سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی - شیخ محمد حیات
وسط ایشیاء دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اس علاقے نے بڑے بڑے انقلابات دیکھے ہیں۔ انسانی تہذیبوں کو بنتے اور مٹتے دیکھا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔ تاریخی لحاظ سے اسے ترکستان کہا جاتا تھا اس میں چینی ترکستان ، روسی ترکستان اور افغانستان کے بعض علاقے بھی شامل تھے۔ اب بھی وسط ایشیاء کا رقبہ 40 لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے۔
اس وقت ترکستان میں سویت دور کی بنائی ہوئی پانچ جمہورتیں ہیں جن میں قزاکستان ، کرغزستان، تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔
دریائے جیحوں کے پار کا علاقہ جسے ماورا نہر کہا جاتا ہے۔ کبھی تودان بھی کہلاتا تھا۔ ترک نسل منگولوں کے قریب ہے۔ عربوں کی فتوحات کے نتیجے میں یہ علاقہ دولت اسلام سے مالا مال ہوا۔
اسلام سے پہلے یہاں بدھ مت اور مجوسیت کا زور تھا۔
سب سے پہلے طاہریوں نے نیم آزاد حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ اسے صفاریوں نے ختم کرکے ایک وسیع آزاد سلطنت قائم کی۔ جسے سامانیوں نے ختم کرکے پورے وسط ایشیاء پر قبضہ کر لیا۔ سامانیوں کے بعد غزنوی اور ان کے بعد غوری برسراقتدار رہے اور پھر سلجوقیوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاڈ ڈالی۔ دولت خوارزم شاہیہ اسی دولت سلجوقیہ کی سرپرستی میں قائم ہوئی اور جب سلجوقیوں کے عروج کا ستارہ غروب ہو گیا۔
تو خوارزم شاہی سلطنت عالم اسلام میں ایک عظیم سلطنت کے طور پر ابھری چنگیز خان کی یلغار نے اس سلطنت کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا۔ لیکن اس سلطنت کا آخری حکمران جلال الدین خوارزم شاہ آج بھی وسط ایشیائی ریاستوں کا محبوب ہیرو ہے۔ اس کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے اس کے مجسمے بنا کر لگائے گئے ہیں اور سکوں پر اس کی تصویر ڈھالی گئی ہے۔ اگرچہ زیر نظر کتاب اسی جلال الدین منبکرنی کے حالات پر مشتمل ہے۔
اس سے اس علاقے کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے امید ہے کہ یہ اساتذہ اور طلباء کے لیے بھی یکساں مفید ہو گی۔
یہ جتنے بھی خاندان برسر اقتدار آتے گئے ان کے سب کے دربار ایرانی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ان سب نے فارسی زبان کو ترقی دی۔
فارسی زبان کا باوا آدم رودکی سامانی دربار سے وابستہ تھا۔ محمود کے دربار میں فردوسی ، فرخی جیسے نامور شعراء تھے سلجوقیوں کے دور میں انوری جیسا قیصدہ گوتھا۔
خوارزم شاہیوں کے پاس رشیدالدین اور وطواط تھا۔ اس زمانے میں فارسی زبان کا احیا ہوا اور آج بھی پورے وسط ایشیاء اور چینی ترکستان میں سمجھی جاتی ہے۔
ترک حکمران صاحب سیف و قلم ہوتے تھے ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پورے عالم اسلام میں ترکوں کی حکومت تھی۔ جن میں مصر کے مملوک بھی شامل تھے جو دراصل ترک ہی تھے۔ برصغیر کے اکثر حکمران بھی ترک ہی تھے اور ان سب کا تعلق وسط ایشیاء سے تھا۔
ہمارے عالم اسلام کی عمارت پر اصل چھاپ وسط ایشیاء ہی کی ہے آپ کہیں بھی چلے جائیں تقریباً ایک جیسی ہی عمارات نظر آئیں گی۔ ان کے کاریگر ترک ہی ہوتے تھے ، حتیٰ کہ پاکستان میں جو مینار پاکستان اور فیصل مسجد بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں دونوں کے ڈیزائن بنانے والے ترک ہی تھے۔
خوارزم شاہیوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے چنگیز خان کی ٹڈی دل فوج کا مقابلے نہ کر سکی۔
لیکن اس وقت سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے وسط ایشیاء سے لے کر بغداد تک منگولوں کے ناک میں دم کئے رکھا اور اس بہادر انسان کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ یہ کتاب بھی وسط ایشیاء کے تعارف اور جلال الدین کے کارناموں پر مبنی ہے امید ہے کہ اس کے مطالعے سے وسط ایشیاء میں مختلف خاندانوں کے عروج و زوال پڑھنے میں مدد ملے گی اور ہمارے مذہب ثقافت سب پر وسط ایشیاء کا اثر ہے۔
منبکرنی۔ وسط ایشیائکا ایک ایسا ہیرو ہے جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نے اس وقت مغلوں کے سامنے ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ جب پورے عالم اسلام پر نزع کی حالت طاری تھی اس نے پورے 20 سال مغلوں کے علاوہ دوسرے حکمرانوں کا مقابلہ کیا اور کامیابی نے اس کے قدم چومے آج بھی اہل ازبکستان کیلئے وہ مثالی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔
اس کی کئی یادگاریں قائم کی گئی ہیں اور سکوں پر اس تصاویر بنائی گئی ہیں۔
یہ جب چنگیز خان کے نرغے میں آ گیا تو اس نے پہاڑ کی چوٹی سے گھوڑے کو دریائے سندھ میں ڈال دیا اور چھلانگ لگا کر دوسرے کنارے پہنچ کر چنگیز خان جیسے آدمی نے بھی حیرانی سے منہ میں انگلی ڈال لی اور اپنے بیٹوں کو اس کی بہادری اور جرات کا نمونہ قرار دے کر بتایا۔
وسط ایشیاء کی تاریخ مسلمانوں کے حملوں سے شروع ہوتی ہے اور یہ بدھ مت کا گڑھ دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیرو ہو گیا۔
عباسی حکومت کے مقابلے میں سامانیوں نے وسط ایشیاء میں پہلی آزاد حکومت کی بنیاد ڈالی اس سے پہلے طاہریوں اور پھر صغاریوں نے اس کی ابتداء کی لیکن یہ مقامی چھوٹے درجے کی حکومتیں تھی۔ ان کے بعد غزنویوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد ڈالی اور ان کے بعد سلجوقی اور خوارزم شاہی بھی ان ہی کے پرور دہ تھے۔ چونکہ ان سب حکومتوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ اس لئے ان کے حالات بھی درج کر دیئے گئے تاکہ قارئین کے سامنے وسط ایشیائکا پورا خاکہ ابھر کر سامنے آ جائے۔
اس کے بعد چنگیز خان کے عروج اور خوارزم شاہ کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ اس کے کارنامے ابھر کر سامنے آ جائیں۔ امید ہے کہ
جلال الدین محمد عالم اسلام کا ایک ایسا سپاہی تھا جس نے چنگیز جیسوں کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا۔ جب اس پر چنگیز نے تمام راستے مسدود کر دیئے تو اس نے نہایت دلیری سے دریائے سندھ میں چٹان سے کود کر گھوڑے سمیت چھلانگ لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے دریا عبور کر گیا۔
اس کے بعد اس نے کوہستان نمک میں کافی عرصہ گزارا یہاں قیاح اور یلدوز سے جنگیں بھی ہوئیں اور وہ آخر کار ختم ہو گئے۔
ہمارے علاقے میں سلطان نے رائے شنکر کھوکھر کی بیٹی سے شادی کرکے کھوکھروں کو اپنا حمایتی بنایا۔ سلطان جتنا عرصہ بھی کوہستان نمک میں رہا دو قلعے اس کے نام سے مشہور ہیں ایک ائمہ میرا کے پاس قلعہ سمر قند کے اور دوسرا ضلع خوشاب میں تلاجھہ کے نام سے مشہور ہے۔
خوارزم شاہ عالم اسلام میں سب سے زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا تھا لیکن چنگیز کے سامنے اس کے والد کی بزدلی کی وجہ سے اسے بھی آرام نصیب نہ ہوا اور وہ ملک علیک منگولوں کو ناکوں چنے چبواتا رہا اور جب تک جیا اس نے ان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ وہ سلطان کو ہمیشہ شکست دینے میں ناکام رہے۔
وسط ایشیاء کی اصل تاریخ ترکوں کے اسلام قبول کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اس کا سہرا ترکوں کے روحانی پیشوا حضرت احمد یسوی کے سر ہے۔
جن کا اب تک نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔
ترکوں نے اسلام لانے کے بعد بڑی بڑی عظیم سلطنتیں قائم کیں۔ سب سے پہلی عربی اثر سے آزاد سلطنت دولت طاہریہ تھی اس کے بعد صفاریہ قائم ہوئی پھر سامانیوں نے ایک عظیم سلطنت کی داغ بیل ڈالی اور اس کا دارالحکومت بخارا تھا۔ ان کے بعد غزنوی آئے انہوں نے بھی وسط ایشیاء پر حکومت کی بعد میں غوری چھا گئے ان کے زوال کے بعد سلجوقی آئے اور پھر خوارزم شاہی حکومت قائم ہوئی جو سلجوقیوں کی ہی عنایت کردہ تھی۔
یہ کتاب وسط ایشیاء سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کیلئے معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ ہو گی اور یہ طلبا اور اساتذہ کیلئے یکساں مفید ہوگی۔
آخر میں احمد ریاض الہدی پروفیسر تاریخ سرگودھا یونیورسٹی کا بہ صمیم قلب سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے نایاب کتب فراہم کر کے میرے اس مشکل کام کو آسان بنایا۔
یہ عجیب بات ہے کہ وہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں کئی سال رہا۔
اس نے گرمیوں کیلئے کوہستان میں نمک تلاجھہ کا قلعہ بنوایا جو آج تک اس کی یاد کو تازہ کئے ہوئے۔ لیکن کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا
اس کتاب کی تالیف کے سلسلہ میں اپنے فرزند احمد ریاض الہدیٰ ، پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی اور اپنی دختر فوزیہ بتول اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے خواتین کا یہ صمیم قلب سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے نایاب کتب مہیا کرکے میرے کام کو آسان بنایا۔
اسی سلسلہ میں جناب گل فراز کا بھی بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے چھاپنے کی ذمہ داری لے کر عوام تک پہنچانے میں میری مدد کی۔
محمد حیات
0 Comments: