Monday, July 12, 2021

قسط نمبر 4 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

عربوں کے حملے اور قبول اسلام مغربی ایشیاء میں عرب مجاہدین خلافت راشدہ کے زمانے میں ہی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے وسط ایشیاء کو فتح کرنے کیلئے سکندر کا راستہ اختیار کیا۔ 46ھ مطابق 666ء میں زیاد بن ابو سفیان نے اپنے بہادر جرنیل ربیعہ ابن الحارث کو عراق سے خراسان بھیجا۔ ربیعہ ہر مدمقابل کو زیر کرتا ہوا بلخ جا پہنچا۔ بلخ ہمیشہ اس علاقے کا جنوبی دروازہ رہا ہے۔ اس کے بعد ربیعہ فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دریائے سیحوں کے کنارے پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو یہاں سے بے انداز مال غنیمت ملا 50 ھ (670ء) میں زیاد بن ابو سفیان گورنر کا انتقال ہو گیا تو معاویہ، نے اس کے لڑکے عبید اللہ کو وسط ایشیاء کی تسخیر کیلئے روانہ کیا۔ عبید اللہ بن زیاد نے سب سے پہلے بیکند جیسے متمول شہر پر حملہ کیا۔ جو صوبہ سغد کا دارالحکومت اور تجارت کا مرکز تھا۔ یہاں سے بہت سا مال غنیمت اور چار ہزار قیدی لے کر بخارا کی طرف بڑھا۔ بخارا پر اس وقت قیق نامی عورت حکمران تھی۔ ملکہ نے ملک کو تباہی سے بچانے کیلئے دس لاکھ دینار سالانہ خراج دینے پر صلح کر لی۔ لیکن بعد میں رعایا کے اکسانے پر صلح سے منحرف ہو گئی اور ایک لاکھ بیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مقابلے کو نکلی لیکن لشکر میں پھوٹ پڑ جانے کی وجہ سے دوبارہ صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی اور مسلمان بغیر کسی کشت و خون کے بخارا میں داخل ہو گئے۔ اس فتح کا سہرا سعید بن عثمان، کے سر رہا جو عبید اللہ بن زیاد کے بعد خراسان کے والی مقرر ہوئے تھے اس کے بعد اسلامی لشکر نے بہت جلد سمرقند اور ترمذ پر قبضہ کر لیا۔ سعید کے بعد مسلم بن زیاد خراسان کے والی مقرر ہوئے انہوں نے مہلب کو ترکستان فتح کرنے پر لگایا جنہوں نے پے در پے حملوں کی وجہ سے دشمن کو مغلوب کر لیا اور مجاہدین کو اتنا مال غنیمت ملا کہ ہر سپاہی کے حصہ میں دس دس ہزار درہم آئے۔ قیتبہ بن مسلم اور وسط ایشیاء کی فتوحات مہلب سے مرعوب ہو کر وسط ایشیاء کے اکثر امراء نے مسلمانوں کا باجگزار بننا قبول کر لیا تھا مہلب کی وفات کے بعد اس کا بیٹا یزید اس کا جانشین بنا تو اس نے اپنی غلط پالیسیوں کی بدولت قبائل سے خواہ مخواہ بگاڑ لی جب اس کی خبر حجاج کو پہنچی تو اس نے ایک مصری سردار قیتبہ بن مسلم کو خراساں کا گورنر بنا کر بھیجا۔ قیتبہ بڑا بہادر اور تجربہ کار جرنیل تھا۔ اس نے 86ھ (704ء) میں ماورا النہر کو فتح کرنے کا حکم حجاج سے لیا۔ اس کی قسمت میں نہ صرف وسط ایشیاء فتح کرنا تھا بلکہ بدھ مت اور آتش پرستی کی جگہ اسلامی تہذیب و روایات کو ان لوگوں کے دلوں میں بسانا لکھا تھا۔ آج صدیوں گزرجانے کے بعد باوجود وسط ایشیاء کے لوگ اسلام کے اسی طرح شیدائی ہیں۔ قیتبہ کا مقصد صرف فتوحات پر اکتفا کرنا ہی نہ تھا بلکہ اسلام کی اشاعت بھی اس کے پیش نظر تھی۔ اس لئے یہ اپنے ساتھ قرآن خوان اور واعظ بھی رکھتا جو اپنی تلاوت اور خطبوں سے مجاہدین کے دلوں کو گرما دیتے۔ ترکستان اس وقت چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بٹا ہوا تھا جو آئے دن ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے۔ قیتبہ نے ان حالات سے فائدہ اٹھا کر سب کو قابو میں کر لیا۔ جب قیتبہ جیجوں عبور کرکے آگے بڑھا تو صغانیاں کا حکمران تحفے تحائف لے کر آگے بڑھا اور اطاعت قبول کر لی اس کی دیکھا دیکھی شومان اور کفیان کے حکمرانوں نے بھی خراج کے وعدے پر اطاعت قبول کر لی۔ اس کے بعد اس کے تائبوں نصر اور صالح نے کاشان اور فرغانہ کو فتح کر لیا۔ فتح بخارا بخارا کو اس سے قبل بھی مسلمان تین بار فتح کر چکے تھے لیکن ہر بار یہاں بغاوت ہو جاتی تھی لیکن اب چوتھی بار پھر مسلمانوں نے فوج کشی کی مگر فتح نہ پائی۔ حجاج نے اس ناکامی کا حال سنا تو بخارا کا نقشہ طلب کرکے ہدایت کی کہ فلاں فلاں اطراف سے چڑھائی کی جائے۔ قیتبہ نے ان ہدایات کے مطابق چڑھائی کرکے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ ترکوں اور سغدیوں کی ایک متحدہ فوج بھی بخارا والوں کی مدد کو آ گئی۔ جسے دیکھ کر اہل بخارا میدان میں آ گئے اس طرح ایک طرف اہل بخارا کی فوج اور دوسری طرف ترکوں اور سغدیوں کی فوج جمع ہو گئی اور مسلمان دونوں کے درمیان آ گئے۔ بڑی خونریزی جنگ ہوئی اسلامی فوج کا ایک دستہ شکست کھا کر پیچھے ہٹا تو عرب عورتوں نے بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو غیرت دلائی اور گھوڑوں کو ڈنڈے مار مار کر واپس میدان جنگ کی طرف دھکیل دیا۔ آخر مسلمان سنبھلے اور اس زور سے حملہ آور ہوئے کہ اہل بخارا کے پاؤں اکھڑ گئے اور چوتھی بار اہل بخارا نے ایسی توبہ کی اور سچے دل سے اسلام قبول کیا کہ بخارا دین اسلام کا مرکز بن گیا اور یہاں بڑے بڑے امام بخاری جیسے عالم دین پیدا ہوئے اور آج بھی لوگ بخاری کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جب حجاج کو مسلمانوں کی فوج دشمن کے گھیرے میں آ جانے کا پتہ چلتا تو وہ مساجد میں قیتبہ کی سلامتی کیلئے دعائیں کراتا۔ وردوان کی فتح وردوان اسلحہ سازی کیلئے مشہور تھا۔ عرب سب سے پہلے جس چیز کو غنیمت کے طور پر حاصل کرتے وہ ہتھیار تھے۔ اگرچہ بیکند سے بھی بے شمار اسلحہ سپاہیوں کے ہاتھ لگا لیکن پھر بھی یہاں کے اسلحہ کی اس قدر مانگ تھی کہ ایک نیزہ ستر درہم میں تلوار دو سو اور سپر اس سے بھی زیادہ قیمت میں فروخت ہوتی۔ قیتبہ نے دس سال بعد وردوان کی طرف توجہ کی لیکن ترک شہزادے بھی اس متوقع حملے کے منتظر تھے۔ انہوں نے آپس میں اتحاد کرکے متحدہ فوج راستے میں لاکھڑی کر دی تھی۔ فرغانہ کا حاکم بھی ان سے مل گیا۔ خاقان چین کا بھتیجا بھی مشرق سے آکر ان کے ساتھ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ترکوں کو خطرے کا بے حد اندازہ ہو چکا تھا اور عزم کر لیا تھا کہ متحد ہو کر عربوں کو مار بھگائیں۔ عربوں میں مجاہدین کی کمی نہ تھی کیونکہ بنی تمیم ، بکر اور عبد القیس قبائل جو ان معرکوں میں پیش پیش تھے ان کی تعداد اکیس ہزار تھی لیکن عربوں نے کبھی بھی تعداد کی کمی بیشی کا خیال نہ کیا بلکہ ہمیشہ جان کو اسلام پر قربان کرنے کی آرزو ہوتی۔ جان کی پرواہ کئے بغیر لڑتے اور کامیاب رہتے ،قیتبہ نے جب اپنے آپ کو گھرا ہوا پایا ان حالات میں بھی اپنی فوج کے حوصلے پست نہ ہونے دیئے۔ اس نے سب قبیلوں میں پھر کر نصیحت کی۔ ”میرے بچو اٹھو اور ترکوں کو پریشان کر دو۔ وکیع بن ابوالاسد جو تمیم قبیلے کا سردار تھا نے کاظم نامی ایک جنگجو کو حملہ کرنے کیلئے منتخب کیا۔ مسلمانوں کے پہلے ہی حملہ میں دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ چین پر لشکر کشی چینی فوج بھی چونکہ مسلمانوں کے مقابلے میں لڑنے کیلئے آئی تھی اس لئے قیتبہ نے اس کا بدلہ لینا ضروری سمجھا چنانچہ مسلمان فتح پر فتح حاصل کرتے ہوئے کاشغر تک پہنچ گئے۔ یہاں سے ایک وفد ہبیرہ بن کلابی کی سرکردگی میں خاقان چین کے پاس بھیجا۔ وفد نے خاقان کو بتایا کہ ہمارے سردار نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک چین کی سرزمین کو اپنے پاؤں تلے روند کر خراج وصول نہ کرے گا اس وقت تک واپس نہ جائے گا۔ خاقان نے پہلے تو ڈرانے کی کوشش کی لیکن جب تمام کوششیں رائیگاں گئیں تو جزیہ دینا قبول کرکے صلح کر لی۔ جب خراج کی رقم قیتبہ کے سامنے رکھی گئی تو اس نے کہا کہ میں نے دو چیزوں کی قسم کھائی تھی ایک توخراج وصول کرنے اور دوسرے اس سرزمین کو پامال کرنیکی۔ پہلی شرط پوری ہو گئی دوسری شرط پوری کرنے کیلئے ضرور حملہ کرنا پڑے گا۔ چونکہ فریقین خونریزی سے بچنا چاہتے تھے اس لئے یہ ترکیب نکالی کہ چین کی خاک سے بھری ایک بوری قیتبہ کے سامنے لائی جائے جسے وہ پامال کرکے اپنی قسم پوری کر لے چنانچہ ایسا کیا گیا۔ ان مہمات کے خاتمے پر نظم و نسق پر خاص توجہ دی رفتہ رفتہ تمام ترکستان میں اسلام پھیل گیا اور وہاں کے شہر اسلامی علوم کے مرکز بن گئے۔ جدید تحقیق کے مطابق تین ہزار سال قبل وسط ایشیاء کے لوگ نہایت تہذیب یافتہ تھے۔ توران میں افراسیاب نے سب سے پہلے ریاست کی بنیاد رکھی اور ایران کے پیشدادیاں خاندان کے آخری حکمران گرشاسپ کو شکست دے کر ایران اور توران کو متحد کر دیا۔ بلخ اور بخارا اسی کے آباد کئے ہوئے بتائے جاتے ہیں۔ پامیر میں ایک شہر تاش کرغان واقع ہے اسے ابھی تک شہر افراسیاب کہتے ہیں۔ ایرانیوں کی افراسیاب کے ساتھ جنگ میں ہی رستم کے ہاتھوں سہراب قتل ہوتا ہے۔ افراسیاب کے بعد ارجاسپ توران کا بادشاہ بنا اسی بادشاہ نے زرتشت کو قتل کروا دیا تھا۔ افراسیاب کے نام کا ایک شہر بھی موجودہ سمرقند کے قریب تھا جہاں آج کل شاہ زندہ کا مشہور عالم قبرستان ہے۔ آج صرف پہاڑی پر کھنڈر ہی باقی رہ گئے جو شہر افراسیاب کی یاد تازہ کرتے ہیں اس پہاڑی پر کھنڈرات کی تہیں پچاس فٹ گہری ہیں اور ہر تہ ایک مختلف دور کی جگہ پیش کرتی ہے مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کیلئے یہ پہاڑی تحقیق کا ایک بے بہا خزانہ چھپائے ہوئے ہے۔ افراسیاب کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ اس نے کوریوش افراسیاب۔ سکندر اعظم  کی فوجوں اور تیمور جیسے عظیم حکمران کی عظمت دیکھی۔ تیمور نے جب اسے اپنا دار السلطنت منتخب کیا تو یہ شہر پھر ایک نئی آب و تاب کے ساتھ صفحہ ہستی پر نمودار ہوا اور صرف بائیس سال کے عرصے میں یہ شہر ایک وسیع و عریض ایشیاء کی سلطنت کا دارالحکومت بن چکا تھا۔ 2007 میں راقم نے شہر دیکھا ہے افراسیاب کے کھنڈرات پر چھت ڈال کر اسے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ تیمور کے بعد اس کے پوتے الغ بیگ نے تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ الغ بیگ روشن خیال فرمانروا ہونے کے ساتھ ساتھ ہیت دان بھی تھا۔ الغ بیگ کے دور میں کثرت سے جو مدرسے تعمیر کئے گئے ان کی وجہ سے سمرقند ایشیاء کا سب سے بڑا ثقافتی اور تعلیمی مرکز بن گیا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے حال ہی میں سمرقند میں ایک رسدگاہ کا پتہ چلایا ہے۔ جو الغ بیگ کی عظیم تخلیق ہے یہ رسدگاہ ایک تین منزلہ عمارت تھی اور اس میں سات مینار تھے اس بے نظیر ملکی مرکز میں انتہائی ذہین افراد الغ بیگ کی نگرانی میں کام کرتے تھے پٹالمی کے بعد الغ بیگ ہی وہ شخص تھا جس نے ستاروں کی پہلی فہرست تیار کی اور اس فہرست کی سائنسی قدرو قیمت آج تک کم نہیں ہوئی۔ حالانکہ جس وقت یہ تیار ہوئی اس وقت ہیت دانوں کے پاس دوربین اور دیگر جدید قسم کے آلات نہیں تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے اس جگہ جہاں رسدگاہ تھی ایک بہت بڑا پیمانہ بھی دریافت کیا ہے جو زاویہ دار فاصلوں کی پیمائش کرتا تھا جسے ایک چٹان تراش کر نصب کیا گیا تھا۔ اسی جگہ الغ بیگ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے تاکہ اس کی یاد تازہ رہے۔ بخارا اور سمر قند افراسیاب کے زمانے سے ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں روایت کے مطابق بخارا اور سمرقند دونوں میں سے کونسا شہر پہلے تعمیر ہوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سامانی دور میں بخارا ایک وسیع سلطنت کا دار الحکومت تھا۔ بخارا ابھی تک عجائب گھروں کا شہر کہلاتا ہے جبکہ سمرقند جدید شہر بن گیا ہے۔ گو بخارا میں بی بی خانم اور شاہ زندہ جیسے فن تعمیر کے بے بہا نمونے نہیں ہیں لیکن بذات خود شہر ایک بہت بڑی ثقافتی یادگار ہے۔ مینار کلیان اٹھ سو سال سے شہر کے مرکز میں کھڑا ہے یہ آذان کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔ تیمور نے سمرقند کی عظمت کو چار چاند لگانے کیلئے آس پاس کے دیہاتوں کے نام بغداد ، قاہرہ اور دمشق رکھے۔ جس کا مشابہ ظاہر کرتا تھا کہ تیمور کے دارالحکومت کے مقابلے میں عظیم شہروں کی حیثیت معمولی دیہاتوں سے زیادہ نہ تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ سمرقند کا سب سے بڑا باغ ”باغ جہاں“ اتنا وسیع تھا کہ باغ میں ایک معمار کا گھوڑا بھٹک گیا اور کہیں ایک ماہ کے بعد جا کر ملا۔ وسط ایشیاء میں مسلمان اٹھویں صدی میں داخل ہوئے اور تھوڑی ہی مدت میں وہ تمام علاقے پر چھا گئے۔ عربوں نے تمام وسط ایشیاء میں اسلام کا پرچم سربلند کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بکھری ہوئی مقامی آبادی ایک مشترکہ نظریہ حیات پر متحد ہو گئی۔ مذہب کے ساتھ ساتھ عربی زبان نے بھی فروغ پایا جو نظم و نسق اور علم و ادب کی زبان بن گئی۔ قزاقستان کا جنوبی حصہ عربوں کی فتح سے زیادہ متاثر ہوا۔ اسپیتی میدانوں میں ترکی قبائل آزاد رہتے۔ قیتبہ بن مسلم کے بعد وسط ایشیاء میں مسلمانوں کے قدم رک گئے اسی کے زمانے میں سمرقند میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھی گئی جس سے ترک اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے کردار سے متاثر ہو کر بدھ مت اور آتش پرستی کو چھوڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ داغستان نے سب سے زیادہ اثر قبول کیا ہشام کے دور تک پورا داغستان مسلمان ہو چکا تھا اور آنے والی صدیوں میں عربوں کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے کہ عربی زبان اور عرب تہذیب ان کی زبان اور تہذیب بن گئی۔ مغربی ترکستان کے بعد اسلام مشرقی ترکستان سنکیانگ تک جا پہنچا 96ھ میں کاشغر فتح ہوا اور شمال میں سائبریا تک پہنچ گیا یہ اس زمانے کی بات ہے جب روسی ریاست ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی تاتاری قبائل کے مسلمان ہو جانے سے سائبریا سے وسط ایشیاء تک اسلام ایک زبردست تہذیبی اور سیاسی قوت بن گیا۔ جونہی خلفاء کی گرفت کمزور ہوئی تو وسط ایشیاء میں آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا۔ وسط ایشیاء میں سب سے پہلی آزاد حکومت جو قائم ہوئی وہ سامانی خاندان کی حکومت تھی جس نے ایران اور وسط ایشیاء کو پھر سے متحد کر دیا۔ سامانی ریاست میں افغانستان ایران ماورانہر اور خوارزم کے سبھی علاقے شامل تھے اس ریاست نے اس علاقے کی نسلی ثقافتی تاریخ میں بڑا اہم رول ادا کیا اس کے عہد میں فارسی زبان کو عروج حاصل ملا۔ رود کی جیسا عظیم شاعر اسی دربار کی زینت تھا۔ بخارا کو اسی خانوادے کی وجہ سے ایسی عظمت نصیب ہوئی کہ لوگ اپنے نام کے ساتھ بخاری لکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تاریخ وسط ایشیاء کی ابتدا اسی سامانی خاندان سے کی جا رہی ہے۔ سامانیوں سے پہلے درج ذیل اسلامی حکومتوں کا عرصہ درج کیا جاتا ہے۔ ترکستان وسط ایشیاء کی یہ موجودہ پانچ روسی جمہورتیں تاریخی طور پر کبھی ترکستان کے نام سے موسوم تھیں۔ بعد میں ترکستان بھی تین حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ جو … ترکستان (2) چینی ترکستان اور (3) افغانی ترکستان کے ناموں سے مشہور ہوئے۔ افغانی ترکستان یہ کبھی بخارا کی ازبک حکومت کے تحت تھا۔ یہ اب افغانستان صوبہ مزار شریف پر مشتمل ہے۔ افغانی ترکستان کا نام اب ترک کر دیا گیا ہے۔ یہاں کے لوگ ازبک ہیں اور فارسی بولتے ہیں اس علاقے میں تانبا ، سیسہ ، لوہا ، سونے کی کانیں ہیں۔ گیس بھی دریافت ہوئی ہے جو روس کو فراہم کی جاتی تھی۔ چینی ترکستان کبھی روسی ترکستان کے ساتھ ملا ہوا تھا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن بعد میں روسیوں کی سازش سے چین کے قبضے میں چلا گیا۔ ترکستان کو چین کا ایک صوبہ بنا دیا گیا اور اس کا نام سنکیانگ یعنی نیا صوبہ رکھا۔ یہاں کی آبادی ترکوں پر مشتمل ہے کاشغر ، ختن ، ارومچی مشہور شہر ہیں۔ اب شاہراہ ریشم کے ذریعے پاکستان سے ملا دیا گیا ہے۔ مشرقی ترکستان اور مغربی ترکستان ارض توران کا حصہ ہے جس کی حدود دیوار چین سے دریائے والگا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چینی باشندوں نے ان ترکستانیوں سے ہی ملک کو بچانے کیلئے دیوار چین قائم کی تھی۔ یہاں بھی بغاوتیں ہوتی رہی ہیں۔ 1953ء سے داخلی خود مختاری دی ہے۔ لیکن اس پر عمل روس کی طرح کا ہی ہے۔ روس نے تو مغربی ترکستان کو کسی حد تک آزاد کر دیا ہے خدا کرے کہ یہ چینی ترکستان پھر سے آزاد ہو کر اپنے مسلمانوں سے بھائیوں سے آملے۔ ہماری کتاب کا موضوع چونکہ وسط ایشیاء کا علاقہ ازبکستان ہے اس لئے مغربی ترکستان کے حالات ہی تفصیل سے لکھے جا رہے ہیں۔ باقی دو کا صرف سرسری تعارف ضروری تھا۔ روسیوں نے اشتراکی عہد کے شروع میں ترکستان کو ایک روسی گورنر جنرل کے تحت رکھا۔ لیکن وہ ترکستان کے وسیع و عریض ملک کی یہ سیاسی وحدت برداشت نہ کر سکے اور اس وحدت کو ختم کرکے ترکستان کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا اور ان کو خود مختار اشتراکی جمہوریتوں کا نام دیا۔ اشتراکی حکومت سے قبل ان ناموں کی کوئی حکومت نہ تھی۔ انقلاب سے قبل بخارا ، خیوا اور خوقند کے نام سے الگ الگ حکومتیں تھیں۔ فی الوقت یہ تمام شہر جمہوریہ ازبکستان کا حصہ ہیں۔ اشتراکی حکومت نے ترکستان کی وحدت کو ختم کرنے کیلئے زبان ، نسل اور اقتصادی امور کو پیش نظر رکھے ان علاقوں کی نئی حد بندی کرکے انہیں نئی اشتراکی جمہوریتوں کا درجہ دے کر سوویت حکومت کا حصہ بنا لیا۔ اس کیلئے دلیل یہ دی گئی کہ اس کا فیصلہ خود مقامی لوگوں نے کیا ہے۔ حالانکہ روس کی یہ بودی دلیل سفید جھوٹ پر اس طرح مبنی ہے جس طرح افغانستان پر چڑھائی کرکے دی کہ روسی فوجیں افغانیوں کی دعوت پر وہاں گئی ہیں ، جن ریاستوں سے ہمارا تعلق ہے وہ یہ ہیں۔ (1) قازقستان (2) ازبکستان (3) کرغزستان (4) ترکمانستان (5) تاجکستان (6) آذربائیجان (لیکن یہ جمہوریہ وسط ایشیاء کی بجائے یورپی حصے میں ہے۔) آذربائیجان ترکستان میں شامل نہ تھی بلکہ ایران کا حصہ تھی۔ وسط ایشیاء میں اشتراکی اقتدار کے خلاف مسلمانوں نے کئی مقامات پر جدوجہد کی 1917ء تک 1926ء ، بسماچی تحریک نے مسلسل مزاحمت جاری رکھی اس تحریک میں ہر طبقے کے مسلمان شامل تھے روسی انہیں بسماچی (یعنی ڈاکو) کے نام سے پکارتے تھے۔ بسماچی تحریک پان ترکی ازم اور پان اسلام ازم کی بنیاد پر منظم کی گئی تھی۔ روسی اسے برطانیہ کی شرارت سے تعبیر کرتے لیکن یہ سب پروپیگنڈہ تھا کوئی تحریک زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ انور پاشا جو ترکی کے وزیر جنگ رہ چکے تھے۔ 1921ء میں بخارا پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ تمام مسلمانوں کو متحد کرکے حکومت قائم کریں گے۔ 1922ء تک انہوں نے ”بخارا پیپلز ریپبلک“ کے بہت بڑے علاقے کو آزاد کرا لیا۔ لیکن اسی جہاد میں انور پاشا شہید ہو گئے۔ ان کے تحت 20000 تک فوجی تھے ان کو بھی شکست ہو گئی ان کے بعد ابراہیم بیگ نے بخارا میں 1926ء تک اور جنید خان نے خوارزم میں 1924ء تک اپنے اپنے دستوں کے ساتھ اشتراکیوں سے جہاد کرتے رہے۔ 1930ء تک یہ تحریک جاری رہی۔ لیکن اسے اب چلانے والے ہی نہ رہے تو کب تک چلتی۔ آخر 13 سال کے بعد ختم ہو گئی۔ تحریک پاکستان کے زمانے میں روسیوں نے وسط ایشیاء کے گرد آہنی پردہ اور بھی مضبوط کر دیا ساتھ ہی افغانستان کو پختونستان کا چکمہ دے کر پاکستان کے خلاف کر دیا کیونکہ بھارت اور روس کا اسی میں فائدہ تھا۔ سوویت روس کو یہ خطرہ تھا کہ پاکستان کی تحریک آزادی کا اثر ان وسط ایشیائی ریاستوں پر بھی پڑے گا اور وہاں پھر لوگ مذہب کے نام پر علیحدگی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ روس دنیا کو محکوم بناتے بناتے افغانستان کو ویت نام سمجھ کر گھس گیا لیکن یہاں روس کو منہ کی کھانی پڑی۔ وسط ایشیاء کے مسلمان فوجیوں نے افغانوں کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا بعض الگ ہو کر روس کے خلاف لڑنے لگے۔ اس سے روس اور پریشان ہوا پھر اس طویل جنگ پر روزانہ کروڑوں روبل خرچ ہو رہے تھے جس سے روس کے اقتصادی نظام کی چولیں ہل گئیں۔ آخر گوربا چوف کے زمانے میں وسط ایشیاء کے مسلمان آزاد کر دیئے گئے۔ اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور آپس میں جھگڑوں میں الجھنے سے اجتناب کریں کیونکہ پہلے اس سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ آزادی کے بعد 21 دسمبر 1991ء کو قازستان کے دارالحکومت الما آتا میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں مسلم ریاستوں نے بھی نئی دولت مشترکہ میں شامل ہونے کی منظوری دے دی لیکن بالٹک کی ریاستوں نے مکمل آزادی پر اکتفیٰ کیا۔ بالکل علیحدگی اور آزادی برقرار رکھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے پورے یورپ کی اخلاقی مدد انہیں میسر تھی ریڈیو فری یورپ گزشتہ 40 سال سے ان کے حق میں مسلسل پراپیگنڈہ کر رہا تھا۔ اس طرح نئی دولت مشترکہ میں 15 ریاستوں کی بجائے گیارہ شامل ہوئیں اسٹونیا ، لتویا ، مولداویا ، لھتوانیا شریک نہیں ہوئی۔ دولت مشترکہ میں شریک ہونے والیوں کے نام یہ ہیں۔ جو دولت مشترکہ میں شریک نہیں ہوئیں۔ ان کے علاوہ 13 (Autonomous) ریپلکس بھی ہیں ان میں ریجسن (اوبلاسٹ) اور نیشنل اوکروگ (اضلاع) بھی ہیں یہ جس ریاست میں واقع ہوں اسی میں شمار ہوتی ہیں۔ ان میں بھی مسلمانوں کے اکثر علاقے0 شامل ہیں۔ مثلاً تاتاریہ ، داغستان ، چیچنیا ، انگش ، اوسیشیا وغیرہ۔







SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: