علاء الدین تکش(۱۱۹۳ تا ۱۲۰۱)
اگرچہ تکش گزشتہ اکیس برس سے قلم رو خوارزم کا حاکم چلا آ رہا تھا لیکن جب تک سلطان شاہ زندہ رہا، خوارزم شاہ نے کبھی اپنے نام کے ساتھ سلطان کا لفظ استعمال نہ کیا۔ اور اگرچہ ہر موقع پر سلطان شاہ کو برادر بزرگ کے مقابلے میں شکست ہوتی رہی لیکن پھر بھی تکش اطمینان کا سانس نہ لے سکا۔
طغرل ثانی سلاجقہٴ عراق کا آخری فرماں روا تھا۔
جب کچھ عرصہ بیشتر اسے مقابلے میں شکست ہوئی تو اس نے رے کا علاقہ بطور تاوان سلطان کے حوالے کر کے صلح کر لی تھی۔ سلطان موسم گرما رے میں بسر کرنے کے بعد جب خوارزم کو واپس ہوا تو اپنے ایک سردار طمغاج کووہاں کا صوبے دار مقرر کرتا گیا۔ چونکہ طغرل کو اپنی جسمانی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا اس لیے طغرل نے عہد شکنی کر کے طمغاج پر چڑھائی کر دی اور طبروق کا قلعہ فتح کر کے طمغاج کو رے سے بھگا دیا۔
جب سلطان کو بھائی کی طرف سے کچھ اطمینان نصیب ہوا تو اس نے ۵۹۰ھ/۱۹۴ع میں طغرل کی گوشمالی کے لیے عراق پر لشکر کشی کی۔ طغرل ابھی رے میں ٹھہرا ہوا تھا اور قتلغ اینانج اس کی طرف سے عراق میں فرماں روائی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ جب اسے سلطان کی ارادوں کا علم ہوا تو قتلغ عراق کے تمام امرا اور ارکین سلطنت کو ساتھ لے کر سلطان کے استقبال کو نکلا، کیونکہ وہ طغرل کا نائب ہونے کی حیثیت سے سلطان سے لڑنا نہیں چاہتا تھا۔
سلطان نے اسے پذیرائی بخشی اور اس کی سابقہ کوتاہیوں سے صرفِ نظر کر کے تمام عراقی سپاہ اس کی کہانی میں دے کر رے پر حملے۱ کا حکم دیا۔
طغرل بڑا دلیر اور بہادر سپاہی تھا اور اسے اپنی قوت بازو پر اتنا ناز تھا کہ ”شاہ نامے“ کے مندرجہ ذیل اشعار بطور مباہات پڑھنا اور اکثر اکثر کر لوگوں کو دعوتِ مبارزت نہ دیتا:
چو زان لشکر گشن برخاست گرد
رخِ نامداران ما گشت زرد
من آن گرزیک زخم برداشتم
سیہ را ھمان جای بگزاشتم
خروشی خروشیدم از پشتہ زین
کہ چون آسیا شد پریشان زمین
رے سے تین کوس کے فاصلے پر دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے اور جنگ چھڑ گئی۔
جب لڑائی زوروں پر تھی تو طغرل اور ینانج کی مٹھ بھیڑ ہو گئی۔ طغرل نے کرز کا وار کیا جو غلطی سے اس کے اپنے گھوڑے کے سر پر لگا۔ گھوڑا گرا تو طغرل بھی گر پڑا۔ اینانج موقعے کی تاک میں تھا، فوراً گھوڑے سے چھلانگ لگائی اور غنیم کا کام تمام کر دیا۔ چونکہ طغرل نے خلیفہ بغداد کے اکسانے پر سلطان کے خلاف بغاوت کی تھی اس لیے سلطان نے اس کا سر کاٹ کر خلیفہ کے پاس بھیج دیا اور دھڑ رے کے بازار میں لٹکا دیا کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو۔
خوارزم شاہ وہاں سے ہمدان کو چلا گیا اور قرب و جوار کے کچھ قلعے، جو ابھی تک طغرل کے ہوا خواہوں کے تصرف میں تھے، فتح کر کے جہاں ملو ان کے بیٹے کی تحویل میں دے دیے۔
خلیفہ بغداد نے اس موقع پر اپنا پرانا مطالبہ کہ عرام کے کچھ اضلاع دربارِ خلافت کے حوالے کر دیے جائیں، پھر سے دہرایا۔ چنانچہ دونوں درباروں میں کافی عرصے تک خط و کتابت ہوتی رہی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
خلیفہ کی فوج کو شکست:
کچھ عرصے کے بعد خلفہ نے اپنے ایک وزیر کو، کس نام مویدالدین علی القصاب تھا، ایک خلعت دے کر خوارزم شاہ کے دربار میں اس غرض کے لیے روانہ کیا کہ ممکن ہے سلطان اس حیلے سے اپنے رویے میں کچھ تبدیلی کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ جب وہ اسد آباد کے نواح میں پہنچا تو دس ہزار کرد اور عرب سپاہی اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے جس سیوزیر کے دماغ میں فتور پیدا ہو گیا۔
چنانچہ از راہِ نحخوت اس نے سلطان کو لکھا کہ وہ دربارِ خلافت سے اس کے لیے ایک خلعت لاربا ہے۔ سلطان کو چاہیے کہ وہ بذاتِ خود اس خلعت کی پذیرائی کریں۔ اس کی موزوں صورت یہ ہے کہ سلطان اور ان کے وزرا ننگے سر، پیادہ پا کریں۔ اس کی موزوں صورت یہ ہے کہ سلطان اور اس کے وزرا ننگے سر، پیادہ ہا اس گھوڑے کے آگے آگے چلیں گے جس پر خلعت رکھا ہو گا۔
ہر چند یہ مطالبہ اس ازبس ذلت آمیز تھا لیکن سلطان اس کی ایک آدھ شق کو چھوڑ کر آمادہ ہو گیا۔ لیکن امراے دربار اس پر تیار نہ ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے سلطان کو یہ کہہ کر بدظن کر دیا کہ خلیفہ اس ترکیب سے سلطان کو قتل کرانا چاہتا ہے اور کرد اور عرب سپاہی اس ناپاک مقصد کی تکمیل کے لیے وزیر کے ہمراہ آ رہے ہیں۔ اس پر سلطان نے ایک کمان دار کو فوج دے کر وزیر کی گوشمالی کے لیے روانہ کیا۔
معمولی سی جھڑپ ہوئی جس میں وزیر کو شکست ہوئی اور وہ خوزستان کو بھاگ گیا، جہاں اس نے تھوڑا سا علاقہ فتح کر کے مختصر سی ریاست قائم کر لی۔
بیٹے کی بیماری:
طغرل کے مارے جانے کے بعد سلطان نے عراق اور اصفہانی کی حکومت اینانج کے حوالے کر دی، اور صوبہ رے اور اس کے مضافات کا نظم و نسق شاہزادہ یونس کے سپرد کر کے میانجق کو شاہزادے کا اتالیق اور فوج کا سپہ سالار بنا دیا۔
سلطان خراسان کو جا رہا تھا کہ اسے شاہزادہ ملک شاہ، جومرو کا حاکم تھا، کی بیماری کی اطلاع موصول ہوئی۔ سلطان نے طوس کے مقام پر کیمپ کیا تو شاہزادے کو وہاں بلا لیا جو چند دن کے علاج معالجے کے بعد تندرست ہو گیا۔ چونکہ مرو کی آب و ہوا شاہزادے کے مزاج کے لیے سازگار نہ تھی اس لیے سلطان نے اسے وہاں سے نیشا پور تبدیل کر کے شادباخ کو اس کا صدر مقام بنا دیا۔
بغاوت:
سقناق کا حاکم قاتر باقو خان ابھی تک شاہی حلقہ ائر میں شامل نہیں ہوا تھا۔ سلطان نے ۵۹۱ھ/۱۹۵ع میں اس کے خلاف لشکر کشی کا حکم دیا۔ جب سلطان چند کے مقام پر پہنچا تو چونکہ قاتر باقو خاں مقابلے کی تاک نہیں لا سکتا تھا اس لیے وہ اپنا دارالحکومت چھوڑ کر بھاگ گیا۔ نورانی ترکوں کی کافی تعداد سلطانی لشکر میں شامل تھی۔ انہیں اپنے ایک بھائی بند کا یوں بھاگ جانا ہتک آمیز معلوم ہوا اور قبائلی عصیبت جوش میں آ گئی۔
چنانچہ انہوں نے خفیہ طور پر مشورہ کر کے قاتر باقو کو کہلوا بھیجا کہ تمہارے اس طرح بھاء جانے ے تمام ترک قبائل کی رسوائی ہوئی ہے اس لیے ہم تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ تم سلطان کے ڈر سے بھاگو مت، بلکہ جی کڑا کر کے مقابلے پر ڈٹ جاؤ۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ جب لڑائی پورے زور پر ہو گی تو ہم اچانک پلٹ کر سلطانی لشکر پر ٹوٹ پڑیں گے اور چونکہ انہیں اس بات کا وہم و گمان تک نہ ہو گا لہٰذا ان کے پاؤں اکھڑ جائیں گے اور میدان تمہارے ہاتھ رہے گا۔
باقو خان کو اور کیا چاہیے تھا۔ اکھڑے ہوئے قدم جم گئے۔ چنانچہ الٹے پاؤں لوٹا اور سلطان لشکر پر حملہ کر دیا۔ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں اور دونوں لشکروں کے بہادر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔ اس افراتفری میں اچانک اورانی سپاہیوں نے خوارزم شاہی سپاہ پہ ہلہ بول دیا۔ لشکر حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ جب غداری کی حقیققت سمجھ میں آئی تو تمام سپاہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑی ہوئی اور ایسی تتر بتر ہوئی کہ کسی کو کسی کی خبر نہ رہی۔
ایک بڑی تعداد ماری گئی، جو تھوڑے بہت میدانِ جنگ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے، وہ جنگلوں اورصحراؤں میں بھٹکے پھرے اور بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو گئے۔ خود سلطان کو جان کے لالے پڑ گئے۔ بھاگے بغیر اور کئوی سیل نہ رہ گئی تھی۔ چند ہوا خواہ ہمراہ تھے جو باگ باگ ملائے، چلے آ رہے تھے۔ اس نفانفسی کے عالم میں ہر شخص کو اپنی فکر دامن گیر تھی اور کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھیوں کا کیا حشر ہوا ہے اور تو اور کسی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سلطان کا کیا انجام ہوا۔
دو ہفتے اسی لاعلمی اور بے یقینی کی حالت میں گزر گئے۔ امرا اور اراکین دولت نے ہر طرف جستجو کے لیے گھوڑے دوڑا رکھے تھے، لیکن کہیں سے کوئی امید افزا اطلاع نہیں مل رہی تھی۔ آخر سترہ دن کی غیر حاضری کے بعد سلطان چند جاں نثاروں کی معیت میں وارد خوارزم ہوا اور ہوا خواہوں کی جان میں جان آئی۔
خلیفہ کی فوج کو شکست:
ادھر سلطان، باقو خان کے خلاف مصروف پیکار ہوا، ادھر خلیفہ، بغداد نے عراق کے متنازعہ فیہ علاقے کو اپنے حود خلافت میں شامل کرنے کے لیے حملہ کر دیا۔
شاہزادہ یونس نے فوراً اُدھر کا رخ کیا اور اپنے بھائی شاہزادہ ملک شاہ کو بھی امداد کے لیے طلب کیا۔ لیکن چونکہ ملک شاہ کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی اس لیے شاہزادہ یونس نے مزید انتظار کیے بغیر خلیفہ کی فوج پر حملہ کر دیا اور اسے حدودِ مملکت سے نکال کر دم لیا۔ دونوں بھائی بمقام ہمدان کٹھے ہوئے۔ چند روز قیام کے بعد ملک شاہ خراسان کو روانہ ہو گیا اور وہاں پر ارسلان شاہ کو اپنا قائم مقام مقرر کر کے خود سلطان کی ملاقات کے لیے خوارزم چلا گیا۔
خراسان سے ملک شاہ کی غیر حاضری نے بعض مفسدہ پردازوں کو شرارت پر اکسایا۔ چنانچہ انہوں نے طغان شاہ کے بیٹے سنجر کو بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ اگرچہ سلطان تکش نے سنجر کی تالیفِ قلب کے لیے اس کی بیوہ ماں کو اپنے حبالہٴ عقد میں لے لیا تھا اور خود اسے اپنی بہن سے بیاہ دیا تھا، لیکن اپنے بیٹے کی حالتِ زارد دیکھ دیکھ کر ملکہ کا دل ہر وقت کڑھتا رہتاتھا۔
اس نے طغان شاہ کی وفات کے بعد اہلِ نیشا پور میں ہزاروں لاکھوں روپے تقسیم کیے تھے تاکہ بوقتِ ضرورت انہیں سلطان کے خلاف آمادئہ فساد کیا جا سکے، لیکن جلد ہی سلطان کو تمام حالات کا علم ہو گیا اور چونکہ سنجر براہِ راست اس سازش میں ملوث تھا اس لیے اسے آنکھوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اینانج کا انجام:
اسی اثنا میں شہزادہ یونس آشوبِ چشم سے بیمار پڑ گیا اور میانجق کو اپنا جانشین مقرر کر کے خود خوارزم چلا گیا۔
خلیفہٴ بغداد ابھی تک اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر اس نے پھر سے اپنے وزیر موید الدین کو، جو ابھی تک اس علاقے میں موجود تھا، عراق پر حملہ کرنے کے لیے فوج بھرتی کرنے کا حکم دیا۔ جب اینانج کو خلیفہ کے ارادے کا علم ہوا تو وہ فوج لے کر میانجق کی امداد کو جا پہنچا۔ نہ معلوم کیا حالات پیش آئے کہ کچھ دنوں کے بعد میانجق نے اینانج کو قتل کر کے اس کا سر سلطان کے پاس بھیج دیا اور کہلا بھیجا کہ اینانج چونکہ دل سے سلطان کا خیر خواہ نہ تھا اور وہ کسی وقت بھی بغاوت کر کے عراق میں گڑبڑ پیدا کر سکتا تھا اس لیے میں نے اس غدار کا خاتمہ کر دیا ہے
Tuesday, July 20, 2021
Author: Urdu Point
urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.
0 Comments: