Wednesday, July 14, 2021

قسط نمبر 12 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

Molana-620x410



دولت سلجوقیہ(1037ء تا 1157ء) سلجوق ترک ”مخز“ ترکوں کی ایک شاخ تھے۔ اس خاندان کا بانی ایک شخص ”وقاق“ یا وقتاق تھا۔ (معنی کمان) لقب تیمور تالیغ تھا۔ وہ ترکستان یعنی دشت قیچاق کے بادشاہ پیغو کے متوسلین میں سے تھا۔ اس کے بیٹے کا نام سلجوق تھا۔ جو اپنے آپ کو افراسیاب کی چونتیسویں پشت میں بتاتا تھا اور اپنے باپ کے بعد پیغو کے دربار میں رسوخ رکھتا تھا۔ لیکن ایک روز کسی بات پر سلجوق پیغو سے خفا ہو کر معہ اپنے بیٹوں کے سمرقند و بخارا کی طرف چلا آیا۔ ابن اثیر کے قول کے مطابق 1629ء میں سلجوق کا ترک وطن کرنا پیغو کی ملکہ کی مخالفت کی بنا پر ہوا اور مقام جند کے قریب اس مختصر قافلے نے قیام کیا اور اسلام بھی قبول کیا۔ لیکن راوندی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سلجوق ترک وطن سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا۔ نہ کہ جند کے مسلمان عامل کی ترغیب سے مسلمان ہوا۔ یہ علاقہ اس وقت پیغو بادشاہ ترکستان کا باج گزار تھا۔ چند روز بعد جب پیغو کے عمال زر خراج وصول کرنے کیلئے آئے تو سلجوق نے وہاں کے حاکم سے کہا کہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کفار آکر مسلمانوں سے خراج وصول کریں۔ سلجوق کی اس ہمت کو دیکھ کر وہاں کے باشندے بھی مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔ چنانچہ سلجوق کے ساتھ مل کر پیغو کے عمال پر حملہ آور ہوئے۔ اس حملہ میں سلجوق کو فتح ہوئی اور اس کی بہادری کی دور دور تک شہرت ہو گئی اور اس کے قبیلہ کے لوگ آآ کر اس کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ جب ایلک خان نے نوح ثانی پر حملہ کیا تو سلجوق نے نوح ثانی کی طرف سے ایلک خان کے مقابلے میں بہادری دکھائی۔ اس لڑائی میں سلجوق کا بیٹا میکائیل مارا گیا۔ میکائیل کے دو بیٹے طغرل بیگ اور چغر بیگ تھے۔ اپنے دادا سلجوق کے زیر تربیت پرورش پانے لگے۔ سلجوق کے چار اور بھی بیٹے تھے۔ جن کے نام اسرافیل ، یونس ، پنال اور موسیٰ تھے۔ ترک اور مغول قبائل میں کسی شخص کا غیر معمولی بہادری دکھانا اس کے سردار قوم بنا دینے کیلئے کافی تھا۔ سلجوق اور اس کے بیٹوں کو بہت جلد ناموری اور بہادری حاصل ہو گئی تھی۔ اس کے گرد ترکوں کی جمعیت کثیر فراہم ہو چکی تھی۔ اس عرصے میں سلجوق کا انتقال ہو چکا تھا۔ سلجوق کے پوتے چغر بیگ نے ایک جمعیت لے کر آرمینیا کی جانب عیسائیوں پر جہاد کرنے کیلئے جانا چاہا راستے میں محمود غزنوی کا علاقہ یعنی صوبہ طوس پڑتا تھا۔ طوس کے عامل نے ایک مجاہد فی سبیل اللہ کو اپنی عملداری سے گزرنے دیا۔ لیکن محمود بہت دور اندیش بادشاہ تھا۔ اس کو جب یہ معلوم ہوا کہ سلجوقی گروہ اس کے علاقے میں سے ہو کر گزرا ہے۔ تو اس نے عامل طوس سے جواب طلب کیا اور فکر مند ہوا کہ یہ لٹیرا گروہ میری مملکت کو کہیں غارت گری کا تختہ مشق نہ بنائے۔ چغر بیگ آرمینیا سے جب فتح یاب ہو کر واپس آیا تو سلجوقیوں کی تعداد اور طاقت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ اب انہوں نے نواح بلخ میں اپنے مویشیوں کو چرانا شروع کر دیا اور وہیں اقامت پذیر ہو گئے۔ محمود غزنوی نے ان حالات سے مطلع ہو کر اپنے عامل کے ذریعے سلجوقیوں کے سردار کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ عمر کے لحاظ سے سلجوق کا بیٹا اسرائیل سب سے بڑا اور ذی ہوش شخص تھا۔ چنانچہ اسی کو دربار محمودی میں روانہ کیا گیا۔ محمود نے اسرائیل کو نہایت عزت کے ساتھ دربار میں جگہ دی اور بہت سی باتوں کو دریافت کیا کہ اگر مجھ کو ضرورت پڑے تو تم کتنے آدمیوں سے امداد کر سکتے ہو۔ اسرائیل نے اپنا تیر سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اگر آپ اس تیر کو ہمارے قبائل میں بھیج دیں تو ایک لاکھ سپاہی حاضر ہو جائیں گے۔ محمود نے کہا کہ اگر اس سے زیادہ کی ضرورت پڑے تو اور کتنے آدمی دے سکتے ہو۔ اسرائیل نے اپنی کمان رکھ دی اور کہا کہ اگر آپ اس کمان کو ہمارے قبائل میں بھیج دیں گے تو دو لاکھ سپاہی تیار ہو کر آ جائیں گے۔ اس جواب کو سن کر محمود نے اسرائیل کو بطریق ضمانت امن روک کر ہندوستان کی طرف بھیج دیا۔ جہاں وہ سات سال کالنجر کے قلعہ میں قید رہا۔ سلجوقیوں کی سرداری طغرل بیگ اور چغر بیگ سے متعلق رہی۔ یہ دونوں بھائی آپس میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ رہے اور مل کر اپنے قبائل متعلقہ پر حکومت کرتے تھے۔ محمود غزنوی نے اول سلجوقیوں کو ماورالنہر میں کچھ زمین بطور چراگاہ دے دی اور پھر اس بات کی بھی اجازت دے دی کہ وہ دریائے جیحوں کو عبور کرکے خراسان میں آباد ہو جائیں۔ اس بات پر ارسلان جاذب عامل طوس و بلخ نے اعتراض کیا کہ یہ جنگجو قوم ہے کسی وقت باعث اذیت ہوں گے۔ آپ ان کو دریائے جیحوں سے اس طرف آنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں۔ مگر محمود کو اپنی طاقت کا حال معلوم تھا۔ نیز وہ جانتا تھا کہ ان کو فوج میں بھرتی کرکے ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ادھر اس نے اسرائیل کو بطور یرغمال نظر بند کر رکھا تھا۔ جب محمود کا انتقال ہوا تو سلطان مسعود نے اسرائیل کو کالنجر کے قلعہ سے فوراً آزاد کر دینے کا حکم صادر کیا۔ لیکن راحت الصدور کے مصنف راوندی کے قول کے مطابق وہ قید ہی میں مر گیا تھا اور آگے چل کر وہ یہ مشہور مثل بھول چکا تھا (ایسا دروازہ مت کھولو جسے تم بند نہیں کر سکتے) اور ایسا تیر مت چلاؤ جسے تم واپس نہیں لا سکتے۔ اسرائیل کے قید ہونے کے بعد اس کا لڑکا قتلش بھاگ کر روپوش ہو گیا اور پھر کچھ دیر کے بعد بخارا میں اپنے اقارب سے جا ملا اور اس نے یہ عہد کیا کہ وہ اپنے باپ کا قصاص سلطان محمود سے ضرور لے گا۔ اس زمانے میں محمود اور خوارزم شاہیوں کی خواہش کے مطابق اسرائیل کا بھائی میکائیل اپنے قبیلے سمیت 1034ء میں کوچ کرکے نساء اور ابیورد کے قریب جا پہنچا۔ محمود کا یہ خیال تھا کہ اگر یہ لوگ اپنے اصل مرکز سے ہٹ جائیں تو ان کی قوت بھی کم ہو جائے گی۔ گو سلجوقیوں کی نقل مکانی کے بہت جلد بعد غزنیوں کو بھی چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ مسعود نے اپنی تخت نشینی کے بعد سلطنت پر ابھی پورے طور پر قابو نہ پایا تھا کہ چغر بیگ نے مرو اور ہرات پر قبضہ کر لیا۔ مسعود کے مصائب کا اس وقت آغاز ہوتا ہے جب اس نے اپنے بھائی محمد کو تخت سے ہٹا کر غزنی کے تخت پر قبضہ کیا۔ 1035ء میں جب مسعود نے ایران پر اپنا قبضہ مستقل کرنے کیلئے ایک دفعہ حملہ کیا اور اس کے معاً بعد ہندوستان میں بغاوت ہو گئی اور ترک سلجوق بالکل آزاد ہو گئے۔ طبرستان تک مسعود نے تقریباً کامیابی کے ساتھ فاصلہ طے کیا۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کے اسے کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی۔ کیونکہ طغرل اور چغر بیگ نے مل کر مسعود کا مقابلہ کیا اور خراسان کی حکومت لے لی۔ 1038ء میں میکائیل بن سلجوق کے لڑکے طغرل بیگ نے اپنا دار الحکومت رے قرار دیا اور چغر بیگ نے مرو کو اپنا مرکز بنایا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد 1039ء میں نیشاپور پر قبضہ کر لیا۔ ابن اثیر نے ان سادہ لوح فاتحین کی کہانی بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ نیشاپور میں جب یہ لوگ پہنچے تو وہاں بہت سا کافور دیکھ کر اسے چکھنے لگے کیونکہ ان کے خیال میں یہ نہایت عمدہ سفید نمک تھا۔ ایک وقت تھا کہ سلطان مسعود نے غز ترکوں کے خلاف جنگ کرتے وقت طغرل اور چغر بیگ سے مدد لی تھی اور خراسان میں ان کی مدد سے غزوں کوشکست دی تھی۔ ان بھائیوں نے پہلے تو مسعود کی مدد کی لیکن ٹھیک دو سال بعد جب مسعود وہاں سے چلا گیا تو چغر بیگ نے مسعود کے نمائندے اور غزنوی سردار پر حملہ کرکے شکست دی اور رفتہ رفتہ سارا خراسان سلجوقیوں کے قبضے میں آ گیا۔ 430ھ مطابق 1038ء میں طغرل کی بادشاہت کا اعلان ہوا۔ مسعود جو اب تک ہندوستان کی بغاوتوں میں الجھا ہوا تھا یہ سنا تو ہندوستان سے خراسان آیا اور صورتحال کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ لیکن 1039ء میں اسے سلجوقیوں کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی۔ اس نے ہمت نہ ہاری اس شکست کے باوجود مسعود پھر ایک دفعہ ہندوستان فوج جمع کرنے کیلئے لوٹا لیکن ایک سال بعد قتل ہوا۔ مسعود کی وفات کے تین سال بعد اس کا لڑکا مودود سلجوقیوں پرحملہ آور ہوا لیکن اسے بھی شکست کھا کر لوٹنا پڑا۔ مودود کی شکست کے بعد غزنوی اس قدر نہ سنبھل سکے کہ پھر خراسان کا رخ کرتے۔ ادھر سلجوقیوں نے خلیفہ بغداد قائم باللہ کو خط لکھا۔ جس میں غزنیوں کے خلاف شکایت کی اور اپنی حمایت کا یقین دلا کر اپنے آپ کو بادشاہ منوانے پر اصرار کیا۔ خلیفہ نے سلجوقی حکمرانوں کی عرض داشت منظور کر لی۔ حیات باللہ بن المامونی کو طغرل کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا اور آل بویہ کی بجائے طغرل سلجوقی کے نام کا سکہ اور خطبہ جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ سلجوقیوں نے رفتہ رفتہ تمام ایران کو اپنے تسلط میں لے لیا اور ایران میں وسیع و عریض سلطنت قائم کر لی۔ آخر اس سلطنت کی تقسیم یوں ہوئی۔ (i) بست ، ہرات ، سیستان کے علاقے سلجوق کے بیٹے موسیٰ ارسلان کے حصے میں آئے اور موسیٰ ارسلان کے بھتیجوں چغر بیگ ، داؤد اور طغرل کے حصے میں مرو اور عراق آئے۔ (ii) چغر بیگ کے دو بیٹوں قادر دیا قاردت اور یاقوتی کو کرمان ، طوس، طباس ، آذربائیجان اور بخارا کے علاقے ملے۔ اس کے تیسرے بیٹے الپ ارسلان نے اپنے چچا طغرل بیگ کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ جس نے ”رے“ کو اپنا دارالسلطنت بنایا تھا۔ ہمدان کا علاقہ ابراہیم بن نیال بن سلجوق کو دیا گیا اور موسیٰ ارسلان کے بیٹے قلتمش کے حصہ میں گرگاں اور دامغان آیا۔ طغرل بیگ نے فتوحات سے فارغ ہو کر چاہا کہ خلیفتہ القائم سے ملاقات کا شرف حاصل کرے۔ درخواست قبول ہونے پر 1055ء میں طغرل بغداد پہنچا جہاں بڑی شان و شوکت سے اس کا استقبال کیا گیا۔ طغرل نے خلیفہ کی خدمت میں پہنچتے ہی بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ تخت خلیفہ کی خاک کو بوسہ دیا۔ خلیفہ نے اٹھا کر اسے ایک اور تخت پر بٹھا دیا۔ جو اپنے تخت کے ساتھ سجایا ہوا تھا۔ اس کے بعد فرمان پڑھا گیا۔ جس میں طغرل کو خلیفہ رسول کا منصب اور مسلمانوں کی امامت تفویض ہوئی۔ خلافت کی ہفت کشوری کی بادشاہی کی علامت کے طور پر خلیفہ نے طغرل کو سات خلعت اور سات غلام عنایت کئے۔ پھر زریفت کی ایک ردا بخشی جو مشک اور عنبر سے معطر تھی۔ اس کے بعد اسے دو کناروں کا تاج پہنایا جس سے مراد ایران و حجاز کی سلطنت کی علامت تھی۔ اس پرتپاک استقبال کے بعد طغرل بیگ ایک سال سے زائد عرصہ کیلئے بغداد میں مقیم رہا۔ طغرل بیگ: طغرل بیگ تقریباً ڈیڑھ سال تک دربار خلافت میں مقیم رہا۔ اس عرصہ میں طغرل کی بھتیجی اور ارسلان خاتون جو الپ ارسلان کی بہن تھی کی شادی بڑی دھوم دھام سے خلیفہ سے کر دی گئی۔ طغرل کو ایک روایت کے مطابق رسول اکرم نے خواب میں تنبیہہ کی اور اس کے بعد دربار خلافت سے رخصت ہوا۔ اس کے بعد طغرل نے ان ترکی افواج کی بغاوت کو فرو کرنے میں بھی خلیفہ کی مدد کی جو موصل اور دیار بکر میں حملہ آور ہو گئی تھیں اور غالباً خلافت سے بتریک وتحسین حاصل کرنے کیلئے طغرل نے ایک دفعہ پھر خلیفہ کے پاس حاضری دی اور اس کی خواہش کے مطابق اسے ملک المشرق المغرب کا خطاب دربار خلافت سے عطا ہوا۔ لیکن ان عنایات سے اس کی تسکین نہ ہوئی۔ خلیفہ کی بہن سے شادی: 1041ء میں جب اس کی بیوی فوت ہوئی تو اس نے خلیفہ سے استدعا کی کہ خلیفہ کی لڑکی کی شادی اس سے ہو جائے۔ لیکن راحت الصدور کے مصنف کے مطابق طغرل نے خلیفہ کی بہن سے شادی کا اظہار کیا۔ خلیفہ کو یہ استدعا پسند نہ آئی اور پہلے تو اس نے بہت احتجاج کیا۔ لیکن طغرل کی روز افزوں قوت کو دیکھتے ہوئے خلیفہ اور ارکان دولت نے یہ فیصلہ کیا کہ شادی صرف رسماً ہوگی۔ میاں بیوی کو آپس میں ملنے کی اجازت علیحدگی میں نہ ہوگی۔ چنانچہ اس شرط کو طغرل نے قبول کر لیا اور اس شرط پر شادی ہو گئی۔ یہ شادی بالکل اسی طرح کی تھی جس طرح ہارون الرشید نے اپنی بہن عباسہ کی شادی جعفر برمکی سے کی تھی۔ شادی کرنے کے بعد طغرل واپس چلا گیا لیکن دوسرے سال پھر دربار خلافت میں حاضر ہوا اور اپنی بیوی کیلئے جو زر و جواہرات لایا تھا۔ دربار میں بیوی کے سامنے پیش کئے اور کئی دن تک اہل بغداد کے کھانے کا انتظام کیا۔ اس وقت جب اس نے اپنی بیوی کو لے جانے کی خواہش کی تو اسے اپنا وعدہ یاد دلایا گیا کہ وہ اپنی بیوی سے علیحدگی میں نہیں ملے گا۔ چنانچہ وہ اسی پر قائم رہا اور کچھ دنوں کے بعد واپس چلا گیا۔ لیکن اسی سال چار ستمبر 1063ء مطابق 8 رمضان المبارک 455ء کو طغرل کی وفات اپنے مستقر میں ہوئی۔ بقول مصنف راحت الصدور دلہن کو بغداد سے تبریز تک پہنچایا گیا۔ مگر پیشتر اس کے کہ دلہن رے جو طغرل کا دارالخلافہ تھا پہنچتی۔ طغرل کی وفات کی خبر پہنچی اور شہزادی واپس بغداد پہنچا دیگئی۔ سیرت: طغرل کی عمر وفات کے بعد ستر سال کی تھی وہ ایک کامیاب ، سخت گیر ، دانا اور سخی بادشاہ تھا۔ چونکہ طغرل بیگ لاولد فوت ہوا تھا اور اس کا بھائی چغر بیگ چار سال پہلے 18 رجب 451ھ کو فوت ہو چکا تھا۔ اس لئے اس کے بعد اس کا بھتیجا جو کہ اس کے ساتھ رہتا تھا۔ یعنی سلطان الپ ارسلان بن چغر بیگ اس کا جانشین اور مدرالمہام خلافت مقرر ہوا۔ الپ ارسلان کی تخت نشینی کے تھوڑے ہی عرصے بعد سابق بادشاہ کے وزیر عبدالملک الکندری نے یہ کوشش کی کہ الپ ارسلان کے بھائی سلیمان کو تخت پر بٹھایا جائے۔ لیکن اس کوشش میں ناکامی کے بعد الکندری کو خود مرو میں زندانی ہونا پڑا۔ جہاں ایک سال قید کے بعد اسے ان دو ملازموں نے قتل کیا جو الپ ارسلان کے بھیجے ہوئے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الکندری نے اپنے خاندان کو الوداع کہہ کر یہ درخواست کی تھی کہ اسے پھانسی دینے کی بجائے تلوار سے مارا جائے اور مرنے سے پہلے اس نے الپ ارسلان اور نظام الملک کو یہ پیغام بھیجا کہ انہیں کہا جائے کہ مجھے آپ کے خاندان سے بہت بڑے صلے ملے ہیں۔ مجھے آپ کے چچا نے اس دنیا کی حکومت کی عطا کی تھی اور آپ نے مجھے جام شہادت پلا کر عاقبت کی بادشاہت عنایت فرمائی۔ اس طرح مجھے دونوں جہانوں میں فائدہ رہا۔ نظام الملک کو یہ پیغام پہنچایا گیا تم نے دنیا میں برخواست شدہ وزراء کو قتل کرانے کی بری رسم کی بنیاد رکھی ہے۔ میری دعا ہے کہ تم اور تمہاری اولاد اسی رسم کا مزہ چکھے۔ الکندری کی وفات کے وقت عمر 40 سال کی تھی۔ وہ عربی کا بہت بڑا عالم تھا اور شافعی العقیدہ تھا۔ اس نے عربی میں بڑے اچھے شعر لکھے اسے خوارزم میں اس کے بچپن میں خنثیٰ بنا دیا گیا تھا۔ (نوٹ) الکندری کو مرو میں قتل کیا گیا۔ اس کا سرنیشاپور میں دفن کیا گیا۔ اس کے سر کی ایک ہڈی نظام الملک کے حکم سے کرمان بھیج دی گئی۔




SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: