خوارزم شاہی خاندان کا آغاز۔۔انوشتگین (۱۰۸۲ تا ۱۰۹۷)
ملک بادشاہ سلجوقی کے دربار میں یلکاتگین نامی ایک بااثر فوجی سردار تھا۔ اس نے غرجستان (غرجہ) سے ایک ترک غلام، جس کا نام انوشتگین تھا، خریدا جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی حد درجہ مقبول ہو گیا۔ چنانچہ سلطان کی طرف سے اسے ”طشت داری“ کی خدمت تفویض ہوئی۔ چونکہ اس زمانے میں خوارزم کا صوبہ شاہی طشت داری کی جاگیر شمار ہوتا تھا اس لیے انوشتگین کو خوارزم شاہ کہتے تھے۔
ابن اثیر۲# کا بیان ہے کہ کہ اس عزت افزائی سے پہلے انوشتگین فوج میں مقدم کے عہدے پر سرفراز تھا اور ایک ہزار سپاہی اس کی زبر کمان تھے۔
انوشتگین کے خوارزم شاہ بننے سے پہلے اس صوبے کا نظم و نسق اکنجی بن فوچقارہ کے سپرد تھا۔
جب وہ ۴۹۰ھ / ۱۰۹۷ع میں بہ مقام مرو قتل ہو گیا اور برکیارق (۴۸۵ھ۔ ۴۹۸/۱۰۹۲ ع۔ ۱۱۰۵ع) کو اس افسوس ناک حادثے کا علم ہوا تو اس نے صوبیدار خراسان، داد بیگ حبشی کو لکھا کہ اس فتنے کا فوری انسداد کیا جائے اور صوبے کی حکومت کسی موزوں آدمی کے سپرد کی جائے۔
اس وقت تک دستور العمل یہ چلا آ رہا تھا کہ خوارزم شاہ خود تو دربار میں موجود رہتا، لیکن کوئی دوسرا مصنف دار بطور نائب کے خوارزم جا کر حکومت کی ذمہ داری سنبھال لیتا۔ جب بلکاتگین نے ۴۷۵ھ/۱۰۸۲ع میں وفات پائی تھی تو ملک شاہ نے طشت داری کا منصب انوشتگین کے سپرد کر کے اکنجی بن قوچقار کو نائب نامزد کر دیا تھا۔ ۴۹ھ/۱۰۹۷ع میں اکنجی اپنے دو غدار امرا کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو دادیگ حبشی نے بہ تفصیل ارشادِ سلطانی قطب الدین محمد بن انوشتگین کو ہدایت کی کہ وہ فوراً موقع پر جا کر حکومت کا کاروبار سنبھال لے۔قطب الدین ایک صالح اور نیام الفطرت نوجوان تھا۔ صدر مقام پر پہنچ کر اس نے حالات کا جائزہ لیا۔ مسفدوں کو قرار واقعی سزا دی اور صوبے میں امن و امان بحال کر دیا۔ ایک موقع پر اسے خوارزم سے باہر جانے کی ضرورت پیش آئی تو لغرل تگین اکنجی کو اپنا قائم مقام مقرر کرتا گیا اور ہدایت کی کہ اس کی نہ مل سکے۔ لیکن چونکہ طغل تگین خود کو باپ کا جائز وارث سمجھتا تھا لیے اس نے اسے موقع سے اٹھانے کی ٹھان لی اور ہمسایہ ریاست کے ایے ترک سردار کو اشارہ کیا کہ وہ حملہ کر کے خوارزم پر قبضہ کر لے۔قطب الدین ہر چند صدر مقام سے دور تھا لیکن اس کے ہوا خواہ حالات کی رفتار سے غافل نہ تھے اور پرچہ نویس پل پل کی اطلاعات پہنچا رہے تھے۔ خوارزم شاہ ہوا کے پر لگا کر اڑا اور قبل اس کے کہ کشت و خون ہو، واپس صدر مقام پر پہنچ گیا۔
قطب الدین نے پورے تیس سال تک خوارزم شاہی فرائض سر انجام دیے اور سلطان سنجر سے، جو اپنے بھائی پر کیارق کے بعد ۵۱۱ھ/۱۱۱۸ ء میں تخت نشین ہوا تھا، اس کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔جب ۵۲۲ھ/ ۱۱۲۹ء میں اس نے وفات پائی تو مظفرالدین اتسز باپ کا جانشیں قرار پایا۔
مظفرالدین اتسز(۱۱۲۹ تا ۱۱۵۶)
اتسز ماہ رجب ۴۹۰ھ / ۱۰۹۷ء میں پیدا ہوا۔ جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوا تو خوارزم شاہ نے اس کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا۔ چنانچہ فضلائے عہد کی ہم نشیینی اور فیض تربیت سے اس نے علوم متداولہ میں اچھی خاصی استعداد بہم پہنچا لی۔فارسی زبان کا عمدہ ذوق رکھتا تھا، شعراء اور ادباء کی صحبتوں میں شریک ہوتا، ان کے کلام سے لطف اندوز ہوتا اور خود بھی شعر کہتا تھا۔
قطب الدین سلطان سنجر کے معتمدین میں سے تھا۔ جب اتسز باپ کا جانشین ہوا تو کسی کو اس کا وہم و گمان تک نہ تھا کہ جلد ہی جوان سال خوارزم شاہ کے تعلقات اپنے ولی نعمت کے ساتھ ناگوار صورت اختیار کر لیں گے۔اتسز بعض امور میں باپ کی صریح ضد تھا۔ قطب الدین کی وفاداری اور جاں نثاری تک شک و شبہ سے بالا تھی۔ چنانچہ اس نے عمر بھر اپنے دامن، اطاعت گزاری کو داغدار نہیں ہونے دیا تھا۔ اتسز ان اوصاف کی اہمیت کا چنداں قائل نہ تھا بلکہ موقع اور عمل کے مطابق جو صورت مناسب معلوم ہوتی، بلا توقف وہ رنگ ہی اختیار کر لیتا۔ نیز قطب الدین زندہ تھا تو اتسز اکثر سلطان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ملک شاہ کی وفات کے بعد سلجوقی خاندان بہ سرعت تمام زوال پذیر ہوتا جا رہاتھا۔ اتسز کی عقابی نگاہیں اس حقیقت کو بھانپ چکی تھیں۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو موقع کی نزاکت کا احساس نہ کر پائیں۔ نیز سلطان کی جلوت و خلوت میں حاضر رہنے سے نڈر اور بے باک ہو گیا تھا۔ چنانچہ سلجوقیوں سے کلو خلاصی کا اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا۔ ادھر قطب الدین نے وفات پائی ادھر اتسز نے اپنی جاگیر میں جانے کے لیے کوشش شروع کر دی اور بالآخر حصولِ مقصد میں کامیاب ہو گیا۔
ماوراء النہر کا صوبہ سلجوقیوں کا یلج گزار تھا۔ ۵۲۴ھ/۱۳۰ء میں وہاں کے حاکم طفاج خان نے بغاوت کر دی۔ سلطان سنجر کو خبر ملی تو طمغاج کی گوشمالی کے لیے لشکر کشی کا حکم دیا۔ جب سلطان بقمام بخارا پہنچا تو سستانے کے لیے چند روزہ قیام کا حکم دیا۔ اتسز اس مہم میں سلطان کے ہم رکاب تھا۔ ایک دن دوپہر کو سلطان خیمے میں بہ غرضِ آرام لیٹا ہوا تھا کہ چند امراء نے سازش کر کے سلطان کے قتل کے ارادے سے شاہی خیمے پر دھاوا بول دیا۔سنجر بہت بری طرح دشمنوں کے نرغ میں تھا اور قریب تھا کہ سازشی امرا اس کا کام تمام کر دیں کہ اتنے میں باہر سے دوڑتے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ امرا کے کان کھڑے ہو گئے، مڑ کر دیکھا تو اتسز تھا جو سلطان کی امداد کے لیے تلوار سونتے سرپٹ گھوڑا دوڑاتا چلا آ رہا تھا۔ مفسدہ پردازوں کو اپنی فکر پڑ گئی۔ سلطان کو وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔جب اوسان درست ہوئے تو سلطان نے اتسز کو گلے لگا لیا۔ پوچھا ”تمہیں کیونکر میری تکلیف کا علم ہوا؟“ عرض کیا ”جہاں پناہ! میں اپنے خیمے میں سویا ہوا تھا کہ ایک وحشت ناک خواب دیکھا، معاً آنکھ کھل گئی۔ خیال آیا کہ ذاتِ ہمایونی ضرور کسی خطرے میں ہے، چنانچہ میں اٹھ دوڑا۔“ سلطان کو اس بروقت امداد سے اتنی مسرت ہوئی کہ حد درجہ ممنونیت کا اظہار کیا اور جب تک زندہ رہا، اتسز کے نامناسب رویے کے باوجود اس کے اس جذبہ، جاں نثاری کو فراموش نہ کر سکا۔ہر چند اتسز نے بارہا بغاوت کی، اظہار اطاعت سے گریزاں رہا، ایک آدھ دفعہ لشکر لے کر مقابلے پر بھی اتر آیا لیکن ہر دفعہ سلطان نے درگزر کیا۔ امرا اس روز روز کی کھینچا تانی سے بڑے بیزار تھے۔ سلطان کو انتقام پر اکساتے، تو یہ کہہ کر خاموش ہو رہتا کہ:
”اور ابر ذمت ماحقوق بسیاراست“
اتسز کی بغاوت:
ایشیائی درباروں میں امرا کی باہمی رقابتوں کا سلسلہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔اس واقعے کے بعد جب امراء نے دیکھا کہ اتسز کو سلطان کی نگاہ میں خاص وقار حاصل ہو گیا ہے تو انہوں نے آہستہ آہستہ سلطان کے کان بھرنا شروع کر دیے۔ اتسز بھی غافل نہ تھا۔ چنانچہ ان حالات سے بددل ہو کر اس نے سلطان سے جاگیر پر چلے جانے کی اجازت مانگی۔ ہر چند امرا نے بہکایا لیکن سلطان ان کے کہنے میں نہ آیا اور اجازت دے دی۔ یہ واقعہ ۵۲۹ھ/ ۳۵۔۱۱۳۴ ء کا ہے۔
اتسز نے خوارزم پہنچ کر پہلے فوجی لحاظ سے اپنی حیثیت کا جائزہ لیا اور جب سال دو سال کے بعد فوجی نقطہٴ نگاہ سے اس کی حالت بہتر ہو گئی تو سالانہ خراج کی ادائیگی بند کر دی اور کھلم کھلابغاوت پر اتر آیا۔ سلطان نے لشکر کشی کی تو تابِ مقابلہ نہ لا سکا اور بھاگ کھڑا ہوا، لیکن اس جھڑے میں اتسز کا جواں سال بیٹا، جس کا نام قتلغتھا، پکڑا گیا اور سلطان کے حکم سے قتل کر دیا گیا۔خوارزم پر سلطانی قبضے کے چند روز بعد سلطان نے اپنے بھتیجے سلیان بن محمد کو وہاں کا حاکم مقرر کر دیا اور خود دارالسلطنت کو روانہ ہو گیا۔ ادھر سلطان نے کوچ کیا، ادھر اتسز نے خوارزم پر حملہ کر کے سلیمان بن محمد کو بھگا دیا اور پھر سے قابض ہو گیا۔ یہ واقعہ ۵۳۳ھ/۱۳۹ء میں پیش آیا بہ مشکل دو سال گزرے ہوں گے کہ اتسز نے دربار سے تمام تعلقات منقطع کر لیے۔خراج کی ادائیگی تو پہلے بھی کسی قائدے کی پابند نہیں رہی تھی، جی چاہتا تو ادا کر دیتا ورنہ خاموش ہو رہتا۔ سلطان مصالح ملکی کے پیش نظر درگزر کرتا چلا آ رہا تھا، جس سے اتسز جرأت پا کر کوئی نہ کوئی ناشائستہ حرکت کرتا رہتا۔ اس موقع پر اس نے سلطان کی اطاعت کا جوا اتار کر آزادی کا اعلان کر دیا۔ اپنے نام کا سکہ جاری کر کے سلطان بن بیٹھا اور سلجوقی دربار سے یک قلم قطع تعلق کر لیا۔
علما کی قدر:
۵۳۶ھ/۱۴۲ء میں سلطان سنجر کو ترکانِ خطا کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اتسز موقع کی تاک میں تھا۔ چنانچہ سرخس کا، جو خراسان کے چار بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا، محاصرہ کر لیا۔ جب لوگ عاجز آ گئے تو انہوں نے مولانا ابو محمد زیدی کو بہ غرض شفاعت بھیجا اور اطاعت کا وعدہ کیا۔ اتسز نے محاصرہ اٹھا لیا اور اس مہم سے فراغت کے بعد مرو پر چڑھائی کی اوروہاں کا محاصرہ کر لیا۔اہل شہر نے مولانا احمد الباخرزی کو اظہار اطاعت کی غرض سے بھیجا اور جب اتسز نے جان و مال کی حفاظت کا یقین دلایا تو اہلِ اشہر نے شہر کے دروازے کھول دیے۔ چند دنوں کے بعد جب حالات معمول پر آ گئے تو ایک دن اتسز نے مولانا ابو الفضل کرمانی کو مع چند عمایدِ شہر کے شاہی کیمپ میں طلب کیا۔ اہلِ شہر سے کسی نے کہہ دیا کہ اتسز کی نیت بخیر نہیں معلوم ہوتی۔اس نے ان لوگوں کو قتل کے ارادے سے طلب کیا ہے۔ ایسے مواقع پر تحقیق کا خیال کسے آتا ہے۔ اہلِ شہر بھڑک اٹھے اور اتسز کے فوجیوں، جو شہر کے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے تھے، قتل کرنا شروع کر دیا۔ اتسز کو علم ہوا تو انتقام کی آگ بھڑک اٹھی، قتلِ عام کا حکم دے دیا۔ تلواریں نیام سے نکل آئیں اور باشندگان شہر بلا امتیاز عمر اور رتبہ کاٹے جانے لگے۔چنانچہ مولانا ابراہیم المروزی اور علی بن محمد ارسلان ایسے جلیل القدر لوگ بھی قتل کر دیے گئے۔
اسی سال شوال کے مہینے میں اتسز نے نیشا پور پر چڑھائی کی۔ اہالیانِ نیشا پور اہل مرو کا عبرت انگیز انجام سن چکے تھے، چنانچہ اتسز کی خدمت میں ایک وفد نے حاضر ہو کر ادائے خراج کا وعدہ کیا اور جان و مال کی امان مانگی۔ اتسز نے اس درخواست پر غور کرنے کے لیے دو شرطیں پیش کیں، اول سلطان سنجر کے خزانے اس کے سپرد کر دیے جائیں۔دوم خطبے میں سنجر کی بجائے اس کا نام لیا جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا، اہلِ شہر نے دونوں شرائط کی بجا آوری کا وعدہ کیا۔ اگلے جمعہ کو جب خطیب نے سنجر کی بجائے اتسز کا نام لیا تو نمازیوں نے اس شدت سے احتجاج کیا کہ بغاوت کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر یہ حکم واپس لے لیا گیا اور کچھ دنوں کے بعد اتسز وہاں سے روانہ ہو گیا۔
اس موقع پر دربارِ خوارم شاہ کے ملک الشعرا رشید و طواط نے ایک قصیدہ کہا جس کا مطلع یہ ہے:
ملک اتسز بہ تختِ ملک درآمد
دولتِ سلجوق و آلِ او برآمد
0 Comments: