الپ ارسلان(1063ء تا 1077ء)
الپ ارسلان کی تاریخ پیدائش کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن الاثیر اس کی تاریخ پیدائش 1032ء و 1036ء کے درمیان مقرر کرتا ہے۔ راحت الصدور کا مصنف 1043ء بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کا دور حکومت بارہ سال تھا اور مرتے وقت اس کی عمر چونتیس سال تھی۔
مصنف راوندی الپ ارسلان کی شخصیت کی توضیح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ ایک لمبے قد کا آدمی تھا۔اس کی مونچھیں اتنی لمبی تھیں کہ جب وہ شکار کیلئے جاتا تھا تو ان کے دونوں کونے باندھ دیتا تھا اور اس کا تیر کبھی خطا نہیں جاتا تھا۔ وہ اونچی ٹوپی پہنا کرتا اور لوگ کہتے تھے کہ اس کی ٹوپی اور مونچھوں کے درمیان دو گز کا فاصلہ ہے وہ ایک منصف حکمران تھا۔ اپنے فیصلے جلدی کرتا اور اپنی رعایا پر بڑی سختی سے نافذ کرتا۔
رمضان المبارک کے مہینے میں وہ پندرہ ہزار دینار تک محتاجوں میں تقسیم کرتا۔
اس کے عہد میں اس کی سلطنت کو بہت وسعت ہوئی۔ ماورالنہر سے لیکر اقصائے شام تک اس کی حکومت کا اقتدار رہا۔ محتاجوں کیلئے اس نے پنشن بھی جاری کر رکھی تھی۔ تاریخ کا بہت شوقین تھا۔فتوحات:
الپ ارسلان کی حکومت نہایت مختصر تھی۔ لیکن اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کو بہت وسعت ہوئی۔ اس نے تخت نشینی کے ایک سال بعد ختلان اور ہرات پر قبضہ کر لیا۔پھر فارس اور کرمان کی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اس کے بعد اس نے شام پر قبضہ کر لیا۔ عرب میں فاطمیوں کی خلافت کا قبضہ اور غلبہ تھا۔ اس سے عربوں کو نجات دلائی۔ مکہ اور مدینہ کو ان کے تسلط سے آزاد کرایا۔ پھر الپ ارسلان نے ایشیائئے کو چک میں رومی لشکر کو شکست دے کر رومی بادشاہ دیو جانس رومانوس کو 1071ء میں ملاذ کرو کے مقام پر ایسی خوفناک ہزیمت دی کہ ایشیائئے کوچک میں رومی سلطنت کے قصر کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ایشیائئی لڑائیوں میں بہت بڑی فیصلہ کن لڑائی ہے۔
اس لڑائی میں قیصر روم گرفتار ہوا اور خراج دینے کی شرط پر آزاد کر دیا گیا۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد صرف بارہ ہزار اور عیسائیوں کی تین لاکھ تھی۔ جب الپ ارسلان نے تعداد کی کمی کے سبب فوج میں خوف و ہراس دیکھا تو کفن پہن کر تیر کمان زمین پر پھینک دیا۔ تلوار ہاتھ میں لیکر میدان میں کود پڑا۔جب فوج نے یہ حالت دیکھی تو جی توڑ کر لڑی۔
اس واقعہ کے متعلق مسلم مورخوں نے ایک عجیب بات لکھی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ الپ ارسلان کے امیر سعد الدین گوہر عین کے پاس ایک گھٹیا اور بدصورت غلام تھا۔ جس کی شکل و شباہت کچھ اس قسم کی تھی کہ نظام الملک نے اس کو فوج میں جانے کی ممانعت کر دی اور مزاح کے طور پر کہا اسے فوج میں بھیجنے سے کیا فائدہ ہوگا یہ قیصر روم کو تھوڑا ہی قید کرے گا۔لیکن جب وہی گرفتار کرکے قتل کرنے ہی والا تھا تو بادشاہ کے ایک غلام نے اسے بتایا کہ یہ ہمارا قیصر ہے اس لئے وہ پکڑ کر الپ ارسلان کے پاس لے گیا۔ الپ ارسلان نے اس سے پوچھا کہ جب میں نے تمہیں تین مرتبہ کہا تھا تو تم نے ماننے سے انکار کیوں کیا تھا۔
قیصر نے جواب دیا اس وقت طعن و تشنیع سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ میں اب تمہارے حکم کی تعمیل کرنے کیلئے تیار ہوں۔الپ ارسلان نے اس سے پوچھا کہ اگر تم مجھے گرفتار کر لیتے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ قیصر نے جواب دیا میں تمہارے ساتھ بہت سختی سے پیش آتا۔ الپ ارسلان نے پھر پوچھا۔ اب تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو۔ قیصر نے جواب دیا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں یا تو تم مجھے قتل کر دو یا مجھے قید کرکے تمام اسلامی ممالک میں گھماؤ یہ بات تو اب ممکن نہیں کہ تم مجھے معاف کر دو گے یا مجھ سے تاوان وصول کرکے مجھے اپنا غلام بناؤ گے۔الپ ارسلان نے کہا تمہارا اندازہ غلط ہے۔ میں نے تو سب سے آخری بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ پندرہ لاکھ تاوان طے ہوا۔ صلح کے عہد نامے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ رومی آئندہ پچاس سال تک اسلامی حکومت پر حملہ نہیں کریں گے۔ قیصر نے تمام شرائط قبول کر لیں۔ الپ ارسلان نے اسی وقت اسے خلعت اور اخراجات کیلئے پندرہ ہزار دینار اور ایک خیمہ عطا کیا اور اس کے امراء بھی رہا کر دیئے گئے۔
راوندی کے قول کے مطابق رومیوں کی یہ شکست ان کی سلطنت کیلئے اس قسم کی ضرب کاری ثابت ہوئی کہ اس کے بعد وہ کبھی نہ ابھر سکے۔ دو سال بعد الپ ارسلان نے ترکوں سے جنگ کی تیاری کی (1972ء) الپ ارسلان دو لاکھ فوج لے کر دریائے جیحوں تک آیا اور یہاں اس نے تین ہفتے قیام کیا۔ یہاں اس کے سامنے خوارزم کا رہنے والا اور قلعے کا محافظ یوسف خوارزمی پیش کیا گیا۔جس نے خوارزم کے قلعے کی حفاظت میں ہمت اور مردانگی کے جوہر دکھائے تھے۔ الپ ارسلان نے اس سے بعض سوالات دریافت کئے لیکن ان سوالات کا جواب اس نے بڑی گستاخی سے دیا۔ جس سے بادشاہ سخت برافروختہ ہوا اور حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھوک کر ہلاک کر دیا جائے۔ قیدی نے بدکلامی کرتے ہوئے کہا۔ مجھ جیسے بہادر انسان کا یہ انجام یوں ذلت کی موت مرواتے ہو۔
الپ ارسلان نے طیش میں آکر نگران سپاہی کو ایک طرف ہٹ جانے کا حکم دیا اور کمان پکڑ کر خود اس پر تیر چلایا۔ تیر خطا ہو گیا اور پیشتر اس کے کہ سپاہی قیدی کو پکڑتے اس نے تیزی سے الپ ارسلان پر خنجر سے حملہ کیا قیدی تو اسی وقت مار دیا گیا۔ لیکن الپ ارسلان بھی اس زخم سے جانبر نہ ہو سکا اور 1077ء میں راہی ملک بقا ہوا۔
یہ فراش گوہر عین جس نے یومسف خوارزمی کو ڈنڈا مار کر قتل کر دیا۔اس کا ایک لڑکا کچھ عرصہ بعد بغداد میں قتل ہوا۔ اس فراش نے ملک شاہ کے دربارمیں حاضر ہو کر کہا۔ ”آقا جیسے میں نے تمہارے باپ کے قاتل کو قتل کیا تھا۔ تمہیں میرے بیٹے کے قاتل کو قتل کرنا چاہئے تھا۔“ قاتل کے ورثاء نے فراش کو بہت بڑی رقم دے کر راضی کرنا چاہا۔ لیکن وہ نہ مانا بالآخر ملک شاہ کو اس کے مارنے کا حکم دینا پڑا کیونکہ فراش کسی اور طرح راضی نہ ہوتا تھا۔الپ ارسلان زخمی ہونے کے دو دن بعد تک زندہ رہا۔ اس کے بعد اس کا لڑکا ملک شاہ تخت پر بیٹھا۔ الپ ارسلان کا قول تھا۔ ”کسی شخص کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو۔ اپنی لیاقت اور طاقت پر نازاں نہ ہو۔ ہمت سے کام لو اور خدا پر بھروسہ رکھو۔“
ملک شاہ سلجوق 1072ء تک 1092ء:
جلال الدین ملک شاہ ابھی سترہ یا اٹھارہ برس کا تھا کہ اس نے اپنے باپ کی وسیع و عریض سلطنت سنبھالی۔شروع شروع میں اسے بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ الپتگین خان سمرقندی نے تبریز پر قبضہ کر لیا تھا۔ سلطان ابراہیم غوری نے ملک شاہ کے وفادار چچا عثمان کو اسیر کرکے خزانے سمیت افغانستان لے گیا۔ ملک شاہ کا ایک چچا قادرت حکومت کا دعویدار بن کر رے اور کرج کی طرف بڑھا تاکہ اپنے بھتیجے سے تخت چھین سکے۔ مجبوراً بادشاہ کو اس کے مقابلے میں فوج بھیجنی پڑی۔ہمدان کے قریب جنگ ہوئی اور قادرت (یا قادرد) کی فوج کو شکست ہوئی۔ قادرت کو شکست کے بعد گرفتار کر لیا اور پھر اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کے دونوں لڑکوں سلطان شاہ اور ایران شاہ کو بھی گرفتار کرکے اندھا کر دیا گیا۔ اس موقع پر نظام الملک کو اتابک کے خطاب سے نوازا گیا۔
اگلے سال خلیفہ القائم کے فوت ہونے کے بعد اس کا پوتا المقتدی دربار خلافت کا وارث بنا اور ایک سال کے بعد فاطمیوں نے مکہ میں اپنی حکومت قائم کر لی۔جو ایک سال سے زیادہ نہ چل سکی۔ اسی سال شاہ نے مشہور صدگاہ قائم کی جس میں دیگر علماء کے ساتھ عمر خیام نے بھی جلالی سال پر تحقیقات کرنے کا کام کیا۔
جلالی سال وہ تھا جو سلطان کی خواہش کے مطابق 1079ء میں 15 مارچ کو نوروز مقرر کرکے شروع کیا گیا۔ دو سال بعد 1081ء میں ملک شاہ نے اپنی لڑکی کی شادی خلیفہ المقتدی سے کر دی اسی سال اس کا لڑکا داؤد فوت ہوا پہلے وہ بچے کی لاش کو دفن نہیں ہونے دیتا تھا۔پھر جب اسے روکا نہ جا سکا۔ تو اپنے آپ کو جان سے مارنے لگا۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ یہ غم بھول گیا۔ کیونکہ قدرت نے اس کو ایک اور بچہ دیا جس کا نام سنجر رکھا گیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب نظام الملک کے پیشرو کی دعا رنگ لائی۔ ملک شاہ کے دربار میں ایک مسخرہ جعفرک نامی تھا۔ اس نے دربار میں نظام الملک پر کچھ آوازے کسے جن میں تحقیر کا پہلو غالب تھا۔
جب نظام الملک کے بڑے لڑکے جمال الدین کو جو اس وقت خراسان کا گورنر تھا یہ خبر ملی تو وہ اسے برداشت نہ کر سکا اور بلخ سے اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے فوراً دربار میں پہنچا۔اس نے بادشاہ کی موجودگی میں مسخرے کی زبان میں دربار میں ہی سوراخ کیا اس ظالمانہ اور بہیمانہ سزا سے مسخرا فوراً مر گیا۔ ملک شاہ اس وقت تو خاموش رہا لیکن بعد میں اس نے خراسان کے میر بو علی کو لکھا کہ اگر تم اپنی سلامتی چاہتے ہو تو جمال الملک کو زہر پلا کر ختم کر دو۔ چنانچہ بو علی نے جمال الملک کے ایک ملازم کی وساطت سے یہ کام سرانجام دیا۔
ملک شاہ اپنے عہد حکومت میں دو دفعہ بغداد پہنچا۔ پہلے 1087ء میں نظام الملک کے ساتھ گیا۔ وہاں اس نے امام موسیٰ کرخی، احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ کے مزارت کی زیارت کی۔ اس نے خلیفہ المہتدی کو بڑے قیمتی تحائف بھی پیش کئے۔ ملک شاہ دوسری دفعہ اکتوبر 1091ء میں بغداد گیا۔ اس عرصہ میں اس نے بخارا سمرقند اور ماورالنہر کے دوسرے شہر فتح کر لئے تھے اور اس کی سلطنت میں بہت خوشحالی تھی۔یہاں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جن ملاحوں نے ملک شاہ کی افواج کو دریائے جیحوں سے پار اتارا تھا تو نظام الملک نے ایشیائے کوچک کے ملاحوں کو چیک لکھ کر دیا تھا جس کا پورا روپیہ انہوں نے ایشیائے کوچک سے ہی وصول پایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سلجوقی سلطنت کی حدیں کہاں تک تھیں اور مالی انتظام کس قدر مستحکم تھا۔
ملک شاہ کے زمانے میں سرکاری ملازموں کو بھی معقول معاوضے دیئے گئے اور اس نے سلطنت کی حدیں شام اور عراق سے بڑھا کر عدن اور بحیرہ اسود تک پہنچا دیں۔وہ خود عدلیہ کی نگرانی کرتا تھا اور مذہب سے اس قدر محبت تھی کہ اس نے حاجیوں کے راستے میں کنویں پانی پینے کیلئے بنوائے۔ وہ شکار کا بھی بے حد شوقین تھا اور بعض دفعہ اس نے اس قدر زیادہ شکار کیا کہ مرنے والے جانوروں کی کھوپڑیاں اور سینگوں سے مینار تعمیر کرائے۔ اس نے اپنے شکار کی تفصیل لکھنے کیلئے ایک باقاعدہ رجسٹر بنایا۔ جس میں بعض روایات کے مطابق یہ اندراجات ملتے ہیں کہ اس نے ایک ایک دن میں تن تنہا ستر ہرن کا شکار کیا۔
نظام الملک کی عمر اب 80 سال کے لگ بھگ تھی۔ درباری امور سے فراغت پانے کے بعد وہ نظامیہ کالج کے نظم و نسق کی طرف توجہ دیتا۔ وہ خود بھی بہت بڑا عالم تھا۔ اس زمانے میں شاہی خاندان کے افراد نظام الملک سے حسد کرنے لگے۔ اس کا سب سے بڑا دشمن ترکان خاتون تھی۔ وہ وزیر تاج الملک کی مدد سے ایک پلاٹ تیار کر رہی تھی۔ بدقسمتی سے نظام الملک کا پوتا جو جمال الملک کا بیٹا تھا اور اس وقت مرو کا گورنر تھا۔لوگوں سے بہت بدسلوکی سے پیش آتا اس کے ظلم سے تنگ آکر ایک شخص نے ملک شاہ سے شکایت کی اور بادشاہ نے غصے میں آکر نظام الملک کو کہلا بھیجا۔ ”کیا تم حکومت میں میرے شریک ہو گئے ہو تمہارے عزیز ہی مملکت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ بلکہ تکبر اور غرور کا بھی اظہار کرتے ہیں۔“ بوڑھا وزیر اس طعنہ کو برداشت نہ کر سکا۔ اس نے جواب میں لکھا کہ ”جس نے تمہیں تاج عطا کیا ہے۔
اس نے مجھے دستار عطا کی ہے اور یہ دونوں چیزیں الگ نہیں ہو سکتیں۔ سلطان کو اس جواب سے بڑا رنج پہنچا اور نظام الملک کو ملازمت سے علیحدہ کر دیا اور اس کی جگہ ترکان خاتون کا وزیر تاج الملک مقرر کیا۔ لیکن نظام الملک اس بے عزتی کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ چنانچہ 15 رمضان 485ھ مطابق 1092ء کو نہاوند کے قریب ایک دیلمی نوجوان جو حسن بن صباح کی جماعت یعنی فدائیوں کا رکن تھا۔ شام کے وقت نظام الملک کے خیمے میں داخل ہوا اور اسے ایک خنجر سے ہلاک کر دیا۔ اس طرح نظام الملک کے پیش رو کی دعا تکمیل کو پہنچی۔ نظام الملک کی وفات کے ایک ماہ بعد ملک شاہ بھی فوت ہو گیا اور اس طرح سلجوقی خاندان کا دوسرا بڑا بادشاہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔
0 Comments: