ریاست کی تقسیم کا انجام:
محمود نے اپنی وسیع سلطنت کا اپنے دونوں بیٹوں کیلئے وہی انتظام کیا تھا جو خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے اپنے دونوں بیٹوں امین و مامون کیلئے کیا تھا۔ محمود غزنوی کے دونوں بیٹے اسی طرح آپس میں لڑے جیسے کہ امین و مامون لڑے تھے۔ مگر مامون اپنے بھائی امین پر غلبہ پاکر شوکت و سلطنت کو باقی رکھ سکا۔ محمود کا بیٹا مسعود اپنے بھائی محمد پر غلبہ پاکر سلطنت کی عظمت و شوکت کو باقی نہ رکھ سکا۔
مسعود اور محمد کی لڑائی:
محمود نے ماورالنہر ، خراسان ، غزنوی اور غزنی پنجاب کی حکومت اپنے چھوٹے بیٹے محمد کو دی تھی اور خوارزم ، عراق ، فارس ، اصفہان وغیرہ کی حکومت بڑے بیٹے مسعود کو دی۔ محمود کے فوت ہوتے ہی دونوں بھائیوں میں جھگڑا شروع ہوا۔
محمد غزنی کے تخت پر بیٹھا اور مسعود نے رے میں جلوس کیا۔ اول اس بات پر نزاع شروع ہوا کہ مسعود بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے خواہاں تھا کہ میرا نام خطبہ میں محمد سے پہلے لیا جائے۔
محمد کہتا تھا کہ میں باپ کے تخت پر بیٹھا ہوں۔ میرا نام تمام ممالک میں خطبہ کے اندر مسعود سے پہلے پڑھا جائے۔ یہ تو صرف بہانہ تھا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کو زیر کرنے پر آمادہ تھے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسعود نے حملہ کرکے غزنی کو فتح کر لیا اور اپنے بھائی محمد کو قید کر لیا۔ قید کرنے کے بعد محمد کو دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم کر دیا۔
مسعود:
تخت غزنی پر جلوس کرکے سلطان مسعود نے بلوچستان و مکران پر حملہ کرکے اس علاقے کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ جب کسی سلطنت میں شہزادے تخت کیلئے لڑا کرتے ہیں تو ضرور سلطنت کے ہر حصے میں سرکش و باغی طاقتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ چنانچہ محمد بن محمود کے اندھا ہو جانے کے بعد مسعود کو اس وسیع اور عظیم الشان سلطنت کا سنبھالنا دشوار ہو گیا۔
سلجوق ترکوں نے ترقی پاکر خوارزم کے علاقے میں لوٹ مار شروع کر دی۔ ادھر ہندوستان و پنجاب میں بھی یہاں کے بعض صوبہ داروں نے سرکشی پر کمر باندھی اور یک لخت حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ سلطان مسعود نے بڑی ہمت اور استقلال سے کام لیا۔ خوارزم اور خراسان میں سلجوقیوں کو متواتر شکستیں دیں۔ انہی حالات میں موقع نکال کر ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوا اور سرستی اور ہانسی کے زبردست قلعوں کو فتح کرکے مسمار کیا۔
ہندوستان سے فوراً غزنی کی طرف واپس گیا۔ تو دیکھا کہ سلجوقی پہلے سے بھی زیادہ تعداد کے ساتھ برسر مقابلہ ہیں۔ مسعود نے ان کو ہر مرتبہ شکست دی۔ لیکن وہ بھی ہر مرتبہ پھر سنبھل کر اور لوٹ لوٹ کر مقابلے پر آتے رہے۔ سلطان مسعود کو فوج میں ہندوؤں کی فوجیں تیار کرنے اور ان کو فوجی تعلیم دینے کا خاص شوق تھا۔ نیز ہندوؤں کی تنخواہیں بھی ایرانیوں اور افغانیوں سے زیادہ مقرر کیں۔
ہندو فوجوں کی بزدلی اور مسعود کا زوال:
مسعود نے ایک ہندو حجام تلک نامی کو امیر الامرائی اور مہاراجگی کا خطاب دے کر سپہ سالار اعظم بنایا۔ لہٰذا ہندو اس مرتبہ کو دیکھ کر امرائے دربار مسعود سے بددل ہو گئے اور انہوں نے حرف شکایت زبان پر لانا شروع کیا۔ اس ہندو نوازی پر اس لئے بھی سب کو تعجب تھا کہ مکران کی لڑائی میں ہندو پلٹنوں نے سخت بزدلی اور نامردی دکھائی تھی۔
اس امتحان کے بعد ہرگز کسی کو توقع نہ تھی کہ سلطان مسعود سے جب معرکہ آرائی ہوئی تو ان ہندو سپاہیوں نے سب سے پہلے راہ فرار اختیار کی اور سلطان مسعود اور اس کی افغانی فوج کو خطرہ اور ہلاکت میں مبتلا کر دیا۔ چند جانثاروں کی پامردی سے سلطان مسعود کی جان بچی۔ لیکن شکست کی ندامت اپنے ساتھ لایا۔ اس شکست کے بعد مسعود پر کچھ ایسی کم ہمتی اور بددلی طاری ہوئی کہ اس نے اپنے وزیر اور بیٹے مودود کو غزنین میں چھوڑ کر اور تمام اموال و خزائن اونٹوں ، ہاتھیوں ، چھکڑوں پر لاد کر اور ہمراہ لے کر ہندو سرداروں کے ساتھ اس ارادے سے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا کہ لاہور کو دار السلطنت بنائے گا۔
اور وہیں قیام کرے گا چونکہ مسعود نے اپنا یہ ارادہ پہلے ہی غزنین میں ظاہر کر دیا تھا۔
لہٰذا وہاں کے سرداروں اور امیروں نے سلطان کو اس ارادے سے باز رکھنے کی بے حد کوشش کی اور سمجھایا کہ شکست کا تدارک انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد ہو جائے گا۔ مگر مسعود کا دل ہندو سپاہیوں کی طرح لڑائی کے نام سے دھڑکنے لگا تھا اور اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور باپ کے دارالحکومت کو چھوڑ کر غزنین کے خزانے میں جھاڑو دے کر غزنین سے چل دیا اور اپنے بیٹے مودود کو جو ان دنوں بلخ و بدخشان کی طرف تھا۔
خط لکھ کر بھیج دیا۔ کہ ”میں تم کو غزنین و خراسان وغیرہ کا حاکم مقرر کرتا ہوں اور میرے پاس سے تمہارے نام احکام و فرامین اور مناسب ہدایات پہنچتی رہیں گی۔ ان پر عمل کرنا اور ترکوں سے ملک کو پاک کرنے کی کوشش میں مصروف رہنا۔“
جس وقت مسعود نے معہ سامان دریائے سندھ کو عبور کیا۔تو اس طرف آتے ہی ہندو پلٹنوں اور ہندو سرداروں نے جو ہمراہ تھے ، آنکھیں بدل لیں اور سب کے سب شاہی خزانہ پر ٹوٹ پڑے۔
وہ تمام خزانہ جو سبکتگین اور محمود نے نصف صدی کے عرصے میں جمع کیا تھا ذرا سی دیر میں دریائے سندھ کے کنارے ہندوؤں نے لوٹ لیا اور سلطان مسعود کو مسلمانوں کی مختصر جماعت کے ساتھ چھوڑ کر منتشر ہو گئے۔
سلطان مسعود کی معزولی اور قتل:
اس دل شکن اور روح فرسا نظارہ کو دیکھ کرمسلمانوں کی اس مختصر جمعیت نے سلطان مسعود کو اس کے اختلال دماغی کے سبب معزول کر دیا اور اس کے بھائی محمد کو جو نابینا اور اس سفر میں مسعود کے ہمراہ قید کی حالت میں تھا آزاد کرکے بادشاہ بنایا۔
مسعود جب گرفتار ہو کر محمد کے سامنے پیش کیا گیا تو محمد نے اپنے بھائی سے آنکھوں کا بدلہ نہیں لیا۔ بلکہ صرف یہ دریافت کیا کہ تم اپنے لئے کیا پسند کرتے ہو۔ مسعود نے کہا کہ مجھ کو قلعہ ”کری“ میں رہنے کی اجازت دی جائے چنانچہ محمد نے اس کو معہ اہل و عیال کے قلعہ کری میں بھجوا دیا اور اپنے نام کا سکہ و خطبہ پنجاب اور سرحدی علاقے میں جاری کیا۔
محمد کے بیٹے احمد نے باپ کی آنکھوں کا بدلہ اس طرح لیا کہ اس کو قتل کر دیا۔ یہ حال سن کر محمد کو ملال ہوا اور اپنے بھتیجے مودود کے پاس جو اس وقت بلخ میں تھا ، پیغام بھیجا کہ تیرے باپ مسعود کو میں نے اپنے حکم سے قتل نہیں کرایا ، بلکہ احمد نے میرے منشاء کے خلاف کیا مودود جو مہم تیار کر رہا تھا ، اس خبر کو سنتے ہی فوج لے کر ادھر چلا۔ ادھر سے دریائے سندھ کے کنارے محمد کی فوج نے اس کو روکا۔
لڑائی ہوئی جس میں محمد کو مودود نے گرفتار کرکے اپنے باپ کے انتقال پر قتل کیا۔ اس کے بعد مودود غزنین جا کر 1044ء میں تخت نشین ہوا۔
مودود 1044ء تا 1050ء:
مودود بھی اپنے باپ مسعود کی طرح سلجوقیوں سے بہت سی لڑائیاں لڑا مگر آخر کار مجبور ہو کر اس نے ماورالنہر اور ہندوستان کی حکومت پر اکتفا کیا۔ باقی تمام ممالک یعنی خراسان ، خوارزم و عراق وغیرہ ہمیشہ کیلئے سلطنت غزنی سے نکل گئے اور سلجوقی ان ملکوں کے بادشاہ بن گئے۔
1050ء میں مودود کی وفات پر علی تخت پر بیٹھا۔ 1052ء میں اس کا بھائی عبد الرشید اس کی جگہ تخت پر بیٹھا پھر طغرل نے قبضہ کر لیا۔ مگر علمائے سلطنت نے بہت جلد متفق ہو کر طغرل کو قتل کیا اور 1053ء میں فرخ زاد بن مسعود کو غزنی کے تخت پر بٹھایا۔
فرخ زاد بن مسعود:
فرخ زاد نے تخت نشین ہو کر ہمت و قابلیت کا اظہار کیا اور لشکر فراہم کرکے خراسان کو سلجوقیوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش کی۔
ابتداء میں کئی لڑائیوں میں فرخ زاد کو سلجوقیوں پر فتح حاصل ہوئی مگر آخرکار جب الپ ارسان سلجوقی سے مقابلہ ہوا تو غزنی کے لشکر کو شکست ہوئی اور خراسان پر فرخ زاد قبضہ نہ کر سکا۔
1059ء میں فرخ زاد کے بعد اس کا بھائی ابراہیم بن مسعود تخت نشین ہوا۔ سلطان ابراہیم بڑا نیک ، بہادر اور عقل مند شخص تھا۔ اس نے تخت نشین ہو کر یہی مناسب سمجھا کہ سلجوقیوں کے ساتھ صلح کر لی جائے اس صلح کے بعد وہ اپنے آپ کو خراسان کا جائز حکمران سمجھنے لگے اور آئندہ کیلئے غزنیوں اور سلجوقیوں کے درمیان جنگ و پیکار کا سلسلہ بند ہوا۔
اس طرف سے مطمئن ہو کر سلطان ابراہیم نے ہندوستان کی طرف توجہ کی اب تک غزنی کے سلاطین چونکہ اپنی مقامی جھگڑوں اور سلجوقیوں کی لڑائیوں میں مصروف تھے۔ لہٰذا عرصہ سے ہندوستان کی طرف توجہ نہیں ہو سکی تھی۔ اس عرصہ میں ہندوستان کے اکثر سردار اور راجے خود مختار ہو گئے تھے اور باج و خراج کی ادائیگی سے گریز کرنے لگے تھے۔ سلطان ابراہیم نے ہندوستان کے سرکشوں پر متعدد حملے کئے اور اس طرف اپنی حکومت کو خوب مضبوط مستحکم بنایا۔
سلطان ابراہیم نے 42 یا 43 سال حکومت کی۔ 1102ء میں فوت ہوا۔
ابراہیم کے بعد اس کا لڑکا مسعود تخت نشین ہوا اور 16 سال حکمران رہ کر 1118ء میں فوت ہوا۔ اس نے کچھ عرصہ لاہور کو بھی اپنا پایہ تخت بنایا۔
مسعود کے بعد اس کا بیٹا ارسلان تخت نشین ہوا اور تین سال تک حکومت کی۔ 1121ء میں سلطان سنجر سلجوقی نے غزنین فتح کرکے ارسلان کے بھائی بہرام بن مسعود بن ابراہیم کو غزنی کے تخت پر بٹھایا۔
بہرام:
بہرام نے 35 سال سے زیادہ عرصہ حکومت کی۔ ہندوستان پر اس نے باغیوں کو کچلنے کیلئے متعدد حملے کئے اور لاہور میں اکثر مقیم رہا۔ اسی کے عہد حکومت میں کتاب کلیہ و منہ لکھی گئی۔ سلطان بہرام کے آخری عہد میں غوریوں نے غزنی پر حملہ کرکے بہرام کو غزنین سے بے دخل کر دیا اور وہ بھاگ کر ہندوستان کی طرف چلا آیا اور 1156ء میں لاہور میں فوت ہوا۔
اب غزنویوں کے قبضے میں صرف پنجاب رہ گیا۔ غزنی پر غوریوں کی حکومت قائم ہو گئی۔
خسرو:
بہرام کی وفات کے بعد لاہور میں اس کا بیٹا خسرو شاہ تخت نشین ہوا۔ اس نے غزنی کو غوریوں کے قبضے سے نکالنے اور واپس لینے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آخر آٹھ سال پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد لاہور میں فوت ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا خسرو ملک 1172ء میں لاہور تخت نشین ہوا۔ خسرو ملک کو غوریوں نے گرفتار کرکے 1186ء میں پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس طرح دولت غزنویہ کا خاتمہ ہو کر صرف افسانہ باقی رہ گیا۔
urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.
0 Comments: