔‘‘ سراج کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ ’’اوئے بے غیرت! مُردوں کے زیور اور گھڑیاں چرانے والوں کی بددعائیں نہیں لگتیں۔‘‘ حنیفاں زور زور سے ہنسنے لگی۔ ’’دیکھ سراج! ہم دونوں کا موجو لگا ہوا ہے۔ کبھی تو پلہ مار لیتا اور کبھی میرا دائو لگ جاتا ہے۔ غصہ نہ کھا۔ میں نے پتا کروایا ہے، یہ انگوٹھیاں 2 لاکھ کی ہیں۔ ایک لاکھ بھی تجھے مل جائے تو عیش کرے گا ورنہ…‘‘ ’’ورنہ…‘‘ سراج غصے سے پھنکارا۔ ’’ورنہ گندگی میں پتھر پھینکے گا تو چھینٹے تیرے اوپر بھی آئیں گے۔ دونوں کا انجام ایک جیسا ہوگا۔‘‘ حنیفاں سیڑھیوں پر پوچا لگاتی نیچے آ رہی تھی کہ اس کی جیب میں پڑا فون پھڑپھڑایا۔ اس نے ہاتھ روک کر فون نکالا، سنا اور چیختی ہوئی باہر کو بھاگی۔ ٹیکسی پکڑی اور کامونکی روانہ ہوگئی۔ روتی اور دعائیں مانگتی جاتی۔ فون پر اس کے داماد کے ایکسیڈنٹ کی خبر آئی تھی۔ تفصیل کوئی بتا نہیں رہا تھا۔ ان کے گھر پہنچی تو سارا محلہ جمع تھا۔ اسے فوراً جائے حادثہ پر لے جایا گیا،جو پولیس کے گھیرے میں تھا اور کارروائی نوٹ ہو رہی تھی۔ ایک ہفتہ قبل مقصود نے موٹرسائیکل خرید لی تھی۔8 دن باقاعدہ چلاتا رہا تھا۔ آج پہلی بار بیوی نے کہا تھا، ہمیں بھی سیر کرائو۔ وہ خود تیار ہوئی۔ اس نے سونے کی چوڑیاں پہنیں اور ایک سال کے بچے کو بھی تیار کیا۔ بیوی اور بچہ پیچھے بیٹھ گئے۔ آبادی سے ذرا باہر نکلے تو موٹرسائیکل ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔ بیوی اور بچہ موقع پر فوت ہوگئے۔ داماد کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں مگر پولیس ابھی تک اس بات کا سراغ نہیں لگا سکی تھی کہ پیچھے بیٹھی ہوئی عورت کی پوری کلائی کون کاٹ کر لے گیا تھا اور کیوں…؟ اُدھر پبلک ہسپتال کے پچھواڑے کوڑا کرکٹ چننے والوں کی جھگیوں کے آس پاس پھٹے پُرانے کپڑوں میں ایک عورت نظر آتی ہے، جس کے ہاتھ میں ایک گڑیا ہوتی ہے۔ ہمیشہ گڑیا کا ایک بازو ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ وہ عورت دیوانہ وار راہ گیروں ، موٹر والوں اور سائیکل والوں کے پاس جاتی اور کہتی ہے… ’’میری بیٹی کا بازو واپس دلا دو۔‘‘ ’’اللہ کے واسطے میری بیٹی کا بازو دے دو۔‘‘ ’’چوڑیاں رکھ لو، کلائی دے دو۔‘‘ میری اکلوتی بیٹی رو رہی ہے ،دیکھو۔‘‘ وہ گڑیا کو آگے کرتی ہے،روٹی نہیں کھا سکتی،بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ خدا کے لیے میری بیٹی کی مدد کرو۔ وہ ساری رات روتی رہتی ہے، مجھے سونے نہیں دیتی۔ بے چاری پاگل ہے… یہ کہتے ہوئے لوگ گزرتے ہیں اور وہ ہوائوں کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔
سویرے جو کل میری آنکھ کھلی

سویرے جو کل میری آنکھ کھلی



گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ “لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔”وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آبااجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ “اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!” آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسی بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں “قم” کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔

اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ “لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟”

جواب آیا۔ “ہوں۔”

میں نے کہا “آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟”

کہنے لگے “تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟”

تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ “کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔”

کہنے لگے۔ “تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔”

میں نے کہا۔ “ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقو”۔

دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔

اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔

شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمریمیں داخل ہوئے کہ

بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے

کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ “مسٹر”۔

ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا “یہ آپ گا رہے ہیں؟” (زور “آپ” پر)

میں نے کہا۔ “اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟” بولے “ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فورا مر گئی۔ دل نے کہا۔ “اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں “صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ “خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔”آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فورا اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اٹھنا تو لغویات ہیالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خ

رماد ہم ثواب


یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔

چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے لیے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟

ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ “لالہ جی!”

انہوں پتھر کھینچ مارا “یس!”

ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔”

جواب ندارد۔

میں نے پھر کہا “جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟”

چپ۔

“لالہ جی!”

کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ “سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔”

“ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔”

توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔

لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بنا پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اٹھتا۔ “لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فورا یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔”

لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ “تو میں آپ کو چھ بجے جگا

دیا کروں نا؟”


میں نے کہا۔ “ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بیشک۔”

شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے لیے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ لیے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔

صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو “گڈمارننگ” کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فورا ہی جاگ اٹھے۔ دل سے کہا کہ “دل بھیا، صبح اٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے”۔ دل نے کہا “اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں”۔ ہم نے کہا “سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بیخبر نیند کے مزے اڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ “بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔” ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ “خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلی قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت اللہ میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید 

کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ “مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟”

میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ “اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا”۔

بولے “وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔”

ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائیغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ “ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔”

لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔

جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ “ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب” ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!

تم جاگو موہن پیارے

خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت “سانوری صورت توری من کو بھائی” کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔نصیب یہ ہے کہ پہلے “مسٹر! مسٹر!” کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے الٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سرتال کی کس قدر گنجائش ہے!

موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے

جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں


Monday, July 12, 2021

 سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

وسط ایشیاء دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اس علاقے نے بڑے بڑے انقلابات دیکھے ہیں۔ انسانی تہذیبوں کو بنتے اور مٹتے دیکھا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔ تاریخی لحاظ سے اسے ترکستان کہا جاتا تھا اس میں چینی ترکستان ، روسی ترکستان اور افغانستان کے بعض علاقے بھی شامل تھے۔ اب بھی وسط ایشیاء کا رقبہ 40 لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ اس وقت ترکستان میں سویت دور کی بنائی ہوئی پانچ جمہورتیں ہیں جن میں قزاکستان ، کرغزستان، تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔ دریائے جیحوں کے پار کا علاقہ جسے ماورا نہر کہا جاتا ہے۔ کبھی تودان بھی کہلاتا تھا۔ ترک نسل منگولوں کے قریب ہے۔ عربوں کی فتوحات کے نتیجے میں یہ علاقہ دولت اسلام سے مالا مال ہوا۔ اسلام سے پہلے یہاں بدھ مت اور مجوسیت کا زور تھا۔ سب سے پہلے طاہریوں نے نیم آزاد حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ اسے صفاریوں نے ختم کرکے ایک وسیع آزاد سلطنت قائم کی۔ جسے سامانیوں نے ختم کرکے پورے وسط ایشیاء پر قبضہ کر لیا۔ سامانیوں کے بعد غزنوی اور ان کے بعد غوری برسراقتدار رہے اور پھر سلجوقیوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاڈ ڈالی۔ دولت خوارزم شاہیہ اسی دولت سلجوقیہ کی سرپرستی میں قائم ہوئی اور جب سلجوقیوں کے عروج کا ستارہ غروب ہو گیا۔ تو خوارزم شاہی سلطنت عالم اسلام میں ایک عظیم سلطنت کے طور پر ابھری چنگیز خان کی یلغار نے اس سلطنت کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا۔ لیکن اس سلطنت کا آخری حکمران جلال الدین خوارزم شاہ آج بھی وسط ایشیائی ریاستوں کا محبوب ہیرو ہے۔ اس کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے اس کے مجسمے بنا کر لگائے گئے ہیں اور سکوں پر اس کی تصویر ڈھالی گئی ہے۔ اگرچہ زیر نظر کتاب اسی جلال الدین منبکرنی کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس سے اس علاقے کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے امید ہے کہ یہ اساتذہ اور طلباء کے لیے بھی یکساں مفید ہو گی۔ یہ جتنے بھی خاندان برسر اقتدار آتے گئے ان کے سب کے دربار ایرانی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ان سب نے فارسی زبان کو ترقی دی۔ فارسی زبان کا باوا آدم رودکی سامانی دربار سے وابستہ تھا۔ محمود کے دربار میں فردوسی ، فرخی جیسے نامور شعراء تھے سلجوقیوں کے دور میں انوری جیسا قیصدہ گوتھا۔ خوارزم شاہیوں کے پاس رشیدالدین اور وطواط تھا۔ اس زمانے میں فارسی زبان کا احیا ہوا اور آج بھی پورے وسط ایشیاء اور چینی ترکستان میں سمجھی جاتی ہے۔ ترک حکمران صاحب سیف و قلم ہوتے تھے ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پورے عالم اسلام میں ترکوں کی حکومت تھی۔ جن میں مصر کے مملوک بھی شامل تھے جو دراصل ترک ہی تھے۔ برصغیر کے اکثر حکمران بھی ترک ہی تھے اور ان سب کا تعلق وسط ایشیاء سے تھا۔ ہمارے عالم اسلام کی عمارت پر اصل چھاپ وسط ایشیاء ہی کی ہے آپ کہیں بھی چلے جائیں تقریباً ایک جیسی ہی عمارات نظر آئیں گی۔ ان کے کاریگر ترک ہی ہوتے تھے ، حتیٰ کہ پاکستان میں جو مینار پاکستان اور فیصل مسجد بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں دونوں کے ڈیزائن بنانے والے ترک ہی تھے۔ خوارزم شاہیوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے چنگیز خان کی ٹڈی دل فوج کا مقابلے نہ کر سکی۔ لیکن اس وقت سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے وسط ایشیاء سے لے کر بغداد تک منگولوں کے ناک میں دم کئے رکھا اور اس بہادر انسان کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ یہ کتاب بھی وسط ایشیاء کے تعارف اور جلال الدین کے کارناموں پر مبنی ہے امید ہے کہ اس کے مطالعے سے وسط ایشیاء میں مختلف خاندانوں کے عروج و زوال پڑھنے میں مدد ملے گی اور ہمارے مذہب ثقافت سب پر وسط ایشیاء کا اثر ہے۔ منبکرنی۔ وسط ایشیائکا ایک ایسا ہیرو ہے جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نے اس وقت مغلوں کے سامنے ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ جب پورے عالم اسلام پر نزع کی حالت طاری تھی اس نے پورے 20 سال مغلوں کے علاوہ دوسرے حکمرانوں کا مقابلہ کیا اور کامیابی نے اس کے قدم چومے آج بھی اہل ازبکستان کیلئے وہ مثالی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کی کئی یادگاریں قائم کی گئی ہیں اور سکوں پر اس تصاویر بنائی گئی ہیں۔ یہ جب چنگیز خان کے نرغے میں آ گیا تو اس نے پہاڑ کی چوٹی سے گھوڑے کو دریائے سندھ میں ڈال دیا اور چھلانگ لگا کر دوسرے کنارے پہنچ کر چنگیز خان جیسے آدمی نے بھی حیرانی سے منہ میں انگلی ڈال لی اور اپنے بیٹوں کو اس کی بہادری اور جرات کا نمونہ قرار دے کر بتایا۔ وسط ایشیاء کی تاریخ مسلمانوں کے حملوں سے شروع ہوتی ہے اور یہ بدھ مت کا گڑھ دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیرو ہو گیا۔ عباسی حکومت کے مقابلے میں سامانیوں نے وسط ایشیاء میں پہلی آزاد حکومت کی بنیاد ڈالی اس سے پہلے طاہریوں اور پھر صغاریوں نے اس کی ابتداء کی لیکن یہ مقامی چھوٹے درجے کی حکومتیں تھی۔ ان کے بعد غزنویوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد ڈالی اور ان کے بعد سلجوقی اور خوارزم شاہی بھی ان ہی کے پرور دہ تھے۔ چونکہ ان سب حکومتوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ اس لئے ان کے حالات بھی درج کر دیئے گئے تاکہ قارئین کے سامنے وسط ایشیائکا پورا خاکہ ابھر کر سامنے آ جائے۔ اس کے بعد چنگیز خان کے عروج اور خوارزم شاہ کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ اس کے کارنامے ابھر کر سامنے آ جائیں۔ امید ہے کہ جلال الدین محمد عالم اسلام کا ایک ایسا سپاہی تھا جس نے چنگیز جیسوں کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا۔ جب اس پر چنگیز نے تمام راستے مسدود کر دیئے تو اس نے نہایت دلیری سے دریائے سندھ میں چٹان سے کود کر گھوڑے سمیت چھلانگ لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے دریا عبور کر گیا۔ اس کے بعد اس نے کوہستان نمک میں کافی عرصہ گزارا یہاں قیاح اور یلدوز سے جنگیں بھی ہوئیں اور وہ آخر کار ختم ہو گئے۔ ہمارے علاقے میں سلطان نے رائے شنکر کھوکھر کی بیٹی سے شادی کرکے کھوکھروں کو اپنا حمایتی بنایا۔ سلطان جتنا عرصہ بھی کوہستان نمک میں رہا دو قلعے اس کے نام سے مشہور ہیں ایک ائمہ میرا کے پاس قلعہ سمر قند کے اور دوسرا ضلع خوشاب میں تلاجھہ کے نام سے مشہور ہے۔ خوارزم شاہ عالم اسلام میں سب سے زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا تھا لیکن چنگیز کے سامنے اس کے والد کی بزدلی کی وجہ سے اسے بھی آرام نصیب نہ ہوا اور وہ ملک علیک منگولوں کو ناکوں چنے چبواتا رہا اور جب تک جیا اس نے ان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ وہ سلطان کو ہمیشہ شکست دینے میں ناکام رہے۔ وسط ایشیاء کی اصل تاریخ ترکوں کے اسلام قبول کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اس کا سہرا ترکوں کے روحانی پیشوا حضرت احمد یسوی کے سر ہے۔ جن کا اب تک نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ترکوں نے اسلام لانے کے بعد بڑی بڑی عظیم سلطنتیں قائم کیں۔ سب سے پہلی عربی اثر سے آزاد سلطنت دولت طاہریہ تھی اس کے بعد صفاریہ قائم ہوئی پھر سامانیوں نے ایک عظیم سلطنت کی داغ بیل ڈالی اور اس کا دارالحکومت بخارا تھا۔ ان کے بعد غزنوی آئے انہوں نے بھی وسط ایشیاء پر حکومت کی بعد میں غوری چھا گئے ان کے زوال کے بعد سلجوقی آئے اور پھر خوارزم شاہی حکومت قائم ہوئی جو سلجوقیوں کی ہی عنایت کردہ تھی۔ یہ کتاب وسط ایشیاء سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کیلئے معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ ہو گی اور یہ طلبا اور اساتذہ کیلئے یکساں مفید ہوگی۔ آخر میں احمد ریاض الہدی پروفیسر تاریخ سرگودھا یونیورسٹی کا بہ صمیم قلب سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے نایاب کتب فراہم کر کے میرے اس مشکل کام کو آسان بنایا۔ یہ عجیب بات ہے کہ وہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں کئی سال رہا۔ اس نے گرمیوں کیلئے کوہستان میں نمک تلاجھہ کا قلعہ بنوایا جو آج تک اس کی یاد کو تازہ کئے ہوئے۔ لیکن کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا اس کتاب کی تالیف کے سلسلہ میں اپنے فرزند احمد ریاض الہدیٰ ، پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی اور اپنی دختر فوزیہ بتول اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے خواتین کا یہ صمیم قلب سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے نایاب کتب مہیا کرکے میرے کام کو آسان بنایا۔ اسی سلسلہ میں جناب گل فراز کا بھی بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے چھاپنے کی ذمہ داری لے کر عوام تک پہنچانے میں میری مدد کی۔ محمد حیات








تجھے ڈھونڈا جگنوؤں کے قافلے میں

تجھے ڈھونڈا جگنوؤں کے قافلے میں

میں اپنی امی اس وقت کسی جلاد سے کم نہیں لگتی تھیں جب وہ گرمیوں کے موسم میں سامنے والوں کے ہاں لگے ہوئے نیم کے پیڑ کی ٹہنیاں منگوا کر اس کے پتے اور نمبولیاں سل بٹے پر پیستی تھیں اور ہم سب بچوں کو پکڑ کر زبردستی پلاتی تھیں ۔ تاکہ ہم گرمی دانوں اور پھوڑے پھنسیوں سے محفوظ رہیں ۔ اگر کوئی بچہ سیدھی طرح قابو میں نہیں آتا تھا تو نہایت ہی بےرحمی کے ساتھ اسے چارپائی پر اپنے گھٹنے کے نیچے دبا کر ایک ہاتھ سے اس کا منہ چیرتی تھیں اور دوسرے سے وہ نامعقول مکسچر اس کے حلق میں انڈیل دیتی تھیں ۔ اور حسب ضرورت ایک آدھ دھموکے سے بھی نواز دیتی تھیں ۔ بڑی بڑی شربتی آنکھوں والی گوری چٹی امی خود اپنے گھٹنوں تک لمبے بال ریٹھوں سے دھویا کرتی تھیں ۔ ایکبار ہم نے بھگو کر رکھے ہوئے ریٹھوں کے پانی کو انگلی سے ذرا سا چکھ لیا تو معلوم پڑا کہ یہ بھی بہت سخت کڑوا ہوتا ہے ۔ اپنے بال اور ہماری کھال کو صاف رکھنے کے لئے وہ اتنی کڑوی اشیاء کا استعمال پتہ نہیں کیوں کرتی تھیں ۔ شاید انہوں نے زندگی کی تلخیوں کو ہنسی خوشی پینا سیکھ لیا تھا اور اب ہمیں بھی اس کا عادی بنا رہی تھیں ۔ امی نے فرسٹ ڈیویژن میں میٹرک پاس کیا ہؤا تھا سائینس کے مضامین کے ساتھ ۔ مگر ابھی رزلٹ آیا بھی نہیں تھا اور عمر بھی سولہ سال ہونے میں دو چار ماہ باقی تھے کہ قسمت نے انہیں کراچی کی روشنیوں سے نکال کر سندھ کے ایک دور افتادہ و پسماندہ علاقے کے اندھیروں اور خاک و دھول میں لا پٹخا ۔ وجہ وہی روایتی سی کہ نانا ابا اچانک سخت بیمار پڑ گئے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تو انہوں نے حسب روایت اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیٹی میری زندگی میں " اپنے گھر " کی ہو جائے ۔ اور چند ہی دنوں کے اندر رشتہ تلاش کر کے امی کو گھر بدر کر دیا گیا ۔ اب یہ اور بات کہ امی کو رخصت کرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر نانا کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی اور وہ مکمل صحتیاب ہو گئے ۔ وہ ٹیلر ماسٹر تھے شیروانی کے ایکسپرٹ ۔ انہوں نے اپنا کام دوبارہ شروع کیا پھر بارہ سال کے بعد اچانک انہیں کینسر کی تھرڈ اسٹیج تشخیص ہوئی اور مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ مگر جب تک جئے انہیں اس بات کا افسوس رہا کہ انہوں نے بیٹی کی شادی کا فیصلہ بہت جلد بازی میں کیا ۔ ذرا سا صبر کر لیتے تو کوئی مناسب رشتہ کراچی میں بھی دستیاب ہو سکتا تھا مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ۔ جس طرح آدمی کی موت جس جگہ بھی لکھی ہوتی ہے وہ کسی بھی طرح وہاں پہنچ جاتا ہے اسی طرح ایک لڑکی کا بھی اگلا پڑاؤ جہاں لکھا ہوتا ہے وہ بیاہ کر وہاں پہنچ جاتی ہے سب مقدر کا کھیل ہے جس سے مفر ممکن نہیں ۔ امی نے باوجود کم عمری اور ناتجربےکاری کے ایک دیہاتی ماحول میں نامساعد حالات اور زندگی میں در آنے والے نت نئے چیلنجوں کا بہت ہمت صبر اور سمجھداری سے مقابلہ کیا ۔ مقامی ماحول میں ڈھلنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا تعلیمی تشخص بھی برقرار رکھا ۔ انہوں نے ہم سب بچوں کی اچھی تربیت اور پرورش کی سخت محنت و مشقت آمیز معمولات زندگی سے نبرد آزما ہونے کے بعد وہ ہمیں پڑھانے اور ہوم ورک کرانے کا وقت بھی نکال ہی لیتی تھیں ۔ ہمیں بھی کسی قابل بنانے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے اگرچہ خود ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہؤا تھا ۔ نانا نے تو امی بےچاری کے ساتھ جو کیا سو کیا دادا نے بھی کچھ کم نہیں کیا ۔ مقامی گرلز پرائمری اسکول میں ایک ٹیچر کی اسامی خالی تھی اور وہ کسی طرح دستیاب ہو کے نہیں دے رہی تھی ۔ علاقے کے چند سرکردہ معززین دادا کے پاس آئے اور کہا کہ اپنی بہو کو اسکول میں استانی لگوانے کی اجازت دے دیں وہاں بہت سخت ضرورت ہے ۔ مگر دادا نے صاف انکار کر دیا کہ ہمارے ہاں بہو بیٹیوں سے نوکری نہیں کرواتے ۔ حالانکہ ہماری پھوپھیوں نے اسی اسکول سے پڑھا تھا مگر دادا کو امی کا وہاں پڑھانا پسند نہیں تھا حالانکہ وہ خود پڑھے لکھے تھے پوسٹ ماسٹر تھے مگر ڈکٹیٹر بن گئے ۔ بےچاری امی اپنا دل مسوس کے رہ گئیں جبکہ دادی نے انہیں دوسرے بیٹے کی شادی سے پہلے الگ کر دیا تھا اور اس وقت وہ صرف ایک ہی بچے کی ماں تھیں ۔ ابو کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا مگر باوجود محنتی اور کماؤ ہونے کے انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ کسی بھی معاملے میں اپنی مرضی کر سکیں جبکہ امی اتنی باصلاحیت تھیں کہ گھر اور ملازمت کو مینیج کر لیتیں ۔ انہیں آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ پرائیویٹ پڑھائی شروع کرنا چاہتی تھیں اس کی بھی اجازت نہیں ملی تو وہ محلے کے بچوں کو قراٰن پڑھانے لگیں اور کئی بچوں کو ٹیوشن بھی دی بلا معاوضہ ۔ اور ساتھ ہی ساتھ جانے کیسے انہوں نے دنیا جہان کے ہنر سیکھ لئے کھانے پکانے کے علاوہ ہر قسم کی مردانہ و زنانہ سلائی کڑھائی بُنائی کرسی چارپائی ٹوکریوں چنگیریوں کی بُنت کروشیا اور رِلیوں کا کام سب کچھ انہوں نے اتنا زیادہ کیا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے ۔ آج بھی گھر میں ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔ امی مذہبی رجحان کی بھی حامل تھیں نذر و نیاز کی بھی قائل تھیں کئی بار انہوں نے گیارھویں بارہویں اور محرم کی نیاز کی دیگ خود گھر کے صحن میں اینٹوں کا چولھا بنا کے پکائی ۔ ان کے ہاتھ کی ایک اسپیشل ڈش آج بھی ہمیں بہت یاد آتی ہے اور وہ ذائقہ کبھی ہمیں دوبارہ نہیں ملا ۔ بچی ہوئی روٹی کو وہ دھوپ میں رکھ کر سُکھا لیتی تھیں پھر کبھی آلو گوشت کے بچے ہوئے سالن یا بچی ہوئی دال کو نئے سرے سے پیاز ٹماٹر ہری مرچوں کے مصالحے کا بگھار لگا کر سوکھی ہوئی روٹی کو موٹا موٹا کوٹ کر اور پانی میں بھگو کر وہ اس نئے شوربے میں ڈال دیتی تھیں اور اس کاوش کا نام " سُتھریاں " ہؤا کرتا تھا اپنے بچپن میں ہم سب بہن بھائی اسے خوب مزے لے کر کھایا کرتے تھے ۔ پھر ذرا بڑے ہوئے تو پیار سے اسے شاہی ٹکڑے کہنے لگے ذرا اور بڑے ہوئے کمانے لگے تو اس ڈش کو ڈِس مِس کرا دیا کہ یہ غربت کے دور کی نشانی ہے اب اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ بچی ہوئی سوکھی روٹیوں پر بھوسی ٹکڑے والے کا زیادہ حق ہے اور یہ ضائع نہیں جاتیں مال مویشیوں کی خوراک میں استعمال ہوتی ہیں ۔ ویسے عورت کی حد سے زیادہ کفایت شعاری اور سلیقہ مندی بھی کسی کام کی نہیں ہوتی امی بہت سی دالیں اور اناج ثابت خرید کر انہیں چکی والے گھروں جا کر خود دلتی تھیں دھنیا لال مرچیں اور ہلدی بھی گھر میں پیستی تھیں اور غضب تو یہ کہ انہوں نے ڈلی والا نمک اوکھلی میں پیس پیس کر خود کو بلڈ پریشر کرا لیا پھر کچھ حالات کے سرد و گرم سہہ سہہ کے کچھ چڑچڑی بھی ہو گئی تھیں تو ظاہر ہے کہ ہائپر بھی رہتی تھیں ۔ یہ سب ہمارے بچپن کی باتیں ہیں ذرا ہوش سنبھالنے پر امی کے یہ سب بےفالتو کے کام بند کرائے کہ پورے خاندان برادری میں یہ سب کوئی بھی نہیں کرتا تو کیا وہ بھوکے مر رہے ہیں؟ پھر ہمارے اچھے دن بھی آ گئے تو ایک روز امی اچانک فنا کی وادیوں میں کھو گئیں ان کی یاد کبھی بہت ستاتی ہے تو آنسو آنکھ سے نہیں دل سے ٹپکتے ہیں یہ آخری سطریں سپرد تحریر کرنا دشوار ہو گیا ہے سامنے سکرین بار بار دھندلا رہی ہے ۔ تجھے اے ماں! لاؤں کہاں سے؟ پتہ پوچھا تیرا تاروں کے کارواں سے ***
میرے دوست کی بربادی کی داستان

میرے دوست کی بربادی کی داستان

یہ کچھ دن پہلے کی بات ھے میں بر دبئی وقاص ھوٹل پر کھانا کھانے کے لیے رکھا میرے سامنے والی میز پر ایک سفید دھاڑی والا شخص سامنے کھانا رکھے خود کلامی میں ایسے مصروف تھا جیسے وہ سامنے بیَٹھے کسی دوسرے شخص سے مخاطب ہو اور بہت سے لوگ اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے میں بھی اس کی طرف دیکھنے لگا تو مجھے ایک دفعہ حیرت کا جھٹکا سا لگا کہ جیسے یہ چہرہ تو کوئی جانا پہچانا لگتا ہے میں نے کافی ذھن پر ذور ڈالا تو مجھے یاد آیا کے ۲۰۰۴ میں کراچی میں جس کے ھوٹل سے میں اکثر شام کا کھانا کھایا کرتا تھا اور دیر تک ان سے غالب سمیت تمام شعرا کے اچھے اچھے شعر سنا کرتا تھا جی ھاں یے گلشن اقبال کی مدینہ کالونی کے ھوٹل کے مالک شریف بھائی ہی تھے اب میں اپنے اس دوست کو دیکھ کر کافی پریشان ھوا کے کہ میں اس کو آواز کیسے دوں اگر یہ شریف بھائی نہ ھوا تو کیا ھو گا خیر اسی کشمکش میں میرے منہ سے شریف نکل گیا اور وہ میری طرف متوجہ ھو گیا میرا حیال حقیقت میں بدل گیا میں اٹھ کر اس کی میز پر جا بھیٹا اور رسمی سلام دعا کہ بعد میں نے پرانی بے تکلفی کی بنیاد پر سیدھا پوچھ لیا کہ شریف بھائی آپ کب سے ادھر ہیں وہ بولے محبوب چھوڑ مت پوچھ میں نے کہا چھوڑوں گا میں نہیں بتانا آپ کو پڑے گا خیر کافی تک و دو کے بعد صرف اتنا بو لے سالی بنک والی اب میں اور پریشان ہو گیا یہ بنک والی کون ہے اور شریف بھائی تھے کہ کوئی سرا ھاتھ آنے نہیں دے رہے تھے کہ میں کسی نتیجہ پر پہنچوں کہ اتنا خوشحال شخص آخر اس حال میں پہنچا کیسے ; میں نے پوچھا ھوٹل کا بنا بولے کھا گئی وہ بھئ بنک والی اور وہ بلڈنگ جس میں نیچے ھوٹل تھا اور اوپر کے ۲ فلور پر کرایہ دار رھتے تھے اور تیسرے پر آپکی فیملی رہتی تھی اسکا کیا بنا بولے یار محبوب بلڈنگ ادھر ہی ہے پر مالکن اب بنک والی ہے میں نے بھی دو تین سنائی اور پوچھا کہ یہ سالی بنک والی آخر ہے کون جواب میں شریف بھائی نے ایک لمبی سانس لی اور ایک لمبی سی غزل سنا ڈالی جو مجھے یاد تو نہ رہی پر میں اپنی اس تحریر کو تھورا سا شاعرانہ ٹچ رے رھا ھوں جس سے کا فی حد تک شریف بھائی کی سنائی گی غذل سے مماثلت ہے پنے دل کےبینک میں کھول دے اکاونٹ میرا ;; سیونگ نہ سہی کرنٹ ھی کھول دے میرا ہم بھی مالدار ھو جائیں گئے اگر تو کھول دے کھاتہ میرا تھوڑا سا اگر لون دے دے مجھ کو بے شک قرقی کر لے جائیداد میری ضبط کر لے مکان میرا ایک ایک پائی کا حساب چکا دوں گا تیبرا اگر ن بن سکا کچھ تو نکال لینا دل میرا انجم یہ بینک والے چوس لیں گئے خون کے ساتھ شباب تیرا اتنے میں ھمارا کھانا آگیا ہم کھانے میں مصروف ھو گئے کھانے کے بعد میں نے شریف بھائی کو ساتھ لیا اور سمندر کے کنارے بنچوں پر جا بیٹھے اب میں نے اپنی فل توانائی صرف کرنا شروع کر دی کے کسی طرح شریف بھائی سے یہ اگلوا لوں ان کے ساتھ آ خر ہوا کیا وہ تنگ آ کر بولے تم ضد کرتے ھو تو سنو پھر پر میری داسان سننے کے بعد تم مجھے منہ نہیں لگاو گیے بہت سارے دوستوں کی طرح میرا تجسس اور بڑھ گیا کے آخر کیا ایسا ہے جس کو سننے کے بعد سب اس قابل رحم شخص کو چھوڑ ریتے ہیں خیر اللہ اللہ کر کے اس نے زبان کھولی آگیے سنیے شریف کی ذبانی ---- اللہ کا دیا ھوا میرے پاس سب کچھ تھا گاڑی مکان کاروبار سب سے بڑھ کر نیک پارسا صوم و صلوة کی پابند محبت کرنے والی بیوی اور تین خوب صورت بچے میں شروع ھی سے بینک اکاونٹ کھولنے اور بینک سے کسی قسم کا لین دین کرنے کو حرام سمجھتا تھا اور اپنی سیونگ کے لیے ہرمہنے باقاعدگی سے کمیٹی ڈالتا رہتاتھا جب کمیٹی نکلتی اگر کہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی خرچ کر لیتا ورنہ مزید بڑ ی کمیٹی ڈال دیتا پہلے تو میں دوسرے لوگوں کے پاس کمیٹی ڈالتا تھاپھر میں نے دوستوں کے اصرار پر ایک بیس لاکھ مالیت کی بڑی کمیٹی خود شروع کر دی جیسا کہ آپ کو معلوم ہے جو کمیٹئ ڈالتا ہے پہلی کمیٹی اسی کی ہوتی ہے جس دن میری کمیٹئ اگٹھی ہوئی تو اگھٹی بیس لاکھ کی رقم کو میں نے قیش بکس میں رکھ دی اور ساتھ ہی گاڑیوں کے شو روم نیے ماڈل کی کار دیکھنے چلا گیا میرا ہروگرام گاڑی لینے کا تھا کیوں پرانی کار پرانے ماڈل کی ھونے کی وجہ سے آے روز مکینک کے ہاں کھڑی رہتی تھئ مجھے شورام میں کافی دیر ھو گی جب ہوٹل واپس پہنچا تو رات کا ایک بج رہا تھا میرے ملازم ہوٹل لاک کر کہ سو چکے تھے میں نے ان کو جاگانا مناسب نہ سمجھا اور سیڑھیوں چڑھ کر اپنے اپارٹمنٹ میں جا کے سو گیا ..رات کو مجھے رقم کے بارے میں دو تین دفعہ یہ خیال آیا کہ میں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیےتھا پھر یہ سوچ کہ دل کو تسلی دیتارہا کہ میرے ملازمین میں ایسا کوئی نہیں اور انکو ویسے بھی کیا پتا میں نے اتنی بڑی رقم یہہاں رکھی ہوئی ہیے میں اکثر دس بجے ہوٹل میں آتا تھا اس دن صبح چھ بجے ہی اترکرآ گیا آکر کیا دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہوٹل کاشٹر ڈاون ہےاور باہر دودھ والے سمیت کافی تعداد میں لوگ ہوٹل کہ کھولنے کا انتظار کر رہے تھے یہ سارامنظر دیکھ کر میرئ چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹئ بجا دی خیر ہمت کر کہ میں آگئے بڑھا شٹر کو دیکھا تو وہ پہلے سے کھولاتھا جیسے ہی میں نے شٹر اوپر اٹھایا اندر کہ کے حالات دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگیے-میرے سارے ملازمین سو ئے یا بے ہوش پڑے تھے سوائے رحمت عرف رحمو کہ جو چائے والا تھا میرے ہوٹل ہر جس کا تعلق اندرون سندھ کچے کے علاقے سے تھا آگیے بڑھ کے سب سے پہلے لا کر کے ہینڈل کو گھما کے دیکھا تو وہ بدستور لاک تھا اطمیناں کرنے کے بعد میں ملازمین کے کمرے کی طرف بڑھا جو کچن سے متصل تھا میں نےانکو آوازیں لگائی لیکن کوئی رسپانس نہ ملا میں نہ آگیے بڑھ کر جب انکے چہروں سے کمبل اتارے تو صرف سانسیں چل رہی تھی چاروں بے حوش پڑھے تھے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں رحمو کدھر گیا کسی نے اسکو اغوا کر دیا یا اس نے ان سب کو اس حال میں پہنچایا میں نے رحمت رحمو او رحمو کی دو چار آوازیں بھی لگائیں پر رحمو ہوتا تو جواب دیتا . اتنے میں دودھ والا چاچا مکھن خان بولا شریف وقت نہ ضائع کرو جلدی پولیس کو رپوٹ کر کہ ایمبو لینس کو بولا کر ان جلدی ہسپتال پہنچاو میں نے آپنے ایک جاننے والے ایس آئی مقبول جو کہ اتفاق سے گلشن اقبال تھانے کی عزیز بھٹئ چوکی کہ انچارج تھے میری دوسری ہی بیل پر انھوں نے کال اٹینڈ کر لی بولے شریف کیسے یاد کیا تمہاری آواز سے خیرت تو نہیں لگ رہی ہے میں نے کہا مقبول جلدی آو میں نے ایک ہی سانس میں ساری کہانی بتا دی; ساری معلومات لینے کہ بعد مقبول بھائی بولے میں دس منٹ میں پہنچا تم ایمبولینس کا ارینج کرو ملا زمین کو ہاسپٹل پہنچا نے کہ لیے میں نے ایدھئ والوں کو کال کی تھوری دیر بعد ایدھی کی دو ایمبولینس اور مقبول بھئی پولیس پارٹی کہ ہمراہ وہاں پہنچ گے آتے ھی انھوںنے ایک حوالدار اور ایک کانسٹیبل کہ ساتھ بےہوش ملازمین کو ہسپتال روانہ کر دیا اور خود حالات کا جائذہ لے کر ایف آئی آر کے لیے مواد اکھٹا کرنے لگے مجھ سے انھوںنے لاکر کی چابی لی اور ھاتھوں پر پلاسٹک کے داستانے پہن کر لاکر کھولنے لگے لاکر کھل جانے کہ بعد انھوں مجھے پاس بولایا اور پوچھنے کہاں پر رکھئ تھی رقم آگے بڑھ کرکیا دیکھتا ہو ں ھر چیز اپنی جگہ پر مجود ہے پررقم تھیلے سمیت غائب ہے; میرا پروگرام تو شریف بھائی کی کہانی کو کافی لمبا کرنے کا تھا پروقت قلت آڑھے آگئی دوسرا موبائل سے اردومیں لکھنا میرےلیے کافی مشکل ہے تیسرا کچھ دوستوں نےان بکس کر کہ جلدی ختم کرنے کا مشورہ دیا اگر زندگی نے وفا کی تو اس سٹوری کوایک سبق آموز کہانی بنا کر باقاعدہ ناول کی صورت میں لکھوں گا: شریف بھائی کی کہانی آگے مختصر انداذ میں مجھ سے سنیے شریف نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ہوٹل کے تمام تالوں کی چابیاں ڈبل کروانے کے کیے لاک ماسٹر کو دی اور ان کو واپس لانے کےلیے رحمت عرف رحمو کو بیھجا تھا جس نے مکاری ایک عدد سیٹ فالتو بنوا کر اپنے پاس رکھ لیا اور جیسے ہی اس کو ملا اس نے چائے میں نشہ آور گولیاں ملا کر سب کو بے ہوش کر کہ ساری رقم لے اڑا اس کہ بعد انھوں نے مقبول کہ ساتھ مل کر ایف آئی آر کٹوا کر رحمو کہ پھیچھے ایک پولیس پارٹی روانہ کی پر حاصل کچھ نہ ھوا الٹا ڈاکوں کی فائرنگ سے ایک پولیس والا زندگی بھر کے لیے معذور ہو گیا ان سب چکروں میں شریف کی ساری جمع پونجھی بھی گئی اور ھوٹل بند رھا جیسے ہی اگلا مہینہ شروع ہوتے ہی جب کمیٹی دینے کا وقت آیا تو شریف بھائی کی بربادی کا آغاز یہں سے ھوا اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیسے ہوتا ایک دوست کہ مشورے پر بنک سے قرض لینے کا فیصلہ کیا بینک کی لیڈی منیجر پڑی خندہ پیشانی سے پیش آئی اس نے ساری داستان سننے کہ بعد نہ صرف ہمدردی دیکھائی بلکہ اسی وقت چند ضروری کاغزات پر دستخط لینے کہ بعد دوسرے دن ھوٹل کہ کاغذات سمیت آنے کو کہا; دوسرا سارا دن کاغذات کی تیاری میں لگ گیا اگلے دن جیسے ہی بینک پہنچے بینک منیجر کو منتظر پایا اس نے شری بھائی کو سیدھا اندر اپنے کیبن میں بلا لیا اور انکواکاونٹ کھولنے کہ لیے کہا شریف مرتا کیا نہ کرتا اکاونٹ کھولوا لیا اگلے دن ۲۲ لاکھ کی رقم شریف کے اکاونٹ میں منتقل ہو گئ لوگوں رقم واپس کر کہ کمیٹی ختم کر دی گئی پر ہوٹل مذیر ایک ماہ تک نہ کھل سکا اور شریف بھائی پر ہر طرف سے ادھار چڑھتا گیا ایک وقت آیا کہ بنک کی قسط اتارنے کہ پیسے نہ ہونےکی وجہ سے نوٹس پر نوٹس ملنا شروع ہو گیے شریف کا بنک میں آنا جانا رہتا تھا کافی حد تک بنک منیجر اور شریف ایک دوسرے کے قریب آجکے تھے شریف نے نوٹس کے بابت بات کی تو بنک منیجر بولی میں ہوں نہ میرے ہوتے ہویے آپ کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہیے ہمدردی کہ یہ دو بول نسوانی آواز میں کیا سننے تھےکہ شریف بھائی دل ہار بیٹھے بلکہ دل دے بیٹھے پھر جو بنک منیجر کہتی گئی یہ کرتے گئے اور پہلے لون کوختم کرنے کہ لیے اور لون لے لیا جب سہی طرح سے چنگل میں پھنس چکا تو بنک منیجر بولی شریف ایسےکب تک چلے گاکہیں مہنگے علاقے میں کوئی اچھا سا کاروبار شروع کرتے ہیں جس سے تمھاری بنک کی قسط بھی چلتی رہے گی اور گھر کا خرچ بھی چلتا رھے گا اور اس میں میں بھی تمہاری پارٹنر ہوں گی یہ سننا تھا کہ شریف جو پہلے ہی محترمہ کہ آگئے دل ہاربیٹھا تھا بولا بتاو میں کیا کروں وہ بولی زمین کہ کاغزات پر تم تھوڑا قرض اور لو باقی میں اپنا فنٹڈ نکلواتی ہوں اور ڈیفنس کہ علاقے میں بوتیک کھولتے ہیں آج کل ویسے بھی یہکام عروج ہر ہے شریف جو پہلے ہی شیشےمیں اتر چکا تھا راضی ہو گیا قرض بھی مل گیا کاروبار بھی شروع کر دیاگیا بنگ منیجر اور شریف اب اور قریب رہنے لگے شریف کو جب پتہ چلا کہ اسکی طلاق ہو چکی ہے اور بچہ بھی کوئی نہیں تو شریف نے شادی کی پیشکش کرڈالی منیجر جو چاہتی ہی یہی تھی تھوڑی لیت و لعل کہ بعد اس نےبھی ہاں کر دی اور دونوں نے کسی کو کان و کان خبر نہ ہونے دی اور شادی رچا لی; اس کہ بعد کچھ دن معملات صیح چلتے رہے پھر شریف جب راتوں کو دیر سے گھر آنے لگا تو وفا شعار بیوی نے بھی زبان کھولنا شروع کر دی کچھ عرصہ تو بات تکرار تک ہی رہی پھر مار پیٹ بھی شروع کر دی شریف جب مجھے یہ سب بتا رھا تھا مجھے اس پر غصہ آنےلگاکہ اس نے اس فرشتہ صفت عورت پر ھاتھ اٹھایا جس کی تعریف کہ لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے میرا تو شریف کہ گھر آنا جانا تھا اس کہ دونوں بیٹے اور بیٹی میرے ساتھ کافی مانوس تھے خیر جب حلات ذیادہ بگھڑے بھابی کہ بھائی آ کر بہن کو لے گیے اب شریف کو مذید آسانی ہو گئی تھی نئی بیوی کہ ساتھ عیاشی کرنے کی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظورتھا ایک دن جب وہ بوتیک سے نکل رھا تھا سامنے کا منطر دیکھ کر اس کہ پاوں تلے زمین نکل گئی اس بینک منیجر بیوی ایک پراڈو سے اتر رہی تھی جس پر پولیس کی نمبر پلیٹ لگی تھی خیر اگر معاملہ اگر صرف ڈراپ کرنے تک کا ہوتا توشاید شریف یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیتا ہرالوداعی سین دیکھ کر اس کاخون کھول اٹھا گر آ تے ہی بیوی کو جب اس بابت پوچھا تو اس نے صفائی میں کچھ کہنے کہ الٹا شریف کو جاہل اور گنوار کہا یہ سننا تھا کہ شریف نے اسکو تھپڑ مارا جو اسے بہت زورکہ لگا پر چپ رہی تھوڑی دیر بعد رو رو کر شریف سے معافی مانگ لی شریف نے بھی آیندہ ایسا نہ کرنے کی نصیحت کر کہ معاملہ رفع دفع کر دیا رات کو دو بجےگھر کی بیل بجی بیوی نے کہا میں دیکھتی ہوں جا کہ کون ہے شریف بولا مرد کہ ہوتے ہو ے عورت کاکام نہیں کہ وہ دروازہ کھولے شریف نہ جیسے ہی دروازہ کھو لا آنے والے نے سر پر ایسی چوٹ ماری کہ شریف کوکوئی ہوش نہ رہا جب دوسرے دن ہوش آیا شریف نے دیکھا کہ کسی پرانے سےمکان کا کوئی کمرہ تھا جس کی چھت کافی اونچی تھی روشن دان سے روشنی آ رہی تھی شریف کو جب ہوش صیح آیا تو اسےسخت پیاس محسوس ہوئی اس نے پانی پانی کی آوازیں لگائی تو ایک سندھی لباس میں ملبوس شخص آیا اورپانی کا جگ ٹیبل پر کرجب جانے لگا تو شریف نے پوچھا کہ بھائی میں کہا ں ھوں اور یہ سب کیا ہے وہ بولا سب پتا چل جائے گا شام کو جب صاحب آئیں گئے تو ; تھوری دیر بعد وہی شخص کھانہ لے کر آیا تو شریف نے اس سے بھائی یہ سب کیا ھے میں کدھر ھوں میرے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے وہ بولا کیا نام ہےتمہارا شریف نے نام بتایا تو وہ بولا تم مجھے واقعی شریف لگتے ہو یہ بہت خطرے ناک لوگ ہیں جو یہ کہیں مان لینا ورنہ تیرے ساتھ بہت برا سلوک کریں گئے یہ صاحب کا پرائیویٹ ٹارچر سیل ہے اتنے میں ساتھ والے کمرے سے میں مرگیا مجھے مت مارو جو کہتے ہو میں کرنے کہ لیے تیار ہوں یہ سب سننے کہ بعد شریف کو کھانا بھول گیا اور اس سوچ میں پڑھ گیا کہ کیا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا - کافی وقت گزرنے کہ بعد ایک شخص اور ایک عورت کمرےمیں داخل ہوے یہ اسکی بینک منیجر بیوی اور وہی شخص تھا جس کہ ساتھ گزشتہ روز اپنی بیوی کو دیکھ کر ان کا آپس میں جگھڑا ہوا تھا لیکن اس وقت یہ آدمی پولیس یونیفارم میں تھا اور اعلئ عہدے کا کوئی افیسر تھا اس نے آتے ہی دو چار غلیظ گالیاں دے کر کہا میری بیوی کوتم نے تھپڑ مارا تھا میں تمہارا خون پی جاوں گا شریف بولا یہ بیوی میری ہے تمہاری نہیں یہ سننا تھا کہ اس نے شریف پر لاتوں گھو نسوں کی بارش کر دی; مارتے ہوے بینک منجر نے بچ بچاو کروایا اور بولی جانوں اسے مارو نہیں بلکہ کاغزات دو اسے اگر سائن نہ کرے پھر بھلے جان سے مار دینا پھر اس نے ایک ملازم کو آواز دی کہ کاغزات لے آو اتنے میں ایک ملازم ایک فائل لےکر اندر آیا اور قلم لاکر شریف کو دے کربولا کہ ادھر سائن کر دو شریف جب پیپر دیکھے تو یہ طلاق کے پیر تھے سائن کرنے سے پہلے ایک نظر شریف نے اپنی بینک منیجر بیوی کو دیکھا تو وہ بولی دیکھتے کیا ہو شاباش سائن کرو تم کیا سمجھے میں ساری عمر تم جیسے گنوار کہ ساتھ گزاروں گی یو تو ہمارے درمیان معمولی سی وجہ سے طلاق ہو گئی تھی اور ہمیں ایک آدمی کی تلاش تھی جو کچھ دنوں کہ لیے نکاح کرنے کہ بعد طلاق دے دے تاکہ ہم پھر سے نکاح کر لیں لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے ہمیں تمہاری صورت نہ صرف وہ بندہ ملا بلکہ قربانی کا وہ بقرہ ملا جس نے ہمیں بہت فائدہ دیا ; یہ سب سن کر شریف نے بلا چوں چراں پیپر پر سائن کر دیے دستخط لینے کہ بعد پولیس والا بولا شاباش اگر اسی طرح تعاون کرتے رہے توجلد تمہیں یہاں سے رہائی مل جائے ورنہ تمہاری لاش کو کوے اور چیلں ہی کھائیں گی پھر پولیس آفیسر نے کلرک نماملازم سے پوچھا دوسری فائل بھی تیار ہے وہ بولا سر اس میں ابھی ایک آدھ دن اور لگ جائے گا وکیل کہ پاس ہے اچھا جب تیار ہوئی مجھے فون پر بتا دینا اب ہم چلتے ہیں ڈرائیور کو بولے گاڑی لے آئے اوکے سر یہ کہہ کر وہ سب لوگ کمرے سے نکل گئے اور شریف اس تذبزب میں مبتلا ہو گیا کہ طلاق پر دستخط تو لے لیےاب یہ دوسری فائل کون سی ہے انھئ سوچوں میں گم شریف بیڈ پر لیٹا چھت کو دیکھ رہا تھا کہ ایک ملازم کھانا لے کر داخل ہوا تو شریف بولا بھائی مارتے بھی ہو اور کھانا بھی ٹائم ٹو ٹائم اچھا دیتے ھو وہ بولا یہ میڈم کا آڈر ھے بلکہ آج جاتے ھوے گولڈلیف کہ سگریٹ کا ایک پیکٹ بھی دے کر گئی ھیں-شریف جس نے دودن سےسگریٹ نہیں تھا سگریٹ ملتے ہی اس نے سگرٹ سلگا لیا اسے ذائقہ تھوڑا مختلف سا لگا پر پی گیا اس کہ بعد اسے سخت بھوگ لگی تھی تو کھانے میں مصروف ہوگیا کھانے کہ بعد ایک اور سگریٹ پیا اور نیند کا ایسا غوطہ آیا کہ دوسرے دن کہ دس بجے آنکھ کھولی یہ دن بھی گزر گیا کوئی نہ آیا اگلی رات کو دس بجے کے قریب بینک منیجر صاحبہ ہمراہ پولیس آفیسر اور کلرک کے ہمرا کمرے داخل ہوئی اور ایک فائل لے کہ اس پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گی اور سیاہی والا پیڈ کھول کہ مختلف جگہوں پر انگوٹھے لگانے کا کہا شریف نے پوچھا یہ کیا ہے تو اس کی نظر پولیس والے پر پڑی جو بیلٹ کھول رہا تھا شریف سمجھ گیا کہ انکار کی صورت میں آگے کیا ہونے والا ہے اس نے اسی میں عافیت جانی کہ جو کہتے ہیں وہ کرتا جاوں انگو ٹھے اور دستخط لینے کہ بعد انھوں نے شریف کو بتا یا کہ یہ ہوٹل والی بلڈنگ کہ کاغزات ہیں جو تم نے حق مہر کی صورت میں اپنی بیگم کو ادا کر دیا اب طلاق کی بعد یہ اسکی ملکیت ہے اور بنک کی اقساط بھی یہ ادا کر دے گی کیونکہ اب اکیلی وارث ہے یوں شریف کہ ساتھ بہت بڑا ہاتھ ھوا اور مزید ایک مہینے تک ادھر رکھا گیا اور نشے کا زھر مسلسل اس کے جسم میں اتارتے رہے سگریٹ کی صورت میں اور انجکشن کی صورت میں شریف کع معلوم توھو گیا تھا کہ اسے نشہ دیا جو رہا ہے پر کر کچھ نی سکتا تھا نی لیتاتوجسم ٹوتا ایک دن اسے اٹھا کر اسے نشے کا انجکشن لگا کر اسے نیم بے ہوشی کی حالت میں اختر کالونی میں اسکی بہن کہ گھر کے باہر پھینک دیا گیا پوری رات ادھر ہی پڑا رہا; صبح محلے کے کسی بچے نے اسے پہچان لیا اور شریف کی بہن کے گھر کی بیل بجا دی اور بہن بھائی کو اس حال میں دیکھ کر زاروقطار رونے لگی اور بھائی کو اٹھوا کر اندر لے گئی ایک ڈیڑھ مہنے تک اپنے پاس رکھ علاج کروایا پولیس میں رپوٹ درج کروائی پر اتنے سنیئر افیسر کہ خلاف کاروئی کرنے کی کسی میں ھمت ن ہوئی الٹا انہیکو ڈرایا دھمکایا گیا جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی بہن منت سماجت کر کہ ملک چھوڑنے پر راضی کیا اور یوں ویزہ لے کر یو اے ای آگیا ; میں نے پوچھا ویزہ کس نے دیا کیسے ملا پیسے کدھر سے کیے توشریف بولا میرا پاسہورٹ تمھاری بھابی کہ پاس تھا وہ جن لوگوں کہ پاس جاب کرتی ہیں وہ بہت بڑے لوگ ہیں اسی نے سب کچھ ارینج کیا مجھے تو نہ وہ ملی نی کچھ بتایا میں نے پوچھا کیا مطلب بھابی اور بچے اب کدھر ھیں شریف لمبی آہ لے کر بولا مجھےنئی معلوم میں نے بنک والی سالی سے شادی سے پہلے اسے طلاق دے دی تھی;اس سے آگے مجھ میں اس کمینے شخص کی مزید روداد سننے کی ہمت نہ ہوئی جس نے ایک بازاری عورت کے لیے ایک فرشتہ صفت عورت کو طلاق دے کرگھر سے نکال دیا; کیوں کہ میری آنکھوں کہ سامنے بھابی اور بچوں کے معصوم چہرے گھوم رہے تھے میں بنا سلام کیے اوک بائے کہ چل دیا پیجھے سے ایک آواز آئی محبوب میں نے کہا تھا نہ کہ داستان سننے کہ بعد تم بھی مجھے چھوڑ دوگئے میری بات ایک سنتے جاو پر میں نے کوئی بات نہ سنی اور وہاں سے چلا آیا مجھے نئی معلوم میں نے صیح کیا یا غلط یہ آپ قارئین مجھے کو مینٹس میں بتانا پلیز اوراس کہانی سےآپ کو کیا سبق جو کہ سو فیصد سچی کہانی ہے .