بغاوتیں
خوارزم شاہ کے دربار میں بعض امراء ایسے بھی تھے جو سلطان کے مخلص اور ہمدرد تھے۔ ان میں سے ایک امیر نے موقع پا کر خوارزم شاہ کو قتل کر دیا۔ روپوش عبدالجبار کو جب خوارزم شاہ کے قتل کا علم ہوا تو وہ جرجان میں سلطان کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور تمام واقعات گوش گزار کیے۔ جب اَور ذرائع سے بھی وزیر کے بیان کی تصدیق ہو گئی تو سلطان کے شبہات اپنے وزیر اعظم احمد بن محمد کے بارے میں رفع ہو گئے اور غلط افواہوں کا اثر زائل ہو گیا۔
اس کے بعد عبدالجبار کو حکم دیا کہ ریاست کی زمام اختیار ہاتھ میں لے کر حکومت کے کاروبار کو سنبھال لے۔ لیکن سلطان کی تجویز کامیاب نہ ہو سکی، کیونکہ مقتول خوارزم شاہ کے غلاموں نے بغاوت کر کے عبداجبار کو قتل کر دیا اور ہارون کے بھائی اسماعیل کو سربراہ ریاست مقرر کر دیا۔
بعد ازاں سلطان کی سیادتِ اعلیٰ کے خلاف بھی بغاوت کر دی۔
جب سلطان کو ان افسوس ناک واقعات کا علم ہوا تو اس نے شاہ ملک بن علی کو، جو کہ اس علاقے میں سلطان کی طرف سے بعض نواحی ریاستوں کا حکمران تھا، لکھا کہ وہ خود ساختہ خوارزم شاہ کی مناسب گوشمالی کرے۔شاہ ملک نے تعمیل بحکم میں خوارزم پر لشکر کشی کی۔ چونکہ خوارزم شاہ مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا تھا اس لیے وہ بھاگ کر طغزل بیگ کے پاس چلا گیا۔جب سلطان کو خوارزم شاہ کے فرار اور طغرل بیگ کے یہاں اس کی پناہ گزینی کا علم ہاو تو اسے یقین ہو گیا کہ آخرالذکر ضرور خوارزم شاہ کی امداد کرے گا اس لیے سلطان نے اپنے بیٹے مردود کو شاہ ملک کی امداد کے لیے روانہ کیا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو شدید جنگ چھڑ گئی جس میں مودود کو شکست ہوئی۔ اس موقع پر سلطان مسعود قتل ہو گیا اور حالات حد درجہ نازک ہو گئے۔مودود اپنی باقی ماندہ فوج لے کر غزنی واپس آ گیا اور شاہ ملک طغرل بیگ کی ملازمت میں شامل ہو گیا۔۱#
یہ خوارزم شاہی سلسلہ، جو تقریباً ڈیڑھ صدی تک اس ریاست میں فرماں رواں رہا، مکمل طور پر آزاد اور خود مختار نہیں تھا۔ کچھ عرصے تک یہ لوگ سامانیوں کے ماتحت رہے، پھر غزنیوں کے۔ اس عرصے میں ان میں سے بعض نے اگرچہ خود مختاری کے لیے ہاتھ پاؤں مارے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
بلاشبہ دوسرے خوارزم شاہی سلسلے کے بعد سلاطین بھی کچھ عرصے تک سلجوقیوں اور ترکانِ خطا کے باج گزار رہے تھے لیکن انہوں نے اپنی خود مختاری کو متاثر نہ ہونے دیا تھا۔ گویا یہ ان کی سیاسی چال تھی جس سے حسبِ ضرورت فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ چنانچہ جب اس ظاہر داری کی ضرورت نہ رہی تو انہوں نے بلا تکلف اس طوقِ اطاعت کو اتار پھینکا اور خراج وصول کرنے والی حکومتیں ان کا بال تک بیکا نہ کر سکیں۔
اس خوارزم شاہی سلسلے کا بانی انوشتگین ملک شاہ سلجوی کا درباری غلام تھا جو طشت داری کی خدمت پر مامور تھا۔ چونکہ یہ شخص بڑا وفادار اور قابلِ اعتماد خدمت گزار تھا اس لیے سلطان نے اسے خوارزم کی جاگیر عطا کر کے، خطابِ خوارزم شاہی سے نوازا۔ جب تک زندہ رہا، دربار میں موجود رہا اور جاگیر کا بندوبست اس کے گاشتوں کی تحویل میں رہا۔ اس کی وفات کے بعد شاہزادہ قطب الدین باپ کا جانشین مقرر ہو ااور پورے تیس سال تک یہ اہم خدمت سر انجام دیتا رہا۔وہ بھی فوت ہو گیا تو مظفرالدین اتسز خوارزم شاہ بنا۔ جب سلطان نے اسے جاگیر میں جانے کی اجازت دے دی تو کچھ عرصے تک تو اس کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا لیکن بعد میں اس کے طور اطوار بدلنا شروع ہو گئے اور خراج ادا کرنا بند کر دیا۔ حالات روز بروز نازک سے تازک تر ہوتے گئے، حتاکہ ہر طرح کے سفارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع ہو گئے۔
بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ اتسز سلجوقی دربار میں رہنے اور عام میل ملاقے کی وجہ سے ان سلاطین کی کمزوریوں سے پورے طور پر آگاہ تھا اور اس کی ذہنی مرعوبیت ختم ہو چکی تھی۔نیز حکومت کی گرفت دور دراز علاقوں اور صوبوں پر کمزور پر چکی تھی۔ اتسز من چلا، دلیر اور بہادر سپاہی تھا اس لیے اس نے ہر موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ بلاشبہ ان مساعی میں اسے بعض دفعہ زک بھی اٹھانا پڑی، لیکن پھر بھی اس نے عظیم نصب العین کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ کوشش کامیابی کی کنجی ہے۔ اتسز دھن کا پکا تھا۔ ناکامیوں اور رکاوٹوں سے بددل نہ ہوا، تاآنکہ مقصد میں کامیا ہو گیا۔
اتسز کے جانشین کا نام ایل ارسلان تھا۔ اس کی تخت نشینی کے ایک سال بعد سلطان سنجر فوت ہو گیا۔ اگر بیٹے میں باپ کی اولالعزمی اور عالی حوصلگی پائی جاتی تو سنجر کی وفات کے بعد حصولِ مقصد کا موقع تھا، لیکن ایل ارسلان ان اوصافِ علیہ سے عاری تھا، اس لیے جو کام کرنا چاہیے تھا وہ اس کے بیٹے سلطان تکش کو کرنا پڑا۔
ایل ارسلان کے دو بیٹے تھے: سلطان شاہ اور تکش۔جب ایل ارسلان فون ہو گیا تو چونکہ سلطان شاہ بڑا تھا، حسبِ دستور باپ کا جانشین بن بیٹھا اور امرائے دربار کے تعاون سے اس کوشش میں لگ گیا کہ چھوٹے بھائی کو کلیةً حقِ وارثت سے محروم کر دے۔ لیکن یہ تجویز کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ تکش نے ترکانِ خطاء کی امداد سے خوارزم پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ جنگ بھائیوں میں تقریباً اکیس برس تک جاری رہی۔ جب سلاہ فوت ہو گیا تو اس وقت تکش نے تختِ خوارزم پر قدم رکھا اور خوارزم شاہ کا لقب اختیار کیا۔دونوں بھائی بہت دلیر اور بہادر سپاہی تھے۔ اگر باہم اتفاق سے رہ سکتے تو سلطان غیاث الدین اور شہاب الدین کی طرح زیادہ مفید خدمات سر انجام دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ سلطان شاہ کے مرنے کے بعد تکش ادھیڑ عمر کو پہنچ چکا تھا۔ تاہم مرتے مرتے سلجوقیوں اور غوریوں کی شان و شوکت کو ختم کرتا گیا۔
علاؤالدین تکش کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جب سلطان مر گیا تو قرب و جوار کے حکم رانوں نے اس خیال سے کہ شاہزادہ ناتجربہ کار اور نو عمر ہے، ہر طرف سے یلغار کر دی، تاکہ جو کچھ تکش نے ان سے ہتھیا لیا تھا، واپس لے لیں۔لیکن علاؤالدین بھی دبنے والا نہیں تھا۔ اس نے اس پامردی سے دشمنوں کا مقابلہ کیا کہ سب کے دانت کھٹے کر دیے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرنے پایا تھا کہ علاؤالدین نے دریا مے سیحوں تک کا سارا علاقہ فتح کر کے اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔
جنوب میں یہ سرحد دریا مے سندھ کے آس پار صوبہ پنجاب اور سندھ کی سرحدوں کو چھونے لگی۔ ادھر خلیفہ بغداد بھی سلطان کے عتاب سے نہ بچ سکا۔نتیجةً سلطان تمام عالم اسلام کی ہمدردی کھو بیٹھا۔ امیر المومنین کو سلطان کی اس جسارت کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس نے چنگیز خاں کو سلطان کے خلاف ابھارنا شروع کر دیا۔ چنانچہ چنگیز خان کے حملہ کر کے عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور دس سال کے عرصے میں کم و بیش ایک کروڑ انسان موت کے گھاٹ اتار دیے۔ ماوراء النہر اور خراسان کے تمام بڑے بڑے شہر اور قصبے تباہ و برباد کر دیے گئے، پھل دار درخت ختم کر دیے گئے، فصلیں اور قلعے مسمار کر دیے گئے۔آبادیوں اور بستیوں پر وہ افتاد پڑی کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔
اس خونی ڈرامے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں علاؤالدین نے ایک دفعہ بھی چنگیز خاں کا مقابلہ نہیں کیا۔ اس کے پاس لاکھوں کا لشکر تھا، چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا، لیکن تمام خاندان کو ساتھ لیے ملک کے طول و عرض میں بھاگتا پھرا جس سے مغلوں کے حوصلے بڑھ گئے، اور رعایا سلطان کو بھاگتا دیکھ کر مایوسیوں اور ناامیدیوں کے اتھاء سمندر میں ڈوب گئے۔بے گناہ قتل ہو رہے تھے، عورتیں بیوہ اور بے یتیم ہو رہے تھے، لیکن سلطان تھا کہ رسوائی اور بدنامی کی تصویر بنا بھاگا پھرتا تھا۔
علاؤالدین کے بعد جلال الدین جانشین ہوا۔ گزشتہ دو سال کے عرصے میں جو ماوراء النہر اور خراسان پر بیتی تھی۔ اس کے بیان کے لیے صفحات اور اوراق کی جگہ کتابیں اور دفاتر درکار ہیں۔ ہر چند کہ جلال الدین نے حالات کو سنبھالا دینے کی پوری کوشش کی، لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔آخر دس برس کی لگاتار کوشش کے بعد دنیائے اسلام کا یہ نامور سپوت ظلم و ستم اور جورو جفا کے خلاف لڑتا پھرتا دنیا سے رخصت ہو گیا۔
اس خاندان کا عرصہ حکومت ایک سو ساٹھ برس کے لگ بھگ تھا۔ حکم رانوں کی تعداد بشمول سلطان شاہ کے آٹھ تھی۔ اتسز اور تکش کامیاب اور باتدبیر فرماں روا تھے۔ جہاں تک فتوحات ملکی کا تعلق ہے، علاؤالدین محمد اس خاندان کا گل سر سید تھا۔اگر وہ مغلوں کے خلاف جرأت ، ثباتِ قدم اور عالی حوصلگی کا مظاہرہ کر سکتا تو عالمِ اسلام کی تاریخ اس سے بہت مختلف ہوتی جو اب ہے۔ ہر چند جلال الدین کا انجام کچھ کم عبرت ناک نہ تھا، لیکن تاہم اس نے اپنے بہادرانہ کارناموں سے ایک عظیم دشمن کے خلاف جس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ بلاشبہ یہ نامور سپاہی ان غیرفانی فرمانبروایان عالم سے تھا جنہوں نے بڑے سے بڑے خطروں کو ہرِکاہ کے برابر وقعت نہ دی۔ناسازگار حالات اور ناموافق ماحول سے کبھی مرعوب نہ ہوا۔ اگر سوے اتفاق سے وہ زمانے کے سرکش گھوڑے کو لگام دینے میں کامیاب نہ ہو سکا تو زمانہ بھی اسے خلافِ مرضی رام کر کے نکیل نہ ڈال سکا۔ خود چنگیز خاں کے کارناموں کو سراہتا اور انہیں یہ کہہ کر اکساتا کہ باپ کا بیٹا ایسا ہونا چاہیے۔
سلطان یقینا اپنی فقید المثال بہادری کی وجہ سے دنیا کے ان چیدہ ناموروں میں شمار ہونے کے قابل ہے جو ناموری اور شہرت کے آسمان پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔جنہوں نے کبھی کسی خطرے کی پروا نہ کی۔ جو دولتِ یقین سے مالا مال اور دنیا خود اعتمادی کے شہنشاہ تھے۔ سلطان، چنگیز جیسے دشمن کے خلاف ایسا ڈٹ کر لڑا کہ دوست تو کیا دشمن بھی عش عش کر اٹھے اور بڑے بڑے جلیل القدر بہادر سلطان کی عظمت کے سامنے ماند پڑ گئے۔ جلال الدین ظلمتِ کفر و ناخدا ترسی کے خلاف، ایمان و انصاف اور اسلام کا عظیم جانباز ہیرو تھا۔وہ اپنے ہم مذہبوں کی آخری پناہ گاہ اور ان کی امیدوں کا آخری سہاورا تھا۔
مغل اس کی شہرت، ہر دلعزیزی اور بے خوفی سے اتنے ڈرتے تھے کہ چنگیز خاں کی طرف سے انہیں صریح اور واضح ہدایت مل چکی تھی کہ جس طرح بھی ہو سکے، سلطان کو جم کر بیٹھنے کا موقع نہ دیا جائے۔ سلطان کی شہادت کے بعد بھی بہت عرصے تک مغلوں کی جان رضیق میں رہی۔ جب بھی افواہ اڑتی کہ سلطان فلاں مقام پر دیکھا گیا ہے، مغلوں کے اوسان خطا ہو جاتے۔فوراً حکم ملتا کہ فلاں کماں دار اتنی فوج لے کر جائے اور ضروری کارروائی کرے۔ ایسا نہ ہو کہ حالات بے قابو ہو جائیں۔ ایسے مواقع پر عام لوگوں کی شامت آ جاتی۔ قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو جاتا۔ اور جب بعد از تحقیق ثابت ہو جاتا کہ یہ سب کچھ افواہ کا کرشمہ تھا تو مغل کمان دار منہ بسورتا اور ناکامی کی خاک اڑاتا واپس چلا جاتا۔
سلطان کی ناکامی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں حلیفوں کی اہمیت اور ضرورت کا احساس قطعاً مفقود تھا۔نیز سلطان میں ضبطِ نفس کی بھی حد درجہ کمی تھی۔ ہوش کی فراوانی بہت بڑا وصف ہے لیکن بغیر ضبط کے اس بے بجائے فائدے کے نقصان کا احتیال زیادہ ہے۔ یہی صورتِ حال سلطان کو پیش آتی رہی۔ جب بھی کوئی بات اس کے کان میں پڑتی، فوراً بغیر کافی غورو حوض کیسے آمادئہ عمل ہو جاتا۔ گویا لڑائی ہی سلطان کی زندگی کی غایت تھی جس میں دوست دشمن اور عزیزوں تک کی کوئی تمیز نہ تھی۔ نتیجہ ظاہر ہے: حلیف اور معاہد سلطنتیں بدگمان ہو گئیں، امداد کون کرتا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بھری دنیا میں سلطان یکدو تنہا رہ گیا اور جب اس نے ایک غیر معروف کرد کے ہاتھ سے شہادت پائی تو مشکل ہے کہ کسی آنکھ سے ہمدردی کا ایک آنسو بھی ٹپکا ہو۔
0 Comments: