Friday, July 23, 2021

آخری قسط - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

 Molana-620x410



سلطان کی کوہستان نمک میں آمد
عام تاریخ کی کتابوں سلطان کی برصغیر میں آمد کے متعلق تو لکھا گیا ہے لیکن یہاں سلطان کے قیام کے متعلق نہیں لکھا گیا۔ حالانکہ سلطان نے برصغیر میں تقریباً تین سال کا عرصہ گزارا۔ یہ عرصہ اس نے کوہستان نمک میں تلاجھہ ضلع خوشاب اور سمرقند ضلع چکوال میں بسر کیا۔
سلطان جب گھوڑے سمیت دریا میں کود گیا تو اس جگہ کا نام گھوڑا ترپ مشہو ہو گیا۔

یعنی گھوڑے کی چھلانگ والی جگہ بعد میں اس نے ضلع اٹک سے براستہ پنڈی گھیب اور تلہ گنگ ائمہ میرا پہنچ کر نالہ گمبھیر کو عبور کیا اور سامنے پہاڑی پر وسط ایشیائکے مشہور تاریخی شہر کے نام پر اس قلعے کا نام سمرقند رکھا۔ گمبھیر سنسکرت میں گہرے کو کہتے ہیں یہ نام آرین نے قبل مسیح میں رکھا تھا برسات میں پانی بہت گہرا ہو جاتا ہے یہ جگہ رام نے بھی دیکھی ہے اور میرے ساتھ ڈاکٹر عبد الغفار صاحب سکنہ چیبخی اور ملک الطاف صاحب مشہور تاریخی شہر تھرچک کے بھی ساتھ تھے۔
ان ہی کی وساطت سے جگہ دیکھی پر نیز ہمارے ساتھ ڈاکٹر محمد امین آف سرگودھا یونیورسٹی بھی تھے۔
یہ قلعہ چھوٹی سی جگہ پر ہے پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے تالاب بھی بنوایا۔ لیکن اس تالاب کے پانی کا دارو مدار صرف برسات کے موسم تک محدود تھا اس لئے سلطان نے مستقل بندوبست کے طور پر گمبھیر نام سے پانی ایک پختہ کوئنیں میں ڈالا جاتا اور پھر اس میں سیڑھیاں بھی بنائی گئی تھیں جن کے ذریعے نیچے اتر کر پانی کو حاصل کیا جا سکتا تھا۔

یہ کافی بڑا کنواں تھا۔
یہ جگہ اس سڑک پر واقع ہے جو کہ کلرکہار سے چیبخی جاتی ہے اور درمیان میں 18 کلو میٹر کے فاصلہ پر ائمہ میرا ہے یہوہ جگہ ہے جہاں سے 1850ء کے انگریزی دور میں ایک کنواں دریافت ہوا تھا جس میں ایک پتھر کی تختی پر تحریر ملی جس پر 58 لکھا ہوا تھا۔ یہ بدھ مت کے عروج کا زمانہ تھا یہ کنواں اب بھی آبپاشی کے کام آ رہا ہے اور یہ تحریری خروشتی رسم الخط میں تھی۔

جسے لاہور کے عجائب گھر میں بھیج دیا گیا۔ 58 بکھری ہے اور یہ مسحی سن کے مطابق پہلی صدی عیسوی کے شروع کا بنتا ہے۔
سمر قند میں چونکہ جگہ تنگ تھی اس لئے فوج کی کثرت کی بدولت اسے مزید کھلی جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو سلطان نے تلاجھہ ضلع خوشاب کو منتخب کیا۔ یہ جگہ خوشاب نوشہرہ روڈ پر ہے۔ مشرق کی طرف دادہ گولڑہ سے پہلے کچھی والے دربار کے بورڈ والے راستے سے وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔

کچھی والے دربار تک گاڑی جا سکتی ہے۔ اب راستہ سلیکاریت اٹھانے والوں کی وجہ سے کافی اچھا بنا دیا گیا ہے۔ اس سے آگے پیدل کا راستہ ہے جو تقریباً 2 کلو میٹر نہایت دشوار گزار ہے۔ تمام راستہ خودرو چھ چھ فٹ بوٹیوں سے اٹا پڑا ہے۔ 2010ء میں ہمارے ضلع کے سابق ڈی۔ سی۔ او گلزار حسین شاہ صاحب نے اسے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو راقم نے انہیں راستہ کی مشکل سے آگاہ کیا۔

لیکن انہوں نے فرمایا کہ اس کی پرواہ نہیں۔ چنانہ وہ دونوں ہاتھوں کو ملا کر کہنیوں کے زور سے راستہ بتاتے چلے گئے۔ جس سے ان کے ذوق و شوق کی داد دینا پڑتی ہے۔
یہ قلعہ بھی ایک ایسی چٹان پر ہے جس پر چڑھنے کیلئے صرف ایک ہی تنگ راستہ ہے۔ جسے رات کو پتھروں سے بند کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ کہیں سے اور راستہ نہیں کئی سو فٹ عمودی چٹانیں راستے میں حائل ہیں۔

اس جگہ اتنے پتھر کے مکانوں کے کھولے پڑے ہیں جو شمار سے باہر ہیں۔ اس جگہ پختہ اینٹں کا ایک تالاب بھی بنایا گیا ہے۔ لیکن مستقل آب رسانی کیلئے ایک کنواں یہاں بھی موجود ہے۔ جہاں ڈول کھینچنے کے رسیوں کے نشان اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس جگہ ایک کھنڈر میں مسجد کا محراب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ سب عمارات اتنے وزنی پتھروں سے تعمیر کی گئی ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کو یہاں تک کیسے لایا گیا ہوگا۔

ایک یک سل تقریباً چار سے چھ فٹ تک لمبی اور تقریباً ڈیڑھ سے دو فٹ تک چوڑی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی اینٹ بھی من دو من تو ضرور وزنی ہوگی۔
تل عربی اور فارسی زبان میں اونچی جگہ کو کہتے ہیں تلاجھہ شاید ”تل آں جا“ کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہوتی ہے۔
نیچے راستے میں اس زمانے کے مجاہدین کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں جو پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔

خزانے کی تلاش والے بھی اکثر کھدائی کرتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ قلعے کی مسجد میں گڑھا کھدا ہوا دیکھا تھا پتہ نہیں کوئی چیز ملی یا نہیں۔
ایک شخص نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں ایک سرنگ سے مٹھہ ٹوا نے ایک آدمی کو تلوار اور کچھ فارسی میں لکھی ہوئی تحریریں ملی تھیں لیکن کافی تلاش سے آدمی کا کھوج نہ لگایا جا سکا۔ اس طرح ایک سرنگ کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور چلی آ رہی ہیں کہ اس میں اسیب ہے وغیرہ وغیرہ۔

سلطان ناصر الدین قباچہ سے سلطان جلال الدین کی لڑائیاں ہوئیں۔ آخر وہ آچ سے جو اس کا دارالحکومت تھا بھاگتے ہوئے دریائے سندھ میں ڈوب گیا۔ قباچ کی موت پر التمش نے سکھ کا سانس لیا۔
سلطان نے یہاں کھوکھر قبیلہ کے سردار رائے شنکر کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اس کی بیٹی سے نکاح کر لیا اور اس طرح کھوکھر اس کی فوج میں ہزاروں کی تعداد میں بھرتی ہو گئے۔

جس سے سلطان کی عسکری حالت کافی حد تک مضبوط ہو گئی۔ اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ بڑے بڑے معرکے سر کر سکے۔ کھوکھروں کی دیکھا دیکھی دوسرے مقامی قبائل بھی سلطان دست و بازو بن گئے۔
اسی تلاجھہ قلعہ کے مغرب میں ایک اور دشوار گزار راستے میں ایک جگہ تلاجھی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کچھی والے دربار سے تقریباً ایک کلو میٹر پہلے ہے۔ وہاں تک پہنچنے کیلئے کسی واقف کار کے برراستہ ملنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

جب میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر محمد امین صاحب آف سرگودھا یونیورسٹی اور محترم احمد نواز صاحب وارنٹ آفیسر کے ساتھ جو ہمارے رہبر تھے۔ احمد نواز نمک کھوڑہ کے رہنے والے ہیں اور یہ جگہ کھوڑہ کے قریب ہے۔
لیکن وہ بھی راستہ بھول گئے خوش قسمتی سے نیچے لکڑیاں اکٹھی کرنے والے رہبر ابھی نیچے نظر آ رہے تھے ان سے راستہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ لہوڑے کے درخت کے پہلو سے راستہ جاتا ہے اور جڑی بوٹیوں کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا تھا چنانچہ ڈاکٹر امین صاحب نے جوانی کے جوش میں رہبری کی اور راستہ تلاش کر ہی لیا۔

اوپر جا کر دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ یہاں گزرگاہ پر نگاہ رکھنے کیلئے فوجی چوکی بنائی ہو گی تاکہ خطرے کی صورت میں ڈھول بجا کر اہل قلعہ کو آگاہ کیا جا سکے۔ یہ راستہ اتنا دشوار تھا کہ احمد نواز صاحب جیسے فوجی آدمی کا مسل بھی پل ہو گیا اور چلنے سے معذور ہو گئے انہیں خدا خدا کرکے نیچے لائے۔ ایسی چوکیوں کو مغلوں کے زمانے میں برج کہا جاتا تھا۔

ابھی ایک اس قسم کا برج تخت ہزارہ کے قریب موجود ہے۔
سلطان سردیوں میں معرکے سر کرتا اور گرمیوں میں واپس تلاجھہ آ جاتا۔ کیونکہ وادی سون کی آب و ہوا کافی خوشگوار ہے۔
سلطان نے جب آگے ایران کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو اس علاقے کو اپنے جرنیل سیف الدین حسن قرلاغ کو بخش دیا۔ قرلاغ نے اس جگہ تقریباً بیس سال حکومت کی اور یہاں پر اس نے اپنی ٹکسال بھی قائم کی جو کہ ہمارے ضلع کی تاریخ میں پہلی اور آخری ٹکسال تھی۔

اس کے ڈھالے ہو سکے اب بھی لوگوں کو ملتے رہتے ہیں۔
ان سکوں کا ذکر شاہپور گزٹیر میں بھی ہے اور سلطان نے اپنے سکے ترک شاہی کی طرز پر گھوڑے اور ربیل کی تصویروں والے بنوائے۔ شہاب الدین غوری کے بھی بعض سکے اسی قسم کے ہیں۔ سکوں کی یہ شکل اتنی مشہور تھی کہ خلیفہ بغداد نے بھی اسی طرز کے سکے بنوائے۔ اس قسم کے سکے چٹہ سے ملے تھے۔
قرلاغ نے اپنی ریاست کو بغیر سٹیٹ بنا دیا تھا۔

اس کی وجہ سے منگول آگے نہ بڑھ سکتے تھے۔ بار بار وہ آتے اور ٹکرا کر واپس ہو جاتے اور سلالحین دہی ان کے حملوں سے سے محفوظ رہتے۔
سلطان جب تک زندہ رہا اس نے منگولوں کا ناک میں دم کئے رکھا۔ وہ جس علاقے میں بھی گیا ہمیشہ کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے وسط ایشیاء میں اپنی ریاست خوارزم سے معرکہ آرائی شروع کی اور عرق اور جارجیا تک کے علاقوں کو فتح کیا لیکن آخر کار یہ شہاب ثاقب زمانے کی تارکیوں میں گم ہو گیا اور اپنے پیچھے ایک ایسی بہادری کی داستان چھوڑ گیا جو آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ کا کام دیتی رہے گی۔

یہی وجہ ہے اب روس سے آزادی کے بعد وسط ایشیاؤالے تمام ممالک خصوصاً ازبکستان والے اس کو تیمور کا ہم پلہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح تیمور کی یادگاریں قائم کی جا رہی ہیں اسی طرح جلال الدین خوارزم شاہ کی یادگاریں قائم کی گئی ہیں اور کرنسی پر اس کی تصویر بنا کر اسے لاوزال کر دیا گیا ہے۔ ویسے آج بھی خیوہ تاریخی عمارات کے لحاظ سے سمرقند اور بخارا کا مقابلہ کر سکتا ہے یہی خوارزم شاہیوں کا دارالحکومت تھا









Part  01

Part  02

Part  03

Part  04

Part  05

Part  06

Part  07

Part  08

Part  09

Part  10

Part  11

Part  12

Part  13

Part  14

Part  15

Part  16

Part  17

Part  18

Part  19

Part  20

Part  21

Part  22

Part  23

Part  24

Part  25

Part  26

Part  27

Part  28

Part  29

Part  30

Part  31

Part  32

Part  33

Part  34

Part  35

Part  36

Part  37

Part  38

Part  39

Part  40

Part  41

Part  42

Part  43

Part  44

Part  45

 Last Part



SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: