نظامِ حکومت
مندرجہ ذیل سطور میں نظامِ حکومت کا وہ نقشہ پیش کیا گیا ہے جس میں خوارزم شاہی دور میں عمل درآمد کیا گیا تھا۔ یہ نقشہ نظام الملک کا تجویز کیا ہوا تھا جو تمام ممالکِ محرومہ میں رائج تھا۔ خوارزم شاہی خاندان کا بانی ملک شاہ سلجوقی کا طشت دار تھا۔ اس خدمت کے صلے میں اسے خوارزم کی حکومت عطا ہوئی تھی اور سلطان تکش کے عہد تک یہ خاندان کم وبیش سلاجقہ کا باجگزار رہا تھا۔اس لیے حکومت کے اصول وضوابط بھی وہی تھے جو سلجوی قلمرو میں تھے۔
اس عہد کے نظم ونسق کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں۔ حکومت کا جو نقشہ آج ہمارے سامنے ہے اس کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ اس عمل ارتقا کا نتیجہ ہے جو انسانی معاشرے میں آدم سے لے کر اس وقت تک ہوتا چلا آیا ہے۔
ائمنہ وسطی میں بادشاہ کی ذات تمام اختیارات اور قوانین کا سرچشمہ شمار ہوتی تھی۔
اگرچہ حسنِ اتفاق سے بادشاہ خدا ترس اور رحم دل ہوتا تو اتنے عرصے کے لیے رعایا کی حالت سدھر جاتی۔ ملک آباد ہوجاتا اور عوام خوش حال ہوجاتے۔ لیکن اگر وہ ناخدا ترس اور خود سر ہوتا تو عوام کی حالت خراب ہوجاتی۔ہرچند بادشاہ جانشینی کے بارے میں یہ اصول طے شدہ تھا کہ اس کا بڑا بیٹا باپ کے بعد امورِ سلطنت کا کفیل ہوگا لیکن جب اس قاعدے کو عملی صورت دینے کا موقع آتا تو جس طرح سے اس کی مٹی پلید ہوتی وہ مقامِ صد ہزار عبرت ہے۔بادشاہ کی زندگی میں ہی درباری سازشیں شروع ہوجاتیں اور امرا کی ذاتی رقابتیں کئی دعویٰ دارانِ سلطنت کو جنم دیتیں۔ بھائی بھائی کے خلاف صف آرا ہوجاتا۔ بھینسے لڑتے ہوں تو چھوٹے موٹے پودے پامال ہو کر رہ جاتے ہیں۔ طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ کئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں تعمیر ہوجاتیں۔ جب اس خانہ جنگی سے ملک تباہی کے کنارے پر پہنچ جاتا تو ہمسایہ طاقتوں میں سے کوئی مَن جلا فرماں روا حملہ آور ہو کر سب کو دبوچ لیتا۔جب اس کو موت کا پیغام آتا تو یہی ڈرامہ پھر سے دہرایا جاتا اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا۔
ملک شاہ سلجوقی کے دو بیٹے تھے۔ برکیارق اور محمد۔ ملک شاہ کے مرنے کی دیر تھی کہ بھائیوں میں جنگ چھڑ گئی اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک محمد مارا نہ گیا۔ اس طرح ایل ارسلان(جو خوارزم شاہی خاندان کا چوتھا حکمران تھا) کے دو بیٹے تھے۔ سلطان شاہ اور تکش۔باپ نے اپنی زندگی ہی میں سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بیٹوں کے حوالے کردیا تھا۔ چونکہ سلطان شاہ بڑا تھا اس لیے اسے ولی عہد نامزد کر کے تکش کو وصیت کی کہ بھائی کے ساتھ بگاڑ نہ کرے لیکن خوارزم شاہ کے مرتے ہی سلطان شاہ نے تمام قلمرو پر قبضہ کرکے تکش کو اس کے جائز حقوق سے محروم کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں بیس سال تک اپنی بالادستی اور بحالیِ حقوق کے لیے لڑتے رہے۔چنانچہ جب سلطان شاہ مرگیا تو اس کے بعد تکش نے خود کو خوارزم شاہ کہلانا شروع کیا۔
اسی طرح سلطان محمد نے ترکان خاتون کے کہنے پر جلال الدین کو ولی عہدی سے محروم کر کے ارزلاق سلطان کو اپنا جانشین نامزد کردیا تھا، حالانکہ جلال الدین بڑا ہونے کے علاوہ بہت بہادر اور دلیر سپاہی بھی تھا۔ اگر ارزلاق سلطان مغلوں کے ہاتھوں مارا نہ جاتا تو یقینا سلطان جلال الدین کو بھائی کے خلاف بھی بارہا صف آرا ہونا پڑتا۔بے یقینی کی یہحالت ہر سلطنت کے استحکام کے لیے بہت بڑا خطرہ تھی۔ عموماً ہر سربراہِ مملکت کی موت بدنظمی، افراتفری اور لوٹ مار کا پیغام لے کر آئی۔ بے وجہ خونریزی ہوتی، مفسدہ پردازوں کو لوٹ مار اور قتل وغارت کا بہانہ مل جاتا۔ عوا میں بے اطمینانی پھیلتی، زراعت اور تجارت کو، جو خوش حالی اور فارغ البالی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، سخت دھچکا لگتا۔
مسلمان سلاطین عام طور پر پابندِ مذہب ہوتے تھے۔ جہاں تک بن پڑتا، احکامِ خداوندی کی پابندی کا خیال رکھتے۔ لیکن چونکہ تاج وتخت ورثے میں ملتا تھا اس لیے ہرچیز کو وہ اپنی ذاتی ملکیت شمار کرتے۔ دینے پر آتے تو لاکھوں بخش دیتے۔ گھوڑے، ہاتھی، زمینیں اور جاگیریں، مال ومتاع کا ان کے یہاں کوئی حدوشمار نہ تھا۔ گویا لکھ بخش تھے کہ دھن لٹاتے پھرتے تھے۔لیکن جب کسی سے بگڑ جاتے تو لاکھوں میں کھیلنے والے دم بھر میں مفلس اور چھوٹے اہل کار تو بعض اوقات اپنی مائیکی کی وجہ سے بچ بھی جاتے لیکن خطرے کی تلوار ہر وقت اراکینِ سلطنت کے سر پر لٹکتی رہتی۔ اس پر طُرّہ یہ کہ آپس کی رنجشیں اور درباری رقابتیں جلتی پر تیل کا کام کرتیں۔ ہر شخص دل سے دوسرے کا بدخواہ اور ہم عصروں کی رسوائی کا جویا رہتا۔جب موقع ملتا، لگائی بجھائی سے نہ چوکتا۔ اور تو اور وزیر اعظم اور افواجِ شاہی کے سپہ سالار بھی خود کو محفوظ خیال نہ کرتے۔ چونکہ ہر آدمی دوسرے کو مات دینے کے لیے کوشاں رہتا، اس لیے بعض اوقات بڑی ہی ناقابلِ رشک حالت پیدا ہو جاتی۔ اتفاقاً کوئی بے گناہ سازشوں کے صدقے میں قتل کردیا جاتا تو دشمن پھولے نہ سماتے کہ چلو میدان مارلیا۔ اب پانچوں گھی میں ہیں۔لیکن جلدی ہی بھانڈا پھوٹ جاتا اور حقیقت بے نقاب ہوجاتی۔ اب سازشوں کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے۔ تلوار کی دھار یا رسوائی اور ناکامی کی زندگی۔ گویا ازمنہ وسطیٰ کے دربار سازشوں اور رقابتوں کے سوائے زمانہ اذے تھے۔
اگرچہ اس عہد میں رفاہ عامہ کا موجود تصور ابھی تک پیدا نہیں ہوا تھا اور سلاطین کو لڑنے جھگڑنے سے ہی بہت کم فرصت نصیب ہوتی تھی، تاہم ان سے کوئی نہ کوئی ایسا کام بھی ہوجاتا جسے اس ذیل میں شمار کیا جاسکتا ہے۔مدرسے، شفاخانے، سرائیں، سڑکیں اس زمانے میں بھی بنائی جاتی تھیں اور عوام ان سے فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ سلاطین دل سے چاہتے کہ رعایا خوش حال رہے لیکن سرکاری اہل ہمیشہ کی طرح اُس زمانے میں بھی رشوت خور ہوتے تھے اور لوگوں کو اپنی مطلب برآری کے لیے انہیں خوش کرنا ہی پڑتا تھا۔
زراعت اور کھیتی باڑی اُس زمانے کا سب سے بڑا ذریعہ معاش تھے اور آبادی کے ایک معتد بہ حصے کا گزارا اسی پر منحصر تھا۔بارش ہوتی تو وارے نہارے ہوجاتے، مگر قحط کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا۔ جہاں ممکن ہوتا دریاؤں، ندی نالوں اور چشموں سے آبپاشی کی ضرورت پوری کرلی جاتی۔ نہروں اور کنوؤں کی کھدائی کا کام حکومت کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔
سلطان کا حرم اور محافظ خانہ دو بڑے انتظامی شعبے شمار ہوتے تھے۔ بادشاہ کی حفاظت کے لیے تُرک غلام بھرتی کیے جاتے جو براہ راست بادشاہ کے ماتحت ہوتے اور ان کا اہم فرض بادشاہ اور اس کے متعلقین کی حفاظت ہوتا۔فوجی خدمات مختلف صوبوں کے گورنر اور قبائل کے سردار انجام دیتے۔ جب ضرورت پیش خدمات مختلف صوبوں کے گورنر اور قبائل کے سردار انجام دیتے۔ جب ضرورت پیش آتی انہیں طلب کرلیا جاتا۔ اُس عہد کی جنگیں مہینوں اور سالوں کا قصہ نہیں ہوتا تھا، ایک آدھ دن میں ہی فیصلہ ہوجاتا تھا۔ البتہ محاصرہ کا معاملہ مختلف نوعیت کا ہوتا۔ اکثر یہ قصہ مہینوں چلتا اور محصورین کو جانکاہ مصائب سے دوچار ہونا پڑتا۔
جنگوں کا فیصلہ اکثر بادشاہ کی ذاتی کارگزاری پر منحصر ہوتا کیونکہ فوج بادشاہ کی ذاتی کمان میں لڑتی تھی۔ جب تک بادشاہ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا رہتا اور شاہی چتر اس کے سر پر لہراتا رہتا، فوج بھی جی توڑ کر لڑتی رہتی۔ لیکن اگر کسی مجبوری سے بادشاہ کو پیچھے ہٹنا پڑتا یا فوج کو احساس ہونے لگتا کہ بادشاہ حوصلہ ہار بیٹھا ہے تو پھر اس کے قدم اکھڑنے میں دیر نہ لگتی۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کامیابی نے صرف ان لوگوں کے قدم چومے ہیں جو میدانِ جنگ میں چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے۔
جب چنگیز خان نے سلطان محمد پر حملہ کیاتو سلطان کی کمان میں تقریباً چار لاکھ آزمودہ کار سپاہ تھی لیکن چونکہ سلطان حوصلہ ہار چکا تھا اس لیے سلطان کی کمزوری اور بزدلی کا اثر سب میں سرایت کرگیا تھا۔ سوائے جلال الدین کے ہر شخص رعشہ براندام تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انہیں ہر مغل سپاہی موت کا فرشتہ دکھائی دیتا تھا۔سلطان کی وفات کے بعد جب جلال الدین نے عنانِ اختیار ہاتھ میں لی تو فوج کی حالت یک قلم بدل گئی۔ چنانچہ یہ اسی خالی حوصلگی کا نتیجہ تھا کہ سلطان نے کھوئی ہوئی سلطنت کا معتدبہ حصہ واپس لے لیا۔ وہ پورے دس برس تک نہایت کامیابی سے مغلوں جیسے خونخوار دشمن کا مقابلہ کرتا رہا اور اہلِ عالم نے دیکھ لیا کہ جب سلطان کی پامردی کا یہ بند حوادث کے زیلے کی تاب نہ لا کر ٹوٹ گیا تو اہلِ عالم کو مغلوں کے ہاتھوں کیسے کیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
ترک غلام، جو بادشاہ کی ذاتی حفاظت کے لیے بھرتی کیے جاتے، پہلے سال سائیس کہلاتے، جن کا کام گھوڑوں کی دیکھ بھال تک محدود ہوتا۔ دوسرے سال انہیں گھوڑا مع ایک سادہ زین کے مل جاتا۔ تیسرے سال ایک خاص کمر بند دیا جاتا۔ چوتھے سال عمدہ زین اور مرقع لگام جس پر چاندی کے ستارے بنے ہوتے۔ پانچویں سال عمدہ لباس اور ایک عصائے منصبی۔ چھٹے برس وردی اور ساتویں برس وہ وثاق باشی کہلاتا۔یعنی اسے چھوٹا سا خیمہ مل جاتا جس میں تین آدمی شریک ہوتے۔ اس منصب سے کشیدہ کاری کا کام کیا جاتا۔ یہ منصب دار آہستہ آہستہ خیل باشی اور حاجب کے درجے تک ترق کر جاتے۔ شاہی محل کا تمام عملہ حاجبِ اعلیٰ کے ماتحت ہوتا جو بڑا بااثر سررشتہ شمار ہوتا تھا۔
اس کے بعد دوسرا نمبر امیر حرس کا تھا جو تمام ان لوگوں کی سزاؤں کے بارے میں، جن کے مقدمات براہِ راست بادشاہ کے زیرِ سماعت ہوتے، ذمہ دار ہوتا۔ان سزاؤں میں قتل کرنا، پھانسی دینا، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور اسی نوعیت کی دوسری سزائیں شامل تھیں۔ ان منصب داروں کو اپنی ڈیوڑھی پر نوبت بجانے اور مکان پر شاہی جھنڈا لہرانے کی اجازت ہوتی۔ امیر کو اپنا رعب داب قائم رکھنے کے لیے پچاس مددگار سپاہی دئیے جاتے، جن میں سے بیس کے پاس سنہری، بیس کے پاس روپہلی اور دس کے پاس لکڑی کے عصا ہوتے۔
ان منصب داروں کے علاوہ شاہی درباروں میں چھوٹے چھٹے اہل کاروں کا اچھا خاصا ہجوم ہوتا جن میں دربان، دسترخوان لگانے والے، ساقی، محافظ، نوبت بجانے والے، آئینہ برادار اور طشت دار شامل تھے۔
اُس عہد میں ابھی تک فوجی اور غیر فوجی انتظامیہ اور عدالتی شعبوں میں حدِ فاصل قائم نہیں ہوئی تھی۔ تمام محکمے ایک آدمی کی تحویل میں ہوتے جو اکثر وبیشتر فوجی سردار ہوتا۔ شہزادے اور دوسرے قابلِ اعتماد افراد بھی جو شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے، ان مناصب پر سرفراز کیے جاتے۔ خصوصاً ولی عہدِ سلطنت کو زیادہ اہم عہدوں پر کام کرنے کا موقع دیا جاتا تاکہ اسے امور سلطنت کا تجربہ حاصل ہوجائے اور بوقتِ ضرورت مام اختیار ہاتھ میں لے سکے۔مثلاً ارسلان نے شہزادہ تکش کو جند اور اس کے نواحی علاقوں کا حاکم مقرر کر رکھا تھا اور جب خوارزم شاہ کی وفات ہوئی تو شاہزادہ اسی سرحدی چھاؤنی کی حفاظت پر متعین تھا۔ اس طرح جب تکش خوارزم شاہ ہوا تو اس نے اپنے ولی عہد شہزادہ ملک شاہ کو نیشاپور کی حکومت عطا کی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بعض تُرک غلاموں کو ان کی خدمات کے عوض صوبوں کی صوبیداری عطا کردی جاتی۔چنانچہ خوارزم شاہی خاندان کا بانی بھی ایک تُرک غلام تھا جو اپنی حسنِ خدمات کے صلے میں اس منصبِ جلیل پر فائز ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ایسے مناصب پر پہنچنے کے لیے حد عمر پینتیس سال مقرر تھی۔ اس سیکم عمر کے آدمی کو ان اہم مناصب پر مقرر کرنے سے احتراز کیا جاتا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خراسان کے صوبے کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ صوبے کا صدر مقام نیشا پور تھا۔چنانچہ اس امر خاص کا اہتمام کیا جاتا کہ اس صوبے کا گورنر قابلِ اعتماد اور نظم ونسق میں خاص مہارت رکھتا ہو۔
شاہی حرم کا انتظام جس امیر کے سپرد ہوتا اسے وکیل کہتے تھے۔ اس کے فرائض میں شاہی مطبخ اور شراب کی دیکھ بھال شامل ہوتی۔ اسی طرح شہزادوں کی مناسب تربیت اور ملازموں کی نگہداشت بھی اس کے سپرد ہوتی۔ نیز شاہی اصطبل کا بندوبست بھی اسے ہی کرنا پڑتا۔
شاہی دربار کے اہم شعبے حسب ذیل تھے:
۱۔ دیوانِ وزارت: جس کا حاکمِ اعلیٰ وزیر اعظم کہلاتا۔
۲۔ دیوانِ مالیات۔ اس کے حاکمِ اعلیٰ کو مستوفی کہتے۔
۳۔ دیوانِ امور ریاست۔ اس محکمے کا افسرِ اعلیٰ عمید الملک کے لقب سے پکارا جاتا۔
۴۔ دیوانِ حفظہ۔جو صاحب الشرط کی تحویل میں ہوتا۔
۵۔ دیوانِ مراسلات۔ اس کے حاکم کو صاحب البرید کہا جاتا تھا۔
۶۔ دیوانِ مشرّف۔ اس کے افسر اعلیٰ کو مشرّف کہتے تھے۔
۷۔ دیوانِ خالصہ شریفہ۔ افسرِ اعلیٰ کو ناظمِ خالصہ کہتے۔
۸۔ دیوانِ احتساب۔ افسر اعلیٰ کو محتسب کہتے تھے۔
۹۔ دیوانِ اوقافت کا حاکمِ اعلیٰ مہتممِ اوقاف کہلاتا۔
۱۰۔ دیوانِ قضا کے حاکمِ اعلیٰ کو قاضی القضاة یا شیخ الاسلام کہتے تھے۔
0 Comments: