Friday, July 23, 2021

قسط نمبر 38 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

 Molana-620x410


شمالی اضلاع میں شدت کی سردی پڑتی تھی۔ تمام دریا اور ندی نالے جم جاتے تھے اور جوں جوں جاڑا بڑھتا جاتا، موسمی حالات شدید تر ہوتے جاتے۔ چنانچہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ برتنوں اور گھڑوں میں بھی پانی جم جاتا اور برف کو پگھلا کر ضرورت پوری کی جاتی۔ بالخصوص خوارزم میں سردی نہایت شدت کی پڑتی تھی۔ چنانچہ پانی جم کر پتھر کی طرح سخت ہوجاتا۔

بعض اوقات سردیوں میں ایسے سرد جھکڑ چلتے کہ ہاتھ پاؤں سردی سے شل ہوجاتے۔ بازاروں اور گلیوں میں اینٹوں یا پتھروں سے فرش بچھا دئیے جاتے تھے۔ لیکن صفائی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ لوگ کوڑا کرکٹ گلی کوچوں میں پھینک دیتے جس سے صورتِ حال خراب تر ہوجاتی۔ خوارزم دارالسلطنت تھا لیکن صفائی کا انتظام ناپید تھا۔ اور چونکہ پانی کے نکاس کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا اس یے تعفّن اور بدبو روزمرہ کی زندگی کا جزو بن کر رہ گئے تھے۔

گلی کوچوں میں ہر طرف انسانی غلاظت کے ڈھیر پڑے دکھائی دیتے تھے۔ جب حالت ناقابلِ برداشت ہوجاتی تو لوگ خود ہی غلاظت اور گندگی کو بوریوں میں بھر کر شہر سے باہر لے جاتے اور کھیتوں میں ڈال دیتے۔ چند دنوں تک تو بدبو اور تعفّن کی وجہ سے قرب وجوار کے لوگوں کا دم ناک میں آجاتا لیکن بعد کو جب دھوپ کی وجہ سے غلاظت خشک ہوجاتی تو حالات معمول پر آجاتے۔

چونکہ اکثر گلی کوچوں میں ہر طرف گندگی پھیلی ہوتی تھی اس لیے اجنبیوں کے لیے رات کو چوکوں اور بازاروں سے گزرنا جُوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ خود اہلِ شہر کو بھی اکثر کسی ضرورت کی وجہ سے سڑکوں یا بازاروں سے گزرنا پڑتا تو غلاظت میں لت پت ہوجاتے۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کی یہی حالت تھی۔
لوگ بڑے مہمان نواز اور خوش اخلاق تھے۔

ہر شہر میں کثرت سے کارواں سرائیں جامع مسجدیں اور مدرسے پائے جاتے تھے۔ صرف ماوراء النہر میں دس ہزار سرائیں تھیں۔ لوگوں کو جہاد فی سبیل اللہ کا بڑا شوق تھا اور اسی شوق کی تکمیل کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں گھوڑے پالتے تھے۔ اور جہاں بھی اور جب بھی انہیں خدمت کے لیے طلب کیا جاتا، بے چون وچرا حاضر ہوجاتے۔ اور اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے شرکت نہ کرسکتے تو اپنے گھوڑے غازیوں کے سپرد کردیتے بغیر معاوضے کے خدا کی راہ میں لڑتے۔

رضاکاروں کی اس جماعت سے اگرچہ ملک کو بوقتِ ضرورت رضا کار مل جاتے تھے جو کافروں اور مشرکوں کے خلاف اسلام کی سربلندی کے لیے جان توڑ کر لڑتے تھے مگر اس بے نظم جماعت کا وجود ملک کے لیے بعض اوقات بڑے ناقابلِ برداشت حالات بھی پیدا کردیتا تھا۔ چونکہ انہیں حکومت کی طرف سے کوئی نتخواہ نہیں ملتی تھی اور ان کے معاش کا دارومدار صرف لوٹ مار پر تھا، اس لیے اگر انہیں کچھ عرصے تک دشمنوں کے خلاف لڑنے کا موقع نہ ملتا تو اندرونِ ملک بدنظمی اور بے امنی پیدا کرنے سے قطعاً دریغ نہ کرتے اور اگر اربابِ اخبیار کو ذراغافل پاتے تو فوراً لوٹ مار شروع کردیتے۔

چنانچہ حکومت کو ان رضا کاروں کے سرداروں کو قابو میں رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑتے۔ حکومت انہیں خطابات سے نوازتی اور جاگیریں بخش کر انہیں راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی لیکن با ایں ہمہ، کچھ عرصے کے بعد، حالات اتنے نازک ہوجاتے تھے کہ رضاکاروں کی اس جماعت کا وجود ملک کے لیے یقینی اور حتمی خطرہ بن جاتا تھا۔ وہ کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی کھڑاک کھڑا کر دیتے تاکہ لوٹ مار کا موقع نکل آئے اور وہ اپنے ہاتھ رنگ سکیں۔

اس خطرے کی پیش نظر بادشاہ کو ان خود سروں پر کڑی نظر رکھنی پڑتی تھی کیونکہ یہ لوگ گھر کے وہ بھیدی تھے جو لنکا ڈھانے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔
حکومت اور عوام کی اکثریت کا مذہب اسلام تھا۔ بعض مقامات پر بہت معمولی تعداد میں پارسی بھی پائے جاتے تھے۔ انہیں تمام شہری حقوق حاصل تھے اور کوئی شخص بھی ان کے عقائد اور طریقِ عبادت اور رسم ورواج پر معترض نہیں ہوتا تھا۔

انہیں عبادت گاہیں بنانے اور ان کی نگہداشت کرنے کی پوری آزادی تھی۔ ان کا سب سے بڑا آتشکدہ آذر بائیجان میں تھا جہاں زرتشت نے جنم لیا تھا۔ وہاں ہر سال ان کے یوم پیدائش کے سلسلے میں عظیم الشان اجتماع ہوتا تھا جس میں زرتشت کے پیرو جوق در جوق شریک ہوتے تھے۔ اکثریت کی طرف سے کوئی مزاحمت یا رکاوٹ پیدا نہیں کی جاتی تھی اور نہ عہدِ حاصر کی طرح کبھی کوئی لڑائی جھگڑا کھڑا کر دیا جاتاتھا۔

گویا تمام رعایا ایک کنبے کے افراد تھے جن میں مذہبی نارواداری کا نام ونشان نہ تھا۔
مسلمانوں کے کئی فرقے تھے۔ حنفی، شافعی اور شیعہ۔ اکثریت حنفیوں کی تھی۔ یہ امر حد درجہ باعثِ حیرت اور قابلِ افسوس ہے کہ جو اکثریت اغیار کیساتھ اتنی فراخ دل تھی کہ ان کے کسی رسم ورواج سے تعرض نہیں کرتی تھی ان میں آپس میں اکثر پرپھٹول ہوتی رہتی تھی۔

وہ ایک دوسرے کی معمولی معمولی باتوں سے مشتعل ہوجایا کرتے تھے اور تلواریں میانوں سے تڑپ کر نکل آتیں اور خونریزی شروع ہوجاتی۔ ایک دفعہ رے میں سلطان محمد کے عہد میں ایسا اتفاق ہوا کہ وہاں کی آبادی میں حنفیوں، شافعیوں اور شیعوں کی تعداد کچھ برابر برابر تھی۔ کسی شرپسند کو یہ سوجھی کہ کیوں نہ شیعوں کو جہاں سے نکال باہر کیا جائے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ حنفیوں اور شافعیوں کو متحد ہو کر شیعوں پر حملہ کردینا چاہیے۔

چنانچہ یہ منصوبہ کامیاب رہا اور تمام شیعہ اہلِ شہر کو شہر چھوڑنا پڑا۔ اگر بات یہیں رک جاتی تو اسے بھی گوارا کرلیا جاتا لیکن زیادہ وقت نہیں گزرنے پایا تھا کہ حنفیوں اور شافعیوں کے تعلقات میں تلخی پیدا ہوگئی اور اول الذکر فرقے کو قرب وجوار کی بستیوں سے کافی کمک پہنچ گئی۔ نتیجتاً شافعیوں کو بوریا بستر لپیٹ کر رے سے رخصت ہونا پڑا۔

ایسے واقعات کا رد عمل بعض اوقات بڑا شدید ہوتا تھا۔ جہاں شیعوں کی کثرت ہوتی وہاں سنیوں کو جان کے لالے پڑ جاتے۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، دیکھتے دیکھتے تمام ملک میں جنگ وجدل کی آگ بڑھ اٹھتی اور ایک ہی مذہب کے پیروکار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے۔ یہی حالت قُم کی تھی جہاں شیعوں کی اکثریت تھی۔ وہاں کسی سنی کے رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

تعجب ہے کہ جس مذہب کو تمام دنیا کے لیے امن اور صلح کا نمونہ بنا کر بھیجا گیا تھا ان کے باہمی تعلقات اس قدر تلخ اور ناخوش گوار ہوں۔
امیروں کی عورتیں گھروں سے بہت کم باہر نکلتیں۔ اگر ضرورت پڑتی تو برقع سے چہرہ ڈھانپ لیتیں یا سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لیتیں اور ایک آنکھ کھلی رکھتیں تاکہ چلنے میں دقت نہ ہو۔ غریبوں میں پردے کا کوئی رواج نہ تھا۔

غریب عورتیں گلی کوچوں اور بازاروں میں کھلے منہ پھرتیں اور کام کاج میں مردوں کا ہاتھ بٹاتیں۔ ابتدائے تمدن سے اس طبقے کا بنجار کچھ ایسا چلا آیا ہے کہ وہ پردہ نشینی کی آسائشوں سے محروم ہی رہا ہے۔
صنعت وحرفت تمدن کے لوازمات میں سے ہے۔ جوں جوں تمدن بڑھتا ہے اور لوگوں کی ضروریاتِ زندگی بڑھتی ہیں تو صنعت وحرفت کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ اس زمانے میں نہ ضروریاتِ زندگی اتنی زیادہ تھیں اور نہ فیکٹریوں اور کارخانوں میں بے شمار اشیائے ضرورت بنتی تھیں۔ صنعت کار اور دستکار شہروں میں گزر اوقات کرتے تھے کیونکہ ان کی مصنوعات کی پذیرائی کرنے والے ہیں رہتے تھے۔ اور چونکہ مصنوعات کی پیداوار محدود تھی اس لیے ضروری ہے کہ کاریگر کو حسب خواہش مزدوری مل ہی جاتی ہوگی اور وہ آہستہ نسبتاً خوش حال زندگی بسر کرتا ہوگا۔

اس سے دوسروں کو بھی ایسی صنعتوں اور دستکاریوں کو اپنانے ترغیب ہوتی ہوگی اور قومی دولت میں اضافہ ہوتا ہوگا۔
اس زمانے میں بھی اہل دیہات اپنی ضروریات کی ہم رسانی کے لیے شہروں کے محتاج تھے۔ عام طور پر جنس کا تبادلہ جنس سے ہوتا تھا۔ دیہاتی غلہ اور اناج لاتے اور اپنی ضرورت کی اشیاء تبادلے میں لے جاتے۔
ملک کے مختلف حصوں میں درآمد اور برآمد کی مصنوعات کا نقشہ حسب ذیل تھا: کاشان کی مخمل لاجواب تھی اور دور دور تک اس کی مانگ تھی۔

ترمذ کا صابن مشہور تھا۔ بخارا کے ریشمی کپڑے، جائے نماز، قالین، نیل اور بھیڑ بکریوں کی کھالیں ملک کے طول وعرض میں ہر جگہ دستیاب ہو سکتی تھیں۔ کرمان میں تولیے اور رومال بکثرت تیار ہوتے تھے۔ دبوسیہ کے رنگ دار کپڑے تمام ملک میں پسند کیے جاتے تھے۔ خوارزم دارالسلطنت ہونے کی وجہ سے تمام ملک میں پسند کیے جاتے تھے۔ خوارزم دارالسلطنت ہونے کی وجہ سے مختلف صنعتوں اور دستکاریوں کا مرکز تھا۔

وہاں سے مندرجہ ذیل اشیا دساور کو بھیجی جاتی تھیں:
سمور، سنجاب، پہاڑی لومڑیوں کی کھال کی پوستینیں اور ود بلاؤ کی کھال کی ٹوپیاں، چتلے خرگوتوں کی کھالیں، بھیڑ بکریوں کی چربی، تیر، مچھلی، عنبر، گھوڑوں کا رنگا ہوا چمڑا، شہد، اخروٹ، بادام، پستہ، انگور، کِشمِش، تل، تلواریں، زِرہیں، باز، بکریاں، سویشی، رنگدار اور لکیر دار کپڑے، دریاں، قالین، کمبل، ریشمی کپڑے، تالے اور کمانیں وغیرہ۔

سمرقند سے کپڑوں کے علاوہ تانبے کے برتن، نازک اور خوبصورت صراحیاں، خیمے، گھوڑوں کی زینیں، لگام، رکابیں برآمد کی جاتی تھیں۔ سمرقندی کاغذ تمام دیگر مصنوعات کے مقابلے میں زیادہ مشہور تھا جسے اہلِ سمرقند نے چینی کاریگروں سے سیکھا تھا۔ بناکت کے سوتی کپڑے بہت مشہور تھے۔ شاش میں گھوڑے کے چمڑے کی نہایت عمدہ زینیں تیار کی جاتی تھیں۔

نیز جہاں کے خیمے، ترکش، عبائیں، مصلے، چمڑے کی ٹوپیاں، عمدہ کمانیں اور نفیس کپاس بہت مشہور تھی۔ فرغانہ سے سفید کپڑے، ہتھیار، تلواریں، تانبہ اورلوہا برآمد کیا جاتا تھا۔ ترکستان کے گھوڑے اور خنجر مشہور تھے۔
ماوراء النہر کے صوبے میں خوارزم، سمرقند اور بخارا مشہور تجارتی منڈیاں شمار ہوتے تھے جہاں روزانہ لاکھوں روپوں کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔

چنانچہ نیشا پور، مرو، بلخ اور اترار سے باقاعدہ سینکڑوں تجارتی قافلے خریدوفروخت کے لیے آتے تھے۔
غلامی کا رواج تاحال باقی تھا لیکن چونکہ غلام کنبے کا فرد شمار کیا جاتا تھا اور معاشرے میں اسے مساوات اور برابری کے حقوق حاصل تھے اور ترقی کے تمام مواقع سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اس لیے غلاموں میں آقاؤں کے خلاف کوئی بددلی اور ناراضگی نہیں پائی جاتی۔

یہ سب اسلامی تعلیم کا فیض تھا کہ آقاؤں کے دلوں میں غلاموں کی توقیر اور احترام پیدا ہوگیا تھا۔ اگر کسی معاملے میں ان سے ناروا سلوک کیا جاتا تو انہیں عدالتی چارہ جوئی کا حق حاصل تھا، سلطان محمد غوری کا غلام تھا۔ اس طرح غزنوی خاندان کا بانی ہونے کا فخر حاصل ہے، برکیارق کا زرخرید تھا۔ گویا اسلامی تاریخ میں ایسی مثالوں کی کوئی کمی نہیں۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ انسان خدا داد استعداد سے بہرہ، مند ہو اور اتنی اہلیت رکھتا ہو کہ زمانے کے سرکش گھوڑے کو لگام دے کر اپنے ڈھب پر لگا سکے۔
حوالہ جات:
معجم البلدان جلد اول، ۱۶۰ - ۱۶۱ ، دوم ۸۱ - ۸۳ ، ۳۶۳ - ۳۸۶ - ۳۸۸، ۳۹۶ - ۳۹۸، سوم ۷۵، ۱۷۷، ۴۰۳، ۴۷۳ - ۴۷۴ ، ۴۷۹ ، چہارم ۲۶ - ۲۷ ، ۳۵۵، پنجم ۳۷ ، ۶۵ ، ۱۲۱ - ۱۲۳ ، ۱۴۴ - ۳۶۲، ششم ۷۴ ، ۳۲۹، ۳۶۱ - ۳۶۲، ہفتم ۱۳، ۱۰۹، ۳۸۱ -

 







SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: