کپڑے دھوتے دھوتے شبانہ اختر کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے دل کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے درخت کے ساتھ اُگی ہوئی مضبوط شاخ کو توڑ کر الگ کرنا چاہتا ہو۔ سیدھے ہاتھ میں صابن پکڑے، فرش پر رکھے کپڑے کو وہ مل مل کر دھو رہی تھی۔ اس کا ہلتا ہوا بدن رک گیا، الٹے ہاتھ کو سینے پہ رکھ کے اس نے دل کی کیفیت محسوس کرنا چاہی… اندر کچھ قلابازیاں سی محسوس ہو رہی تھیں۔کل رات سوتے میں بھی اسے یوں لگا تھا جیسے کسی نے اس کے دل کو پکڑ کر زور سے کھینچا ہو۔ وہ گھبرا کر جاگی اور بیٹھ گئی۔اندھیرے میں بستر پر بیٹھی وہ آنکھیں جھپک جھپک کر اس کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ شاید کچھ اور بھی ہو۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ آنکھوں میں نیند کا خمار جوں کا توں تھا۔ وہ پھر سو گئی۔ معمول کے مطابق صبح اٹھی۔ وہ گھر کا سارا کام خود کرتی تھی۔ کچن اس نے کبھی کسی کے حوالے نہیں کیا تھا۔ شوہر کو ناشتا دیا۔ اسے آج گوجرانوالہ اپنی دکانوں کا کرایہ وصول کرنے جانا تھا، وہ چلا گیا۔ چھوٹی بیٹی ناشتا کرکے اپنے کلینک میں چلی گئی تھی۔ گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے کا دروازہ گلی میں کھول کے والدین نے اسے ایک ہومیوپیتھک کلینک کھول دیا تھا۔ پہلے اسے باقاعدہ 3 سالہ کورس بھی کروایا تھا۔ اس سے بڑی 3 لڑکیاں بیاہ دی گئی تھیں اور اکلوتا بیٹا لاٹری کے ذریعے کینیڈا چلا گیا تھا۔ چھوٹی بیٹی طلعت کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ لحیم و شحیم شوہر نے پہلےہفتے ہی اسے ہمیشہ کے لیے گھر بھیج دیا تھا۔ یہ دکھ شبانہ کے کلیجے کو لگ گیا تھا۔ اگرچہ باپ نے ہمت بندھاکے ایک اچھے کام پر لگا دیا تھا جہاں وہ غریبوں کا علاج مفت کرتی تھی۔جب دل کی کھچاوٹ اور گھبراہٹ بڑھتی ہی گئی تو شبانہ کپڑے چھوڑ کر ننگے پیر ننگے سر باہر آگئی۔ طلعت کو آوازیں دیں۔ اس وقت کلینک میں کوئی مریض نہیں تھا۔ وہ دوڑی آئی، زرد ہوتی ماں کو دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے امی؟ میرا دل ڈوبتا جا رہا ہے۔ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے؟
کوئی دوائی لائوں…؟ اس نے ماں کی نبض پکڑلی۔
نہیں… جلدی سے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔ تمہارے ابو تو ابھی کہیں راستہ میں ہوں گے۔
امی آپ کپڑے بدل لیں۔ آپ کے سارے کپڑے گیلے ہو رہے ہیں۔ میں باہر نکل کر رکشہ پکڑتی ہوں۔ اتفاق سے ایک خالی رکشہ سامنے نظر آیا۔ اس نے رُکنے کا اشارہ کیا، ماں کو بٹھایا اور محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہا ۔ان کو شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ فوراً کسی ہسپتال لے جائیں۔
مگر ڈاکٹر صاحب ان کی توحالت غیرہو رہی ہے۔ وقتی طور پر کوئی دوائی تو دیں تاکہ یہ ہسپتال تک جانے کے قابل ہوسکیں۔‘‘ طلعت نے کہا۔نہیں نہیں… ڈاکٹر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وقت ضائع نہ کریں، فوراً جائیں، جلدی لے جائیں، جلدی جلدی…
ڈاکٹر یوں گھبرا کر پیچھے ہٹا کہ طلعت کو سخت غصہ آیا حالانکہ وہ فیس اور دوائیوں کے پیسے ساتھ لے کر چلی تھی۔ مگر ڈاکٹر نے تو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ کیا۔ رکشہ ابھی باہر کھڑا تھا۔ گرتی پڑتی ماں کو اس نے رکشے میں بٹھایا اور رکشے والے سے کہا ،پبلک ہسپتال میں لے چلو۔ماں کو اپنے کاندھے سے لگا کر اس نے اس کی کمر میں بازو ڈال دیا تھا کہ رکشے کے جھٹکے اسے تکلیف نہ دیں۔ پھر بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اس کی نبض چیک کرتی جس کا سِرا نہیں مل رہا تھا۔ اپنے پہلو کے ساتھ لگا کر اس کی دھڑکنیں شمار کرنے کی کوشش کرتی۔ رکشے کے بے ہنگم شور میں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اگر ڈاکٹر وقتی طور پر کوئی دوائی دے دیتا تو کیاہرج تھا۔ ماں بے سدھ ہوئی جاتی تھی۔ راستہ بھی کافی لمبا تھا۔ پبلک ہسپتال آگیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے رکشہ والے سے کہا،وہاں سامنے جہاں ایمرجنسی لکھا ہے، لے چلو۔ باہر ہسپتال کے کچھ ملازم کھڑے تھے۔ اس نے رکشے سے اُتر کر ان سے کہا کہ سٹریچر لے آئیں۔ وہ دوڑ کر سٹریچر لے آئے جو باہر ہی پڑا ہوا تھا۔ اس نے رکشے والے کو پیسے دیے اور کراہتی ہوئی ماں کو ان لوگوں کی مدد سے سٹریچر پر لٹا دیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا اور پوچھا کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔ اتنے میں یونیفارم میں ملبوس ایک آیا قسم کی عورت بھی آگئی۔ اس نے دیکھا عورت مریضہ ہے تو باقاعدہ سٹریچر کو چلا کر ان کے ساتھ اندر آگئی۔ پھر اس نے طلعت کو بتایا کہ سیڑھیاں چڑھ کر ڈاکٹر قدیر کا دفتر ہے جو ایمرجنسی وارڈمیں ۲۴؍ گھنٹے رہتے ہیں۔ ان کے پاس جائیں، ان سے چِٹ لائیں یا ان کو ساتھ لے کر آئیں۔ پھر وہ جہاں کہیں گے وہ مریضہ کو لے جائیں گے۔ طلعت گھبرا گئی،میں اوپر جائوں گی میری ماں یہاں اکیلی پڑی رہے گی۔ ہائے بی بی آپا نے آگے آ کر کہا ، ہم کس مرض کی دوا ہیں؟ ہمارا یہی کام ہے مریضوں کے پاس کھڑے ہونا، ان کی حفاظت کرنا، آپ دوڑ کر جائیں، دیر نہ کریں۔
طلعت اپنی ماں کو ان کے پاس چھوڑ کر اوپر چڑھ گئی۔ ڈاکٹر صاحب دفتر میں موجود نہ تھے، وارڈ کا رائونڈ لینے گئے تھے۔ ان کو ڈھونڈھ کر بتانے اور لانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نیچے آْئے، جلدی جلدی مریض کو دیکھا مگر مریضہ تو رکشے سے اترنے کے بعد ہی اپنی منزل پر روانہ ہوگئی تھی، پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے اسے اچھی طرح دیکھا۔ نرس سارے آلے وہیں اٹھا لائی تھی۔ ساری کوششوں کے بعد ڈاکٹر نے ہمدردی سے طلعت کی طرف دیکھا اور کہا ’’آئی ایم سوری…‘‘ تو طلعت کی چیخیں نکل گئیں… ماں … ماں… یہ تو نے کیا کیا… ڈاکٹر کا انتظار بھی نہ کیا۔ طلعت کا ردِعمل قدرتی تھا۔ ڈاکٹر نے نرس سے کہا،جب ذرا سکون میں آئیں تو انہیں دفتر میں لے آئیں۔ ضروری کارروائی کرکے انہیں کاغذات دے دیے جائیں گے۔ تھوڑی دیر چیخ چلا کر طلعت نے پرس میں سے اپنا موبائل نکالا تاکہ باپ کو اطلاع دے۔ مگر ان کا نمبر ابھی تک بند مل رہا تھا۔ نرس اسے ساتھ لے گئی۔ کاغذات بنا کر دیے اور ایمبولینس پر میت لے جانے کی اجازت بھی لکھ کر دے دی۔ روتی ہوئی طلعت ماں کی لاش کے پاس آگئی۔ اس وقت ہسپتال کا ایک ملازم خود سٹریچر کے پاس آگیا۔ طلعت نے پوچھا ’’ایمبولینس کہاں سے ملے گی؟
اس آدمی نے جس کا نام سراج دین تھا،باہر نکل کر دفتر کا راستہ بتایا کہ پرمٹ وہاں دکھادیں ،ایمبولینس آپ کے ساتھ ہی آجائے گی۔
مگر میری امی یہاں اکیلی پڑی رہیں گی؟ اس نے روتے ہوئے کہا۔ہائے بی بی جی… ہم کس مرض کی دوا ہیں۔ آیانے پھر اسی انداز میں کہا۔ ہم یہاں آپ کی خدمت کے لیے کھڑے ہیں جی… آپ جائیں، جلدی جلدی جانے کا بندوبست کریں۔ جب وہ ایمبولینس کے دفتر کی طرف جا رہی تھی۔ اس کے والد کا فون آگیا۔ وہ ابھی گوجرانوالہ پہنچے ہی تھے۔ اس نے رو رو کر ساری بپتا اپنے والد کو سنائی۔ اس نے کہا ،وہ ابھی اسی بس سے واپس آرہا ہے۔ اس کے آنے تک حوصلے سے سارے کام کرے۔ طلعت کے جاتے ہیں آپا حنیفاں بیگم نے لاش کے اوپر پڑی ہوئی چادر اس طرح ہٹائی کہ اس کے چہرے اور کلائیوں کا جائزہ لے لیا۔ پھر کوئی بات سرگوشی کے انداز میں سراج دین کے کان میں کہی۔ سراج دین باہر نکل کر ایمبولینس کے دفتر کی جانب منہ کرکے کھڑا ہوگیا۔ حنیفاں بیگم نے بڑی مہارت سے لاش کی کلائیوں میں پہنی ہوئی سونے کی 12 چوڑیاں اور دونوں انگوٹھیاں اُتار لیں۔ کانوں کے ٹاپس رہنے دیے کہ ان پر کسی وقت بھی نظر جا سکتی تھی۔ ابھی سراج دین کی طرف سے ایمبولینس روانہ ہونے کا سگنل نہیں ملا تھا۔ اس لیے وہ جلدی سے نزدیکی غسل خانے میں گھس گئی۔ 12 چوڑیاں اور دونوں انگوٹھیاں اس نے ازاربند کے ساتھ باندھ لیں اور شلوار کے اندر بنائی گئی ایک جیب میں ڈال کے اطمینان سے باہر آگئی۔ طلعت کے والد نے کئی عزیزوں کو اطلاع دے دی تھی۔ اس لیے ایمبولینس میں بیٹھی طلعت ٹیلی فون وصول کرتی اور روتی رہی۔ سراج دین اور حنیفاں نے بڑی ہمدردی اور خلوص کے ساتھ ایمبولینس میں میت لٹانے کی کارروائی کی بلکہ حنیفاں تو طلعت کے گلے لگ کر روئی اور اسے تسلیاں بھی دیں۔ موت کی خبر پھیلتے ہی گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا۔ محلے میں جس نے بھی سنا، چلا آیا۔ جب بیٹیاں آگئیں تو نہلانے اور کفنانے کا مرحلہ شروع ہوا۔ ماں کے بدن پر پانی ڈالتی بڑی بیٹی رفاقت چونک گئی۔ طلعت کو بلایا اور کہنے لگی ’’امی تو ہمیشہ 12 چوڑیاں اور ہاتھوں میں 2 انگوٹھیاں پہنے رکھتی تھیں… کہاں ہیں وہ…؟‘‘
ہاں…‘‘ طلعت نے حواس باختہ ہوتے ہوئے ان کے کانوں کی طرف دیکھا۔ یہ 2 ٹاپس ہیں۔ رفاقت نے اسے دکھائے۔ ابھی نہانے والی نے ان کے کانوں سے اتار کر دیے تو مجھے چوڑیوں اور انگوٹھیوں کا خیال آیا۔ ہاں آپا جب میں انہیں رکشے میں ڈال کر لے گئی تھی۔ کئی بار ان کی نبض دیکھی تھی اور ہر بار چوڑیاں ہٹا کر ہی دیکھی تھی۔ اس وقت انگوٹھیاں ان کے ہاتھوں میں تھیں…
اور جب ایمبولینس میں لا رہی تھی، اُس وقت دیکھی تھیں…؟؟
’’سچی بات ہے آپا ،مجھے کہاں ہوش تھا…‘‘ طلعت پھر زور زور سے رونے لگی۔ میں اکیلی تھی، کوئی بڑا بھی پاس نہیں تھا ،بھاگتی اِدھر جاتی، بھاگتی اُدھر جاتی۔ اس پر فون بھی آنے لگے تھے۔‘‘
’’اور کون تھا میت کے پاس…‘‘ ’’ہاں… ہاں…‘‘ اس نے دوپٹے سے آنکھیں صاف کیں۔ ’’ہسپتال کی ایک آیا تھی جو وہاں صفائی کاکام کرتی ہے اور ایک مددگار تھا۔‘‘ طلعت نے ساری تفصیل بہن کو بتائی۔ مزید باتیں کرنے کا وقت نہیں تھا، اس مرحلے میں ہر کام کا وقت متعین ہوتا ہے مگر یہ ذرا سی تشویش بھری کھسر پھسر سارے گھر میں پھیل گئی۔
’’ہائے ہائے ہسپتال میں کسی نے میت کی چوڑیاں اتارلیں… توبہ توبہ… استغفراللہ…‘‘
سوئم کے بعد دونوں بہنیں رفاقت اور طلعت ہسپتال چلی گئیں، اسی طرح رکشے میں بیٹھ کر۔ سامنے دو تین ملازم کھڑے تھے۔ طلعت بہن کو لے کر اس طرف بڑھی۔ سب کو غور سے دیکھا۔ ان میں سراج دین کو پہچان گئی۔ ’’آپ کو معلوم ہے پرسوں میں اپنی امی جان کو لے کر آئی تھی اور وہ یہاں آتے ہی فوت ہو گئی تھیں۔‘‘
’’بی بی جی! یہاں روزانہ سیکڑوں مریض آتے ہیں۔ کچھ فوت بھی ہو جاتے ہیں۔ اب ہم کس کس کو یاد رکھیں۔‘‘
’’بھئی تمہارے ساتھ ایک عورت بھی کھڑی تھی یہاں۔ تم دونوں نے میری بڑی مدد کی تھی۔‘‘
’’بی بی! ہمارا کام خدمت کرنا ہے۔ جو بھی آتا ہے ہم اس کی بڑھ کر خدمت کرتے ہیں۔‘‘
’’بات کیا ہے بی بی؟‘‘ ایک نئے خدمت گار نے بڑھ کر پوچھا۔ ’’ہماری امی کی کلائیوں سے کسی نے سونے کی 12 چوڑیاں اور 2 انگوٹھیاں اُتار لی تھیں۔‘‘
’’توبہ توبہ… اللہ معاف کرے۔ بی بی جی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ اگر ہسپتالوں میں ایسی حرکتیں ہونے لگیں تو خدا کا قہر نہ نازل ہوجائے۔‘‘
’’مگر وہ عورت کہاں ہے؟‘‘ ’’کون سی عورت بی بی جی؟ یہ اردگرد ساری خدمت گار عورتیں پھر رہی ہیں۔ آگے بڑھ کر خود ہی پہچان لیں۔‘‘
پوچھنا… پھر قصہ دہرانا… پھر ایک جیسے ردعمل کا اظہار ہونا… ہائے وائے کے سوا کچھ نہ ملا۔ دونوں بہنیں ملال لیے گھر آگئیں۔
حنیفاں بیگم نے گھر جاتے ہی ایک ہفتے کی عرضی بھیج دی تھی کہ میری بیٹی شدید بیمار ہے اور میں کامونکی جا رہی ہوں۔ یہ عرضی لے جانے والا سراج دین تھا۔
حنیفاں کامونکی چلی گئی۔ اس کا داماد مقصود علی کسی سرکاری دفتر میں چپراسی تھا۔ اس کی شادی کو 3 سال ہوگئے تھے۔ اس نے جہیز میں موٹرسائیکل مانگی تھی۔ شادی کے وقت حنیفاں موٹرسائیکل نہیں دے سکی تھی مگر اس نے وعدہ کرلیا تھا کہ ایک سال کے بعد لے دے گی۔ اب ان کا ایک بچہ بھی ہوگیا۔ اس لیے اس کے داماد نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر موٹرسائیکل نہیں لے کر دینی تو اپنے بیٹی کو بچے سمیت لے جائو۔ کامونکی جا کر حنیفاں نے اپنے داماد کو بلایا اور چوڑیاں اس کے سامنے رکھ کر بولی ’’بیٹا! یہی میرا جینا مرنا ہے۔ ساری زندگی کی کمائی ہے جو میں نے بچا کر رکھی تھی، مگر یہ اپنی بیٹی اور داماد کی خوشیوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔ بیٹا! تم یہ چوڑیاں بیچ کرموٹرسائیکل لے لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘
’’اماں! تو کتنی چالاک ہے۔ تو نے شادی پر یہ چوڑیاں مجھے کیوں نہیں دیں؟‘‘ ’’اسی دن کے لیے رکھ چھوڑی تھیں۔ اب بھی تجھے نہیں، اپنے داماد کو دے رہی ہوں۔‘‘ اس نے بیٹی کے ہاتھ سے چوڑیاں چھین لیں جو بار بار پہن کر دیکھ رہی تھی اور داماد کی گود میں رکھ دیں۔
حنیفاں کے جانے کے بعد بیٹی اور داماد سوچ میں پڑ گئے۔ داماد تو سونے کی تازہ قیمت بھی پوچھ آیا تھا۔ چنانچہ طے ہوا کہ صرف ۴؍ چوڑیاں بیچ کر موٹرسائیکل خرید لی جائے اور باقی چوڑیاں کسی کڑے وقت کے لیے سنبھال کر رکھ لی جائیں۔ جس دن مقصود علی نئی موٹرسائیکل خرید کر لایا، تو بیوی نے منتیں کرکے باقی کی ۸؍ چوڑیاں کلائی میں کچھ روز پہننے کی اجازت مانگ لی۔ ؍ دن بعد حنیفاں واپس ہسپتال اپنی ڈیوٹی پر آگئی۔ فرصت ملتے ہی سراج دین اور حنیفاں ایک درخت کے سائے میں آ کر بیٹھ گئے۔
’’کوئی آیا تھا؟‘‘ حنیفاں سے سرگوشی میں پوچھا۔
’’ہاں تیسرے ہی دن 2 بیٹیاں آ گئی تھیں… تیرا پوچھ رہی تھیں۔‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’ انہوں نے بڑا شور مچایا۔ اِک اِک سے پوچھا… ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بھی گئیں۔ ‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’پھر کیا ہونا تھا، میں تو صاف مکر گیا کہ میں نے کبھی انہیں دیکھا ہو…‘‘
’’میرا پوچھا تھا انہوں نے…؟‘‘
’’ہاں جس کے ساتھ تو گلے لگ لگ کر رو رہی تھی، اُس نے بار بار پوچھا تھا۔‘‘
’’تو نے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے کہا ،آپ کے اردگرد اتنی مائیاں گھوم پھر رہی ہیں،پہچان کر پوچھ لو۔ مجھے کیا پتا اُس دن کون آیا، کون گیا اور کون میرے ساتھ تھا۔‘‘ سراج اور حنیفاں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔
’’اچھا اب مستی مت کر، نکال میرا حصہ…‘‘
’’سراج… سچ بات بتائوں۔ تجھے تو پتا ہے میں نے آزاربند کے ساتھ باندھ کر چوڑیاں لٹکالی تھیں مگر گرہ ذرا ڈھیلی لگی۔ جب میں جا رہی تھی تو مجھے پتا ہی نہیں چلا، ایک ایک کرکے چوڑیاں بس کے اندر ہی گر گئیں۔ وہ تو جب ایک مسافر نے ایک چوڑی اٹھا کر شور مچایا، تب مجھے پتا چلا۔‘‘
’’تو بکواس کرتی ہے۔‘‘ سراج دین چلایا۔ ’’تیری نیت بدل گئی ہے، تو کمینی ہوگئی ہے۔ کم ذات، بے غیرت میں تجھے ابھی پکڑواتا ہوں۔‘‘
حنیفاں نے جیب سے 2 انگوٹھیاں نکا ل کر ہتھیلی پر رکھیں اور بولی ’’تو یہ لے لے… قسم سے یہی بچی ہیں۔‘‘
’’میں تیرا گلا دبا دوں گا۔‘‘ ’’شور مچائے گا تو اپنا ہی کچھ بگاڑے گا۔ تو بھی اس واردات میں شامل تھا۔‘‘
’’تیرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ میں تجھے ذلیل کروائوں گا۔‘‘
’’سراج… اپنے آپ کو قابو میں رکھ… میں بھی ایم ایس کو بتا دوں گی۔ پچھلے ہفتے جو نوجوان حادثے میں گزر گیا تھا، تو نے ایمرجنسی وارڈ میں اس کی ڈھائی لاکھ کی گھڑی اسی وقت اُتار لی تھی۔ وہ لوگ گھڑی ڈھونڈتے رہے تھے… یاد ہے ان کا رونا دھونا…‘‘
’’کمینی عورت! میں نے اس میں سے تجھے حصہ دیا تھا۔‘‘
’’کتنا دیا تھا۔ صرف 5 ہزار روپے۔‘‘
’’اور یہ چوڑیاں تو کئی لاکھ کی ہوں گی۔‘‘ ’’ہوں گی جن کے نصیبوں کی ہوں گی۔ میرے لیے تو ایک چوڑی بھی حرام ہے۔‘‘
’’اللہ کرے تیرے کفن پر لگیں حنیفاں۔‘‘ سراج کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔
’’اوئے بے غیرت! مُردوں کے زیور اور گھڑیاں چرانے والوں کی بددعائیں نہیں لگتیں۔‘‘ حنیفاں زور زور سے ہنسنے لگی۔
’’دیکھ سراج! ہم دونوں کا موجو لگا ہوا ہے۔ کبھی تو پلہ مار لیتا اور کبھی میرا دائو لگ جاتا ہے۔ غصہ نہ کھا۔ میں نے پتا کروایا ہے، یہ انگوٹھیاں 2 لاکھ کی ہیں۔ ایک لاکھ بھی تجھے مل جائے تو عیش کرے گا ورنہ…‘‘
’’ورنہ…‘‘ سراج غصے سے پھنکارا۔ ’’ورنہ گندگی میں پتھر پھینکے گا تو چھینٹے تیرے اوپر بھی آئیں گے۔ دونوں کا انجام ایک جیسا ہوگا۔‘‘
حنیفاں سیڑھیوں پر پوچا لگاتی نیچے آ رہی تھی کہ اس کی جیب میں پڑا فون پھڑپھڑایا۔ اس نے ہاتھ روک کر فون نکالا، سنا اور چیختی ہوئی باہر کو بھاگی۔ ٹیکسی پکڑی اور کامونکی روانہ ہوگئی۔ روتی اور دعائیں مانگتی جاتی۔ فون پر اس کے داماد کے ایکسیڈنٹ کی خبر آئی تھی۔ تفصیل کوئی بتا نہیں رہا تھا۔ ان کے گھر پہنچی تو سارا محلہ جمع تھا۔ اسے فوراً جائے حادثہ پر لے جایا گیا،جو پولیس کے گھیرے میں تھا اور کارروائی نوٹ ہو رہی تھی۔ ایک ہفتہ قبل مقصود نے موٹرسائیکل خرید لی تھی۔8 دن باقاعدہ چلاتا رہا تھا۔ آج پہلی بار بیوی نے کہا تھا، ہمیں بھی سیر کرائو۔ وہ خود تیار ہوئی۔ اس نے سونے کی چوڑیاں پہنیں اور ایک سال کے بچے کو بھی تیار کیا۔ بیوی اور بچہ پیچھے بیٹھ گئے۔ آبادی سے ذرا باہر نکلے تو موٹرسائیکل ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔ بیوی اور بچہ موقع پر فوت ہوگئے۔ داماد کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں مگر پولیس ابھی تک اس بات کا سراغ نہیں لگا سکی تھی کہ پیچھے بیٹھی ہوئی عورت کی پوری کلائی کون کاٹ کر لے گیا تھا اور کیوں…؟ اُدھر پبلک ہسپتال کے پچھواڑے کوڑا کرکٹ چننے والوں کی جھگیوں کے آس پاس پھٹے پُرانے کپڑوں میں ایک عورت نظر آتی ہے، جس کے ہاتھ میں ایک گڑیا ہوتی ہے۔ ہمیشہ گڑیا کا ایک بازو ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ وہ عورت دیوانہ وار راہ گیروں ، موٹر والوں اور سائیکل والوں کے پاس جاتی اور کہتی ہے…
’’میری بیٹی کا بازو واپس دلا دو۔‘‘
’’اللہ کے واسطے میری بیٹی کا بازو دے دو۔‘‘
’’چوڑیاں رکھ لو، کلائی دے دو۔‘‘
میری اکلوتی بیٹی رو رہی ہے ،دیکھو۔‘‘ وہ گڑیا کو آگے کرتی ہے،روٹی نہیں کھا سکتی،بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ خدا کے لیے میری بیٹی کی مدد کرو۔ وہ ساری رات روتی
رہتی ہے، مجھے سونے نہیں دیتی۔
بے چاری پاگل ہے… یہ کہتے ہوئے لوگ گزرتے ہیں اور وہ ہوائوں کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔
urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.
0 Comments: