ملک شاہ کی سیرت:
عماد الدین اصفہانی لکھتا ہے کہ ملک شاہ عادل شجاع حوصلہ مند ، نڈر، صاحب الرائے ، باتدبیر اور تخت و تاج کا حقیقی فرمانروا تھا۔ سلجوقی سلاطین میں اس کے آغاز اور انجام میں ایک تناسب تھا۔ جس ملک پر حملہ کیا اس کو فتح کیا اور جس دشمن کے مقابلے کیلئے نکلا اسے زیر کیا۔ شام انطاکیہ سے قسطنطنیہ کی سرحد تک پہنچ گیا اور ان ملکوں سے ایک ہزار دینار سرخ وصول کئے۔
ملک شاہ نے اتنے ملک زیر نگین کئے اور سلجوقی حکومت کا رقبہ اتنا وسیع کر دیا کہ خلفائے متقدمین کے سوا بعد کے کسی دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی سلطنت کا رقبہ طول میں چین سے بیت المقدس اور عرض میں قسطنطنیہ سے بحیرہ خزر تک بقول ابن خلقان تھا۔
سلطنت کی توسیع کے ساتھ ساتھ اس کو علمی اور تمدنی حیثیت سے بھی اوج کمال تک پہنچایا راوندی کا بیان ہے کہ ملک شاہ کے اسلاف نے جہانگیری کی اور اس نے جہانداری۔انہوں نے حکومت کا پودا نصب کیا۔ اس نے پھل کھایا۔ انہوں نے تخت سلطنت بچھایا۔ اس کے زمانے میں برگ و بار لایا۔ اس کا دور سلجوقی سلطنت کے شباب ملک کی بہار اور لباس شاہی کی زیب و زینت کا زمانہ تھا۔
وہ عادل تھا چنانچہ اس کا لقب بھی الملک العادل ہو گیا۔ راوندی لکھتا ہے کہ قیام عدل میں اس کو اتنا اہتمام تھا کہ اس کے زمانہ میں ظلم مفقود ہو گیا۔اگر شاذو نادر کسی پر ظلم ہو جاتا تو مظلوم براہ راست ملک شاہ سے فریاد کر سکتا تھا۔ اس کی عدل پروری کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم اورزیادتی عموماً فوج اور اس کے افسروں کی جانب سے ہوتی ہے۔ لیکن ملک شاہ کے خوف سے سلجوقی فوجوں کو اس کی بھی جرات نہ ہوتی تھی۔ عوام بے خوف ہو کر اس کی فوج میں گھومتے پھرتے تھے اور کسی فوجی کو ان پر زیادتی کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
رعایا کی سہولت کیلئے رفاہ عامہ کے بہت سے کام سرانجام دیئے حدود سلطنت میں ہر قسم کے تجارتی ٹیکس موقوف کر دیئے۔ سارے ممالک محروسہ میں سڑکیں نکلوائیں گزرگاہوں پر سرائیں اور دریاؤں پر پل تعمیر کروائے۔ مکہ معظمہ کے راستے پر جا بجا پانی کے ذخیرے کیلئے حوض اور تالابب بنوائے بدوؤں اور حرم کے خدام کیلئے وظائف مقرر کئے اس کے زمانے میں شیخ الحرم کی جانب سے ہر حاجی سے سات دینار ٹیکس لیا جاتا تھا۔ملک شاہ نے اس کے معاوضہ میں جاگیر مقرر کرکے ٹیکس بند کرا دیا۔
اس کے دور میں علم کو بہت ترقی ہوئی خصوصاً بغداد میں مدرسہ نظامیہ کا قیام پھر اس میں امام غزالی، جیسے یگانہ عصر عالم مقرر کئے اس کے علاوہ بلخ ، نیشا پور ، ہرات ، اصفہان ، بصرہ ، موصل ، آمل اور عراق کے تمام شہروں میں مدرسے قائم کئے۔ تمام طلباء کو وظائف ملتے تھے۔ نظام الملک طوسی جیسے قابل وزیر کی نگرانی میں یہ سب کام ہوتا تھا۔جو خود اپنی آمدنی کا دسواں حصہ مدارس کیلئے نکالتا تھا۔
ملک شاہ خود بھی صاحب علم تھا اور اس سے زیادہ علم و فن اور اہل علم اور ارباب کمال کا قدردان تھا اس نے سلجوقی حکومت کے جغرافیے پر خود ایک رسالہ لکھا تھا اس کے دور کی علمی خدمات کے سلسلہ میں سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر زیچ ملک شاہی ہے۔ جس کو اس کے نام پر حکیم عمر خیام نے ترتیب دیا تھا۔زیچ چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔
ملک شاہ کو فن تعمیر سے بھی دلچسپی تھی۔ اس نے اپنے دارالسلطنت اصفہان میں شہر کے اندر اور بیرون شہر بکثرت عمارتیں بنوائیں اور باغات لگوائے۔
نغمہ اور سرور سے بھی ذوق رکھتا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے۔ ایک دفعہ خوش گلو اور حسین مغینہ کا گانا سن رہا تھا۔ اسے اس کی آواز اور صورت بہت بھائی۔جب سلطان کی نیت میں فتور پیدا ہوا تو مغینہ نے کہا شاہا! یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حسین و جمیل چہرہ آتش دوزخ کا ایندھن بنے۔ حلال و حرام کے درمیان صرف ایک بول کا فاصلہ ہے۔ سلطان کے دل پر یہ بات اثر کر گئی اس نے کہا تم سچ کہتی ہو اور اسی وقت قاضی بلوا کر نکاح کر لیا۔ (ابن خلقان جلد دوم صفحہ 124)
سلطان سیر و شکار کا بڑا شائق ہی نہ تھا بلکہ فریفتہ تھا اس کے اوقات کا بڑا حصہ اس شغل میں صرف ہوتا تھا۔ایسا قادر تیر انداز تھا کہ ایک دفعہ ایک دن میں ستر ہرن شکار کئے ہر شکار کے کفارہ میں ایک دینار خیرات کرتا تھا۔ اس کے شکاروں کی مجموعی تعداد دس ہزار جانوروں تک پہنچتی ہے۔ اس کا مستقل شکار نامہ لکھا جاتا تھا۔ جو کتابی شکل میں بعد میں بھی موجود تھا۔ عرب ، عراق ، خراسان ، ماورانہر ، خوزستان اور اصفہان وغیرہ میں جہاں بڑی بڑی شکار گاہیں تھیں وہیں اس نے شکار کی یادگاریں قائم کیں تھیں ان مندرجہ بالا صفات و کمال کی بناء پر اور اپنی سیرت کے لحاظ سے ملک شاہ دنیا کے بہترین سلاطین میں سے تھا۔
نظام الملک طوسی:
ملک شاہ کا ذکر نظام الملک کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں نظام الملک کا نام ابو علی حسن بن اسحاق ہے۔ یہ اپنے وقت کا جلیل القدر مدبر تھا۔ اس کی پیدائش 1017ء کے لگ بھگ طوس میں ہوئی باپ کھیتی باڑی کرتا تھا۔ اس کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی لیکن اس کے باوجود تعلیم خاطر خواہ ہوئی۔ حدیث وفقہ اور عربی زبان میں اعلیٰ مقام درجہ حاصل کیا۔فارغ التحصیل ہونے کے بعد حاکم بلخ نے اپنے دیوان رسالت میں اسے ایک ذمہ دار عہدے پر فائز کیا۔ نظام الملک نے فطری ذہانت کی بدولت یہاں بہت عزت اور ناموری حاصل کی۔ یہاں تک کہ حاکم بلخ نے زندگی کے آخری لمحات میں شہزادہ الپ ارسلان کی خدمت میں پرزور سفارش کی اسی سفارش کا نتیجہ ہوا کہ شہزادہ نے اسے اپنا سفیر مقرر کیا اور جب وہ تخت نشین ہوا تو اسے ایران کی وزارت عظمیٰ کا منصب سونپ دیا۔
نظام الملک ایک اعلیٰ درجے کا مدبر اور ایک متدین عالم تھا۔ دہریوں ملحدوں اور فرقہ اسماعیلیہ سے اسے دلی نفرت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ لوگ دین حق کے بدترین دشمن ہیں نظام الملک علماء کا قدردان تھا۔ اہل خیر کا دوست۔ اہل علم کاشیدائی تھا۔ وہ شب و روز اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ ملک میں امن و امان قائم رہے۔ عوام خوش حال ہوں اور علم و دین کی اشاعت ہو۔نظام الملک نے وزارت کے دوران سب سے پہلا اہم کام یہ کیا کہ بغداد میں مدرسہ نظامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے میں جس کو حقیقت میں یونیورسٹی کہنا چاہئے۔شہرہ آفاق معلم تدریس مقرر کئے گئے تھے۔
نظام الملک کا زوال:
نظام الملک خوشحالی اور امن و امان کے اس دور میں بیشتر وقت ملک شاہ کے ساتھ گزارتا تھا اور مفید مشوروں سے اس کی رہنمائی کرتا تھا۔ساتھ ہی وہ ان مدارس کی دیکھ بھال بھی کرتا جو اس نے بغداد نیشا پور اور اصفہان میں قائم کئے تھے۔
نظام الملک کے بارہ بیٹے تھے اور سب کے سب سرکاری عہدوں پر فائز تھے۔ اس خاندان کی ذہانت اور فطانت ہمیں ایران کے نامور برمکی خاندان کی یاد دلاتی ہے۔ اس خاندان کا انجام بھی ویسا ہی حسرت ناک ہوا جیسا کہ برمکی خاندان کا ہوا تھا۔ نظام الملک کے خاندان کے جاہ و جلال پر اکثر لوگ حسد کرنے لگے اور حاسدوں نے کئی مبالغہ آمیز باتیں بادشاہ تک پہنچا کر نظام الملک کو سبکدوش کروا دیا۔جب وہ اپنے اہل و عیال سمیت حج کو جا رہا تھا تو راستے میں نہاوند کے مقام پر ایک فدائی نے پیٹ میں خنجر بھونک کر اس جلیل القدر عالم کا خاتمہ کر دیا۔
بعض تذکرہ نویس یہ بھی لکھتے ہیں کہ قتل تاج الملک کی ایماء پر ہوا تھا۔ جو معزول شدہ وزیر کو ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا کر اپنے آپ کو محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔
ملک شاہ کے جانشین:
ملک شاہ کے چار بیٹے تھے۔ان میں سب سے بڑا برکیا روق تھا جس کی عمر اس وقت بارہ سال تھی۔ محمد اس سے چھ ماہ چھوٹا تھا۔ سنجر کی عمر آٹھ سال تھی اور سب سے چھوٹا محمود تھا جس کی عمر چار سال تھی۔ملک شاہ کی وفات کے بعد ترکان خاتون نے جو کہ اس وقت بغداد میں تھی۔ اپنے چار سالہ بیٹے محمود کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ خلیفہ المقتدی پر دباؤ ڈال کر اس سے بھی رضا مندی حاصل کر لی۔
برکیا روق باپ کی وفات کے وقت اصفہان میں تھا۔ اس لئے ترکان خاتون نے اس کی قید کے احکامات بھیج دیئے۔ برکیا روق ملک شاہ کی دوسری بیوی زبیدہ کے بطن سے تھا لیکن اس سے بیشتر ہی نظام الملک کے بیٹوں نے ”رے“ میں لے جا کر تاج پہنایا۔ اس عرصے میں ترکان خاتون نے مجد الملک تاج الملک ، ابو العتائم اور امیر بغرا خان کی مدد سے اصفہان پر قبضہ کر لیا۔ برکیا روق نے اصفہان پر فوج کشی کا حکم دیا۔ لیکن اس کے فوجی دستے پانچ لاکھ دینار کی رقم قبول کرکے لوٹ آئے۔
0 Comments: