Wednesday, July 14, 2021

قسط نمبر 17 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

Molana-620x410

 

دولت غوریہ
غزنوی عہد حکومت میں اگرچہ حکمران خاندان غزنی سے تعلق رکھنے والا ترک خاندان تھا لیکن ان کے غیر ملکی ہونے کے باوجود وادی سندھ ایک باہم مربوط خطہ ہونے کے علاوہ یہاں کا اقتدار اعلیٰ اس سرزمین کے اندر موجود رہا یعنی لاہور میں جس کی وجہ سے ملک بھر سے آنے والے ٹیکسوں سے لاہور شہر ایک عظیم بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر گیا۔

غوریوں کے آنے سے طویل عرصے کے بعد پھر ایک بار یہ خطہ دوسرے علاقوں کے ماتحت آ گیا۔ یعنی تخت دہلی کے ماتحت اور وادی سندھ کی تمام دولت کا رخ دہلی اور اس کے گرد و نواح کی طرف ہو گیا۔ اس لئے غوریوں کی فتوحات کا مطالعہ ضروری ہے۔
غوریوں کا پس منظر:
غور کسی شہر کا نہیں بلکہ ایک وسیع علاقے کا نام ہے جو افغانستان کے مغربی وسطی حصے میں ہرات کے مشرقی کوہستان میں واقع ہے۔

اس کا قدیم نام غُور تھا اور موجودہ نام غَور ہے۔ غور نام کا کوئی شہر افغانستان میں نہیں ہے بلکہ کہیں بھی نہیں ہے۔ بھارت میں پرانے قصبے لکھنوتی کو جو پرانے صوبہ بنگال کا صدر مقام تھا بعد میں گور کہا گیا جو بگڑ کر غور بن گیا لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔ افغانستان میں غور کے علاقے پر مشتمل ایک ولایت (صوبہ) ہے جس کا صدر مقام چغ چران ہے۔ البتہ ایک شہر غورک ہے جو قندھار سے پچاس ساٹھ میل شمال مغرب میں ہے اور یہ ولایت غور سے باہر ہے۔

غزنوی عہد حکومت میں غور کے علاقے کی آبادی ترک قبائل پر مشتمل تھی۔ یہ سب کے سب غوری کہلاتے تھے۔ یہ لوگ شجرہ نسب ایران کے بادشاہ ضحاک سے ملاتے تھے۔ ضحاک ایک دیومالائی کردار ہے جو دیو مالا کے مطابق شام کا شہزادہ تھا اور اس نے ایران کے بادشاہ جمشید کو (یہ بھی دیومالائی کردار ہے) شکست دے کر ایران پر قبضہ کیا تھا۔ ضحاک کے کندھے پر دو سانپ تھے جو روزانہ دو آدمیوں کا مغز کھاتے تھے۔

ضحاک کو کاوہ لوہار نے عوامی قیادت کرکے قتل کیا تھا ۔(کا وہ کا جھنڈا جو اس چمڑے سے بنایا گیا تھا۔ جسے وہ بھٹی پر کام کرتے وقت بطور بالاپوش… ایپرن… پہنتا تھا در فش کا ویانی کہلاتا ہے یہ ایرانی بادشاہوں میں فتح کا نشان بن گیا تھا۔ اب ضحاک اگر حقیقت میں تھا بھی تو عرب نسل سے تھا ترک نہیں تھا جب کہ غوری لوگ ترک تھے۔ جو بحیرہ ارال اور بحیرہ کیپیئن کے شمال کے گیا ہستانوں کے رہنے والے تھے اور غز کہلاتے تھے۔

انہی کو اوغز بھی کہتے تھے۔ یہی سب غوری کہلائے۔ حضرت علی کے زمانہ خلافت میں غوری غز ترکوں کا سردار ایک شخص شنست نامی تھا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا اور ساتھ ہی پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ اسی کی نسبت سے یہ لوگ شنسبی ترک کہلائے۔ ہارون الرشید کے زمانہ (786ء۔ 808ء) میں غوریوں کا سردار یحییٰ بن نہاتان بھی شنسبی تھا۔ یحییٰ بن نہاتان بن درمش بن پرویز بن شنسیب) یحییٰ کے پوتے کا نام سوری تھا۔

اسی نسبت سے بعد میں بہت سے لوگ سوری کہلائے جب کہ یہ غوری تھے اور شنسبی ترک تھے۔ 
سوری کا بیٹا محمد بن سوری سلطان محمود غزنوی کا ہمعصر تھا اور سلطان کی اطاعت نہیں کرتے تھے۔ سلطان محمود نے اس پر لشکر کشی کرکے اسے قید کر دیا  غورستان کو غزنوی سلطنت کا اک صوبہ بنایا اور محمد بن سوری کے بیٹے ابو علی کو غور کے انتظام پر فائز کیا۔

ابو علی سلطان محمود کا وفادار رہا لیکن اہل غور اسے پسند نہ کرتے تھے۔ آخر محمد کے بھتیجے عباس نے اس کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ یہ انتہائی ظالم اور نامقبول حکمران ثابت ہوا۔ اس نے سلطان ابراہیم غزنوی پر حملہ کیا لیکن غزنوی فوجوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ عباس کے بعد سلطان ابراہیم غزنوی نے غور کی حکومت عباس کے بیٹے محمد بن عباس کے حوالے کی۔

 محمد شاید جلد ہی فوت ہو گیا کیونکہ کچھ ہی دنوں بعد اس کا بیٹا قطب الدین حسن حاکم غور بنا۔ قطب الدین حسن نے کسی دشمن پر حملہ کیا اور جنگ میں مارا گیا۔ اب غزنوی غورستان پر براہ راست قابض ہو گئے۔ قطب الدین حسن کا بیٹا سام بھاگ کر ہندوستان چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ وطن واپس آ رہا تھا کہ رستے میں ایک دریا پار کرتے ہوئے اس کی کشتی ڈوب گئی اور سام کے ایک بیٹے اعزالدین کے علاوہ تمام لوگ ڈوب کر مر گئے، اعزا الدین کسی طرح کنارے پر پہنچ گیا اور واپسی کے سفر پر اکیلا ہی روانہ ہوا۔

پہلے تو رستے میں اسے سپاہیوں نے گرفتار کر لیا اور جیل میں ڈال دیا۔ کچھ دنوں بعد حاکم شہر کسی بیماری سے شفایاب ہوا تو اس نے بہت سے قیدیوں کو آزاد کیا جس میں اعزا الدین بھی آزاد ہو گیا۔ اب وہ غزنی کی طرف روانہ ہوا۔ اب کی بار رستے میں اسے ڈاکوؤں نے پکڑ لیا۔ انہوں نے اس کے بلند قد و قامت اور مضبوط کاٹھی سے متاثر ہو کر اسے اپنے گروہ میں شامل کر لیا۔

اگلی ہی صبح یہ سارا گروہ سلطان ابراہیم غزنوی کے فوجیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا اور سلطان نے سب کے قتل کا حکم دے دیا۔
 جب اعزا الدین ابراہیم نے اس کی داستان پر یقین کرتے ہوئے اسے رہا کرکے اپنے درباری افسروں میں رکھ لیا۔ ترقی کرتے کرتے وہ امیر حاجب (کمانڈر گارڈ) مقرر ہو گیا۔ وہیں ایک بڑے افسر کی بیٹی سے اس کی شادی بھی ہو گئی۔ سلطان ابراہیم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان مسعود بن ابراہیم بن سلطان مسعود شہید غزنوی تخت نشین ہوا۔

سلطان مسعود ثانی نے اعزا الدین کو غور کا حاکم مقرر کر دیا۔ اعزا الدین غوری کی بیوی غزنوی تھی اس کے بطن سے اس کے سات بیٹے پیدا ہوئے جنہیں ہفت اختر کہتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
ملک فخر الدین مسعود بامیان ، قطب الدین محمد داماد بہرام شاہ غزنوی ، شجاع الدین علی (جوانمرگ) ناصر الدین محمد حاکم ولایت زمین دارد ، سیف الدین سوری ، بہاؤ الدین سام اور علاؤ الدین حسین جہاں سوز۔

اعزا الدین زندگی بھر سلطان مسعود اور سلطان سنجر کا وفادار رہا۔ لیکن اس کے بعد اس کے سات بیٹے دو گروہوں میں منقسم ہوئے۔ ایک گروہ ملوک بامیاں کہلاتا ہے جس کے ارکان طخارستان اور بامیان کے حاکم بنے۔ یہ لوگ ملک مباطلہ کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ دوسرا گروہ ملوک غور و غزنی کے نام سے مشہور ہے۔ اس دوسرے گروہ کا پہلا حکمران قطب الدین محمد داماد بہرام شاہ تھا جو ملک الجبال کے نام سے بھی مشہور ہے۔

 قطب الدین محمد نے ایک نیا شہر فیروز کوہ آباد کیا ، اس کے اردگرد دو دو کوس (چھ میل) کے فاصلے پر فصیل کھینچی اور اندر کئی قلعے تعمیر کئے اور فیروز کوہ کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ اس نے غزنی پر حملے کا منصوبہ بنایا جس کی خبر سلطان بہرام شاہ غزنوی کو ہوگئی۔ اس نے بہانے سے بلا کر گرفتار کرا دیا۔ پھر اپنے ساتھ ملانے کی غرض سے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی لیکن پھر اس اطلاع پر کہ قطب الدین محمد سازش کر رہا ہے۔

سلطان بہرام شاہ نے اسے قید خانے ہی میں زہر دے کر قتل کرا دیا۔
 اس قتل سے غزنوی اور غوری خاندان میں اقتدار کی کشمکش جو سلطان محمود غزنوی کے وقت سے ہی چل رہی تھی ، انتہائی شدت اختیار کر گئی۔ اس وقت قطب الدین کا بھائی سیف الدین بھی غزنوی میں تھا وہ بھاگ کر غورستان واپس آ گیا اور فیروز کوہ میں تخت نشین ہوا۔ غوریوں میں سے پہلی بار اس نے اپنے لئے سلطان کا لقب اختیار کیا اور سلطان سیف الدین سوری کہلایا۔

سابقہ غوری حکمران اپنے تئیں ملک (یعنی حاکم ضلع) کہتے تھے۔ سلطان یعنی حاکم سلطنت (بادشاہ یا شنہشاہ) نہیں کہتے تھے (سلطان بھی خلیفہ کے ماتحت ہوتا تھا) سلطان سیف الدین سوری نے ایک بڑا لشکر تیار کرکے غزنی پر حملہ کیا۔
 بہرام شاہ غزنوی حملے کی تاب نہ لاکر ہندوستان کی طرف بھاگ گیا اور یوں غزنی شہر پر غوریوں کا قبضہ ہو گیا۔ سیف الدین خود تو غزنی میں رہا اور فیروز کوہ میں اپنے بھائی بہاؤ الدین سام کو غور کا حاکم بنایا (اسی بہاؤالدین سام کا بیٹا محمد غوری فاتح ہندوستان تھا) سردیوں میں جب برفباری سے غورستان کے رستے بند ہو گئے تو اہل غزنی نے خفیہ طور پر بہرام شاہ کو واپسی کی دعوت دی۔

بہرام شاہ آیا اور غزنویوں نے مل کر سیف الدین سوری اور اس کے وزیر مجدالدین کو گرفتار کر لیا۔
 بہرام شاہ نے سیف الدین سوری کا منہ کالا کرکے ، ایک گائے پر بٹھا کر اسے غزنی شہر کی گلیوں میں ایک بڑے عوامی جلوس کے ساتھ پھرایا جو اس کے خلاف نعرے بازی کرتا جاتا تھا۔ ساتھ ساتھ عورتیں بھی دف بجاتی جاتی تھیں۔ یوں اس کی فوجی اور سیاسی شکست کے بعد اس کی سماجی تذلیل بھی کی گئی۔

اس سب کچھ کے بعد سیف الدین سوری اور مجدالدین کو قتل کر دیا گیا۔ غور کے حاکم بہاؤالدین سام کو جب یہ خبر ملی تو اس نے حملے کی تیاریاں شروع کر دیں لیکن ایک زہریلے پھوڑے (غالباً سرطان) کی وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا۔
 اب اس کا بھائی علاؤ الدین حسین تخت نشین ہوا جسے تاریخ میں جہاں سوز کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے غزنی کو فتح کرکے شہر میں مردوں اور عورتوں کا قتل عام کیا اور شہر کو تاخت و تاراج کیا۔

سات دن تک یہ دہشت گردی جاری رہی۔ اس نے تمام غزنوی بادشاہوں کی قبریں کھدوا کر ان کی لاشیں نکلوا کر جلا دیں۔ صرف سلطان محمود، سلطان مسعود شہید اور سلطان ابراہیم کے مقبروں کو معاف رکھا۔ اسی جہاں سوز نے اپنے بھائی بہاؤ الدین سام مرحوم کے دو بیٹوں غیاث الدین اور شہاب الدین کو کچھ علاقوں کی حکومت عطا کی۔ یہ دونوں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور سخاوت کی وجہ سے بہت جلد لوگوں میں مقبول ہونے لگے۔

اس سے خطرہ محسوس کرکے علاؤ الدین نے ان دونوں کو جرستان کے قلعے میں قید کر دیا۔ سلطان سنجر نے علاؤ الدین پر لشکر کشی کرکے اسے گرفتار کر لیا۔ کافی عرصہ وہ قید میں رہا۔ آخر سلطان سنجر نے ترس کھا کر اسے رہا کرکے حکومت پر بحال کر دیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد 551ھ (1156ء) میں علاؤ الدین کا انتقال ہو گیا۔
سلطان محمد غوری
علاؤ الدین جہاں سوز کے بعد اس کا بیٹا سیف الدین محمد برسراقتدار آیا۔

اس نے اپنے دونوں چچا زاد بھائیوں غیاث الدین اور شہاب الدین کو رہا کرکے دوبارہ ان علاقوں کا حاکم مقرر کر دیا۔ جہاں وہ پہلے حاکم تھے۔ فرشتہ نے اس علاقے کا نام سنجر لکھا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد سیف الدین محمد غزنویوں کے خلاف لڑتا ہوا اپنے ہی ایک سپاہی کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔ اب غیاث الدین محمد فیروز کوہ پہنچا۔ خود سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین محمد کو اپنی افواج کا کمانڈر انچیف بنایا۔

 تاریخ مبارک شاہی میں ہے کہ غیاث الدین نے محمد غوری کو تکناباد کا علاقہ جاگیر میں دے دیا۔ تکناباد کو پرانے مآخذ میں تگین آباد بھی لکھا گیا ہے۔ یہ شہر غزنی اور غورستان کے درمیان واقع تھا۔ اس عہد میں اکثر غوریوں کے دو دو نام ہوتے تھے۔ ایک تو دینی حوالے سے خطاب یا لقب ہوتا تھا اور دوسرا نام لقب یا خطاب عہدے میں ترقی کے ساتھ تبدیل بھی کر لیا جاتا تھا۔

چنانچہ ان دونوں بھائیوں کے نام محمد ہی تھے۔ البتہ دینی خطاب بڑے کا پہلے شمس الدین تھا اور پھر برسراقتدار آکر اس نے غیاث الدین کا لقب اختیار کیا جبکہ چھوٹے کا پہلا لقب شہاب الدین تھا۔ چونکہ شہاب الدین محمد فوجوں کا سپہ سالار اعظم تھا اور اس نے ہندوستان پر حملوں کا آغاز ایسے وقت میں کیا جب کہ اس کا خطاب شہاب الدین تھا ۔ اس لئے اکثر پرانے ہندوستانی مورخوں مثلاً فرشتہ اور دوسروں نے اسے ہمیشہ شہاب الدین غوری لکھا ہے۔

 لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب غیاث الدین محمد نے غزنی پر قبضہ کر لیا اور شہاب الدین محمد کو غزنی کا حکمران مقرر کیا تو اس نے شہاب الدین کو معزالدین کا خطاب عطا کیا۔ گویا اب اس کا نام متز الدین محمد غوری تھا۔ اس پس منظر میں اس کا پورا نام سلطان شہاب الدین معز الدین محمد غوری ولد بہاؤالدین سام غوری بنتا ہے۔ اسی کو سلطان محمد غوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سلطان محمد غوری نے وادی سندھ پر پہلا حملہ 572ھ (1176ء) میں کیا۔ غوری کے حملوں کے وقت غزنویوں کا اقتدار وادی سندھ کے دور دراز علاقوں سے سمٹ کر لاہور اور اس کے گرد و نواح تک محدود ہو چکا تھا۔ فی الحقیقت ارض پاکستان کا پورا علاقہ مختلف علاقائی وحدتوں میں منقسم تھا۔ جن میں سے اکثر جگہ ، ترک اور افغان حاکم برسراقتدار تھے اور بعض جگہ مقامی ہندو راجے بھی تھے۔

پشاور کا علاقہ بہرحال غزنویوں کی اطاعت کرتا تھا۔ 
پرانے مآخذ میں ہے کہ ریاست ملتان میں قرامطیوں کی حکومت تھی۔ دراصل یہ اسماعیلی شیعہ تھے جو سلطان محمود کی وفات کے بعد دوبارہ برسر اقتدار آ گئے تھے۔ اُچ میں ایک بھٹی راجپوت ہندو راجہ حکومت کرتا تھا۔ سندھ پر سمرا خاندان کی حکومت تھی۔ محمد غوری کی اصل کامیابی یہ تھی کہ اس نے صرف وادی سندھ نہیں بلکہ موجودہ بھارت کے مرکزی علاقوں تک کو فتح کرکے دہلی میں حکومت قائم کی۔

یوں وادی سندھ تخت دہلی کے ماتحت آ گئی۔ غوری کی اہم ترین جنگیں بھی بھارتی علاقوں میں ہوئیں یعنی ترائن کا میدان جو تھا نیسر سے چودہ میل دور ہے۔ یہاں غوری نے دو اہم جنگیں لڑیں اور ہمیشہ کیلئے ہندو جاگیردار راجوں کی جنگی مشینری کو کچل دیا۔ واپسی پر 1206 میں کھوکھروں نے شہید کر دیا۔









SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: