Wednesday, July 14, 2021

قسط نمبر 18 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

Molana-620x410

 
دولت خوارم شاہبہ
خوارم نے علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی پیش رفت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ اس مردم خیز خطے سے وقتاً فوقتاً بڑے بڑے جیل القدر علما اٹھے۔ اس ریاست کے دو داراخلافے تھے: ایک دریائے آمو کے مشرق کنارے پر ترکستان کی حدود میں اور دوسرا معربی کنارے پر۔ اول الذکر کا نام کاٹ اور آخرالذکر کا جرجانیہ یا اورگنج تھا۔
چوتھی صدی ہجری میں کاٹ کا شہر دریا کی طغیانی کی نذر ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد دریا کے کنارے سے کافی فاصلے پر اسی نام کا ایک اور شہر بسایا گیا۔ جس طرح قدیم شہر کے بازار کے عین وسط سے پانی کی نہر گزرتی تھی، جدید شہر بھی اس سہولت سے بہرہ ور تھا اور تقریباً تمام گلی کوچوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں گزرتی تھیں۔ بہ مشکل ایک صدی گزری ہو گی کہ نیا شہر بھی دریا کی لپیٹ میں آ گیا اور اکثر باشندگان شہر گھر بار چھوڑ کر دریائے آمو کے مغربی کنارے پر آباد حصہٴ شہر میں منتقل ہو گئے۔

جب قتیبہ بن مسلم نے ۹۳ھ/۷۱۴ع میں کاث کو فتح کر کے اسے اسلامی مقبوضات میں شامل کر لیا تو کچھ عرصے کے بعد اس کی سابق رونق پھر سے عود کر آئی اور اس کا نام المنصوریہ پڑ گیا۔ 
لیکن یہ صورت بہت عرصے تک قائم نہ رہ سکی کیونکہ ترکستان کے تجارتی قافلوں کی تمام تر آمدورفت اسی راستے سے ہوتی تھی اس لیے یہاں تجارتی مال کی بہت بڑی منڈی قائم ہو گئی۔
بعد میں جب سرکاری دفاتر بھی یہیں منتقل ہو گئے تو جرجانیہ کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ آخر کچھ عرصے کے بعد جرجانیہ کا لفظ زبانوں سے اتر گیا اور خود ریاست کا نام دارالسلطنت کو منتقل ہو گیا۔ مغلوں کے حملے سے پہلے شہرئہ آفاق جغرافیہ دان یا قوت خوارزم میں موجود تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے اتنا عظیم، خوبصورت اور دولت مند شہر اور کہیں نہیں دیکھا۔
جب مغلوں کے حملے کے کچھ عرصے بعد مشہورِ عالم سیاح ابن بطوطہ یہاں سے گزرا تو خوارم اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو پھر سے حاصل کر چکا تھا اور مغلوں کی تباہی اور بربادی کے آثار تقریباً مٹ چکے تھے۔ لیکن نامہرباں زمانے کے ترکش میں حوادث اور مصائب کے کچھ اور تیر ابھی باقی تھے جنہیں اس سخت جاں شہر کے سینے میں پیوست ہونا تھا۔ چنانچہ امیر تیمور نے آٹھویں صدی ہجری کی آخری دہائی میں خوارزم پر حملہ کر دیا اور اہل شہر محصور ہو گئے۔
یہ محاصرہ تین ماہ تک جاری رہا۔ جب لوگ عاجز آ گئے اور شہر فتح ہو گیا تو تیمور نے اپنے مورثِ اعلیٰ چنگیز کی تقلید میں شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ لیکن چونکہ فوجی لحاظ سے خورازم کی جائے وقوع خاص اہمیت کی حامل تھی اور امیر سے نظر انداز نہیں کر سکتا تھا اس لیے کچھ عرصے کے بعد ازسرِ نو تعمیر شہر کا حکم دیا۔ لوگ جو امیر کے حملے سے پہلے گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے وہ پھر آ گئے اور خوارزم پھر سے آباد ہو گیا۔
خوارزم کے بعد خیوا دوسرا اہم شہر تھا جو دریائے جیحوں کے جنوبی کنارے پر واقع تھا اور اس دریا سے ایک نہر کاٹ کر اس کی زمینوں کو سیراب کیا گیا تھا۔ تیمور کے بعد جب اوزبک خاندان کو عروج حاصل ہوا تو اس شہر کی اہمیت کہیں زیادہ ہو گئی۔ ہزار اسپ کا شہور اس ریاست میں تیسرے نمبر پر تھا جو دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع تھا۔ اس شہر کی اراضی بھی اسی دریا کے پانی سے سیراب ہوتی تھی۔
یا قوت حموی جب اس شہر سے گزرا تو اس کی رونق پورے شباب پر تھی اور اس کی منڈی میں انواع و اقسام کا تجارتی سامان پایا جاتا تھا۔
ہزار اسپ اور طاہریہ کے درمیان تین چھوٹے چھوٹے شہر اور بھی تھے جن میں سے ایک کا نام جکن بند تھا جس کے اردگرد پھلوں کے باغات تھے۔ دوسرے کا نام درگان تھا جس کے چاروں طرف صرف انگریزوں کے باغات تھے۔ تیسرے کا نام سدور تھا جو عین دریا کے کنارے پر واقع تھا۔
زراعت
چونکہ دریائے جیحوں کے آس پاس کی زمینیں سطح آب کے متوازی واقع ہوئی تھیں اس لیے دریا کے دونوں کناروں سے نہریں کاٹ کر یہ زمینیں سیراب کی گئی تھیں جس سے علاقے کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ مشرق کنارے سے جو نہر نکالی گئی تھی وہ تو اتنی بڑی تھی کہ اس میں کشتیاں چلتی تھیں اور شمال میں دور دور تک اس سے آب پاشی کا کام لیا جاتا تھا۔
مغربی کنارے سے جو نہریں نکالی گئی تھیں ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اور ان سے ہزار اسپ اور خیوا کے درمیان کا سارا علاقہ سیراب ہوتا تھا جس کی وجہ سے عوام بڑے خوش حال تھے۔
ریاست کی زرعی پیداوار اناج، دالوں اور پھلوں پر مشتمل تھی۔ کپاس بھی کافی مقدار میں پیدا ہوتی تھی۔ اس کے سرسبز مرغزاروں اور چراگاہوں میں بھیڑوں کے بڑے بڑے ریوڑ چرتے دیکھے جاتے اور ترکستان اور خراسان کے تجارتی قافلے اس کی منڈیوں میں کھنچے چلے آتے تھے۔
خوارزم شاہ کی ابتداء
خوارزم کو اس لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل تھی کہ اس نے مرکزی ایشیاء میں تہذیب و تمدن کو نشوونما میں نہایت شان دار کردار ادا کیا تھا۔ خوارزم شاہ اس ریاست کے حاکم کا لقب تھا۔ جب عربوں نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس وقت بھی یہاں کا حاکم خوارزم شاہ کہلاتا تھا۔ بعد میں بھی یہ سلسلہ جلال الدین خوارم شاہ کی وفات تک جاری رہا۔
مرکزی ایشیاء میں یہ واحد مثال ایسی ہے جس میں عہدِ جاہلیت کا ایک فرماں روائی لقب اسلام کے بعد بھی کئی صدیوں تک استقبال ہوتا رہا۔ البیرونی لکھتا ہے کہ خسرو پہلا شہنشاہ تھا جس نے اس ریاست کے فرماں رواں کو خوارزم شاہ کا لقب عطا کیا تھا۔ گویا اس نے سکندر اعظم کے حملے سے نوسو اسی برس پہلے اس ریاست کو یہ نام دیا تھا۔ چونکہ البیرونی کے سوا اور کہیں یہ روایت نہیں ملتی اس لیے کہنا مشکل ہے کہ اس میں صداقت کا عنصر کتنا ہے۔
علامہ طبری لکھتا ہے کہ جب قتیبہ بن مسلم نے ترکستان پر چڑھائی کی تو اس وقت کے خوارزم شاہ کے بھائی کا نام خرزادہ تھا۔ اصل خوارزم شاہ، جس کا نام مذکور نہیں، عضو معطل تھا۔ جب یہ علاقہ اسلامی خلافت کے تحت آ گیا ہو گا تو ظاہر ہے کہ اس ریاست کا فرماں رواں بھی اس لقب کے ساتھ دربارِ خلافت سے وابستہ ہو گیا ہو گا، لیکن افسوس ہے کہ تاریخ اس سلسلے میں رہنمائی سے قاصر ہے۔
طیراہم خوارزم شاہیون کا سلسلہ:
بیہقی بہ روایت ابو ریحان بیرونی لکھتا ہے کہ خوارزم کا علاقہ اس وقت سے ایک علیحدہ ریاست کی صورت میں چلا آ رہا ہے جب بہرام گور کے ایک رشتہ دار نے موقع پا کر اس پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر بعد میں عرب اس پر قابض ہو گئے تھے۔ لیکن چونکہ ترکستان کی تاریخ میں ان لوگوں کا کردار کوئی اہمیت نہیں رکھتا اسی لیے مورخین نے انہیں قابلِ اعتنا نہیں گردانا۔
تاآنکہ ۳۳۲ھ/۹۴۴ع میں ایک شخص، جس کا نام ابو سعید احمد بن محمد تھا، خوارزم شاہ بن بیٹھا اور امیر نوح سامان یکی طرف سے فرائضِ حکومت سرانجام دینے لگا۔ مختصر سے عرصے کے بعد ابو سعید نے امیر کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور محصور ہو گیا۔ جب امیر کو معلوم ہوا تو اس نے اپنے ایک فوجی سردار کو جس کا نام ابراہیم بن برس تھا، فوج دے کر خوارزم شاہ کی گوشمالی کے لیے روانہ کیا۔
لیکن سوے اتفاق سے کمان دار رستے میں مر گیا اور فوج واپس آ گئی۔ نوح نے اس کے بعد ایک اور ترک سردار کو فوج دے کر اس مہم پر روانہ کیا۔ جب خوارزم شاہ نے محسوس کیا کہ وہ مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا تو امیر سے معافی مانگ لی۔
۳۸۵ھ/۹۹۶ع میں خوارزم کی ریاست ابو عبداللہ محمد بن احمد کی تحویل میں تھی۔ اس کے ایک بھائی کا نام مامون بن احمد تھا۔
اس نے اسی سال کے دوران میں خوارزم پر چڑھائی کر کے ابو عبداللہ کو قتل کر دیا اور خود فرماں روا بن بیٹھا۔ یہ خاندان جس کا نام فرقغونی تھا، بہت عرصے تک اس ریاست کا حکم ران رہا۔ جب دو سال بعد مامون فوت ہو گیا تو اس کا بیٹا علی باپ کا جانشین ہوا۔ یہ شخص سلطان محمود غزنوی کا داماد تھا اور سلطان اس کا بڑا احترام کرتا تھا۔ جب اس نے ۳۹ھ/ ۹۹۹ع میں وفات پائی اور اس کے بھائی ابو العباس بن مامون نے خوارزم شاہی کا تاج سر پر رکھا تو سلطان نے درخواست کی کہ اسے اپنے بھائی کی بیوہ سے نکاح کی اجازت دی جائے۔
سلطان نے درخواست کو پذیرائی بخشی۔
۴۰۷/۱۰۱۷ھ میں سلطان نے ابو العباس خوارزم شاہ کو لکھا کہ جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں اس کا نام لیا جائے اور ریاست پر اس کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کر لیا جائے۔ ابو العباس نے امراے دربار سے مشورہ کیا تو سب نے سلطان کی سیادت ماننے سے انکار کر دیا۔ لین چونکہ اس گفتگو کے دوران انہوں نے خوارزم شاہ کے عندیے کو سمجھ لیا تھا اس لیے جونہی سلطان کے قاصد دربار سے رخصت ہوئے۔
امرا نے سازش کر کے ابو العباس کو قتل کر دیا اور اس کی جگہ اس کے بھتیجے کو جس کا نام ابو الحارث محمد بن علی تھا، ریاست کا سربراہ مقرر کر دیا۔
خوارزمیوں کی شکست:
 جب سلطان کو اپنے بہنوئی کے قتل کی خبر موصول ہوئی تو ایک جرار لشکر لے کر بہ ارادئہ انتقام غزنی سے خوارزم کو روانہ ہوا۔ چونکہ خوارزمیوں کو سلطانی حملے کا یقین تھا اس لیے انہوں نے بھی مقابلے کے لیے تیاریوں میں کوئی کوتاہی نہ کی۔
جب سلطان قریب پہنچا تو الپ تگیں نامی ایک ترک کمان دار بھاری فوج لے کر سلطان سے مقابلے کے لیے نکلا اور شدید جنگ چھڑ گئی۔ اگرچہ خوارزمیوں نے سلطان کے مقابلے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی لیکن سلطان کی طوفانی یلغار کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ کثیر التعداد آدمی مارے گئے۔ جو گرفتار ہوئے، سلطان انہیں اپنے ساتھ غزنی لے گیا جہاں وہ سلطان کی کمان میں مختلف محاذوں پر لڑتے رہے۔
ریاست کا انتظام ایک ترک سردار التون تاش کے سپرد ہوا جو سلطان کا حاجب تھا۔۱#
خوارزم شاہ کی وفات
سلطان کی وفات کے بعد جب اس کے بیٹوں مسعود اور محمد میں ٹھن گئی تو ماوراء النہر کے حکمران علی تگین۲# نے یہ دیکھ کر کہ سلطان کے جانشین آپس میں مصروف پیکار ہیں، ریاست پر حملہ کر کے اس کے بعد اضلاع کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ جب سلطان مسعود کو ادھر سے فراغت ملی تو اس نے خوارزم شاہ کو حکم دیا کہ وہ ماوراء النہر پر حملہ آور ہو کر علی تگین کو اس کی شرارت کا مزہ چکھائے۔
چنانچہ خوارزم شاہ نے اپنے مفتوحہ اضلاع واپس لے کر ماورا النہر کے کچھ علاقے بھی فتح کر لیے۔ لیکن چونکہ یہ اضلاع بالکل غیر آباد تھے اس لیے جب سلطان مسعود کے علم میں یہ بات لائی گئی تو اس نے خوارزم شاہ کو حکم دیا کہ فوج واپس بلائی جائے اور غیر آباد علاقہ واگزار کر دیا جائے۔
 علی تگین کو بھی اس پروگرام کا علم ہو گیا۔ چنانچہ جب خوارزم شاہی افواج واپس ہوئیں تو علی تگین نے فوج کے عقبی حصے پر حملہ کر دیا۔
سخت جنگ چھڑ گئی۔ لیکن چونکہ ماوراء النہری افواج، خوارزم شاہی لشکر کی حریف نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس لیے وہ مقابلے سے ہٹ کر دیوسیہ میں محصور ہو گئیں۔ بعد میں جب علی تگین نے دیکھا کہ وہ زیادہ دیر محصور نہیں رہ سکے گا تو خوارزم شاہ سے معافی مانگ کر صلح کر لی۔ خوارزم شاہ اس جنگ کے دوران زخمی ہو گیا تھا۔ چانچہ وہ کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گیا۔
خوارزم شاہ کے تین بیٹے تھے: ہارون، رشید اور اسماعیل۔ جب خوارزم شاہ فوت ہو گیا تو اس کے وزیراعظم احمد بن محمد بن عبدالصمد نے تمام ضروری کاغذات اور خزانے کو اپنی تحویل میں لے کر سلطان محمود کو اطلاع دے دی اور دریافت کیا کہ ریاست کا نظم و نسق تین شاہزادوں میں سے کس کے سپرد کیا جائے۔ سلطان نے ہارون کو یہ عزت بخشی۔
اتفاق سے انہی دنوں سلطان کا وزیراعظم حسن میمندی فوت ہو گیا اور احمد بن محمد کو دربار غزنی میں وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان سپرد کر دیا گیا۔
جب احمد دربارِ خوارزم سے روانہ ہوا تو اپنے لڑکے کو، جس کا نام عبدالجبار تھا، خوارزم شاہ کی خدمت میں بطور مشیر اور وزیر انپا جانشین مقرر کرتا گیا۔ چند دنوں کے بعد ہی خوارزم شاہ اور عبدالجبار کے تعلقات خوش گوار نہ رہے۔ چونکہ وزیر پر چھوٹے بڑے معاملے میں دخل انداز ہوتا تھا اس لیے امراے دربار نے تنگ آ کر خوارزم شاہ کو مشورہ دیا کہ وہ سلطان کے خلاف بغاوت کر کے بے تدبیر وزیر کو موت کے گھاٹ اتار دے۔
چنانچہ خوارزم شاہ نے ۴۲۵ھ/ ۱۰۳۴ع میں سلطان کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ چونکہ عبدالجبار کو خوارزم شاہ کے ارادے کا علم ہو گیا تھا اس لیے گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ روپوش ہو گیا۔ مفسدہ پردازوں کو موقع مل گیا۔ انہوں نے مشہور کر دیا کہ خوارزم شاہ کی بغاوت میں احمد بن محمد سابق وزیر اعظم برابر کا شریک ہے اور اس کی شہہ پر بھی خوارزم شاہ نے دربارِ غزنی کے خلاف یہ انتہائی اقدام کیا ہے، اور اسی طرح موجودہ وزیر کی روپوشی بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔
جب سلطان کو ان امور کا علم ہوا تو اس نے خوارزم پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ فوج لے کر روانہ ہوا تو جاڑے کا موسم شروع ہو چکا تھا اور برف باری کی وجہ سے تمام راستے بند ہو گئے تھے۔ چوانکہ خوارزم تک رسائی مشکل تھی اس لیے سلطان نے جرجان کا رخ کیا تاکہ جاڑا وہاں بسر کے ہماری خوارزم پر حملہ آور ہو۔






SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: