جلال الدین محمد1220ء تا 1231ء
علاؤ الدین محمد کی وفات کے بعد اس کے تین بیٹے سمندر کی راہ خوارزم پہنچے جہاں ان کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا مگر اسی عرصے میں جلال الدین نے عراق کی طرف مغلوں کے جانے کی خبر پائی۔ تو جلال الدین منقشلاغ کی طرف چلا گیا اور اس علاقے میں جس قدر گدھے گھوڑے مل سکے جمع کر لئے اور قاصدوں کو خوارزم بھیجا۔اس کے بھائی ارزلاق سلطان جسے باپ نے ولی عہد بنایا تھا اور دوسرا بھائی آق سلطان اور ارزلاق سلطان کے ماموں جوجی پہلوان۔ کو جائی تکین۔ انمول حاجب اور تیمور ملک 90000 قپحاقی ترکوں کے ساتھ خوارزم میں موجود تھے۔ چونکہ خوارزم کی حکومت اور اختیار خوارزم شاہ نے اپنی ملکہ ترکان خاتون کی ترغیب کے سبب ارزلاق سلطان کو سونپ دیئے تھے۔
جو ابھی چھوٹا تھا اور عقل شعور کے لحاظ سے نادان تھا۔
ان بھائیوں کی آمد کے وقت لوگوں کی رائے اور خواہشات میں اختلاف ہو گیا۔ ہر شخص شہزاد جلال الدین کی طرف مائل دکھائی دیتا تھا۔جلال الدین کے خلاف سازش:
بھائیوں کے درمیان اگرچہ پختہ عہد و پیماں ہو چکے تھے۔ مگر بدخواہ امراء نے سازش کی تاکہ اچانک کسی حیلے سے جلال الدین کا کام تمام کر دیں۔ ان میں سے ایک نے جلال الدین کو اس حال سے خبردار کر دیا۔جب سلطان نے یہ سنا کہ ان لوگوں کو اس وقت اتفاق و اتحاد کی بجائے مخالفت اور دشمنی کا خیال ہے۔ تو موقع پاکر خوارزم سے نسا کے راستے شادیاخ کو رونہ ہوا۔ جب استوا پہنچا تو شاحقان کی پہاڑی پر تاتاریوں کے لشکر سے مٹھ ہوئی اور تھوڑے سے آدمیوں سے دیر تک اس گروہ سے لڑتا رہا۔ یہاں تک کہ رات ہو گئی اور تاتاریوں سے خلاصی ہوئی۔
بھائیوں کا فرار اور خاتمہ:
جب جلال الدین کے بھائیوں نے مغلوں کو اپنی جانب آنے کی خبر سنی تو مقابلے کی تاب نہ پاکر جلال الدین کے پیچھے دوڑے اور اگلے ہی روز اسی پہاڑی پر انہیں مغلوں سے مٹھ بھیڑ ہوئی جن کے ساتھ جلال الدین کا آمنا سامنا ہوا تھا۔پہلے ہی حملے میں ان کے قدم اکھڑ گئے اور نکل بھاگے۔ لیکن تاتاریوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور اپنے ماتحت ساتھیوں سمیت مغلوں کی شمشیر آبدار کی خوراک بنے۔
جلال الدین کا تعاقب:
اب سلطان جلال الدین ہی واحد شہزادہ رہ گیا تھا جسے خوارزم شاہی تخت کا وارث قرار دیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ مغلوں سے بچ کر دو تین دن کوچ کی تیاری میں مشغول رہا حتی کہ اچانک آدھی رات کو غزنین کی طرف کوچ کیا۔کیونکہ اس کے باپ نے اسے غزنین کی جاگیر عطا کی تھی۔ اس روانگی اور مغلوں کے لشکر کے پہنچنے میں گھنٹہ بھر سے زیادہ وقت نہیں لگا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ شہر سلطان سے خالی پڑا ہے تو فوراً اس کے تعاقب میں چل پڑے۔
سلطان نے ایک دوراہے پر ملک ایلدرک کو کچھ آدمیوں کے ساتھ ٹھہرایا ہوا تھا۔ تاکہ اگر تعاقب میں دشمن کا لشکر آ نکلے تو کچھ دیر اسے روکے رکھیں یہاں تک کہ اس کے اور دشمن کے درمیان کافی فاصلہ حائل ہو جائے گھڑی بھر میں دشمن آ پہنچا اور تھوڑے مقابلے کے بعد دوسرے راستے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔جدھر سلطان نہیں گیا تھا۔ اس خیال میں کہ سلطان بھی اس راستے سے گیا ہے اسی طرف تاتاری بھی دوڑے۔ لیکن ناکام واپس ہوئے۔
زوزن میں سلطان کی آمد:
سلطان نے ایک کوچ میں چالیس فرسنگ کا فاصلہ طے کیا۔ جب سلطان زوزن پہنچا اور چاہا کہ زوزن میں داخل ہو جائے تاکہ اس کے گھوڑوں کو کچھ سستا لینے کا موقع مل جائے۔ شہر والوں نے سلطان کی مخالفت کی اور قلعہ میں رہنے پر رضا مند نہ ہوئے۔جیسے کہ وہ چاہتا تھا کہ مغلوں کا لشکر آ جائے۔ تو تھوڑی دیر ان کا مقابلہ کر سکے اور پیچھے سے اچانک ہی اسے نہ آ لے۔ لیکن اہل شہر نے پناہ دینے کی بجائے کہا کہ اگر مغلوں کا لشکر آ گیا تو وہ ادھر سے تم پر تیروں کی بارش کریں گے اور ادھر سے ہم اینٹ پتھر برسائیں گے۔ جب سلطان کو ان کی غداری کا علم ہوا تو وہاں سے چل کھڑا ہوا۔
غزنی میں آمد:
مغلوں نے سلطان کا ہردویہ تک تعاقب کیا لیکن سلطان بچ کر غزنی پہنچ گیا۔جب سلطان غزنی پہنچا تو امین ملک پچاس ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں استقبال کیلئے موجود تھا۔ سلطان کی آمد سے رعایا کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ سلطان نے سردیوں کا موسم غزنی کے سرسبز میدان میں بسر کیا اور جب اس کی آمد کی خبر پھیلی تو ہر طرف سے لشکر اور قبائل امڈتے چلے آئے۔ سیف الدین اغراق چالیس ہزار بہادروں کے ساتھ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور غور کے امراء بھی اسی طرح اطراف و جوانب سے آ ملے۔
تاتاریوں پر فتح:
جب سلطان کے پاس کافی فوجیں جمع ہو گئیں تو آغاز بہار میں غزنی سے باہر نکلا اور پیروان جانے کے ارادے سے روانہ ہوا تو خبر ملی کہ تک جک اور ملغور مغلوں کے لشکر کے ساتھ والیان قلعہ کا محاصرہ کرنے میں مصروف ہیں اور قریب ہے کہ اسے فتح کر لیں۔ سلطان نے سازو سامان پروان ہی میں چھوڑا اور لشکر لے کر تک جک اور ملغور پر حملہ آور ہوا۔تاتاری لشکر کے ایک ہزار آدمی مارے گئے۔ چونکہ سلطان کا لشکر تعداد میں زیادہ تھا۔ اس لئے مغلوں کا لشکر دریا پار کر گیا اور پل تباہ کر ڈالا اور دریا کی دوسری جانب ڈیرے ڈال دیئے رات ہونے تک ایک دوسرے پر تیر برساتے رہے۔
آدھی رات کے وقت مغلوں کا لشکر کوچ کر گیا۔ سلطان واپس آ گیا اور ساتھ ہی بہت سا مال غنیمت بھی لیا۔ تمام مال غنیمت لشکر کے سپاہیوں میں تقسیم کر دیا۔اس کے بعد پروان واپس چلا گیا۔
جب چنگیز خان کو یہ خبر ملی تو اس نے لشکر سے بہت سے سوار منتخب کرکے شیکی قوتوکو کو تیس ہزار سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ جب سلطان پروان پہنچا تو ایک ہفتہ بعد دوپہر کے قریب مغلوں کا لشکر آ گیا۔ سلطان بھی پھر تیاری کرکے آ گیا اور ایک فرسنگ آگے چل کر صفیں درست کیں۔
شیکی قوتوکو سے جنگ:
سلطان نے دائیں بازو کی فوج امین ملک اور بائیں بازو کی فوج سیف الدین ملک اغراق کے سپرد کی اور درمیانی فوج میں خود جاگزیں ہوا اور حکم دیا کہ سب فوج پیادہ ہوگی۔فوج نے گھوڑے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور مرنے مارنے کو تیار ہو گئے۔ چونکہ دائیں بازو کی فوج مغلوں سے زیادہ تھی۔ دس ہزار جنگجو سواروں نے دشمن کے بائیں بازو پر حملہ کیا اور اس کے پاؤں اکھیڑ دیئے اور اپنی درمیانی فوج اور بائیں بازو کی فوج سے متواتر کمک پہنچتی رہی۔ یہاں تک کہ مغلوں کے لشکر کو دھکیل کر مرکز تک لے گئے۔ حملوں میں دونوں طرف سے بہت سے مارے گئے۔لیکن کسی نے بھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی۔ یہاں تک کہ رات آ گئی اور طرفین اپنے اپنے ڈیروں پر آ گئے۔
دوسرے دن مغلوں نے اپنی فوج کو زیادہ دکھانے کیلئے ہر سوار نے اپنے گھوڑے پر ایک مجسمہ رکھ یا۔ جب دونوں لشکر صف بستہ ہوئے اور سلطان کے سپاہیوں نے مغلوں کی فوج کے پیچھے ایک اور صف دیکھی تو سمجھے کہ انہیں کمک مل گئی ہے۔ ڈر کر پہاڑوں میں بھاگ کر چھپنے کا مشورہ کیا۔لیکن سلطان اس پر رضا مند نہ ہوا اور برے ارادوں سے باز رکھا۔
سلطان کے سوار حسب معمول دوسرے دن بھی گھوڑوں سے اترے چونکہ مغلوں کی فوج اغراق کے لشکر کا دبدبہ دیکھ چکی تھی۔ اس لئے بہادروں کا انتخاب کرکے سلطان کے بازوں پر حملہ کیا۔ اغراق کے سپاہیوں نے کمانوں کے چلے چڑھا لئے اور خوب جم کر مقابلہ کیا اور تیروں کی زبردست بوچھاڑ سے دشمن کو پسپا کر دیا۔جب مغلوں نے اس حملہ میں پیٹھ دکھائی اور اپنے مرکز کی طرف چلے۔ سلطان نے نقارہ بجانے کا حکم دیا اور تمام فوج گھوڑوں پر سوار ہو گئی اور ایک ساتھ حملہ آور ہوئی دشمنوں کے لشکر نے فرار اختیار کیا۔ لیکن راستے میں پھر ایک بار پلٹے اور سلطان کے لشکر پر ٹوٹ پڑے تقریباً پانچ سو آدمیوں کو مار گرایا۔ سلطان بھی شیر کی طرح پہنچا مغل بھاگ کھڑے ہوئے اور دونوں سردار تک جک اور ملغور چند آدمیوں کے ساتھ چنگیز خان کی خدمت میں چلے گئے اور سلطان کا لشکر لوٹ مار میں مصروف ہو گیا۔
0 Comments: