Monday, July 12, 2021

قسط نمبر 5 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

خود مختارریاستوں کا ظہور عباسی حکومت کے ابتداء ہی میں ایرانیوں کو اپنی حکومت قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا عباسی نظام حکومت میں خرابی پیدا ہو جانے کی وجہ سے اکثر لوگ افراتفری سے فائدہ اٹھا کر اپنے خاندان کے نام آزاد خود مختار ریاستیں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جن میں بنو طاہر صفار اور بنو سامان قابل ذکر ہیں۔ یہ حکومتیں بظاہر خلیفہ بغداد کے ماتحت ہوتی تھیں لیکن حقیقت میں خود مختاری کا دم بھرتی تھیں۔ طاہر کی فوجی خدمات: طاہر بن حسین مامون کا ایک غلام تھا۔ جس وقت امین نے 809ء میں مامون کے خلاف فوج کشی کی تو مامون نے اپنے جرنیل علی بن عیسیٰ کے مقابلے کیلئے طاہر کو اپنا سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ طاہر نے رے کے مقام پر ڈیرے ڈال کر اطراف و جوانب میں جاسوس مقرر کر دیئے تاکہ شاہی لشکر کی نقل و حرکت اور پیش قدمی کا حال معلوم ہوتا رہے۔ علی اپنی طاقت پر اتنا نازاں تھا کہ وہ طاہر کو خاطر میں نہ لاتا تھا اور کہتا تھا کہ لشکر کشی اور سپہ سالاری کو ایک غلام کیا جانے؟ جونہی ہمارا مقابلہ ہوا تو وہ پیٹھ دکھا کر بھاگ جائے گا۔ اگر ذرا دیر کیلئے میدان جنگ میں ٹھہر گیا تو سب سے پہلے اس کا کام تمام کروں گا۔ دیگر فوجی سرداروں نے جب سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی حفاظت کیلئے کم از کم جاسوس مقرر کر دینے چاہیے اور فوج کے اردگرد خندق کھود لینی چاہیے مگر علی نے ایک نہ سنی اور جواب دیا کہ ایسے انتظامات کسی تجربہ کارسپہ سالار کیلئے کئے جاتے ہیں نہ کہ ایک غلام کیلئے۔ طاہر نے چار ہزار کی مختصر فوج کے ساتھ علی کی پچاس ہزار کی فوج کے ساتھ مقابلہ کرکے نہ صرف بغدادی فوج کو شکست دی بلکہ علی کو بھی ایک ایسا تیر لگا کہ وہیں ختم ہو گیا۔ اس کی فوج نے اطاعت قبول کر لی۔ علی کا سر طاہر نے مرد میں مامون کے پاس بھیج دیا۔ اس فتح پر مامون بہت خوش ہوا اور طاہر کی امداد کیلئے مزید فوج روانہ کی۔ دوسری بغدادی فوج کی شکست: جب علی کی شکست کا حال فضل بن ربیع نے سنا تو بہت خوفزدہ ہوا اور عبد الرحمن بن جبلہ کو بیس ہزار فوج دے کر طاہر کے مقابلے کیلئے بھیجا۔ طاہر نے اسے دو مرتبہ ہمدان کے قریب شکست دی اور خطا معاف کرکے اسے امان دے کر عراق و عجم کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ طاہر کی تیسری فتح: عبد الرحمن کے بعد طاہر کا دو جرنیلوں احمد بن مزید اور عبد اللہ بن حمید سے مقابلہ ہونا تھا۔ لیکن طاہر نے جنگ کرنے کے بجائے اپنے جاسوسوں کے ذریعے یہ افواہ پھیلا دی کہ تم لوگ یہاں ہو بغداد میں تنخواہیں تقسیم ہو رہی ہیں۔ اس پر سپاہ نے واپس جانے پر اصرار کیا ناچار احمد اور عبد اللہ بغیر لڑے واپس چلے گئے۔ جب طاہر نے اہواز کا رخ کیا تو محمد بن یزید نے اس کا مقابلہ کیا لیکن مارا گیا۔ ان پے در پے فتوحات کے باعث طاہر کا رعب و دبدبہ اتنا بڑھ گیا کہ جس طرف رخ کرتا امراء اور حکام اس کا نام سنتے ہی بھاگ جاتے۔ چناچہ حاکم واسط نے جب طاہر کی آمد کا حال سنا تو شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس کے بعد کوفہ ، بصرہ اور موصل کے حکام سے امین کی بیعت فسخ کرا کے مامون کی تحریری بیعت لے لی۔ اس بیعت سے سارا عراق عملی طور پر مامون کے قبضہ میں آ گیا۔ فتح بغداد: کوفہ ، بصرہ اور موصل کی فتح کے بعد طاہر مدائن کی طرف بڑھا اور اسے اپنے تصرف میں لاکر بغداد کے نزدیک نہر صرصر کے کنارے ڈیرے ڈال دیئے۔ امین نے اس کے مقابلے میں متعدد فوجیں بھجیں۔ مگر طاہر نے سب کو شکست دی۔ طاہر نے امینی سردار حسین بن علی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ حسین نے رجب 196ھ مطابق 811ھ امین کو معزول کرکے گرفتار کر لیا لیکن اہل شہر نے حسین کو قتل کرکے امین کو چھڑا لیا۔ طاہر نے بغداد کو ہر قیمت پر فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ ایک طرف سے خود اور دوسری طرف سے ہر ثمہ کو محاصرہ کرنے کا حکم دیا اور منجنیقوں سے پتھر برسانے شروع کئے۔ اہل شہر تنگ آکر طاہر کی پناہ میں آنے لگے۔ یہاں تک کہ کوتوال بھی طاہر سے مل گیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر امین نے ملک شام کی طرف بھاگ جانا چاہا مگر طاہر نے اس کی یہ سکیم پوری نہ ہونے دی ، مجبور ہو کر اس نے پناہ لینے کا ارادہ کیا۔ طاہر چونکہ عجمی نژاد تھا۔ اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنا پسند نہ کیا۔ اس کے مقابلے میں ہر ثمہ کو ترجیح دی۔ کیونکہ وہ عربی النسل تھا۔ ہر ثمہ نے پناہ کی درخواست کو بخوشی قبول کر لیا اور یقین دلایا کہ وہ ہر قیمت پر اس کی جان کی حفاظت کرے گا۔ طاہر کو اس کی خبر ہوئی تو بہت گھبرایا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر امین ہر ثمہ کی پناہ میں چلا گیا۔ تو بغداد کی فتح اس سے منسوب کی جائے گی۔ لہٰذا اس سے امین کے محل کے گرد خفیہ طور پر سپاہی تعینات کر دیئے کہ جونہی وہ ہر ثمہ کے پاس جانے لگے اسے قتل کر ڈالیں۔ امین کو اس پہرے کی خبر ہو گئی۔ چنانچہ اس نے کشتیوں کی راہ بھاگ جانا چاہا۔ جس وقت وہ کشتی پر سوار ہوا طاہر کے آدمیوں نے اس پر پتھر برسا کر کشتی کو ڈبو دیا۔ مگر ملاح نے ہمت کرکے کسی نہ کسی طرح امین کو بچا لیا لیکن طاہر کے سپاہیوں نے اسے پکڑ کر قید کر ڈالا اور رات کو قتل کر دیا۔ محرم 198ھ مطابق 813ء کو جمعہ کے روز طاہر نے مسجد میں داخل ہو کر مامون کے نام کا خطبہ پڑھا اور اہل شہر کو عام امان دے دی۔ طاہر کے خلاف فوج کی بغاوت: فتح بغداد کے بعد مامونی افواج نے طاہر سے تنخواہ کا مطالبہ کیا۔ مگر اس کے پاس کوئی دولت یا خزانہ نہ تھا اس لئے انہیں وعدے وعید کرکے ٹالتا رہا لیکن کب تک؟ آخر فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور سوائے چند سرداروں کے اس کے ساتھ کوئی نہ رہا۔ طاہر بغداد چھوڑ کر بھاگ گیا۔ مگر چند روز بعد باغیوں کو خود ہی ہوش آ گیا اور ان کے سرداروں نے طاہر کے پاس حاضر ہو کر معافی مانگ لی۔ طاہر کی شکست: امین کے قتل پر حلب کے ایک سردار نصر بن ثبت نے عربی اور عجمی کا سوال پیدا کرکے بغاوت کا علم بلند کیا اور آس پاس کے بہت سے علاقے پر قابض ہو گیا۔ فضل بن سہل پہلے ہی اسی تاک میں تھا کہ کوئی موقع ملے تو طاہر کو بغداد سے دور بھیج دے۔ تاکہ وہ خود من مانی کارروائیاں کرے۔ فوراً مامون سے طاہر کے نام فرمان بھجوا دیا کہ تمہیں شام ، موصل اور جزیرہ کا والی مقرر کیا جاتا ہے۔ اس لئے بغداد چھوڑ کر فوراً اس طرف روانہ ہو جاؤ اور نصر کا استحصال کرو۔ بغداد کی امارت فضل کے بھائی حسن بن سہل کے سپرد ہوئی طاہر اس ناروا سلوک سے بڑا شکستہ خاطر ہو گیا۔ بادل نخواستہ نصر کے مقابلے میں آیا مگر شکست کھائی۔ نصر پورے گیارہ سال تک باغی رہا۔ طاہر کا بیٹا عبد اللہ اس کی سرکوبی پر مامور ہوا ، جس نے پانچ سال کی متواتر لڑائیوں کے بعد اسے صلح پر مجبور کیا۔ پہلے تو وہ دربار خلافت میں حاضر ہونے کی شرط تسلیم نہیں کرتا تھا مگر بعد میں مان گیا اور 210ھ میں مامون کے سامنے پیش ہو گیا۔ جس نے اسے نظر بند کر دیا۔ مامون کا بغداد میں داخلہ: مامون کو بغداد میں افراتفری کی خبر ملی تو فی الفور بغداد کی راہ میں فضل بن سہل کو سرخس کے مقام پر قتل کروا دیا۔ طوس میں چند روز قیام کیا اور والد کے مزار پر فاتحہ پڑھی جب نہروان پہنچا تو یہاں پر طاہر بن حسین نے اس کا استقبال کیا۔ خلیفہ نے سابقہ خدمات کے صلے میں جزیرہ کی امارت بغداد کی کوتوالی اور ایک گراں بہا خلعت عطا کی۔







SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: