بن خرمیل کی منافقت:
جب غیاث الدین کو ابنِ خرمیل کی غداری اور منافقت کا علم ہوا تو اس نے اسے حکومت ہرات سے معزول کر کے اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی۔ چونکہ اہالیانِ شہر بھی صوبے دار کی ان چالبازیوں سے خوش نہ تھے اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ حاکم کو گرفتار کر کے غیاث الدین محمود کے پاس بھیج دیا جائے تاکہ اسے بداعمالی کی سزا مل سکے۔معزول صوبے دار کو جب اہل شہر کے منصوبے کا علم ہوا تو اس نے اہل شہر سے گڑگڑا کر معافی مانگی اور قسم کھائی کہ وہ ہر حالت میں غیاث الدین محمود کا وفادار رہے گا اور کبھی بھی اس کے حکم سے سرتابی نہ کرے گا۔ اہلِ شہر کو اس کی باتوں پر اعتبار آ گیا اور غیاث الدین سے التجا کی کہ اس دفعہ ابنِ خرمیل کی تقصیر معاف کر دی جائے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پھر کبھی شکایت کا موقع نہ دے گا۔جو قاصد ابنِ خرمیل کے معافی انامے کو غیاث الدین محمود کے پاس لے جانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ اسے صوبے دار نے تنہائی میں بلا کر ہدایت کی کہ وہ بجائے فیروز کوہجانے کے سیدھا نیشا پور کا رخ کرے اور خوارزم شاہی افواج کے سپہ سالار کو اس کا پیغام پہنچائے کہ وہ فوراً واپس آئیں اور شہر پر قبضہ کر لیں۔
قاصد ہرات سے نکلا تو اس کا رخ فیروز کوہ کی طرف تھا، لیکن چند کوس چل کر اس نے نیشا پور کی راہ لی۔دو تین منزل ہی گیا ہو گا کہ پیچھے سے فوج کو جا لیا اور سپہ سالار کو ابن خرمیل کا پیغام دیا۔ فوج وہیں سے پلٹ آئی اور آتے ہی شہر پر قبضہ کر لیا اور تمام ایسے عناصر کو جو ناقابلِ اعتماد تھے، شہر سے باہر دھکیل دیا۔ غیاث الدین محمود نے شہر کو واپس لینے کی بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۱۔ اس کے بعد سلطان نے اپنے بھائی تاج الدین علی شاہ کو لکھا کہ وہ بلخ پر چڑھائی کر کے اسے خوارزم شاہی قلمرو میں شامل کر لے۔لیکن جب اس کی فوج بلخ کے قریب پہنچی تو بلخ کے حاکم عماد الدین عمر بن حسین الغوری نے اس دلیری سے شہر کی مدافت کی کہ سلطانی افواج کو قریب بھی نہ بھٹکنے دیا۔ کچھ دنوں کے بعد خود سلطان نے ذی قعدہ ۶۰۲ھ مطابق ۹ جون ۱۲۰۶ع میں بلخ پر چڑھائی کی۔ چالیس دن تک محاصرہ جاری رہا اور سلطان افواج نے بڑی افراط سے شب خون مارے لیکن اہلِ شہر نے ایک نہ چلنے دی۔الٹا سلطانی افواج کی کافی تعداد ماری گئی۔ اس دوران سلطان نے عماد الدین کو بہلانے پھسلانے کی بھی بہت کوشش کی لیکن اس کے پائے استقلال میں لغزن نہ آئی۔ سلطان فتح کا انتظار کرتے کرتے اکتا گیا تھا لہٰذا اپنی خاصہ افواج کو ساتھ لے کر ہرات چلا گیا اور باقی ماندہ سپاہ محمد بن علی بن بشیر کی کمان میں دے کر اسے ہدایت کی کہ عباد الدین کو پھانسنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔یہ تجویز کامیاب ربی اور عماد الدین نے ربیع الاول ۶۰۳ھ مطابق ستمبر ۱۲۰۷ع میں شہر سلطانی افواج کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد علاء الدین نے غیاث الدین محمود کو لکھا کہ چونکہ زبان کا شہر غیاث الدین محمد الغوری نے ایک موقع پر تحفةً دربارِ خوارزم کو پیش کیا تھا اس لیے اسے ہمارے حوالے کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس خواہش کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا، بلکہ غیاث الدین محمود ایسی بات سننے کو تیار نہ تھا لیکن مجبوراً کرزبان کا شہر سلطان کے حوالے کر دیا
۱۔ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۰۶۔ ۱۰۷
فتح کالوین و بیود:
یہ دو قلعے ایک دوسرے سے دس میل کے فاصلے پر واقع تھے اور ان کے حاکم کا نام علی بن علی تھا۔ جب سلطان کا قاصد قلعہ جات کی حوالگی کے بارے میں قلعہ دار کے پاس گیا تو اس نے جواب میں کہا کہ وہ غیاث الدین محمود کی طرف سے وہاں متعین ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اگر سلطان چاہتا ہے کہ یہ قلعے اس کے حوالے کر دیے جائیں تو بہتر ہو گا کہ سلطان براہِ راست غیاث الدین محمود سے گفتگو کرے۔سلطان اس کے اس جواب سے بڑا متاثر ہوا اور اس سے تعرق کرنا مناسب نہ سمجھا۔
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۱۵۔ ابن خلدون: ج ۵، ص ۱۰۳۔
فتح اسفرا:
خوارزم شاہ نے اس موقع پر محسوس کیا کہ روز روز کی یلغاروں سے وہ تھک گیا ہے اور سپاہ بھی اکتا چکی ہے۔ چنانچہ اس نے ارادہ کیا کہ کچھ عرصے کے لیے ہرات جا کر آرام کرے۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں، ہرات کی حکومت تاحال بنِ خرمیل کے سپرد تھی۔چنانچہ اس نے سلطان کو تپاک سے خوش آمدید کہی اور خاطرو مدارات میں کوی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جب سلطان چند دن سستا چکا تو اس نے عرض کی کہ اگر سلطان اجازت دے تو وہ اسفرا کے قصبے کو سلطان قلمرو میں شامل کر لے۔ سلطان نے اجازت دے دی اور ابنِ خرمیل نے خوارزمی سیاہ کا ایک دستہ لے کر اسفرا پر چڑھائی کر دی۔ اہلِ شہر نے دروازے بند کر لیے اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے۔ابنِ خرمیل نے انہیں سمجھا بجھا کرسلطان کی اطاعت پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ شہر کے دروازے کھول دیے گئے اور اسفرا غوری قلمرو سے کٹ کر خوارزم شاہی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ یہ واقعہ ۲۰۳ھ /۱۲۰۷ع میں پیش آیا۔ ۲
۲۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۱۵۔
فتح سجستان:
سجستان ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست تھی جس کے حاکم کا نام حرب بن محمد تھا۔ چونکہ وہ سلطانی افواج کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا تھا اس لیے ابنِ خرمیل کے کہنے پر اس نے بھی اپنا علاقہ سلطان کے سپرد کر دیا۔۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۱۵۔
فتح مکران و کرمان:
سلطان کے امرا میں سے ابو بکر تاج الدین، جو زوزن کا حاکم تھا، ایک بڑا بہادر اور منچلا سردار تھا جس کی ذاتی کمان میں چیدہ سپاہیوں کا ایک مضبوط دستہ تھا۔ ایک دن اس نے سلطان سے گزارش کی کہ اسے کرمان، مکران اور ملحہق علاقوں کی فتح کی اجازت دی جائے۔ چونکہ سلطان ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں خود ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اجازت دے دی اور تاج الدین نے تھوڑے سے عرصے میں ہی، مکران اور کرمان کے علاوہ سندھ اور کابل تک کا سارا علاقہ فتح کر لیا۔اسی طرح ہرمز اور عمان کے حاکم نے بھی اطاعت قبول کر لی۔ نیز موجودہ بلوچستان اور قلات کو بھی فتح کر کے سلطانی ۲ قلمرو میں شامل کر لیا۔
۲۔ ایضاً: ص ۱۱۶۔
فتح ماوراء النہر:
سلطان شہاب الدین کی شہادت، خاندان غور کے خاتمے کا پیش خیمہ تھی۔ غیاث الدین محمود کے بازوؤں میں نہ وہ کسی بل تھا اور نہ اہلیت و قابلیت۔ وہ پرلے درجے کا بزدل، بودا اور پست حوصلہ تھا۔نہ خود لڑ سکتا تھا اور نہ کسی کو لڑا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خوارزم شاہ نے ایک ایک کر کے اس کے مقبوضات پر قبضہ کر لیا اور اسے اتنی ہمت نہ پڑی کہ دبے الفاظ میں ہی سہی، سلطان کی اس زبردستی کے خلاف احتجاج کرتا۔ جس طرح ۱۸۵۷ع میں بہادر شاہ ظفر کی سلطنت صرف قلعہ معلیٰ تک سمٹ کر رہ گئی تھی، غیاث الدین محمود کا اثرو رسوخ بھی بس، غور اور فیروز کوہ تک محدود ہو گیا تھا۔شمالی ہندوستان میں قطب الدین ایبک، سندھ میں ناصرالدین قباچہ اور غزنی میں تاج الدین ایلدوز خود مختار حکمران بن بیٹھے تھے۔ جب غیاث الدین محمود ۶۰۷ھ/۱۲۱۱ع میں فوت ہوا اور بہاؤالدین سام اس کا جانشین ہوا تو اس وقت اس کے پاس صرف غور کا علاقہ رہ گیا تھا۔ وہ بھی اسی سال فوت ہو گیا تو سلطان نے باقی ماندہ علاقے کو بھی اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔جس طرح اتسز نے خاندان سلجوقی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اسی طرح علاء الدین محمد نے سات سال کے مختصر عرصے میں خاندان غور کا صفایا کر دیا گیا۔
سلطان کی گرفتاری:
خطائی ترکوں پر حملہ کیا لیکن گرفتار ہو گیا۔ سلطان کے بھائی تاج الدین علی شاہ کو جب اس شکست کا علم ہوا تو اس نے خود کو سلطان کا جائز وارث ٹھہرا کر اپنے نام پر خطبہ پڑھنے کا احکام جاری کیا۔
گرفتاری میں ابن مسعود نے بطور آقا کے اور سلطان نے بطور ملازم کے اپنا اپنا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ چنانچہ ایک دن اس ترک نے ابن مسعود سے روایت کیا کہ تمہارا ساتھی قیدی تمہارا اتنا احترام کیوں کرتا ہے؟ ابن مسعود نے جواب دیا کہ میں خوارزم شاہ کے قابلِ اعتماد سردارورں میں سے ہوں اور یہ شخص میرا ملازم ہے اور ملازم کو آقا کی تکریم و تعظیم کرنا ہی پڑتی ہے۔چند دن کے بعد ابن مسعود نے ترک سپاہی سے کہا کہ اگر وہ اس کے ملازم خوارزم جانے کی اجازت دے دے تو اس سے دو فائدے ہوں گے: اول یہ کہ ملازم خوارزم جا کر اپنا اور میرا زرفدیہ لیے آئے گا اور ہم اس قید سے رہائی پا سکیں گے۔ دسوار میرے رشتہ داروں کو میری زندگی کی خبر مل جائے گی۔ ورنہ کچھ عرصے تک تو وہ میری واپسی کا انتظار کریں گے لیکن جب انہیں کہیں سے بھی میری زندگی کے بارے میں کوئی اطلاع نہ مل سکی تو مجھے مردہ سمجھ کر میری جائیداد کو آپس میں تقسیم کر لیں گے۔اس طرح تم زرِ فدیہ سے محروم رہ جاؤ گے اور میں او رمیرا ملازم ہمیشہ کے لیے تمہارے دروازے پر پڑے رہ جائیں گے۔چونکہ ترک سپاہی کو زرفدیہ سے زیادہ دل چسپی تھی اس لیے اس نے سلطان کو خوارزم جانے کی اجازت دے دی اور اس ڈر سے کہ کہیں کوئی اسے راستے میں قتل نہ کر دے، اس ترک سپاہی نے دو تین آدمی ساتھ کر دیے۔ چنانچہ اس عجیب و غریب تدبیر سے سلطان بہ خیرو عافیت دارالسلطنت میں واپس پہنچ گیا۔۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۱۲۱۔ ۱۲۲۔ روضة الصفا: ج ۴، ص ۱۴۷۔ جہاں کشا: ج ۲، ص ۸۳۔
سلطان کی غیر متوقع واپسی سے تمام قلمرو میں خوشی منائی گئی لیکن کزلک اور تاج الدین علی شاہ کی حالت دیدنی تھی۔ وہ سلطان کی سخت گیری سے واقف تھے۔ چنانچہ کزلک بھاگ کر عراق چلا گیا اور علی شاہ نے غیاث الدین محمود کے ہاں جا پناہ لی۔
چند روز آرام کرنے کے بعد سلطان نے برات کا رخ کیا اور محصور مشیر کو کہلا بھیجا کہ جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا اب وہ شہر کے دروازے کھول دے، لیکن مشیر نے انکار کر دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ چونکہ سلطان کی وعدہ خلافی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے لڑ کر مرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ یمں سلطان کی چکنی چپڑی باتوں پر اعتبار کر کے خود موت کو آواز دوں۔نیز مشیر مذکور مطمئن تھا کہ سلطان کسی صورت میں بھی تلوار کے زور سے شہر کو فتح نہیں کر سکتا۔ خوارزمی لشکر گزشتہ تیرہ مہینے سے محاصرہ کیے پڑا تھا اور اہالیانِ شہر کا بال بیکا نہیں کر سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مشیرِ موصوف اپنی بات پر چٹان کی طرح ڈٹا ہوا تھا۔ یہ بھی اسے معلوم تھا کہ سلطان اور اس کا لشکر محاصرے سے سخت تنگ آ چکے ہیں۔ چنانچہ وہ آس لگائے بیٹھا تھا کہ سلطان اکتا کر خود ہی محاصرہ اٹھا لے گا اور واپس چلا جائے گا۔لیکن وہ اس امر سے قطعاً غافل تھا کہ محاصرے کے ہاتھوں اہلِ شہر کی بھی جان پر بنی ہوئی ہے۔ چونکہ سلطان افواج کی موجودگی کی وجہ سے اہل شہر کا تمام بیرونی دنیا سے رشتہ منقطع ہو چکا تھا اس لیے شہر میں کھانے پینے کی چیزوں کا قحط تھا اور لوگ دانے دانے کو ترس رہے تھے۔ جب اہل شہر کے اضطراب اور بے چینی کی اطلاع مشیر مذکور کو ملی تو اس نے تمام ایسے عناصر کو جن سے اسے فساد کا اندیشہ تھا، گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔لیکن اس سے لوگوں کے جذبات اور بھڑک اٹھے اور انہوں نے بغاوت کر دی۔ سلطان موقعے کی تاک میں تھا، ہلہ بول دیا۔ اہلِ شہر سخت تنگ تھے، انہوں نے دروازے کھول دیے اور شہر فتح ہو گیا۔ مشیر موصوف پکڑا گیا۔ جب سلطان کے سامنے لایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ لیکن خلافِ توقع اہلِ شہر سے مزید تعرض مناسب نہ سمجھا گیا۔۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۲۲۔
خوارزم شاہ نے اپنے ماموں امیر ملک کو ہرات کا ناظم مقرر کر کے حکم دیا کہ وہ غیاث الدین محمود اور علی شاہ کو قرار واقعی سزا دے۔ غیاث الدین محمود ہر عتاب اس لیے تھا کہ اس نے علی شاہ کو کیوں پناہ دی تھی۔ امیر ملک نے دونوں کو سلطان کی ناراضگی کی اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ بہتر ہو گا کہ بجائے معاملے کو طول دینے کے وہ خود کو اس کے حوالے کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اس شرط پر کہ انہیں جان کی امان دی جائے گی، اپنے آپ کو امیر ملک کے حوالے کر دیا۔ اس نے انہوں نے خوارزم بھیج دیا اور خوارزم شاہ نے انہیں ۶۰۷ھ/۱۲۱۱ع میں قتل کرا دیا۔۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۲۴۔ ابن خلدون: ج ۵، ۱۰۵۔ ابوالداء: ج ۳، ص ۹۱
0 Comments: