قسط نمبر 26 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات
خلیفہ کی فوج کو پھر ناکامی:
۵۹۲ھ/۱۱۹۶ع میں سلطان نے پھر سے عراق کا رخ کیا اور مزدکان کے مقام پر پڑاؤ کیا۔ خلیفہ بغداد کا وزیر ان دنوں ہمدان کے مقام پر ٹھہرا ہوا تھا۔ چند دنوں کے بعد دونوں فوجوں میں لڑائی ہوئی جس میں خلیفہ کی فوج کو شکست ہوئی اور اس کی آدمی کثیر تعداد میں مارے گئے۔ ایک روایت کے بموجب مویدالدین اس جنگ سے چند دن پیشتر ہی مر گیا تھا۔
لیکن کمانداران فوج نے اس راز کو چھپائے رکھا تاکہ فوج بددل نہ ہونے پائے۔ جب دربار خلافت کی فوجوں کو شکست ہوئی اور سلطان کو حقیقتِ حال کا علم ہوا تو اس نے حکم دیا کہ وزیر کی قبر کھود کر اس کی لاش کو باہر نکالا جائے۔ لاش نکالی گئی تو سلطان نے اس کا سر کاٹ کر خوارزم بھیج دیا تاکہ شہر کے دروازے پر آویزاں کر دیا جائے۔
کچھ دنوں کے قیام کے بعد سلطان خوارزم کو واپس چلا گیا اور اپنے نواسے اربوس بن طغادی خاں کو وہاں کا سربراہِ حکومت مقرر کر کے پیغو کو اس کا اتالیق نامزد کرتا گیا۔
۱#
جب سلطان نے شاہزادہ ملک شاہ کو خراسان کا حاکم مقرر کیا تھا تو اسے واضح اور صریح الفاظ میں تنبیہ کی تھی کہ چونکہ مرو کی آب و ہوا اس کے مزاج کے لیے سازگار نہیں ہے اس لیے وہ ہرگز ادھر کا رخ نہ کرے۔ لیکن مرو ایک نہایت عمدہ شکار گاہ تھی اور شاہزادہ شکار کا حد درجہ شائق تھا اس لیے جونہی موسم سرما کا آغاز ہوا، ملک شاہ کے لیے طبیعت پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔
مرو پہنچنچے کی دیر تھی کہ بیمار پڑ گیا اور ۹ ربیع الاول ۵۹۳ھ/۱۱۹۷ع کو فوت ہو گیا۔
چونکہ شاہزادے کی وفات کے بعد خراسان میں بغاوت کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اس لیے سلطان نے نظام الملک صدرالدین کو حکم دیا کہ وہ فوراً شاد باخ جائے اور حالات کو بے قابو نہ ہونے دے۔ نیز ملک شاہ کے اہل و عیال کو خوارزم ۲ روانہ کر دے کیونکہ ان سے بغاوت کا خطرہ تھا۔
جب بغاوت کا خطرہ ٹل گیا تو شاہزادہ قطب الدین محمد کو حکم دیا کہ وہ خراسان کی حکومت کا بندوبست اپنے ہاتھ میں لے لے۔
باقو کی شکست:
اسی دوران قاتر باہو خاں اور اس کے بھتیجے الپ درک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ الپ درک نے سلطان کو لکھا کہ اگر آپ باقو کے خلاف میری امداد کریں اور نتیجہ میں کامیاب ہو جاؤں تو میں سلطان کے اطاعت گزاروں میں شامل ہو جاؤں گا اور ہر سال ایک مقررہ رقم بطور خراج ادا کیا کروں گا۔
تورانی ترکوں کی غداری سے سلطان کو باقو کے ہاتھوں جو شکست ہوئی تھی اس کا زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا تھا۔ سلطان نے شاہزادہ محمد کو شادباخ سے بلا کر اس مہم کی تکمیل اس کے سپرد کی۔ ضروری اسباب کی فراہمی کے بعد شاہزادہ فوج لے کر جند کو روانہ ہوا جہاں الپ درک اس کا انتظار کر رہا تھا۔ گزشتہ کامیابی سے باقو کا حوصلہ بڑھ گیا تھا لیکن جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو پہلے ہی حملے میں باقو کے قدم اکھڑ گئے۔
چونکہ پہلے سے پیش بندی کر لی گئی تھی کہ دشمن بھاگنے نہ پائے اس لیے باقو اور اس کے تمام امراء گرفتار کر لیے گئے اور خوارزم بھیج دیے گئے۔
الپ درک کی شکست:
جب باقو کی افواج اس کی زندگی سے مایوس ہو گئیں تو سب الپ درک کے جھنڈے تلے جمع ہو گئیں اور حیلے حوالوں سے اسے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ سلطان کے خلاف بغاوت کرے تاکہ ترک قبائل اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکیں۔
جب سلطان کو معلوم ہوا کہ الپ درک ترک قبائل کے بہکانے میں آ گیا ہے تو اس نے باقو کو طلب کر کے اسے اور اس کے گرفتار شدہ امرا کو اس شرط پر جاں بخشی کی پیش کش کی کہ اگر وہ خوارزم شاہی افواج کی مدد سے الپ درک کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے تو دربار خوارزم شاہی کا باجگزار رہے گا۔ باقو رضا مند ہو گیا اور خوارزم شاہی افواج کی مدد سے الپ درک کو شکست دے کر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔
ترکان خطا کی شکست:
۵۹۴ھ/۱۱۹۸ع میں بامیان کے حاکم بہاء الدین سام بن محد نے بلخ کو فتح کر لیا جس پر تکان خطا کی طرف سے ایک ترک شاہزادہ حکمران چلا آ رہا تھا۔ حاکم بغل اتفاقاً مر گیا اور بہاء الدین سام نے موقع پا کر بلغ پر قبضہ کر لیا اور سلطان غیاث الدین غوری کے نام کا خطبہ جاری کر دیا۔ چونکہ سلطان غیاث الدین خلیفہ بغداد کے اکسانے پر ان دنوں خوارزم شاہ کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھا اس لیے سلطان نے ترکانِ خطا سے بشراط ادائے خراج فوجی کمک طلب کی۔
اسی سال موسمِ سرما میں ترکانِ خطا کے ایک لشکر نے تائیکو کی کمان میں دریاے جیحوں کو عبور کر کے دریا کے متصل تمام علاقے کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ جب وہ نواحی بلخ میں پہنچا تو سام کو کہلا بھیجا کہ شہر ہمارے حوالے کر دو یا اداے خراج کی شرط منظور کر لو، لیکن سام نے خاموشی اختیار کر لی اور کوئی جواب نہ دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ شہاب الدین ہندوستان گیا ہوا تھا اس لیے غیاث الدین نے سلطان تکش کے خلاف اپنی مہم کو ختم کر کے ترکانِ خطا پر، جو ان دنوں بلخ سے ہٹ کر بخارا کے محاصرے میں مصروف تھے، حملے کا ارادہ کیا۔
چنانچہ غیاث الدین فوج لیے چپکے چپکے وہاں جا پہنچا اور بے خبری میں ایسا شب خوں مارا کہ ترکانِ خطا کو فاش شکست ہوئی۔ دوسری صبح کو جب تانیکو کو معلوم ہوا کہ گرشتہ رات کا حملہ سلطان غیاث الدین کی ذاتی کمان میں کیا گیا تھا تو ترکوں نے پھر سے قسمت آزمائی کے ارادے سے بکھرے اور بھاگے ہوئے سپاہیوں کو جمع کیا اور غوریوں پر حملہ کر دیا۔ چونکہ سلطان دشمن کی پذیرائی کے لیے پورے طور پر تیار تھا اس لیے ترکوں کو منہ کی کھانا پڑی۔
اس لڑائی میں سپاہ کی ایک کثیر تعداد ماری گئی اور جو بچے، وہ واپسی پر دریاے جیحوں کی لہروں کی نذر ہو گئے، کیونکہ غوری لشکر ان کے تعاقب میں تھا۔ بچاؤ کی صرف ایک صورت تھی کہ دریا میں کود پڑیں اور تیر کر اس پار جا پہنچیں۔ جب تانیکو واپس صدر مقام میں پہنچا اور باقی ماندہ سپاہ کی گنتی کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس مہم میں ان کے بارہ ہزار فوجی اپنی جانیں کھو بیٹھے ہیں۔
چونکہ اس وقت ترکان خطا کو کبھی ایسی ذلت آمیز شکست نہیں ہوئی تھی اس لیے ان کی ہوا بری طرح اکھڑ گئی۔
چونکہ گور خاں نے یہ فوجی مہم سلطان تکش کی درخواست پر اس کی امداد کے لیے روانہ کی تھی اور سلطانی فوج نے اس دوران گور خاں کے لشکر کی کوئی امداد نہیں کی تھی، ورنہ انہیں ایسی زک نہ اٹھانا پڑتی، لہٰذا گور خاں سلطان کی اس بے تعلقی سے سخت پر افروختہ تھا۔
اس نے سلطان کو لکھا کہچونکہ یہ مہم آپ کے کہنے پر شروع کی گئی تھی اور آپ نے ہماری کوئی امداد نہیں کی جس سے ہمیں زبردست جانی نقصان اٹھانا پڑا، اس لیے یہ حساب دس ہزار روپے فی سپاہی تاوان ادا کریں۔
سلطان تکش جانتا تھا کہ وہ تنہا ترکانِ خطا کا حریف نہیں ہو سکتا اور اسے یقین تھا کہ انکار تاوان کی صورت میں ترکانِ خطا ضرور حملہ آور ہوں گے، اس لیے اس نے سلطان غیاث الدین غوری سے نامہ و پیام کر کے صلح کر لی۔
سلطان نے خوارزم شاہ کو مشورہ دیا کہ وہ خلیفہ، بغداد کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس نے یہ تجویز کی کہ ترکان خطا نے خلیفہ، بغداد کے جن اضلاع کو تاخت و تاراج کر دیا تھا، اخلاقاً اس کی ذمہ داری سلطان پر عائد ہوتی ہے اس لیے سلطان از خود اس کا معاوضہ ادا کرے۔
جب خوارزم شاہ کو ادھر سے اطمینان ہو گیا تو اس نے گور خاں کو جواب میں لکھا کہ اس شکست کا ذمہ دار تمہارا وہکماندار ہے جسے فوج دے کر تم نے غوریوں کے مقابلے کو روانہ کیا تھا۔
وہ ایسا نالائق نکلا کہ بے تدبیری سے سب کچھ گنوا بیٹھا۔ ظاہر ہے کہ میں تائیکو کی حماقت کا خمیازہ کیسے بھگت سکتا ہوں۔ جب گور خاں کو سلطان کا یہ ٹکا سا جواب ملا تو اسے بڑا تاؤ آیا۔ حکم دیا کہ تکش کا دماغ درست کرنے کے لیے ایک جرار لشکر تیار کیا جائے اور خوارزم پر چڑھائی کر دی جائے۔ سلطان اس مہم سے عہدہ برا ہونے کے لیے پورے طور پر تیار تھا۔
چنانچہ ادھر ترکانِ خطا کا لشکر حوالی خوارزم میں وارد ہوا، ادھر سلطان شہر بند ہو گیا۔ ترکوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا مگر سلطانی لشکر نے اس شدت اور کثرت سے شب خوں مارے کہ ترکوں کی جان پر بن گئی اور اس طرح خان خطا کے فوجیوں کی کثیر تعداد ماری گئی۔ ترکوں نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس ہو لیے۔ سلطان کو غنیم کی کمزوری کا پورا پورا اندازہ تھا چنانچہ اس نے فوج کو حکم دیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے۔
ترک دفاعی جنگ لڑتے بھڑتے بخارا جا پہنچے اور شہر بند ہو گئے۔ سلطانی فوج نے محاصرہ کر لیا۔ کچھ دن تو باشندگانِ شہر نے بڑی بامردی اور بہادری سے سلطان کا مقابلہ کیا، لیکن تابکے، آخر گھبرا اٹھے اور لگے سلطان سے التجائیں کرنے کہ ان کی حالتِ زار پر رحم کر کے محاصرہ اٹھا لیا جائے، لیکن سلطان ترکان خطا کی موجودگی سے سخت برافروختہ تھا اور اہل شہر کوناکردہ گناہوں کی سزا دینا چاہتا تھا۔
فتح بخارا:
چونکہ اہل شہر سخت تنگ آ چکے تھے اور سلطان ان کی التجاؤں اور درخواستوں سے قطعاً غیر متاثر تھا، اس یے وہ لوگ روزانہ فصیلِ شہر پر کھڑے ہو کر سلطان کو فحش گالیاں دیتے۔ ایک دن اہل بخارا کو سلطان کے چڑانے کی ایک عجیب و غریب ترکیب سوجھی۔ شہر سے ایک کانا کتا پکڑا، اسے ٹوپی اور کوٹ پہنایا اور فصیل پر دو چار چکر لگوا کر نیچے پھینک دیا اور خوارزمی سپاہیوں کو، جو سامنے کھڑے یہ سوانگ دیکھ رہے تھے، للکار کر کہا: ”خوارزمیو! تم پر خدا کی پھٹکار ہو۔ دیکھ لیا، یہ تمہارا مردود سلطان ہے۔“ چونکہ سلطان یک چشم تھا، یہ اسی پر طنز تھا۔ کچھ دنوں کے بعد بخارا فتح ہو گیا، لیکن سلطان نے اہلِ شہر سے مزید تعرض مناسب نہ سمجھا۔ ۱
0 Comments: