قسط نمبر 27 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات
تکش نے ۵۹۴ھ/۱۱۹۸ع میں خراسان کو کوچ کیا اور ذی الحجہ کی دوسری تاریخ کو شاذیاخ جاپہنچا۔ میانجق کا ر ویہ، جو سلطان کی طرف سے عراق کا صوبہ دار تھا، کچھ عرصے سے قابلِ اعتراض ہو رہا تھا۔ چنانچہ وہ دربار خوارزم سے قطع تعلق کر کے آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ سلطان اس کی گوشمالی کرنا چاہتا تھا مگر جاڑے کا موسم سر پر آگیا تھا اس لیے سلطان نے طے کیا کہ سردیوں کے چند مہینے مازندراں میں گزار کر ابتدائے بہار میں عراق پر لشکر کشی کرے گا۔
جب میانجق کو سلطان کے ارادے کا علم ہوا تو اتنا گھبرایا کہ بدحواس ہوگیا۔ وہ بھاگا پھر رہا تھا اور سلطانی دربار میں معافی تقصیرات کے لیے قاصد بھیج رہا تھا۔ لیکن سلطان نے صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ خود حاضر د ربار نہیں ہوگا، اس کی درخواست پر غور نہیں کیا جاسکتا۔
چونکہ اس کی اپنی نیت اچھی نہ تھی اس لیے سلطان کے سامنے آنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔
سلطان کو اس کی یہ حرکت ازبس ناگوار ہو رہی تھی۔ چنانچہ اس نے فوج کے ایک دستے کو متعین کیا کہ وہ اسے گرفتار کر کے دربار میں لے آئے۔ یہ لوگ اچانک اس کے سر پر جادھمکے۔ اٹھ کر بھاگا اور قلعہ فیروز میں جا کر پناہ لی۔ سلطانی لشکر سائے کی طرح ساتھ ساتھ تھا۔ چنانچہ قلعے کا محاصرہ کر کے چاروں طرف سنجوقیں نصب کردیں اور میانجق کو پکڑ کر باہر گھسیٹ لائے اور اُونٹ پر سوار کر کے تکش کے پاس، جو ان دنوں قزوین میں تھا، بھیج دیا۔
ہر چند ایسے غدار کی سزا قتل ہی ہونا چاہیے تھی لیکن سلطان نے اس کے بھائی آقچہ کی خدمات کے پیش نظر اس شرط پر معاف کردیا کہ ایک سال تک اسے جیل میں نظر بند رکھا جائے گا۔ اس کے بعد جند کے نواح میں کسی سرحدی مقام پر بھیج دیا جائے گا تاکہ وہ زندگی کے باقی ماندہ ایام گم نامی میں بسر کرسکے۔۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۷۱ - جہاں کشا: ج ۲ ، ص ۴۲ - ۴۳ - ۴۳ - حبیب السیر: و - ۱۷۰ -
اگرچہ خلافت بغداد بہت حد تک اپنا اقتدار کھو چکی تھی لیکن اس کی روحانی سیادت کا وقار تاحال لوگوں کے دلوں میں اسی طرح باقی تھا اور تمام مسلمان سلاطین کو دربار خلافت سے ایک گونہ عقیدت فی الوقت بھی حاصل تھی۔
چنانچہ اگر کسی حکمران کو دربار خلافت سے خلعت عطا ہوجاتی تو اس سے اس کی شان امازت میں ایک طرہٴ امتیاز لگ جاتا۔ سلطان کے تعلقات دربار خلافت سے کشیدہ چلے آرہے تھے اس لیے وہ خود کو کوسی ایسی عزت افزائی کا مستحق نہیں گردانتا تھا۔ لیکن چونکہ وہ اس کمی سے معاصر بادشاہوں کے سامنے خفت محسوس کرتا تھا اس لیے یہ کانٹا اس کے دل میں کھٹکتا رہتا تھا۔
اسے حسن اتفاق کہنا چاہیے تھا اس لیے یہ کانٹا اس کے دل میں کھٹکتا رہتا تھا۔ اسے حسن اتفاق کہنا چاہیے کہ انہی ایام میں سلطان کو دربارِ خلافت سے عراق، خراسان اور ترکستان کی حکومت کا پروانہ، خلعتِ فاخرہ عطا ہوئی۔ ہرچند یہ پروانہٴ حکومت”عمر خضر دراز“ کی ذیل میں آتا تھا لیکن تکش کو پھر بھی اس سے بڑی مسرت ہوئی اور اس نے یوں محسوس کیا گویا ایک بوجھ اس کے دل سے اتر گیا ہے۔
سلطان کی وقات:
حسن بن صباح کے فدائیوں کی ایک جماعت قلعہ الموت میں، جو قزوین کے نواح میں واقع تھا، کچھ عرصے سے مقیم تھی اور اپنی مفسدانہ سرگرمیوں سے قرب وجوار کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھی۔ تکش کی مصروفیت سے فائدہ اٹھا کر یہ لوگ کچھ زیادہ ہی دلیر ہوگئے تھے اور من مانی کرتے پھرتے تھے۔ جب خوارزم شاہ کو ادھر سے اطمینان ہوگیا تو اس نے تسخیر قلعہ کے لیے لشکر کشی کی۔
یہ قلعہ دریائے الموت کے کنارے پر ایک اونچی چوٹی پر واقع تھا جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن سلطان نے اس شدت سے حملہ کیا کہ قلعہ فتح ہویا۔ بہت سے فدائی مارے گئے جو بچے وہ بھاگ گئے۔ ملاحدہٴ الموت کو اس شکست کا بڑا رنج ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ سلطان نے یہ لشکر کشی نظام الملک کے اکسانے پر، جو سلطان کا وزیر اعظم اور اس فرقے کا سخت دشمن تھا، کی ہے۔
اس لیے اس شکست کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے نظام الملک پر حدود نہاوند میں حملہ کر کے اسے شہید کردیا۔ سلطان کو اس کا ازحد رنج ہوا۔ چنانچہ اس نے شاہزادہ قطب الدین کو فوج دے کر پھر سے اس بدبخت جماعت کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ شاہزادے نے ترشیز کا، جو ان دنوں فدائیوں کا گڑھ تھا، محاصرہ کرلیا۔ فدائیوں نے بھی سردھڑ کی بازی لگا دی۔ چنانچہ اس کشمکش میں چار مہینے بیت گئے۔
اس اثنا میں سلطان پر مرضِ خناق کا حملہ ہوا۔ جب علاج معالجہ سے تھوڑا بہت افاقہ ہوا تو کمک لے کر ترشیز کو چل دیا۔ ہرچند سلطان کو خیر خواہانِ دولت نے اس سفر سے منع کیا لیکن تکش طوالتِ محاصرہ سے اتنا پریشان تھا کہ مزید انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ جب چاہِ عرب کے مقام پر پہنچا تو مرض نے دوبارہ حملہ کیا۔ کمزور تو تھا ہی، شدتِ مرض کا مقابلہ نہ کرسکا اور ماہِ رمضان کی ۱۹ تاریخ ۵۹۶ھ/ ۱۲۰۰ ع کو فوت ہوگیا۔
۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲ ، ص ۷۱ - جہاں کشا: ج ۲ ، ص ۴۷ - روضة الصفاء: ج ۴ ، ص ۴۲ - ۱۴۳ - ابو الفداء: ج ۳ ، ص ۹۸ - حبیب السیر : و ۱۷۰ -
یہاں یہ عرض کرنا بے محل نہ ہوگا کہ اگرچہ تمام موٴرخین نے نظام الملک کے قتل کا ذمہ دار فدائیانِ حسن بن صباح کو قرار دیا لیکن اس تسامح کی کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ انہوں نے نظام الملک کو سلطان تشکف کا وزیر اعظم کیونکر قرار دیا؟ کیونکہ تمام اہلِ تاریخ اس امر پر متفق ہیں کہ نظام الملک شاہ سلجوق کا وزیر اعظم تھا جسے فدائیوں نے حدود نہاوند میں شہید کیا تھا۔
ملک شاہ سلجوق ۴۷۵ ھ / ۱۰۷۳ ع سے ۸۵ھ/۱۰۳ع تک حکمران رہا۔ تکش خوارزم شاہ اس سے ایک صدی بعد کا آدمی ہے اس سے عجیب معلوم ہوتا ہے کہ ایک صدی پیشتر کے قتل کو اس عہد پر چپکا دیا جائے۔ میرے خیال میں اس تاریخی تسامح کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہے تکش کے وزیر اعظم کا لقب بھی نظام الملک رہا ہو اور اس کی موت بھی فدائیوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی ہو لہٰذا موٴرخین نے لقب کی مشابہت کی وجہ سے دونوں کو گڈمڈ کردیا۔
اور یا چونکہ اصل نظام الملک کو حدودِ نہاوند میں قتل کیا گیا تھا، دوسرے نظام الملک(وزیر تکش) کا بھی اس تشابہ کی وجہ سے وہیں قتل ہونا تسلیم کرلیا گیا۔ بقول تاریخِ گزیدہ کے تکش کے وزیر اعظم کا نام شمس الدین ہریوہ تھا۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ تمام موٴرخین بالاتفاق ایک ہی بات کو دہراتے چلے گئے ہیں۔
سیرت:
بعض مورخین کا خیال ہے کہ اگرچہ سلطان شاہ، تکش سے عمر میں چھوٹا تھا لیکن اس کی ماں نے اتسز کو بہلا پھسلا کر ولی عہدی کا منصب اپنے بیٹے کے لیے مخصوص کرا لیا تھا اور خوارزم شاہ نے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیا تھا۔
جب اتسز فوت ہوا تو تکش جند کی حکمرانی پر مامور تھا۔ ملکہ نے بعض سرکردہ امرائے دربار کو اپنا ہم نوا بنالیا تھا جنہوں نے نیابت کا تاج چھوٹے بھائی کے سر پر رکھ دیا۔تکش کے سامنے مشکلات کے پہاڑ تھے۔ تخت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ امراء اور خوانین چڑھتے سورج کے پجاری ہوئے ہیں۔ سعادت کا ہما سلطان شاہ کے سر پر سایہ افگن تھا، وہ سب اس کے ساتھ ہوگئے، تکش کو تاریخ میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے جس ہفت خواں سے گزرنا پڑتا۔
جب اس نے اپنی مہم جوئی اور سخت کوشی سے خوارزم کا تخت حاصل کرلیا تو اگرچہ بیس برس تک دونوں بھائی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے لیکن ان حالات میں بھی تکش نے چھوٹے بھائی کو ہمیشہ حسنِ سلوک سے نوازا۔ اس کی تقصیرات سے درگزر کیا، غلطیوں سے چشم پیش کی۔ بلکہ پے درپے بدعہدیوں کے باوجود جب بھی اس نے ندامت کا اظہار کیا، تکش نے انتقام کی بجائے عفو اور بدلہ کی بجائے چشم پوشی سے کام لیا۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سلطان شاہ نے شفقت کا بدلہ نفرت سے اور احسان کا بدلہ ناشکر گزاری سے دیا۔
ان معاملات میں تکش بڑا بلند حوصلہ اور عالی ظرف حکمران تھا۔ جب طغرل ٹانئی مرگیا تو سلطان نے محض اس خیال سے کہ شاید اس طرح معاندت کی تلافی کی کوئی صورت نکل آئے، طغرل کی بیوہ سے نکاح کر کے اس کے بیٹے سنجر سے اپنی بہن چی شادی کردی تھی۔
لیکن جب اسے اس ناپاک سازش کا علم ہوا، جو ماں بیٹے نے سلطان کے خلاف کر رکھی تھی، تو پھر بھی غضب کی بجائے حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنجر کو جیل میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ اسے نورِ بصارت سے محروم کردیا جائے۔ اسی طرح میانجق حاکمِ عراق کو بھی قتل کرنے کی بجائے حکومت سے معزول کر کے جند کے سرحدی مقام پر نظر بند کردیا تھا تاکہ وہ مزید کوئی شرارت نہ کرنے پائے۔
تکش ان اوصاف کے علاوہ بڑا مہم جو اور مستقل مزاج حکمران تھا۔ جس مہم کو سر کرنے کا ارادہ کرلیتا، اس وقت تک دم نہ لیتا جب تک کامیابی حاصل نہ ہوجاتی۔ جب سلطان نے خوارزم کا تخت سنبھالا، مخالف طاقتیں اردگرد منڈلا رہی تھیں۔ ترکانِ خطا، طغرل ثانی، طغان شاہ اور سلطان شاہ کے علاوہ سلاطینِ غور بھی اس کی گھات میں تھے، خلیفہ بغداد الگ دانت پیس رہا تھا اگر یہ سب لوگ مل کر اس پر حملہ کردیتے تو چند دنوں میں اس کا نام ونشان مٹ جاتا، لیکن قابلِ ستائش یہ مہم جو جس نے ترکانِ خطا اور خلیفہٴ بغداد کے سوا سب کا نام ونشان مٹا دیا۔
جب سلطان کا باپ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا تو سلاطینِ غور کا آفتابِ اقبال نصف النہار پر تھا، لیکن تکش نے اس شدت اور کثرت سے ان کی حدودِ ریاست میں تاخت وتاراج کیا کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو ان کی سلطنت جان بلب ہو چکی تھی۔ چنانچہ علاء الدین محمد تخت نشین ہوا تو ایک ہی جھٹکے سے یہ عمارت زمین بوس ہوگئی۔ یہ درست ہے کہ وہ کافی عرصے تک ترکانِ خطا کا باج گزار رہا اور ہر سال تیس ہزار دینار بالالتزام ادا کرتا رہا جو ایک خود دار حکمران کی شان کے منافی ہے۔
لیکن یہ اس کی نہایت عمدہ سیاسی چال تھی جس سے وہ بوقتِ ضرورت اپنا مطلب نکال لیا کرتا تھا۔ چنانچہ جب بھی محسوس کرتا کہ کسی غنیم کے مقابلے میں اس کا پہلو دب رہا ہے تو فوراً ترکانِ خطا سے امداد کا طالب ہوتا۔ آخر ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ اس نے حکم برادری کا یہ جوا اپنی گردن سے اتار پھینکا اور ترکانِ خطا نے خود کو ایسا بے بس پایا کہ وہ اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
الناصر لدین اللہ خلیفہٴ بغداد سلطان کا ہم عصر تھا۔ خلافت ایک عرصے سے خلفشار کا شکار تھی اور وقتاً فوقتاًمسلمان سلاطین خلیفہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے نام کا خطبہ پڑھوانے چلے آرہے تھے۔ چنانچہ سلجوق خاندان جب عروج پر تھا تو ان کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھا جاتا تھا۔ اب خوارزمی خاندان کے اقتدار کی آندھی اٹھ رہی تھی اور قرب وجوار کی تمام چھوٹی بڑی ریاستوں پر سلطان کا قبصہ تھا اس لیے سلطان کے دل میں اس خواہش کا پیدا ہونا قدرتی امر تھا۔
مگر ایسا معلوم ہوتا کہ سلطان یہ اندازہ نہ کرسکا کہ اس کا معاصر خلیفہ اس ذلت کو گوارا کرنے پر آمادہ ہوسکے گا یا نہیں۔ اور نہ وہ اس ردل عمل کے اثرات کے بارے میں سوچ سکا جو اس کی اس غیر مناسب درخواست سے تمام عالم السلام میں بالعموم اور خود اس کی رعایا میں بالخصوص پیدا ہوں گی۔ کیونکہ ان غیر مساعد حالات میں بھی تمام عالمِ اسلام خلیفہ کی دنیوی اور دینی سیادت کو جزو ایمان قرار دیتا تھا۔
جب تکش کے مقابلے پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی جس سے سلطان کی مقبولیت کو دھچکا لگا ۔ نیز معاصر مسلمان سلاطین نے بھی ناک بھوں چڑھائی۔ چنانچہ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ سلطان کی اس حرکت کے نتائج حد درجہ تباہ کن تھے۔ اتنا کہے بغیر چارہ نہیں کہ سلطان کو خلیفہٴ وقت کے دو بدو ہو کر منافرت کا بیج نہیں بونا چاہیے تھا۔ لیکن خود خلیفہ بھی ذمہ دار تھا۔
ترکان خاتون:
سلطان کی ملکہ کا نام ترکان خاتون تھا۔ یہ قبچاقی ترکوں کے سردار کی بیٹی تھی۔ ملکہ بڑے مضبوط ارادے اور زبردست دل وگردہ کی مالک تھی۔ اسے اپنے قبیلے کی بہادری اور دلیری پر بڑا ناز تھا۔ یہ لوگ سلطان کی مہمات میں اکثر اس کے ہم رکاب رہتے تھے۔ ہر چند ان کا وجود سلطنت کے لیے ضروری تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ کسی آئین اور قاعدے کے پابند نہیں رہ سکتے تھے۔
ملکہ بڑی خود سر تھی اور سلطنت کے معاملات میں دخل اندازی اس کا روز مرہ کا معمول تھا۔ جس بات کو وہ ناپسند کرتی، اس کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہوجاتا تھا۔ چنانچہ خوارزم شاہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرپاتا تھا۔ نتیجتاً بعض ایسے احکام بھی سرزد ہوجاتے جو مفادِ عامہ کے خلاف ہوتے لیکن تکش قبچاقیوں کے ڈر سے دم نہیں مار سکتا تھا۔ سلطان خود ان چیزوں کو ناپسند کرتا لیکن چونکہ یہ لوگ اس کا بازوئے شمشیر زن تھے اس لیے محض اس مصلحت کے پیش نظر یہ کڑوا گھونٹ پی لیا کرتا۔
اگر ان انسانی کمزوریوں سے صرف نظر کرلیا جائے، اور حق یہ ہے کہ صرفِ نظر بغیر چارہ بھی نہیں، تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ تکش اس خاندان کا عظیم ترین فرماں روا تھا۔ اس نے چھبیس برس پیشتر باپ سے زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا وراثت میں پایا۔ جب مرا تو اس کی حکومت وسعت اور شان وشوکت میں اس سے کئی گنا بڑھ چکی تھی اور آس پاس کی جو ریاستیں اس وقت تک خوارزم شاہی اقتدار میں شامل نہیں ہوئی تھیں وہ نوشتہٴ دیوار پڑھ چکی تھیں اور برگِ خزاں دیدہ کی طرح بادِ صرصر کے ایک جھونکے کی منتظر تھیں۔
بلاشبہ اس کے بیٹے علاء الدین محمد نے خاندان غلاماں کی تاریخ کو چار چاند لگا دئیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح اس کا عروج مثالی اور حیران کن تھا، اس کا زوال بھی حد درجہ افسوس ناک اور عبرتناک اور حیرت انگیز تھا۔ اس کی خود سری، ناعاقبت اندیشی اور بزدلی سے عالمِ اسلام پر جو افتاد پڑی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ناپید ہے۔ تکش کاپوتا جلال الدین محمد اگرچہ بڑا جری، حوصلہ مند اور باکمال حکمران تھا لیکن علاء الدین کی وفات کے بعد چنگیز خان نے اسے کہیں جم کر بیٹھنے نہ دیا۔
اس کی عقابی نگاہوں سے جلال الدین کے سپاہیانہ اوصاف مخفی نہ تھے۔ اسے یقین تھا کہ اگر اسے کچھ عرصہ اطمینان سے بیٹھنا نصیب ہوگیا تو پھر اس کا مقابلہ کرنا ازحد مشکل ہوجائے گا۔
سیرت:
ابنِ اثیر اور ابو الفداء لکھتے ہیں کہ تکش بڑا منصف مزاج، رحم دل، عالم وفاضل اور علم فقہ اور اصولِفقہ میں خاص استعداد رکھتا تھا۔ اہل السنت والجماعت کے مسلک کا پابند اور حنفی فقہ کا مقلّد تھا۔
علم دوست اور علم پرور ہونے کے علاوہ شعرا اور اہل ذوق کا قدردان تھا۔ سوزنی، عماد، خاقانی اور اسماعیل اصفہانی اس کے معاصرین سے تھے۔ آخر الذکر دو شعرا نے اس کی مدح میں قصیدے بھی کہے ہیں۔ اس طرح علامہ فخر الدین رازی نے حقائق الانوار،سید اسماعیل جرجانی نے ذخیرہ خوارزم شاہی اور حقی علائی نے علمِ طب کی ایک کتاب اس کے نام معنون کی تھی۔ ۱
۱۔ ابن اثیر: ج ۱۲۔ ص ۷۴، ص ۷۴ - جہاں کشا: ْ ۲ة ص ۴۷ - ۴۸ - ابو الفداء: ج ۳، ص ۹۸ - روضة الصفا : ج ۴، ص ۹۸ - حبیب السیر: و ۳۴۰ -
0 Comments: