Monday, July 12, 2021

میری امیدیں

ہمیں دنیا سے امید وفا ہو کس لئے آخر یہ دنیا تو کسی کی بھی شریک غم نہیں ہوتی ڈاکٹر شاکرہ نندنی، پورٹو، پُرتگال کل رات کو ٹی وی پر ریئلٹی شو میری نظر سے گزرا جس میں ایک لڑکی جس کا نام مارتھا تھا اس کا دل اس کے بوائے فرینڈ نے نئی گرل فرینڈ بنا کر توڑا۔ یہ جوڑا لزبن کا تھا۔ گذشتہ ہفتے میرا دل بھی ٹوٹا، لیکن اس کی نوعیت مارتھا کے دل ٹوٹنے سے مختلف تھی کیونکہ یہ ٹی وی کے لاکھوں ناظرین کی آنکھوں کے سامنے نہیں ٹوٹا تھا۔ میری امیدوں بھری محبت اچانک ختم ہو گئی تھی۔ میں جس شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی، اپنی راتیں اُس کے نام کر چُکی تھی، اس نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔ یہ میرے لیے زبردست صدمہ تھا اور مجھے لگتا تھا کہ اب زندگی وہ نہیں رہے گی جو پہلے تھی۔ میں نے اس غم سے نمٹنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ میں پورٹو، جہاں میری 32 سالہ زندگی کے 17 برس گزرے تھے، چھوڑ کر ایک دیہی علاقے میں منتقل ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی مجھے لگتا تھا کہ اگر کبھی میرا اس سے آمنا سامنا ہوا، بس میں، ٹرین میں، کسی شاپنگ مال میں، تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ اگلے 3 ماہ تک میں نے دل بہلانے کی بڑی کوششیں کی، سمندر میں تیراکی، میلوں تک چہل قدمی، پہروں رونا، ایک ماڈلنگ پروجیکٹ پر کام۔ لیکن اداسی کی دھند چھٹنا تھی نہ چھٹی۔ مجھے احساس ہوا کہ میری جیسی شہری خاتون کے لیے دیہی زندگی مزید تنہا کر دینے والی ہے۔ میرے آفس والے میرے قریب تھے لیکن مجھے دوستوں کی ضرورت تھی۔ فون پر ان سے رابطہ کچھ عرصے رہا، پھر انھوں نے بھی فون کرنا چھوڑ دیا۔ میرے پاس گاؤں آنے کے وعدے بھی کبھی وفا نہیں ہو سکے۔ زندگی کب کسی کے لئے رکتی ہے؟ میں خود کو پہلے سے زیادہ تنہا محسوس کرنے لگی۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا دل ٹوٹنے کا کوئی مثبت طریقہ بھی ہو سکتا ہے؟ اس وقت مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملا لیکن۳ ماہ بعد میں خود ہی اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنے رہی ہوں۔

SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: