Thursday, July 22, 2021

قسط نمبر 30- سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات


غوریوں کی شکست: شہاب الدین فوج لیے ہاتھیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ خوارزم کے سامنے موجود ہوا اور اس نہر کے کنارے پر جو دریائے جیحوں سے کاٹ کر نکالی گئی تھی، پڑاؤ کیا۔ اگرچہ سلطان کی کمان میں اس وقت ستر ہزار جوان تھے لیکن غوری افواج کے مقابلے میں یہ تعداد بالکل معمولی دکھائی دیتی تھی۔ سلطان چاہتا تھا کہ اگراسے تھوڑی سی مہلت مل جائے تو مزید فوج بھرتی کر کے غوریوں کے مقابلے پر ڈٹ جائے لیکن اب دشمن سر پر تھا۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ نہر کاٹ کر اس کا بہاؤ غوریوں کے پڑاؤ کی طرف موڑ دیا جائے۔ چونکہ اس منصوبے پر ہرات کو عمل کیا گیا تھا اس لیے غوری لشکر کوسنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ صبح کو بیدار ہوئے تو ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور پڑاؤ کا سارا سامان جھیل بن گیا تھا۔ غوری فوج ایسی بری طرح پھنسی کہ قیامت کا سماں تھا۔ کئی سپاہی ڈوب کر مرگئے۔ چونکہ سپاہیوں کے علاوہ گھوڑے، ہاتھی اور اونٹ بھی کافی تعداد میں تھے، انہیں پانی سے نکالنے میں بڑی دقت پیش آئی اور تقریباً چالیس دن اس تگ ودو میں صرف ہوگئے۔ اب خوارزم شاہ بھی کیل کانٹے سے لیس ہوچکا تھا۔ کئی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں دونوں طرف کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔ اسی دوران میں شہاب الدین کو اطلاع موصول ہوئی کہ ترکانِ خطا نے غوری علاقوں پر یلغار شروع کر رکھی ہے۔ اب شہاب الدین کے لیے مزید توقف کرنا ممکن نہیں رہاتھا، اس لیے اس نے حکم دیا کہ فوج راتوں رات کوچ کا بندوبست یوں خاموشی سے کرے کہ خوارزمی افواج کو اسا سبق دے جسے وہ تمام عمر نہ بھول سکیں۔ شہاب الدین نے احتیاطاً حکم دیا کہ تمام غیر ضروری سامان کو آگ لگا دی جائے تاکہ سپاہ کو نقل وحرکت میں دقت نہ پیش آئے۔ ۱ ۱۔ جہاں کشا: ج ۲۔ ص ۵۵ - روضة الصفا: ج ۴ ، ص ۱۴۵ - غوریوں کی پسپائی: جب غوریوں نے آدھی رات کے وقت کوچ کیا تو انہیں خیال بھی نہ تھا کہ خوارزمی افواج ان کی نقل وحرکت سے پورے طو ر باخبر ہیں۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ خوارزمیوں نے بے خبری میں حملع کردیا۔ ایسی بھاگڑمچی کہ کسی کو کسی کی خبر نہ رہی۔ بپھرے ہوئے خوارزمی دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاکٹ کر پھینک رہے تھے اور کسی کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ ہزاروں سپاہی مارے گئے۔ جو بچ گئے، وہ جنگلوں، صحراؤں میں بھٹک بھٹک کر مرگئے۔ علاء الدین کو اسی غیر متوقع کامیابی سے بڑی مسرت ہوئی۔ چنانچہ جب دشمنوں کے تعاقب سے فارغ ہو کر خوارزمی واپس پہنچا تواس فتح کی خوشی میں بہت بڑا جشن منایا۔ غوری فوج کی تباہی: غوریوں کی بھی بچی کھچی سپاہ، جس کی تعداد بقول”جہاں کشا“ بچاس ہزار کے قریب تھی، جب اندخود کے مقام پر پہنچی تو خطائی فروج سے مڈ بھیڑ ہوگئی۔ وہ تباہی مچی کہ رہی سہی کسر نکل گئی۔ چنانچہ پچاس ہزار سپاہیوں میں سے بہ مشکل ایک سو آدمی بچ سکے۔ شہاب الدین نے اندخود کے قلعے میں پناہ لے کر جان بچائی۔ ترکانِ خطا تعاقب میں چلے آرہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے قلعے کا محاصرہ کرلیا اور شہاب الدین کو زندہ گرفتار کر نے کے لیے دیوارِ قلعوہ میں نقب لگانا شروع کردی۔ حاکمِ سمرقند نے، جو ترکانِ خطا کے ساتھ تھا، ا س موقع پر مداخلت کی اور اس شرط پر سلطان شہاب الدین کی جان بخشی کرائیکہ وہ نقد تاوان ادا کرنے کے علاوہ تمام سازو سامان وہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ نکل جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا، شہاب الدین نے شرط مان لی اور سرمایہ حیات بچا کر لے گیا۔ جب علاء الدین کو غوریوں کے اس عبرت ناک انجام کا علم ہواتو اس نے شہاب الدین کو لکھا کہ اس افسوس ناک حادثے کی ذمہ داری خود اس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر اس نے خوارزم پر حملہ نہ کیا ہوتا تو اسے اس دوہری مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اس قدر بندگانِ خدا کا خون نہ بہتا۔ چونکہ شہاب الدین کو اپنی حالت درست کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے تھا اس لیے اس نے خوارزم شاہ کو یقین دلایا کہ اب وہ اس کے ملک پر کبھی حملہ آور نہ ہوگا۔ مشکل سے دو مہینے گزرنے پائے ہوں گے کہ تاج الدین زنگی نے، جو حکومتِ غور کی طرف سے بلخ کا صوبہ دار تھا، مرو الرُود پر حملہ کرکے وہاں کے حاکم کو قتل کردیا۔ چونکہ یہ حملہ شہاب الدین کی رضا مندی حاصل کیے بغیر کیا گیا تھا اس لیے اس نے تاج الدین کو سخت سرزنش کیا۔ جب علاء الدین کو تاج الدین کی اس حرکت کا علم ہوا تو اس نے بدر الدین چغری حاکمِ مرو اور تاج الدین علی شاہ حاکمِ ابیورد کو لکھا کہ وہ تاج الدین زندگی کے خلاف فوری ضروری کارروائی کریں۔ چنانچہ زنگی مارا گیا اور یہ فتنہ دب گیا۔ شہاب الدین کی شہادت: ۶۰۲ھ /۱۲۰۶ میں بلخ کے نئے صوبے دار عماد الدین عمر نے ترمذ کے قلعے پر، جو ترکانِ خطا کی قلمرو میں واقع تھا، حملہ کر کے اسے فتح کرلیا اور اپنے بیٹے بہرام شاہ کو وہاں کا صوبے دار مقرر کر دیا۔ اگرچہ شہاب الدین نے علاء الدین کے خلاف چھیڑ چھاڑ بند کردی تھی لیکن چونکہ گزشتہ دوہری شکست سے اسے حد درجہ ذلّت اٹھانا پڑی تھی اس لیے وہ چپکے چپکے جنگی تیاریوں میں مصروف تھا تاکہ جب موقع ملے، اپنے کھوئے ہوئے وقار کوبحال کرنے کے لیے کوشش کرے۔ چنانچہ اسی غرض سے ہندوستان کو روانہ ہوگیا تاکہ ادھر سے فوج بھرتی کر کے اسے ضروری اسلحہ سے مسلح کر لائے۔ ایک دن سلطان شہاب الدین دریائے جہلم کے کنارے خیمے میں آرام کر رہا تھا کہ ایک شخص نے اس کا کام تمام کردیا۔ ۱ یہ واقعہ ماہ رمضان ۶۰۲ ہجری بمطابق ۱۳ مارچ ۱۲۰۶ ع کو پیش آیا۔ ۱۔ ابن خلدون: ج ۵ ، ص ۱۰۳ - روضة الصفا: ج ۴ ، ص ۱۴۵ - جہاں کشا : ج ۲، ص ۵۸ - شہادب الدین کی وفات کے وقت اس کا بھتیجا غیاث الدین محمود بست کے مقام اور پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ جب اسے چچا کی وفات کی اطلاع موصول ہوئی تو اس نے اعلان کر دیا کہ وہ سلاطین غور کا جائز وارث ہونے کی وجہ سے جانشینی کا حق دار ہے اس لیے صویحات کے حاکم اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے وفاداری کا حلف اٹھائیں۔ حسین بن خرمیل اس موقع پر ہرات کا صوبے دار تھا۔ اس نے اراکین ہرات سلطنت کو اطلب کر کے اس بہانے بیعت لینے کی کوشش کی کہ سلطان کی شہادت کی وجہ سے ترکانِ خطا اور خوارزم شاہ کے حملوں کا خطرہ ہے، اس لیے آپ کو فوراً مجھ سے بیعت کر لینا چاہیے۔ اراکینِ سلطنت نے اسے صاف صاف کہہ دیا کہ تخت کا جائز وارث غیاث الدین محمود ہے اس لیے اس کی زندگی کسی اور کی بیعت کا سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ چونکہ ابنِ خرمیل کی نیت بخیر نہ تھی اس لیے اس نے خوارزم شاہ کو ہرات پر چڑھائی کی دعوت دی، اسی دوران صوبے دار ہرات کو غیاث الدین محمود کا پییام موصول ہوا کہ اس کی بیعت کا اعلان کر کے عوام کے سامنے اس سے وفاداری کا وعدہ کرے۔ چونکہ ابن خرمیل کی نیت میں فتو تھا اس لیے اس نے تعمیلِ حکم سے انکار کر دیا۔ ادھر خوارزم شاہ بھی اس کے تتلونِ مزاج کے پیشِ نظر مطمئن نہ تھا، اس لیے اس نے اس درخواست کو قابلِ اعتنا نہ گردانا۔ مگر چونکہ صوبیدار ہرات کو غیاث الدین محمود کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا اس لیے جلدی میں اپنے بیٹے کو خوارزم شاہ کے دربار میں بطور یرغمال کے روانہ کر دیا کہ شاید اس طرح سلطان محمد اس کی درخواست پر غور کر سکے۔ جب اس سازش کی بھنک امرائے ہرات کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے ابنِ خرمیل کو مجبور کیا کہ وہ غیاث الدین محمود سے اظہار فرماں برداری کر کے اس کے نام پر خطبہ پڑھے۔ ادھر یہ بخت و پز ہو رہی تھی اور ادھر علاء الدین کی فوجیں ہرات پر حملے کے ارادے سے قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھیں۔ ابن خرمیل کی جان عذاب میں تھی۔ نہ جانے ماندن نہ بہائے رفتن۱۔ آخر خوارزمی افواج ایک سپہ سالار کی کمان میں ہرات کے نواح میں پہنچ گئیں۔ ۱۔ابن اثیر: ج ۱۲، ص ۱۰۴۔ ۱۰۵۔ علاء الدین خود بلخ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ سوے اتفاق سے اسے شکست ہو گئی۔ ابنِ خرمیل کو معلوم ہوا۔ الجھن میں پھنسا ہوا تو تھا ہی، خاموشی سے سپہ سالار افواجِ خوارزم شاہی کے پاس جا کر اسے یہ پٹی پڑھائی کہ چونکہ سلطان کو بلغ کے مقام پر شکست ہو گئی ہے اس لیے اس نے کہلا بھیجا ہے کہ اس کی افواج نے ان حالات میں دوسرا محاذ کھولنے کی غلطی نہ کریں بلکہ وہ سردست کوچ کر کے شاد باخ چلی آئیں۔ کمان دار اس کے جھانسے میں آ گیا اور فوج لے کر چل دیا۔





Part  01

Part  02

Part  03

Part  04

Part  05

Part  06

Part  07

Part  08

Part  09

Part  10

Part  11

Part  12

Part  13

Part  14

Part  15

Part  16

Part  17

Part  18

Part  19

Part  20

Part  21

Part  22

Part  23

Part  24

Part  25

Part  26

Part  27

Part  28

Part  29

Part  30

Part  31

Part  32

Part  33

Part  34

Part  35

Part  36

Part  37

Part  38

Part  39

Part  40

Part  41

Part  42

Part  43

Part  44

Part  45

 Last Part


SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: