Monday, July 12, 2021

قسط نمبر 3 - سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات

ایشیاء اور بعض دوسرے ممالک نے اپنی تاریخ کو افسانوں اور داستانوں میں چھپا رکھا ہے۔ یہی حال وسط ایشیاء کی تاریخ کا ہے یہاں پہلی آبادیوں کیلئے یہ قصہ بیان کیا جاتا ہے ہو سکتا ہے کہ کسی حد تک درست بھی ہو۔ پہلے زمانے میں یہاں کی نشیبی جگہوں پر بڑی بڑی جھیلیں بن گئی تھیں۔ سمرقند سے متصل پہاڑوں سے برف پگھل کر ندی نالوں کی شکل اختیار کرکے ان جھیلوں کو پانی سے بھر دیتی۔ یہ جھیلیں مرغابیوں اور مچھلیوں کی کثرت کی وجہ سے ماہی گیروں اور شکاریوں کی آماجگاہ بن گئیں۔ یہاں دور افتادہ ترکستان سے آنے والے شکاری آہستہ آہستہ ان کے اردگرد آباد ہونے شروع ہو گئے۔ ان کی وجہ سے ترکمرود ، بروانی ، استوانی اور نور کے دیہات آباد ہوئے۔ ابریزی کا عروج و زوال انتظام حکومت چلانے کیلئے یہاں کے لوگوں نے ابریزی نامی آدمی کو بادشاہ چن لیا۔ لیکن اس شخص نے طاقت کے نشے میں لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا جس سے کچھ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور وہاں جا کر جموکیت نام کی نئی آبادی بسا لی۔ جموکیت کے معنی عمدہ شہر کے ہیں۔ یہاں آکر انہوں نے ایک ترکی شہزادے سے ابریزی کا مقابلہ کرنے کیلئے مدد مانگی۔ اس شہزادے کا نام شرکشور تھا اور اس کے والد کا نام قراجیوان تھا۔ شرکشور فوج لے کر مظلوموں کی مدد کو پہنچا۔ ابریزی گرفتار ہو کر کیل کانٹوں سے بھری بوری میں بند کر دیا اور زمین پر رکھ کر گھوڑوں کے سموں تلے دبا کر مار دیا گیا۔ سرکشور کو ہی نیا بادشاہ بنا لیا گیا اور عوام رعایا کہلائے سرکشور نے تیس سال حکومت کی۔ اس کا جانشین میک جبت بنا اس نے رامتین اور فراخشا شہر آباد کئے۔ اس نے شاہ چین کی بیٹی سے شادی کی۔ دلہن جہیز میں بت بھی لائی شاید بدھ مذہب کی ہو تاریخ میں اسلامی عہد کے شروع میں یہاں بنسیدون نامی بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس نے افراسیاب کے قلعہ کی مرمت کروائی تھی۔ بعض کے نزدیک یہ قلعہ سیاؤش نے بنوایا تھا۔ سیاؤش کیکاؤس کا لڑکا تھا ایران سے بھاگ کر وسط ایشیاء آ گیا تھا۔ افراسیاب نے اس کی عزت کی اور اپنی لڑکی اس سے بیاہ دی۔ سیاؤش کو گھوڑے کا خیال تھا چنانچہ بخارا شہر کی بنیاد رکھی۔ بنسیدون کے بعد اس کا بیٹا تگشادی بادشاہ بنا۔ لیکن حکومت کا کاروبار اس کی ماں چلاتی تھی۔ اسی زمانے میں عرب مجاہدین اس علاقے میں داخل ہوئے۔ ملکہ ہر روز طلوع آفتاب کے بعد گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے سے باہر نکلتی۔ پھر رغستان کے دروازے پر آتی اور یہاں محل میں افسروں کے حلقہ میں تخت پہ بیٹھتی۔ عدالت کرتی۔ اس وقت دو سو نوجوان سنہری پٹیاں باندھے تلواریں سونت کر اس کی حفاظت کرتے۔ اسی طرح ہر قبیلہ کے آدمی سال بھر باری باری اس کام کیلئے بلائے جاتے۔ تگشادے ملکہ کے بعد تگشادے بادشاہ بنا اس نے اسلام قبول کرکے علاقے میں عربوں کی بڑی مدد کی اور عربوں کی طرف سے وردان ترک کا مقابلہ بھی کیا۔ اس نے اپنے لڑکے کا نام قیتبہ فاتح ترکستان کے نام پر قیتبہ رکھا۔ یہ 782 میں قتل ہو گیا اس کا لڑکا نینت تخت نشین ہوا لیکن یہ جھوٹے نبی مقنع کا پیرو ہو گیا جس کی وجہ سے فراخشناس قتل ہوا۔ اس خاندان کے آخری شہزادے کا نام ابو اسحاق تھا۔ اس نے اپنی کمزوری کے پیش نظر اپنی جاگیر اسمٰعیل سامانی کے پاس 20 ہزار سالانہ درہم کے عوض پنشن لے لی۔ آخر 914ء میں فوت ہو گیا۔ یہ اس خاندان کا آخری شہزادہ تھا۔ اسمٰعیل سے بیس ہزار درہم حاصل ہوتے تھے۔ اس پر اسمٰعیل نے وہ رقم بطور پنشن تجویز کی اور اسحاق نے قبول کر لی تھی۔ اصل باشندے تاجیک ، غلچہ ، وخانی ، جمشیدی اور پرسیوان لوگوں کے خدوخال میں ایرانی نسل کا زیادہ اثر ہے اور یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ماورالنہر کی مہذب آبادی ہمیشہ ایرانیوں پر مشتمل رہی۔ خانی کوف کے مطابق سب سے خالص نسل تاجک ہے۔ سب سے قدیم وہ علاقہ تھا جو فرغانہ کی دائیں سرحد پر اخی کیت سے بخارا تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ سب سے زیادہ ذرخیز خطہ ہے اس میں بے شمار قدرتی ندی نالے ہیں۔ اس کے پہاڑوں ، چشموں اور دریاؤں کے نام نیز اس کے شہروں ، ضلعوں اور دیہات کے نام سے سب کے سب پرانی فارسی زبان کے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ختن ، طرخان اور دوسری جگہوں کے نام قدیم ایرانی آبادی کا پتہ دیتے ہیں۔ باز نطینی مورخوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ بخارا اور شدیہ کے سوداگروں کے ریشمی سامان کے قافلے ساسانی سلطنت سے گزرا کرتے تھے اور مشرقی رومن سلطنت تک جاتے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ اس علاقے میں پرسی پولس اور سوسا کی طرح یادگاریں نہیں نہ ہی کوئی کتبہ ملا ہے جو وسط ایشیاء کی قدیم تہذیب کی واضح شہادت بہم پہنچا سکے۔ ترک یا تورانی یہ خانہ بندوش گڈریئے تھے یہ غزیا غنہ بھی کہلاتے تھے۔ یہ ترکی نسل کے صحرا نشین تھے۔ انہوں نے ہی سلطان سنجر کو موجودہ اند خوئی کے قریب قید کر رکھا تھا۔ انہوں نے ایک قیاس کے مطابق 700 ق۔ م میں جیحوں عبور کیا جو ایران اور توران کی حد فاصل تھا۔ ترک اعلیٰ درجے کے سپاہی تھے وہ جہاں بھی گئے انہوں نے اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ برصغیر کے تقریباً ایک آدھ کو چھوڑ کر تمام مسلم حکمران ترک تھے۔ طرخانوں کا ذکر بھی آتا ہے ، ان کی حکومت سمرقند ، بیکند اور فکند میں تھی لیکن اسلام سے پہلے وسط ایشیاء کے ترکوں کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے وسط ایشیاء میں تاریخ نویسی کی بنیاد رکھی۔ مذاہب تورانیوں کا مذہب بدھ مت اور ایرانیوں کا مذہب آتش پرستی تھا اس علاقے میں بدھ مت اور آتش پرستی کی نزاع صرف مذہبی کشمکش نہ تھی بلکہ ان قوموں کا مقابلہ بھی تھا۔ تورانی بدھ مذہب کے حامی تھے اور جنہیں یہ مذہب شروع سے ملا تھا۔ دوسری طرف ایرانی قدرتی طور پر اپنے قومی مذہب آتش پرستی کی حمایت کرتے تھے۔ ایرانی نام جیحوں کیت کو بخارا کا نام ترکوں نے ہی دیا جس کا مطلب منگولی زبان میں اب بھی بدھ خانقاہ یا مندر ہے۔ اسی طرح آمو دریا کا نام بھی ترکی ہے آمو کے معنی دریا کے ہیں بعد میں جیحوں رکھا گیا۔ اسی طرح خلج ترکی میں تلوار کا نام ہے بلخ بھی پرانا ترکی لفظ ہے جس کے معنی شہر کے ہیں۔ منگولوں کے دارالحکومت کو قاآن بالیخی کہتے تھے یعنی قاآن کا شہر۔ ماور النہر کا ملک بہت ہی قدیم تھا اور یہ خالص ایرانی نسل کے لوگوں کا وطن تھا۔ یہ بات ایرانیوں کی قدیم ترین یادگار کتاب ”وندیدار“ سے ثابت ہوتا ہے۔ اس میں سولہ قدیم جگہوں کے نام درج ہیں۔ (1) پہلا باب تخلیق کے متعلق ہے (2) شدیہ یا قدیم سوغیہ (3) مرویا قدیم مورو (4) باختر قدیم مجذی (5) نساقدیم نساؤ (6) ہرات قدیم ھارو (7) فرغانہ قدیم و رخنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح شاہ نواز خاتون بھی ایرانی نام ہیں دریائے زرفشاں بھی ایرانی نام ہے اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ زمانہ قدیم ہی سے دونوں قومیں ان علاقوں میں موجود تھیں۔ ان کے علاقے ایران اور توران کہلاتے تھے۔ ایرانی زراعت پیشہ اور تاجر تھے جبکہ تورانی فقط خانہ بدوش چرواہے تھے۔ ایرانی آتش پرست تھے اور تورانی بدھ مت کے ماننے والے تھے اس کی مزید تصدیق بدھ سیاحوں فاہیان اور ہیون سانگ کی تحریریں بھی کرتی ہیں کہ ان کے وقت اس علاقے میں بدھ مت کی حالت اچھی تھی۔مسلمانوں کے بیکند پر قبضے کے وقت۔ انہیں بدھ کا ایک سونے کا بڑا بت ملا جس کی آنکھیں دو قیمتی ہیروں کی تھیں۔







SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: