قسط نمبر 2 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات
محل وقوع
وسط ایشیاء یا ترکستان کا مفہوم ایک ہی ہے بعض اوقات آذر بائیجان کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ آذر بائیجان وسط ایشیاء میں تو شامل ہے لیکن ترکستان میں شامل نہیں۔ تاریخی لحاظ سے ان علاقوں کو ترکستان کہا جاتا تھا جن میں چینی ترکستان ، روسی ترکستان اور افغانستان کے بعض علاقے شامل تھے۔
گویا شمال کی جانب سائبریا اور جنوب میں ایران افغانستان تک اور پہاڑوں کا عظیم سلسلہ جنوب مغرب میں کوپت داغ سے شروع ہو کر مشرق میں پامیر اور تیان شان کے پہاڑی سلسلوں پر ختم ہوتا ہے ایک طرف اگر مغرب اور شمال میں وسیع اور عریض میدان پھیلے ہوئے ہیں تو مشرق اور جنوب کا بیشتر خطہ پہاڑی ہے اور یہ سلسلہ وسط ایشیاء کو باقی براعظم ایشیاء سے جدا کرتا ہے۔
اس وسیع و عریض علاقے کو حغرافیائی اعتبار سے چار مختلف نوعیت کے علاقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے آب و ہوا بھی مختلف ہے۔
(1) سپیتی کا میدان جو شمالی قزاقستان پر مشتمل ہے۔
(2) نیم ریگستانی علاقہ جو باقی قزاقستان کو محیط کئے ہوئے ہے۔
(3) جنوب کا ریگستانی علاقہ جو مغرب میں ایرانی سرحد تک اور مشرق میں چین کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔
(4) پامیر اور تیان شان کا پہاڑی علاقہ۔
رقبہ
اس علاقے کا مجموعی رقبہ 40 لاکھ کلو میٹر ہے اور یہ رقبہ سوویت یونین کے کل رقبہ کا چھٹا حصہ تھا جبکہ سوویت یونین پوری دنیا کے رقبہ کا چھٹا حصہ تھا۔
آبادی
اس پورے علاقے کی آبادی تقریباً چار کروڑ کے لگ بھگ ہے یہ کل روس کی آبادی کا نواں حصہ بنتا ہے۔ اس وقت ترکستان میں سوویت دور کی بنائی ہوئی پانچ جمہورتیں جن میں قازقستان ، کرغیزستان، تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔
سابقہ سوویت یونین میں مسلمانوں کی درست تعداد معلوم کرنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ روس کی مردم شماری کے کاغذات میں مذہب کا کوئی خانہ نہیں ہوتا مذہب کی بجائے نسل اور زبان پر زور دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مذہب کی بجائے مردم شماری میں لوگوں سے ان کی نسل قومیت اور زبان کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی تھیں۔ خوش قسمتی سے روس میں آباد قومیں اور لسانی گروہ مذہب کے لحاظ سے بھی واضح طور پر تقسیم ہیں۔
یعنی وہاں پر ہر قومیت اور ہر لسانی گروہ ایک ہی مذہب کا پیرو ہے۔ اس طرح اگر روسی یوکرینی عیسائی ہیں تو ترک، ایرانی اور قفقازی باشندے مسلمان ہیں۔ لسانی گروہ جو سب مسلمان ہیں اور صدیوں سے مسلمان چلے آ رہے ہیں درج ذیل ہیں۔
(1) ازبک (2) تاتار (3) قازق (4) آذربائیجان (5) ترکمان (6) کرغیز (7) باشقرو (8) قراقلپاق (9) قوموق (10) اویغور (11) قرہ چھئے (14) بلکار (13) نوغائی (14) تاجک (15) آسی (16) کرد (17) ایرانی (18) تاب (19) بلوچ قفقاز نسل والے (20) چیچن (21) کباردی (22) انگش (23) آدیگی (24) چرکس (25) ابخازی (26) ابازا (27) آوار (28) لاز (29) درگن (30) لک (31) تباسای (32) آگل (33) روتول (34) تساخر (35) عرب (36) دنگن (37) تاجک۔
نوٹ۔ یہ قبائل کسی ایک ریاست تک محدود نہیں بلکہ مختلف ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن بڑی تعداد میں اپنے نام کی ریاست میں آباد ہے۔
وسط ایشیاء میں لاتعداد نسلوں اور قومیتوں کے لوگ آباد ہیں سوویت روس کی جانب سے شائع کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ایک سو سے بھی زائد قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ شہروں میں روسیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مثلاً ازبکستان میں ازبک باشندوں کا تناسب 64.7 فیصد روسی 12.5 فیصد تاتار 4.8 فیصد قازق 4.6 فیصد تاجک 3.8 فیصد۔
ذرائع آبپاشی
وسط ایشیاء میں زراعت کا دارو مدار دریائی پانی یا بارش پر ہے۔ دریاؤں سے پاکستان کی طرح نہریں نکالی گئی ہے۔ دریائے جیحوں (آمو) اور مسیحوں (سیر) وسط ایشیاء کے دو مشہور دریا ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے چھوٹے چھوٹے دریا بھی ہیں۔ جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں (1) چرچق (2) قر (3) نرین (4) سوخ (5) اسفارہ (6) قشقہ(7) انگرن (8) گذر (9) سرخان اور (10) اور خوجائی پاک وغیرہ جیحوں اور مسیحوں کرغیزیا اور تاجکستان کے پہاڑوں سے نکل کر ازبکستان میں بہنے لگتے ہیں۔
آمو دریا وسطی ایشیاء کا سب سے بڑا دریا ہے۔ سیر دریا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ سیر دریا ازبکستان اور اس سے ملحقہ کرغیزیا ، تاجکستان اور قازقستان اور ترکمانیہ اقتصادی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دریاؤں کے کنارے جنگلات بھی لگائے گئے ہیں اس کے بعد یہ جھیل ارال میں گر جاتا ہے۔ یہ دریا جہاز رانی کے قابل ہیں۔ ان دریاؤں میں سے بڑی بڑی نہریں نکالی گئی ہیں بعض میں جہاز رانی بھی ہوتی ہے بڑی نہروں کے نام یہ ہیں (1) گرانڈ فرغانہ (2) شمالی فرغانہ (3) جنوبی فرغانہ اور نہر تاشقند خاص طور پر مشہور ہیں۔
نہری نظام کی لمبائی 87000 کلو میٹر ہے۔
بجلی و گیس
ان دریاؤں اور نہروں پر بند باندھ کر چار سو سے زائد بجلی گھر تعمیر کئے گئے ہیں مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار 30000 ملین کلو واٹ فی گھنٹہ ہے۔ دوسرے ممالک کو بھی مہیا کی جاتی ہے۔ اسی طرح گیس کے بھی بڑے ذخائر دریافت ہوئے۔ بجلی اور گیس ملکی ضرورت سے زیادہ ہے۔ پاکستان بھی حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔
افغانستان کے حالات درست ہونے پر ہی عمل ہو سکے گا۔
صنعت و حرفت
اس وقت وسط ایشیاء میں بھاری صنعتوں کے کئی کارخانے قائم ہیں۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق وسط ایشیاء کی ریاستوں کی صنعتی پیداوار کا ساٹھ فیصد ازبکستان میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً گاڑیاں اور ٹریلرز بنانے کے کارخانے ، مواصلاتی مشینری کے کارخانے ، مصنوعی دھاگہ بنانے کے کارخانے ، کپڑے بننے کے کارخانے ، مصنوعی کھاد کے کارخانے ، دوا سازی کے کارخانے ، مکانات کی تعمیر کرنے کیلئے سامان تیار کرنے کے کارخانے وغیرہ۔
معدنیات
ان علاقوں میں اعلیٰ قسم کی خام فیرس دھاتیں اور کمایاب دھاتیں کافی مقدار میں پائی جاتی ہیں ان میں تانبا ، جست ، سیسہ ، گندھک ، سونا چاندی ، مختلف دھاتیں کوئلہ ، تیل ، اور گیس۔
زرعی پیداوار
پھل اس علاقے میں کثرت سے ہوتے ہیں صرف انگور کی 100 اقسام ہیں۔ 300 اقسام کے سیب پیدا ہوتے ہیں 240 اقسام کے آڑو پیدا ہوتے ہیں۔
اس طرح سردا اور گرما کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ کپاس اور گندم کی کافی پیدا ہوتی ہے بلکہ کپاس کے لحاظ سے ازبکستان دنیا میں خاص مقام رکھتا ہے۔
گلہ بانی
گلہ بانی ترکوں کا صدیوں سے پیشہ رہا ہے قراقلی نسل کی بھیڑیں بھی یہاں پالی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گھوڑے اور اونٹ بھی کثرت سے پالے جاتے ہیں۔
ریشم
سابقہ سوویت یونین کا ساٹھ فیصد ریشم وسط ایشیاء میں پیدا ہوتا تھا۔
جس پر ریشمی کپڑے کے کارخانے کا انحصار ہے جو سمرقند میں ہیں۔ غرض قدرت نے ان علاقوں پر بڑی عنایت کیں ہیں۔ ہر چیز فراوانی عنایات سے عطا کی ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ اس نعمت کا شکر ادا کریں اور اپنی عظمت رفتہ کو واپس لائیں۔
مشہور شہر
بخارا سمرقند ، اندجان ، دوشنبہ ، الماتا ، بشکک ، تاشقند ، باکو وغیرہ۔
0 Comments: