Friday, July 23, 2021

قسط نمبر 42 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

 Molana-620x410


 

چنگیز خان کا ممالک اسلامیہ پر حملہ:
415ھ میں چنگیز خان فوج لے کر ممالک اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوا اور مقام اترار کے قریب پہنچ کر جو جی خان  اوکتائی خان اور چغتائی خان تینوں بیٹوں کو اترار کے محاصرے پر مامور کیا اور لاق نویان اور منگوبو خان کو خجند اور نباکت کی جانب فوج دے کر روانہ کیا اور خود اپنے چھوٹے بیٹے تولی خان کو ہمراہ لے کر بخارا کی طرف متوجہ ہوا۔

مغلوں کے اس حملے کا حال سن کر خوارزم شاہ نے ساٹھ ہزار فوج حاکم اترار کی مدد کیلئے روانہ کی اور تیس ہزار سوار بخارا کی طرف بھیجے۔ دو لاکھ دس ہزار فوج سمرقند کی حفاظت پر مامور کی اور ساٹھ ہزار آدمی برج اور قلعہ کی تعمیر واستحکام کیلئے مقرر کرکے خود سمرقند سے خراسان کی طرف روانہ ہوا۔
ماورالنہر پر حملہ:
616ھ میں چنگیز خان کی فوجوں نے اترار کا رخ کیا۔

جہاں کے لوگوں نے تاتاریوں کا قافلہ لوٹا تھا۔ خوارزم شاہ نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے سات لاکھ کا لشکر بھیجا۔ اوش اور سنجر کے درمیانی علاقے میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ حاکم اترار انجام سے آگاہ تھا چنانچہ اس نے تاتاریوں کا بڑی جگر داری سے مقابلہ کیا۔ لیکن اسے خوارزم شاہ کی طرف سے کوئی اور کمک نہ پہنچی آخر اس نے فوج سمیت قلعہ میں پناہ لی۔

تاتاریوں نے محاصرہ کر لیا۔ جو چھ ماہ تک جاری رہا۔ آخر اسے تاتاریوں نے فتح کر لیا۔ حاکم اترار گرفتار ہو گیا۔ چنگیز خان نے جولٹے ہوئے تاتاری قافلہ کا انتقام لینا چاہتا تھا۔ حکم دیا کہ چاندی پگھلا کر اس کے کانوں اور آنکھوں میں ڈال دی جائے اور پھر قتل کر دیا جائے۔
خوارزم شاہ کی بزدلی:
خوارزم شاہ سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ اس نے باوجود بڑی فوج کے خود چنگیز خان کا مقابلہ نہ کیا بلکہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ آیا۔

اپنے بادشاہ کو عازم خراسان دیکھ کر یقینا فوج کے دل چھوٹ گئے ہوں گے۔ اس پر طرہ یہ کہ جب سمرقند سے چلنے لگا تو خندق پر پہنچ کر کہنے لگا کہ ہم پر اتنی بڑی قوم نے حملہ کیا ہے کہ وہ اگر صرف اپنے تازیانے ڈالیں تو سمرقند کی یہ خندق تمام و کمال پر ہو جائے۔ یہ سن کر سمرقند کے محافظ لشکر پر مغلوں کی اور بھی ہیبت طاری ہو گئی۔ خوارزم شاہ سمرقند سے روانہ ہو کر بلخ پہنچا اور اپنے اہل و عیال اور خزانے کو ماژندران بھیج دیا۔

جلال الدین محمد کا مشورہ:
خوارزم شاہ نے بلخ میں آکر امراء اور سرداروں سے مشورہ کیا کہ مغلوں کے مقابلے میں کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ خوارزم شاہ کے سات بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام جلال الدین تھا۔ اس نے باپ کو خائف و ترساں دیکھ کر کہا کہ اگر آپ عراق کی طرف جانا چاہتے ہیں تو شوق سے چلے جایئے۔ فوج کی سرداری مجھ کو عنایت کیجئے۔

میں فوج لے کر دشمن پر حملہ کرتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ دریائے جیحوں کے پار جا کر اپنا خیمہ نصب کروں گا۔ ماورالنہر کی حفاظت میرے سپرد کیجئے اور آپ عراق و ایران کو سنبھالئے۔ جب خوارزم شاہ نے اس کو پسند نہ کیا تو جلال الدین نے کہا کہ کاش تم نے دنیا میں کوئی بھلائی کی ہوتی۔ آپ کی ہٹ دھرمی سے ملک کو ایک وحشی اور حقیر دشمن کی غلامی نصیب ہوئی اور اپنی جان بچا کر سارا ملک بھیڑیوں کے سپرد کر دیا۔

قوم تمہاری غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ مسلمان تمہاری وجہ سے بہو بیٹیوں کی بے حرمتی دیکھ رہے ہیں۔
بخارا پر حملہ:
چنگیز خان اپنے سب سے چھوٹے بیٹے تولی خان کو ساتھ لے کر بخارا پر حملہ آور ہوا۔ چند روز تک بخارا کے بیس ہزار جوانوں نے شہر کو بچائے رکھا۔ لیکن آخر یہ ٹڈی دل مغلوں کا کہاں تک مقابلے کرتے۔ آخر بخارا فتح ہو گیا اور چنگیز سوار ہو کر فتح کا جشن منانے کیلئے جامع مسجد میں گیا۔

اس کے بعد کام کے آدمیوں کو علیحدہ کر لیا اور باقی دولت مندوں سے دولت لے کر مکانوں اور مکینوں کو آگ اور تلوار کی نذر کر دیا۔
جب خوارزم شاہ نے یہ سنا کر بخارا فتح ہو گیا ہے اور بھی زیادہ پریشان ہوا اور نیشاپور جا کر مقیم ہوا۔ مغلوں نے ابھی تک دریائے جیحوں کو عبور کرنے کی جرات نہیں کی بلکہ یہ ماورالنہر میں مصروف تاخت و تاراج رہے اور خوارزم شاہ نیشاپور میں مصروف عیش و نشاط رہا۔

سمر قند کی فتح:
بخارا کی فتح کے بعد چنگیز خان ایران کی زرخیز وادی زرافشاں کی طرف بڑھا۔ جس کی حفاظت کیلئے چالیس ہزار فوج متعین تھی۔ یہاں کے لوگوں نے صرف اس خیال سے مقابلہ کئے بغیر ہتھیار ڈال دیئے کہ شاید ان کے ساتھ کوئی بہتر سلوک ہوگا۔ لیکن بزدلی کا یہ صلہ پایا کہ وادی زرافشاں ان کے خون سے لالہ زار بن گئی اور وہاں ایک متنفس بھی زندہ نہ بچا۔

اس زرخیز وادی سے گزر کر چنگیز نے سمرقند کا رخ کیا۔ لیکن اہل سمرقند نے بغیر لڑائی لڑے اپنے آپ کو تاتاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان سے تاتاریوں نے وہی سلوک روا رکھا۔ جو وہ روا رکھتے چلے آ رہے تھے۔ یعنی قتل عام اور شہر کو نذر آتش کر دیا گیا۔
خوارزم شاہ کا تعاقب:
خوارزم شاہ نے اپنی سلطنت کی تمام امیدیں سمرقند سے وابستہ کر رکھی تھیں۔

لیکن جب اسے اس کی تباہی کی خبر پہنچی تو بدحواس ہو گیا۔ جب کوئی اسے سمجھاتا تو کہتا کہ اگر کوئی حالات سے میری نسبت زیادہ واقف ہے تو بے وقوف ہے۔ حالانکہ اس کے وہی حواری جو پہلے کہتے تھے کہ ہم ڈاکوؤں کو ایسی سزا دیں گے کہ اگر وہ پر لگا کر اڑنے بھی لگیں تو وطن نہیں پہنچ سکیں گے۔ اب سب بدحواسی کے عالم میں جان چھپانے کی فکر میں تھے۔ خوارزم شاہ جان چھپانے کیلئے دارایوش سے بھی زیادہ دوڑا۔

یا یزدگرد جیسے مسلمانوں کی آمد پر بھاگا تھا۔ ماہ صفر 617ھ میں چنگیز خان نے سمرقند فتح کرکے فوج کے دو دستے خوارزم کے تعاقب میں بھیجے۔ یہ لوگ جہاں جاتے کوئی ان کے مقابلے کیلئے آگے نہ بڑھتا۔ خوارزم شاہ اس وقت قزوین میں تھا جب اسے تاتاروں کے رے فتح کرنے کی خبر ملی جو وہاں سے سو میل کے فاصلے پر تھا تو وہاں سے بھاگا اور فوج بھی منتشر ہو گئی۔

خوارزم شاہ مغلوں کے آگے بھاگتا ہوا قارون دژ میں پہنچا جہاں اس کے اہل و عیال اور خزانہ موجود تھا۔ لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے دوسری طرف مغلوں نے محاصرہ کر لیا۔ وہاں سے بھاگتا ہوا استر آباد اور استر آباد سے آمل پہنچا۔
خوارزم شاہ کی وفات:
آمل سے ایک جزیرہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گیا اور جب اس کے پاس خبر پہنچی کہ مغلوں نے قلعہ قارون وژ فتح کرکے خزائن و اموال اور اس کے اہل و عیال پر قبضہ کر لیا ہے۔

یہ خبر سن کر اس کو سخت صدمہ ہوا اور اسی رنج و ملال میں فوت ہو گیا۔ جن کپڑوں کو پہنے ہوئے تھا۔ انہیں میں دفن کر دیا گیا۔ کفن بھی میسر نہ ہوا۔
اس عرصہ میں بخارا  سمرقند  بلخ  ہرات  نیشاپور  ماژندران وغیرہ پر مغلوں نے قبضہ کرکے قتل عام کیا۔ نیز خوارزم شاہی قیدیوں کو چنگیز خان کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے سب کو قتل کر دینے کا حکم دے دیا۔ اہل ہمدان جو مغلوں کی تیغ بے دریغ سے بچ رہے تھے۔ مغلوں کے عامل کو کمزور دیکھ کر علم بغاوت بلند کیا اور اس کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد مغلوں نے اہل ہمدان کو نہایت عبرتناک اور سفاکانہ طریقہ سے قتل کیا۔ پھر کسی کو مقابلے اور مقاتلے کی جرات نہ ہوئی۔










SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: