Tuesday, July 20, 2021

قسط نمبر 24 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

Molana-620x410

 

اگلے سال بہار کے موسم میں خوارزم شاہ نے رادکان کے سبزہ زاو میں، جو طوس کے نواح میں واقع ہے، ایک شاہی جشن کا اہتمام کیا اردگرد و پیش کے تمام چھوٹے بڑے سلاطین اور امرا کو مدعو کیا۔ سلطان شاہ کے درباری امرا کا ایک وفد بھی شریک جشن ہوا اور خوارزم شاہ سے باہمی اختلافات کے مٹانے کی درخواست کی۔ تکش خود اس روز روز کی مار دھاڑ سے بہت بیزار تھا، اس نے درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور وعدہ کیا کہ وہ اپنی طرف سے تعلقات کو ہموار رکھنے کی پوری کوشش کرے گا۔

جب سلطان شاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے تکش کے ان تین آدمیوں کو رہا کر دیا جنہیں منقلی نے گرفتار کر کے اس کے پاس بھیجا تھا۔ خوارزم شاہ کو بھائی کے اس اقدام سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس نے بہ مقام خوارزم ایک اور شاہی جشن کا انتظام کیا اور پہلی دفعہ ۵۸۳ھ/۱۱۸۸ع میں تختِ خوارزم پر بہ حیثیت خورام شاہ جلوس فرمایا۔


سلطان شاہ نے جب سے مرو میں قدم جمائے تھے، جب بھی موقع پاتا تھا، سلاطین غور کے علاقوں پر تاخت و تاراج کرتا رہتا تھا۔

چنانچہ سلطان غیاث الدین نے چڑھائی کر کے اسے فاش شکست دی۔ ادھر خوارزم شاہ بھی اس کی حرکتوں سے جاں بلب تھا۔ چنانچہ اس نے بھی ۵۸۶ھ/۱۱۹۱ع میں سلطان شاہ کے خلاف لشکر کشی کر کے سرخس پر قبضہ کر لیا اور وہاں ایک شخص کو اپنا نمائندہ مقرر کر کے خود موسم گرما بسر کرنے رادکان چلا گیا۔
سرخس کا سلطان شاہ کے ہاتھ سے نکل جانا ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔

چنانچہ اس نے صلح کے لیے سلسلہ جنیانی شروع کر دی۔ چونکہ تکش خود بھی اس روز روز کی لڑائی بھڑائی سے ناخوش تھا اس لیے اس نے اس جھگڑے سے پیچھا چھڑانے کے لیے مصاحلت کنندہ وفد کو خوش آمدید کہا اور سرخس کا علاقہ سلطان شاہ کو واپس کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے فصیل شہر کی مرمت کرائی اور چونکہ یہ مقام فوجی زاویہ، نگاہ سے بڑا اہم تھا اس لیے کھانے پینے کی ضروری اشیاء کے علاوہ ہر طرح کے فوجی ہتھیاروں کا کافی ذخیرہ جمع کر لیا اور خود مرو چلا گیا۔

۱#
تکش کسی مہم کے سلسلے میں یہ مقام رے مقیم تھا کہ سلطان شاہ نے پھر خوارزم پر چڑھائی کی اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ خیالِ خام ابھی تک اس کے دماغ سے نہیں نکلا تھا کہ اہلِ شہر اس کی واپسی کے خواہاں ہیں۔ چنانچہ جب بھی خوارزم شاہ کسی مہم کے لیے خوارزم سے نکلتا، سلطان شاہ جھٹ سے دارالسلطنت کے دروازوں پر دستک دینے اور لوگوں کو پھسلانے کے لیے آموجود ہوتا۔

جب تکش کو سلطان شاہ کی اس حرکت کا علم ہوا تو فوراً کوچ کا حکم دیا۔ سلطان شاہ کو بھی خوارزم شاہ کے ارادوں کی اطلاع مل رہی تھی۔ چنانچہ جب اسے معلوم ہوا کہ تکش قریب آ گیا ہے تو محاصرہ اٹھا کر چل دیا اور ساتھ ہی معافی تقصیر کے لیے چند امرا کو بھائی کے پاس روانہ کر دیا۔ ہر چند تکش کو معلوم تھا کہ سلطان شاہ کی کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور یہ مصالحتی کوشش صرف بغرض دفع الوقتی ہے لیکن بے بس تھا۔

مجبوراً چشم پوشی کرنا پڑی۔
سلطان شاہ کی وفات:
بدرالدین جفری سلطان شاہ کی طرف سے سرخس کا قلعہ دار تھا۔ وہ کسی وجہ سے سلطان شاہ سے ناراض ہو گیا۔ چنانچہ اس نے ان امرا کو جو سلطان شاہ کے طرف دار تھے اور جن سے بغاوت کا خطرہ ہو سکتا تھا، گرفتار کر لیا اور تکش کو دعوت دی کہ وہ قلعے پر قبضہ کر لے۔ چونکہ خوارزم شاہ کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو چکا تھا اس لی اس نے اس موقع کو غنیمت جانا اور سرخس پر قبضہ کر لیا۔

سلطان شاہ کو اپنے قلعہ دار کی غداری سے اتنا رنج ہوا کہ سخت بیمار پڑ گیا اور دو دن کے بعد ۵۸۹ھ/۱۱۹۳ع میں فوت ہو گیا۔ اب میدان صاف تھا۔ خوارزم شاہ نے بھائی کی ساری قلم رو پر قبضہ کر کے شاہزادہ علاؤالدین کو نیشا پور اور ناصرالدین ملک شاہ کو مرو کا حکم مقرر کر کے خزائن اپنی تحویل میں لے لیے۔۱#
سلطان شاہ، اتسز کی وفات کے وقت حسنِ اتفاق سے خوارزم میں موجود تھا۔

اور چونکہ اس کی والدہ بڑی دور اندیش خاون تھی اس لیے اس نے اندیشے کے پیش نظر کہ خوارزم شاہ کی وفات کے بعد جب تخت نشینی کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہو گا تو چونکہ اس کا بیٹا تکش سے چھوٹا ہے، اس کی کامیابی مشتہ ہوگ ی اس لیے از راہِ پیش ہندی درباری امرا میں سے بہت سی تعداد اپنے حق میں کر لی تھی۔ چنانچہ اتسز کے مرنے کے بعد اس نے اپنے بیٹے کی جانشینی کا اعلان کیا تو اراکین سلطنت خاموش تماشائی بنے رہے اور یہ مہم بہ خیر و خوبی سر ہو گئی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سلطان شاہ کی عمر اس وقت بہت زیادہ نہ تھی اس لیے مملکت کا انصرام ملکہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ جب ملکہ قتل ہو گئی تو سلطان شاہ زمانے کے سرد و گرم چکھ چکا تھا اور اس قابل ہو گیا تھا کہ قسمت آزمائی کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔ چنانچہ متواتر بیس سال تک اپنے کھوئے ہوئے تخت کے لیے لڑتا رہا۔ یہ درست ہے کہ اسے تکش کے خلاف کامیابی نصیب نہ ہو سکی اور وہ ارمانوں بھرا دل لیے دنیا سے رخصت ہو گیا، لیکن آفرین ہے اس جوان مرد پر کہ نامساعد حالات سے بددل ہو کر اپنے رفیع مقصد سے دست بردار نہیں ہوا۔

اور اگرچہ اسے ہر دفعہ شکست ہوئی لیکن اس نے ہر شکست کو ترقی کا زینہ جانتے ہوئے قدم آگے ہی بڑھایا۔ اگر اس کی طبیعت میں عجلت اور جلد بازی کا عنصر نہ ہوتا تو یقینا اس کا انجام اس سے مختلف ہوتا۔






SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: