علماء وفضلائے دربار
قدرتی ذرائع کی فراوانی، دریاؤں، ندیوں اور نہروں کی افراط، زمین کی زرخیزی، آب وہوا کی سازگاری اور درآمدی اور برآمدی تجارت کے غیر معمولی فروغ اور صنعت وحرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے عوام مقابلتاً اسودہ حال تھے۔ رواجِ زمانہ کے مطابق علومِ متداولہ کی درس وتدریس کے لیے مدرسوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ چنانچہ ہر شیعہٴ علم کے ماہرین ملک کے طول وعرض میں علم وفن کی خدمت میں مصروف تھے۔بالخصوص خوارزم میں ایسے لوگوں کی بہتات تھی۔ کچھ دربار سے وابستہ تھے اور جن کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکتی تھی وہ اپنے طور پر علوم وفنون کی اشاعت میں مصروف رہتے۔ خوارزمی خاندان کے برسر اقتدار آنے سے پیشتر ہی خوارزم اپنے بعض فضلا کی وجہ سے خواص وعوام سے متعاف ہوچکا تھا، جن میں سے دو خاص طور پر قابلِ ذکرہیں۔
ان میں سے ایک کا نام محمد بن موسی الخوارزمی اور دوسرے کا نام ابو عبداللہ محمد بن احمد بن یوسف تھا۔
اول الذکر کی تاریخ پیدائش اور یوم وفات کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی وفات تیسری صدی ہجری کی پہلی تہائی میں یعنی ۲۳۲ھ/ ۸۳۲ ع میں واقع ہوئی۔ یہ فاضل المامون خوارزم شاہ کا معاصر اور متوسلین دربار میں سے تھا۔ یہ شاہی دربار کا نجومی تھا اور مقربین میں شمار ہوتا تھا۔ وہ ایک عظیم المرتبت ریاضی دان، جغرافیہ دان، ہیئت دان اور مورخ تھا۔کتاب التاریخ اس کی مشہور تصنیف ہے جس سے بعد میں مسعودی اور طبری نے فائدہ اٹھایا۔ اس کی ایک کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا گیا تھا۔ اس طرح اصطرلاب پر اس فاضل کے قلم سے دو کتابیں نکلیں جن میں سے ایک کا نام”کتاب العمل بالاصطراب“ تھا اور دوسری کا نام”کتاب الامر الاصطرلاب“ لیکن افسوس کہ کہ ان دونوں کتابوں کا کوئی نسخہ کہیں نہیں ملتا۔اس کے علاوہ اس نے ایک اٹلس بھی تیار کیا تھا جس میں اقلیم وار بڑے بڑے شہروں کا محلِ وقوع دکھایا گیا تھا۔ اس کتاب کے ایک حصے میں علمِ ہیئت کی بعض مفید معلومات جمع کر دی گئی تھیں، جس میں ستاروں اور سیاروں کے محور اور مدار دکھائے گئے تھے۔ ۱۱۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام: ج ۵ ، ص ۹۱۲ - ۹۱۳-
محمد بن احمد الخوازمی”مفاتیح العلوم“ کا مصنف تھا۔یہ کتاب ابتدائی اسلامی علوم وفنون کا دائرة المعارف شمار ہوتی تھی جسے مصنف نے سامانی بادشاہ نوح دوم کے وزیر ابو الحسن عبیداللہ بن علی العتبی کے نام سے معنون کیا تھا۔ خوارزمی نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ اپنے مربی کے ساتھ نیشاپور میں بسر کیا۔ یہ شخص اپنے عہد کا بہت بڑا ریاضی دان تھا۔ اور اس نے ان یونانی تصنیفات سے بھی جو اس شیعہٴ علم کے متعلق عربی زبان میں ترجمہ ہوچکی تھیں، فائدہ اٹھایا تھا۔
ہرچند تعلیم وتدریس کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی، کثرت سے مکتب اور مدرسے کھل گئے تھے جن میں حکومت کی طرف سے تعلیم کا مفت انتظام تھا، اساتذہ کو گراں قدر مشاہدے ملتے تھے، طلبہ کے قیام وطعام کا بندوبست بھی مدرسے کی ذمہ داری تھی، ہر مکتب اور مدرسے کے لیے بڑی بڑی جائدادیں وقف تھیں جن کی آمدنی سے ان کے اخراجات کی کفالت کی جاتی۔ مسلمان سلاطین ہمیشہ علم وفضل کی سرپرستی کو دین ودنیا کی سعادت اور کامرانی کے ذریعہ سمجھتے ہے ہیں۔لیکن جب سے نظام الملک طوسی نے بغداد اور نیشا پور میں ایک یہ نام کے دو مدرسے جاری کیے تھے اور ان کے اخراجات کی کفالت اپنے ذمے لے لی تھی، تمام اسلامی ممالک کے امرا اور وزرا میں اس باب میں جذبہٴ مسابقت پیدا ہوگیا تھا اور ہر چھوٹے بڑے قصبے اور شہر میں دھڑا دھڑ سکول اور کالج کھل گئے تھے۔ لیکن ان تمام سہولتوں کے باوجود پڑھنے لکھنے والا طبقہ محدود سا تھا۔کچھ تو اس لیے پڑھتے تھے کہ ہر حکومت کو پڑھے لکھے لوگوں کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ اس لیے کہ تعلیم سے معاشرے میں وقار بڑھتا ہے، مہذب لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے اور انسان کے اطوار واخلاق میں شائستگی اور دلربائی پیدا ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد محدود ہوتی ہے۔
جب خوارزم شاہی خاندان نے سلجوقیوں کی سلطنت کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تو لازماً انہیں سلجوقیوں کی روایاتِ علم دوستی اور معارف پروری بھی ورثے میں ملیں۔چنانچہ خوارزم میں بے شمار مکتب اور مدرسے کھل گئے جن میں سے سب سے مشہور وہ کالج تھا جس کے پرنسپل مولانا فخر الدین رازی تھے جو اپنے عہد کے بہت بڑے فلسفی اور مفسر قرآن تھے۔ بخارا جو سامانی عہد سے علوم عقلی ونقلی کا گہوارہ چلا آرہا تھا، اپنے اس اعزاز کو قائم رکھے ہوئے تھا جہاں دور دراز سے سینکڑوں طالب علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آتے تھے۔اس عظیم شہر کی کوئی مسجد ایسی نہ تھی جس کے ساتھ کوئی مکتب یا مدرسہ نہ ہو۔ ان مدارس کی مقبولیت کا راز وہ جلیل القدر علما اورفضلا تھے جن کی شہرت تمام عالم اسلام میں پھیلی ہوئی تھی اور بڑے بڑے عظیم المرتبت علما ان کے حلقہٴ درس میں شریک ہونے کے لیے دور دراز کی منزلیں طے کر کے آتے تھے۔ ہر چند پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں مسلمانوں میں وہ پہلی سی مہم جوئی کا جوش باقی نہیں رہا تھا لیکن تاہم اکتسابِ علم کی لگن بہت حد تک باقی تھی۔
خوارزم میں تقریباً ہر مدرسے کے ساتھ ایک کتاب خانہ پایا جاتا تھا جس سے طلبہ اور اساتذہ استفادہ کرتے تھے۔ عہدِ حاضر کی طرح ایسی لائبریریاں بھی تھیں جن سے عام لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ نجی اور ذاتی کتاب خانے بھی تھے جو امرا اور خواص اہلِ علم کی ذاتی ملکیت تھے۔ چونکہ کتابیں مہنگی ہوتی تھیں اس لیے درمیانہ طبقے کے آدمی کے لیے کتاب کا خریدنا از بس مشکل تھا اس لیے انہیں عوامی کتاب خانوں سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔
صوبہ خراسان میں مرو کی وہی حیثیت تھی جو ماوراء النہر میں خوارزم کی تھی کیونکہ سلجوقیوں کے عہد میں مرو کو وہ مقام حاصل تھا جو خوارزم کو خوارزم شاہیوں کے عہد میں تھا۔ یاقوت حموی مشہور جغرافیہ دان، جو سلطان محمد اور جلال الدین خوارزم شاہ کا معاصر تھا، خوارزم اور مرو میں مغلوں کے حملے سے پہلے اپنی مشہورِ عالم تصنیف”معجم البلدان“ کی ترتیب کے سلسلے میں طویل عرصہ تک قیام کرچکا تھا۔اور اگر وہ بھاگ نکلنے پر مجبور نہ ہوتا تو مرو سے ہلنے کا نام نہ لیتا۔ وہ خوارزم میں ہی تھا کہ مغلوں نے اترار اور اس کے بعد سمرقند پر حملہ کیا۔ چاروں طرف کشت وخون کا بازار گرم تھا اور اس کے بعد سمرقند پر حملہ کیا۔ چاروں طرف کشت وخون کا بازار گرزم تھا اور ہر شخص کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ بڑے بڑے پرُرونق شہر تباہ وبرباد ہوگئے تھے۔لیکن شمعِ علم کا یہ پروانہ ماحول سے بے خبر کتابوں کے دفتر کھنگالنے میں مصروف تھا۔ بالآخر اس نے خوارزم کو بادلِ نخواستہ اس وقت الوداع کہا جب مغلوں کا ہر اول دستہ نواحِ شہر میں داخل ہوگیا۔ وہاں سے نکل کر وہ مرو آیا جہاں تین سال تک شہر کے مختلف کتاب خانوں سے فائدہ اٹھاتا رہا اور جب مجبوراً یہاں سے بھی نکلنا پڑا تو اس کا دل خون کے آنسو رورہا تھا۔
وہ مرو کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہاں دو بڑی عظیم جامع مسجدیں تھیں جن میں ایک حنفیوں کی تھی اور دوسری شافعیوں کی۔ دونوں مسجدوں کے پہلو میں نادر اور قیمتی کتب کی لائبریریاں تھیں جن سے اہلِ علم استفادہ کرتے تھے۔ ان دو کے علاوہ آٹھ کتاب خانے اور تھے جن میں سے ایک کا نام العزیزیہ اور دوسرے کا نام کمالیہ تھا جن میں کتابوں کی تعداد بارہ بارہ ہزار تھی۔اول الذکر کا بانی تبریز الدین ابو بکر عتیق الزنجانی تھا جو سلطان سنجر سلجوق کے دربار میں آبداری کے منصب پر فائز رہ چکا تھا۔ ان کتب خانوں میں سے ایک کتاب خانہ شرف الملک ابو سعد محمد بن منصور(وفات ۹۴ ہجری مطابق ۱۱۰۱ عیسوی) کے مدرسے سے متعلق تھا۔ مدرسہ نظامیہ نیشا پور کی لائبریری جس کا بانی نظام الملک طوسی ہی تھا، اہل علم وفضل کا مرکز تھی اور استفادے کے لیے لوگ دور دراز کا سفر طے کرکے وہاں جاتے تھے۔سامانی سلاطین کے قائم کردہ دو کتاب خانے بھی تاحال موجود تھے، نیز مدرسہ، خاتونیہ اور عمیدیہ کے ساتھ بھی ایک ایک لائبریری تھی۔ ان کے علاوہ دو اور لائبریریاں تھیں جن میں سے ایک کا بانی مجدالملک تھا۔ دوسری کا نام دمیریہ تھا جس میں اگرچہ صرف دو سو کتابیں تھیں لیکن ایسی نایاب کہ ان میں سے ہر ایک دو ہزار دینار میں بھی ارزاں تھی۔ ۱
۱۔معجم البلدان: ج ۹ ، ص ۳۵ - ۳۶ -
جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں، اس خوارزم شاہی خاندان کا بانی انوشتگین تھا جو سلطان سنجر کے دربار میں طشت داری کے منصب پر سرفراز تھا اور جسے خوارزم کی جاگیر بطور حق الخدمت کے عطا کی گئی تھی۔ انوشتگین تمام عمر دربار سے علیحدہ نہ ہوا اور جاگیر کا بندوبست کار مختاروں کے سپرد رہا۔ جب جانشینی کی نوبت اتسزتک پہنچی تو چونکہ یہ شخص بڑا منچلا اور اولوالعزم تھا اور دربار کی پابندیوں سے سخت اکتایا ہوا تھا اس لیے اس نے سلطان سے جاگیر پر حاضری کی اجازت لے لی۔کچھ عرصے تک تو دربار سے اس کے تعلقات اچھے رہے لیکن بعد میں یہ صورتِ حال قائم نہ رہ سکی۔ جب اتسز کے دل میں خود مختاری اور آزادی کا خیال پیدا ہوا تو رسم زمانہ کے مطابق خوارزم شاہی دربار میں بھی علما اور شعرا کا اجتماع ہونے لگا۔ چنانچہ شعرا میں رشید وطواط اور علما میں علامہ زمخشری مفسر قرآن خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جن کے مضمر حالات بعد میں بیان کیے جائیں گے۔
اب ہم ترتیب وار ان علماء اور فضلا کا ذکر کرتے ہیں جو اس دربار سے وقتاً فوقتاً وابستہ رہے۔
۱ - الشہر ستانی:
شہرستانی کا نام ابو الفتح محمد بن ابو القاسم عبدالکریم بن ابو بکر احمد تھا۔ یہ فاضل خراسان کے ایک قصبے میں، جونسما سے تن میل کے فاصلے پر تھا، ۴۶۹ھ / ۱۰۷۶ ع میں پیدا ہوا۔ ۱ ابو محمد محمود بن محمد ارسلان الخوارزمی (۵۶۸ھ/۱۱۷۲ع) جو تاریخ خوارزم کا مصنف ہے، شہرستانی کے بارے میں لکھتا ہے کہ”یہ بہت بڑا جلیل القدر عالم تھا اور اگر وہ اہل السنت والجماعت کے مسک سے انحراف نہ کرتا اور فلسفے سے وابستگی کا اظہار نہ کرتا تو اپنے وقت کا امام اور مجتہد ہوتا۔ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ باوجود اس علم وفضل کے وہ کیوں کر علم کے ایسے شعبے سے تعلق رکھتا تھا جس کی بنیاد سراسر ظن اور تخمین پر ہے اور جس کے نظریاں کے ثبوت میں نہ کوئی عقلی دلیل پیش کی جاسکتی ہے اور نہ نقلی۔ خدا ہم سب کو اس گمراہی سے محفوظ رکھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس نے دین اسلام سے منہ موڑ کر فلسفے کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہنے کو ترجیح دی تھی۔وہ میرا ہمسایہ تھا اور مجھے اکثر اس سے بعض مسائل پر گفتگو اور بحث مباحثہ کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ وہ فلسفے کا اتنا دلدادہ تھا کہ حکما کے ہر سچے جھوٹے قول کی تائید میں دلائل کے انبار لگانے شروع کردیتا۔ مجھے کئی دفعہ اس کی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا لیکن یاد نہیں پڑتا کہ اس نے کبھی بھی اپنی تقریروں کی اثنا میں قرآن کی کوئی آیت یا حضور اکرم ﷺ کی کوئی حدیث بیان کی ہو یا شریعت کے کسی مسئلے پر روشنی ڈالی ہو۔“ ۲
۱۔ معجم: ج ۵ خ ص ۳۱۵ -
۲۔ معجم: ج ۵ ، ص ۴۱۵ - ۴۱۶ -
۴ - العریضی:
ابو القاسم محمود بن عزیز العریضی الخوارزمی، علامہ زمخشری کا معاصر تھا۔ وہ عربی علمِ ادب اور فلسفے میں یکتائے روزگار تھا۔ یاقوت حموی لکھتا ہے کہ وہ اپنے عہد کا بہت بڑا جلیل القدر عالم تھا۔ وہ عقلی علوم کا اتنا دلدادہ تھا کہ مذہبی علوم کی طرف قطعاً دھیان نہیں دیتا تھا، بلکہ جب اس کا بس چلتا مذہب پر نہایت سختی سے تنقید کرتا۔لوگ اس کی فضیلت اور علم پروری کی وجہ سے اسے”مشرق کا سورج“ کہتے تھے۔ علامہ زمخشری اس کا اتنا مداح تھا کہ وہ اسے جاحظ ثانی کہتا تھا۔ وہ خوارزم شاہی دربار سے وابستہ تھا اور سلطان اس کا بڑا احترام کرتا تھا۔ آخر میں وہ دربار سے علیحدہ ہو گیا تھا اور مرو میں گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ جہاں اس نے ۵۱۰ھ / ۶۶ة ۱۱۷ ع میں خود کشی کرلی تھی۔ ۱
۱۔ بغایا، ۳۸۸ -معجم الادبا ، ۱۹ ، ۱۲۶ -
0 Comments: