Monday, July 12, 2021

قسط نمبر 8 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

Molana-620x410



عمارات: سامانیوں کے عہد میں اسلامی فن تعمیر کی داغ بیل ڈالی گئی۔ چنانچہ بخارا میں سامانی امیر اسماعیل کا مقبرہ تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقبرہ ہے۔ اس کے بعد اسی فن کی پیروی میں ہندوستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں اسی طرز کے مقابر تعمیر کئے گئے۔ اس مقبرہ میں مسدس بنیادوں پر ایک گنبد تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے نیچے دونوں طرف کھڑکیاں اور وسط میں بلند دروازہ لگایا گیا۔ اس مقبرہ میں وضع قطع کی سادگی کے باوجود آرائشی عناصر کا کمال اور نفاست عیاں ہے۔ علم و ادب کی ترقی: عہد سامانیہ کو ادیبات فارسی کا اولین دور سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اسی خانوادے سے ایرانی ادیبات کا احیا منسوب ہے۔ سامانی بادشاہ اپنی قوم اور نسل کو بڑی اہمیت دیتے تھے اسی وجہ سے وہ اپنی زبان فارسی کے بھی شیدائی تھے۔ خراسان میں فارسی علم و ادب کی ترقی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خراسان تک عربوں کے قدم دیر سے پہنچے تھے۔ دوسرے یہ کہ یہاں عربوں کی حکومت براہ راست بہت تھوڑی دیر قائم رہی۔ رودکی جس سے سبک خراسانی منصوب ہے۔ اسی عہد کا مشہور شاعر ہے۔ بلعمی جیسا دانش مند اور مفکر اسی خانوادے کا وزیر ہے۔ اسی خانوادے کے دوران حکومت میں فارسی نثر وجود میں آئی اور شعر تو کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ بنو سامان علم دوست اور علم نواز حکمران تھے۔ شہر بخارا جو بنو سامان کا پایہ تخت رہا مرکز عظمت ، حریم سلطنت ، دانشوروں کا ملجا و ماوی ، ادب و فن کے ستاروں کا افق اوج اور شہرہ آفاق علماء کی آماجگاہ تھا۔ علم و ہنر کا دوسرا مرکز سمرقند تھا۔ سامانی فرمانرواؤں نے عربی فارسی ادب کی بہت سرپرستی کی۔ جدید فارسی ادب کا آغاز اسی دور میں ہوا فردوسی نے بھی اپنی شاعری کی ابتداء اسی دور میں کی۔ نوح (976-997) نے شہرہ آفاق سائنس دان ابن سینا کو اپنے دربار میں مدعو کیا اور شاہی کتب خانہ اس کے استعمال کیلئے وقف کر دیا۔ دوسری خود مختار حکومتیں امرائے طبرستان: دولت سامانیہ کے ساتھ ساتھ اور حکومتیں بھی قائم تھیں جن میں سے ایک طبریوں کی حکومت ہے۔ اس حکومت کا بانی حضرت علی کی اولاد سے ایک شخص حسن بن زید بن اسماعیل تھا۔ یہ شخص خلیفہ المستعین کے عہد (وفات 253ھ) میں رے میں مقیم تھا۔ یہاں اس نے بیعت کی دعوت دی۔ طبرستان کے امراء اور عوام عرب حکام سے ناخوش تھے۔ اس لئے جوق در جوق اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے اور اسے امیر تسلیم کر لیا۔ آخرکار 250ھ میں وہ اپنی آزاد حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت ماژندران اور گرگان کے علاقے خلیفہ بغداد کے ماتحت تھے۔ حسن بن زیاد نے ان علاقوں پر لشکر کشی کرکے خلیفہ کی فوجوں پر فتح پائی اور یہ علاقے بھی اس کی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ حسن 275ھ میں فوت ہوا تو اس کے بعد محمد بن زید (270ھ تا 278ھ) نے حکومت سنبھالی۔ محمد بن زید اسماعیل بن احمد سامانی کے ہاتھوں 278ھ میں مارا گیا اور گرگان ماژندران اور طبرستان کے علاقے سامانی سلطنت میں شامل ہو گئے۔ آل زیار: آل زیار کی حکومت کا زمانہ 316ھ تا 434ھ ہے۔ سامانی حکمران نصر دوم کے زمانے میں ایک شخص علی بن اطراوش نے طبرستان میں عہد علویہ کی بنیاد رکھی تھی۔ لیکن چند ہی سال بعد ایک اور شخص مروادیج بن زیاد نے طبرستان کا علاقہ اس سے چھین لیا اور رفتہ رتہ یہ شخص اصفہان اور ہمدان کے علاقوں پر قابض ہو گیا اور آل رفتہ زیار کی ایک خود مختار حکومت قائم کی جو ایک سو سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی۔ یہ عہد علم و فضل کی قدر دانی کی وجہ سے مشہور ہے۔ قابوس بن وشم گیر: مروایج کے جانشینوں میں قابوس بن وشم گیر (976ھ تا 1011ھ 366ھ تا 403ھ) خاص طور پر مشہور ہے۔ قابوس علم دوست حکمران تھا خود شاعر بھی تھا اور عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتا تھا۔ یہ وہی حکمران ہے جس نے ابو ریحان البیرونی ایسے نامور عالم کی پرورش کی۔ ابو ریحان نے اپنی مشہور تصنیف آثار الباقیہ من قرون الخالیہ اسی حکمران کے نام منسوب کی تھی۔ بو علی سینا بھی اسی کے دربار سے وابستہ تھے۔ قابوس کے بعد سکندر بن قابوس بادشاہ بنا اور اس کے بعد اس کا بیٹا امیر عنصر المعانی کیکاؤس تخت پر بیٹھا۔ اس نے مشہور عالم کتاب قابوس نامہ لکھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا گیلان شاہ تخت پر بیٹھا۔ اسی گیلان شاہ کی رہنمائی کیلئے اس کے باپ نے قابوس نامہ 975ھ میں لکھا۔ خاندان چغانیاں: ماورالنہر کا ایک معزز خاندان اپنے مورث اعلیٰ محتاج کے نام پر آل محتاج مشہور ہوا۔ دور سامانیہ میں انہیں بڑے بڑے منصب ملے۔ یہاں تک کہ ماورالنہر کی حکومت انہیں سونپ دی گئی۔ آل محتاج کا دارالسلطنت چغانیاں تھا۔ اس نام کی نسبت سے آل محتاج کا عہد ”عہد چغانیاں“ بھی کہلاتا ہے۔ آل محتاج کا ایک فرد ابو بکر بن مظفر بن محتاج چغانی کو امیر نصر بن احمد سامانی نے خراسان کا امیر لشکر بنایا تھا۔ اس کی وفات پر اس کا بیٹا ابو علی احمد اسی عہدے پر فائز رہا۔ اس نے 955ھ میں گرگان اور رے میں ماکان بن کاکی دیلمی پر فتح پاکر گرگان ، طبرستان ، زنجان اور کرمان شاہ کے علاقے سلطنت سامانیہ میں شامل کئے۔ 959ھ میں امیر نوح بن نصر سامانی کسی بات پر ابو علی سے ناراض ہو گیا اور اسے امیر لشکر کے عہدے سے معزول کر دیا۔ اس پر ابو علی نے بغاوت کی جس میں وہ کامیاب ہوا اور امیر نوح بن نصر کو بھاگ کر سمرقند میں پناہ لینی پڑی۔ اس کے بعد سامانی حکمرانوں کے ساتھ کبھی صلح اور کبھی جنگ ہوتی رہتی۔ آخر ابو علی 970ھ میں فوت ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے دو بیٹوں نے بھی مختصر سے وقت کیلئے حکومت کی۔ ان کے بعد ابو علی کا بھتیجا ابو المظفر طاہر بن فضل چغانیاں کا حکمران مقرر ہوا۔ یہ فاضل شخص تھا۔ اس کے بعد فخر الدولہ ابو المظفر احمد بن محمد تخت پر بیٹھا۔ یہ بھی ابو علی کا بھتیجا تھا۔ ابو المظفر کی شان میں وقیقی اور فرخی نے قصیدے لکھے۔ آل بویہ: بحیرہٴ خزر کے ساحل کا علاقہ دیلم کہلاتا ہے۔ خاندان بویہ کو دیلم سے نسبت تھی۔ اسی لئے یہ لوگ دیلمی کہلائے۔ البیرونی کے مطابق اس کا سلسلہ نسب بہرام گور سے ملتا ہے۔ خاندان بویہ کی مدت حکومت 946ھ تا 1050ء ہے۔ اس عہد کی بنیاد آل زیار کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ احمد بن بویہ: آل زیار نے کرج کی حکومت ایک شخص ابو الحسن علی بن بویہ کو اس کی خدمات کے صلے میں دی۔ علی کے دو بھائی بھی تھے۔ ان میں احمد سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ ان تینوں نے مل کر اپنی حکومت کو اتنی وسعت دی کہ جنوبی ایران کا علاقہ فارس بھی ان کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ خلیفہ بغداد نے تینوں بھائیوں کی حکومت تسلیم کر لی۔ اس سے ان کے حوصلے اور بھی بڑھے۔ احمد نے سلطنت کو اور وسعت دینے کیلئے خوزستان کا رخ کیا اور اسے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ احمد پھر 960ء میں بغداد پر حملہ آور ہوا اور خلیفہ مستکفی کو معزول کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ آخر اسی کی کوشش سے مقتدر کا بیٹا فضل خلیفہ بنا۔ فضل نے احمد کو معزالدولہ کا خطاب دے کر امیر الامراء بنا دیا۔ ساتھ ہی اس کے بھائی علی کو عمادالدولہ اور حسن کو رکن الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ رفتہ رفتہ معزالدولہ کو اس قدر اقتدار حاصل ہوا کہ بعد میں جس قدر خلفا مسند خلافت پر بیٹھے آل بویہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے۔ آل بویہ کی حکومت بالآخر تین حصوں یعنی رے ، عراق اور فارس میں منقسم ہو کر کمزور پڑ گئی اور سلطان محمود غزنوی نے بہت سے علاقے چھین کر انہیں مغربی ایران اور عراق کی طرف دھکیل دیا۔ پھر یہ رہی سہی سلطنت آل سلجوق کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔ آل بویہ کے حکمران شمس الدولہ ، عمادالدولہ ، غزالدولہ ،بہاء الدولہ ، جو علی احمد کے اور جانشین بنے آل بویہ کے عہد کانامور وزیر صاحب بن عباد تھا۔




SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: