Monday, July 12, 2021

خالی ہاتھ

صبح کے دس بجے چکے تھے۔ میں حسب معمول اس وقت تک اپنے کام نمٹا چکی ہوتی۔ بچے اسکول چلے جاتےاور میاں صاحب اپنے دفتر ۔ میاں اور بچو ں کو رخصت کر نے بعد خو د نا شتہ کر تی، اپنے کمرے کے بستر اور چا دریں سیٹ کر تی ، بیٹی اور بچوں کے کمرے سیٹ کر تے کر تے دس بج جاتے ۔ یہ وقت تھوڑی دیر آرام کا ہو تا ۔ ٹی وی پر خبر یں سنتی اور ساتھ ساتھ کسی دوست سے گپ شپ بھی لگا لیتی ۔ مگر آج صبح ہی سے میرےسر میں درد ہو رہا تھا۔ میں خبریں سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔ سر میں بڑھتے ہوئے درد کی وجہ سےمیں صو فے پر سر ٹکا کر لیٹ سی گئی۔ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسر ی طر ف میری بہت عز یز دوست عظمی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسکےخاوندکی پو سٹنگ کلر کہار چھاونی میں ہو گئی ہے۔ اتنے چھوٹے اسٹیشن پر پو سٹنگ کی وجہ سے وہ پر یشان تھی۔ میں نے جب وادی کلر کہا ر کا نام سنا تو اسے ایسے لگا جیسے میرے سر کا درد ایک دم سے ختم ہو گیا ہو۔ خو شی اور سکون کی ایک لہر میر ےپو رے جسم میں دوڑنے لگی۔ کلر کہا ر سے جڑی یا دوں نے میرادل خو ش کر دیا ۔ کچھ دیر عظمیٰ سے بات کر نے کے بعد میں نے فون بند کیا اور پھرصو فے پر لیٹ سی گئی اورخو د کلامی کر نے لگی "شد ید ٹینشن ، اداسی اور تنہائی۔ آخر کیوں گھیر لیتی ہیں یہ بلا ئیں مجھے با ر بار ِِِ"۔ "ایک ہفتہ بھی آرام سے نہیں گز رتا اور سر میں مسلسل درر رہتا ہے۔ سارا دن موڈ خر اب رہتاہے"۔"ہما را خو بصو رت اور خو شیو ں بھر ا بچپن اور ماضی، کیو ں ہماری مو جو دہ زند گی پر اثر اند از ہو تے ہے۔ بچپن کی خو بصورت یا دیں، ما ں با پ کے گھر میں گز ری ہوئی خو بصو رت زند گی جس میں محبت ، تو جہ ، پیا ر اور ستا ئش سب کچھ تو ملتا ہے ۔ پھر وہ زند گی کیو ں بدل جاتی ہے اور سب کچھ خو اب سا کیو ں لگتا ہے"۔ میں اپنی زند گی میں اپنے ابواور انکے وجو د کی کمی کو شد ت سے محسو س کر نے لگی ۔ پھر فورًا ایک خیال کے آتے ہی میں مطمئن ہو گئی ۔ "میں ایک بار پھر کلر کہا ر جا ؤ ں گی ۔ میں وہ ساری جگہیں ایک با رپھر دیکھو ں گی ۔ جہا ں ابو جی تھے، جہاں مو ر تھے ، جہا ں جھیل تھی"۔ یہ سب کچھ سوچ کر میں خو ش ہو گئی اور جلد از جلد عظمیٰ کے کلر کہا ر شفٹ ہو نے کا انتظا ر کر نے لگی ۔ یہ ان دنو ں کی بات ہے جب ابو بطو رSHOتھا نہ کلر کہا ر میں تعنیات تھے۔ ہم سب بہن بھائی راولپنڈی میں امی کے ساتھ رہتے تھے۔ اسکول کی پڑھائی کی وجہ سے ہم ابوکے ساتھ ہر ا سٹیشن پر نہیں رہ سکتے تھے۔ لہٰذ ا راولینڈی میں مستقل طو ر پر رہ رہے تھے۔ ابواس نئی پو سٹنگ پر بہت خو ش تھے انکے بقول یہ علا قہ بہت خو بصورت اور سر سبز وشا داب ہے۔ یہاں پر جھیل ہے۔ باغات ہیں، بہت پیا رے مور ہیں اور تیتر بٹیر ے۔ (ابو نے پوری فیملی کو چند دنوں کے لئےاپنے پاس کلر کہاربلوالیا)۔ راولپنڈی سے ڈیڑھ یا دو گھنٹے سفر کرنے کے بعد جب ہم بڑی سڑک کو چھوڑ کر کلر کہا ر والی چھوٹی سٹرک پر آئے تو سامنے ہی ایک بہت بڑی اور خو بصورت نیلی نیلی سی جھیل نے ہمارا استقبال کیا۔ جھیل کا وہ پہلا منظر اس قد ر خو بصو رت تھا کہ میں نےاور میرے بہن بھائیوں نے شو ر مچا نا شر وع کر دیا کہ گاڑی فو راً روکی جائے تاکہ ہم یہاں رک کر تسلی سے اس سارے منظر کو اور خو بصورت جھیل کو دیکھ سکیں۔ مجھے آج بھی یا د ہے کہ وہ جھیل بالکل گو لائی میں تھی اور اسی گولا ئی میں ہی سٹرک بھی اسکے کنا ر ے کنا رے بنی ہوئی تھی۔ گویا پوری جھیل کے اردگر د بذریعہ سٹرک بھی ایک بڑا چکر لگایا جا سکتا تھا ۔ جھیل کنا روں تک پانی سے بھری ہوئی تھی اور کنا روں پر سٹر ک کے ساتھ ساتھ سبز ہ ، کائی اور چھوٹے چھوٹے درخت بھی تھے۔ اس خو بصورت منظر کو دیکھ کر دل بہت خو ش ہو ا۔ امی جی کے کہنے پر ہم جلد ہی دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر جھیل کے ساتھ ساتھ سفر کر نے کے بعد گاڑی ایک دوسری سٹرک پر مڑ گئی جہاں پر آگے بلند و بالا پہاڑ تھے۔ گو یا یہ ایک چھوٹی سی سر سبز وادی تھی جسکے تین طر ف خو بصو رت پہاڑ تھے۔ چلتے چلتے گاڑی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چڑھنے لگی ۔ پھرہم ایک چا ر دیو اری میں داخل ہو گئے جسکے باہر"تھا نہ کلر کہا ر" کا بو رڈ لگا ہو ا تھا۔ سامنے ہی والد صاحب کھڑے ہمارا انتظا ر کر رہے تھے۔ ہم سب بہن بھائی جلد ی جلد ی گا ڑی سے نکلے اور ابو جی سے چمٹ گئے۔ انہوں نے سب کو بہت پیار کیا ۔ بے اختیا ر میرے منہ سے نکلا "واہ ابو جی آپ اتنی خو بصو رت جگہ پر رہتے ہیں"۔ کلر کہا ر کے مشہو ر لو کا ٹ تو ہم پہلےبھی کھا چکے تھے ۔ مگر آج لوکاٹ اپنے ہاتھوں سے توڑ کر کھانے کا مز ہ ہی اور تھا۔ ابو جی کے ساتھ آج بہت دنو ں بعد دوپہر کا کھا نا کھا یا آج تو بیٹر وں کا مز ہ بھی لا جو اب تھا۔ ( پتہ نہیں وادی کلر کہا ر کی خو بصو رتی کا اثر تھا یا اتنے دنو ں کے بعد ابو جی سے ملتے کی خو شی )۔ہر چیز بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ہر چیز ہی اچھی اور خو بصو رت لگ رہی تھی۔ شام ہو ئی توابوکے ساتھ وہاں کے مشہو ر دربار پر گئے۔ امی ابو جی مز ار پر فا تحہ پڑھنے کے لئے اند ر چلے گئے ۔ ہم بہن بھائی اردگر د گھو منے لگے۔ میں نے دیکھا کہ یہ مز ار ایک بلند پہا ڑی کے اوپر واقع ہے۔ مز ار کے اطر اف میں چھوٹی چھوٹی سے دیو ار یں بنی ہوئی تھیں تا کہ کوئی غلطی سے پہا ڑ سے نیچے نہ گر جائے۔ پہا ڑکی بلند ی پر سے نیچے وادی کا نظارہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ساری وادی سر سبز و شا داب تھی۔ پھولو ں اور پھلو ں سے بھری ہوئی ۔ چلتے چلتے مز ار کے پچھلے احا طے کی طر ف آئی تو دیکھا دیو ار سے تھو ڑا نیچے با ہر کی طر ف ایک چھو ٹا سا چشمہ بہہ رہا تھا۔ میں نے فو راً بہن بھا ئیوں کو بلا یا اور ہم خو شی خو شی پہا ڑ سے نیچے اتر نے لگے۔ بے تابی سے چشمے تک گئے اور پانی میں ہا تھ ڈال دیئےپانی صاف شفاف ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ سب بچوں نے خو شی سے جی بھر کر وہ پانی پیا۔ ابو جی فا تحہ خو انی کے بعد با ہر آئے تو ہمیں ڈھو نڈتے ہوئے وہ بھی نیچے چشمے کے پاس آگئے۔ امی بھی آگئیں تو وہ امی جی کو بتا نے لگے کہ یہا ں جو لو گ بھی منت مر ادیں لیکر آتے ہیں وہ اس تبر ک کو لیکر جاتے ہیں۔ اچا نک نیچے جھا ڑیو ں میں دو مو ر پھر تے ہوئے نظر آئے ۔ زند گی میں پہلی با ر مو روں کو اپنے سامنے دیکھ کر سب نے شور مچا یا اور تا لیاں بجا ئیں ۔ وہ نیلے رنگ کے بڑ ے بڑے خو بصو رت مو ر تھے۔ مورہماری تا لیو ں اور شور کی آواز سن کر وہ ڈر گئے اور بھا گتے ہوئے مز ید نیچے وادی میں اتر نے لگے ۔ ابونے ہمیں انکے پیچھے نہ جانے دیا اور میر ا ہا تھ پکڑ کر واپس اوپر چڑھنے لگے۔ اب رات کا اند ھیر اپھیل رہا تھا ۔ لہٰذا ابو جی نے سب کو گا ڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ ہم سب میں سے کوئی بھی واپس جانا نہیں چاہ رہا تھا مگر گا ڑی میں بیٹھنا ہی پڑا۔ کھانا کھانے کے بعد امی جی نے بتا یا کہ ہم آج ہی واپس جارہے ہیں کیو نکہ کل تم لو گو ں نے اسکول جا نا ہے۔ ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی واپس جاتے کے لئے تیا ر نہیں تھا ۔ جب ابو جی نے یہ بتا یا کہ میں بھی آپ سب کے ساتھ راولینڈی جارہا ہو ں تا کہ آپکو رات کے سفر میں مشکل پیش نہ آئے ۔توابو جی کے ساتھ جانے پر ہم سب واپس جانے پر راضی ہو گئے۔ ابو جی اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر انکے وجو د سے وابستہ ایسی ہز اروں خو بصورت یا دیں ہیں ۔ یہ یا دیں زند گی میں انکی کمی کے احسا س کو اورزیا دہ شدید بنا دیتی ہیں "اللہ پاک میرے ابو کی مغفر ت فرما اور انکو جنت الفر دوس میں اعلیٰ درجات عطا کر نا ( آمین ثما آمین ) یہ الفا ظ کہتے ہوئے میں ایک دم خیا لا ت کی دنیا سے واپس آگئی اور اپنے دکھی دل کو بہلانے کے لئے ٹی وی کا سو ئچ آن کر دیا ۔ کافی دن گز ر چکے تھے۔ عظمیٰ کلر کہار شفٹ ہو چکی تھی۔ آج کافی دنو ں بعد اسکا فون آیا تو اس نے بھی اس خو بصو رت جگہ کی تعر یف کی اور کلر کہا ر آنے کی دعوت دی ۔ میں تو پہلے ہی منتظر تھی میں نے فو راً اسکی دعوت کو قبول کر لیااور شام کا انتظار کر نے لگی تاکہ میا ں دفتر سےگھر آئیں تو انکو کلر کہا ر جانے کے لئے تیا ر کر وں۔ عظمیٰ کے میاں میجر سے کرنل پر مو ٹ ہو چکے تھے۔ مبارک با د دینی تو بنتی تھی۔ وہ میاں صاحب کے بہت اچھے دوست بھی تھے۔ لہٰذا سب نے خوشی خوشی جانے کی تیا ر ی کی اور اگلے ویک اینڈ پر کلر کہا رجانے کا پروگرام بنالیا۔ میں اس سفر سے بہت خو ش اور جذ باتی ہو رہی تھی۔ آج میں تیس سال کے بعد دوبا رہ اس خو بصورت دادی میں جا رہی تھی۔ جہاں نیلی جھیل تھی۔ مو ر تھے سفید دربار تھا۔ ابو جی کے ساتھ گز ارے ہوئے وقت کی خو بصو رت یا دیں تھیں۔ آج میں ان ساری یا دوں کو تا زہ کر نے جا رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی تیس سال پہلے میں اپنے ابو ، امی اور بہن بھائیوں کےساتھ اس جگہ کو کتنا انجو ائے کیا تھا ۔ آج میرے بچے اپنے امی، ابو کے ساتھ جارہے ہیں ۔ آج میں اپنے بچو ں کو بچپن کی وہ ساری باتیں بتاؤ ںگی اور ساری یا د گا ر چیز یں دکھا ؤں گی ۔ میں نے اپنا سر سیٹ کے پچھلے حصہ پر ٹکا دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ بچپن کا سارا سفر آنکھو ں کے آگے پھر نے لگا اور میں اپنے بچپن میں واپس جاچکی تھی۔ گاڑی چلتی رہی، فاصلے کم ہو تے رہے اور منزل آگئی ۔ مگر میں بے خبر سو رہی تھی۔ ہائی وے سے اُتر کر جب گا ڑی مڑنے لگی تومیاںکی آواز نے مجھےجگا دیا۔ "بیگم اٹھ جا ؤ ، تمہا را کلر کہا ر آگیا "۔ چند منٹو ں کے بعد گا ڑی نیلی جھیل والی سٹرک پر آئی تو مجھےایک دم حیر ت کا جھٹکا لگا۔ یہ جھیل جو اب اپنی مو جو دہ شکل میں تھی یہ تیس سال پہلے والی اور شفا ف جھیل نہ رہی تھی ۔ پانی سے بھر ی ہوئی اور شفا ف جھیل نہ تھی ۔ جھیل کا پانی پہلے سے بہت کم ہو گیا تھا بلکہ ایک کنا رے کی طر ف اکھٹا ہو کر ایک بڑے اور گند ے تالا ب کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جھیل کے کنا روں پر درخت پو دے اور کائی اس حد تک جمع ہو چکی تھی کہ اس نے سٹر ک سے نظر آنے والی ساری جھیل کو اپنے پیچھے چھپا دیا تھا۔ درخت بہت بڑے اور پر انے ہو چکے تھے اور ایک گھنے جنگل کا منظر پیش کر چکے تھے۔ جنکےنظار ے میں کوئی حسن اور خوبی نہ تھی۔ میراپر یشان چہر ہ اور حیر ان نظریں وہ پرانی جھیل ڈھو نڈ رہی تھیں آج میں نے نہ تو گاڑی رکو ائی اورنہ ہی گاڑی سے با ہر نکل کر سٹر ک کے کنا رے کھڑے ہو کر جھیل کا نظا رہ کیا ۔ گا ڑی اب دوسری سٹرک پر مڑ گئی جہا ں آگے تھا نہ کلر کہا ر کی حد ود تھی۔ چھوٹی پہا ڑی پر چڑ ھتا ہوا تھا نے تک جانے کا راستہ اور تھا نے کی بلڈنگ میں سے اب کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ وقت کی دھو ل ، نئی تعمرات اور گھنے درختو ں نے ہر چیز چھپا دی تھی۔ شائد ہر چیز اپنی جگہ پر مو جو د تھی مگر میں پہچا ن ہی نہیں پا رہی تھی ۔ مجھےنہ وہ راستہ ملا اور نہ وہ بلڈ نگ جہا ں میرےپیا رے ابو جی رہا کر تے تھے۔ مجھےاپنے ابو کی کمی کا دکھ بہت شدت سے محسوس ہوا اور میرادل بجھ کر رہ گیا ۔ پرانے راستے اور سٹر کیں اب تبدیل ہو چکی تھیں۔ سفید دربار کس سڑک پر تھا ،مجھےکچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہاتھا ۔ گاڑی اب پہا ڑوں پر چڑھنے لگی ۔ 8سے 10 منٹ سفر کر نے کے بعد ہم کینٹ کی حد ود میں داخل ہوئے ۔ میرےدل پر اُداسی چھا چکی تھی۔ گا ڑی اب عظمی ٰکے گھر میں داخل ہو چکی تھی۔ اسکے گھر والے استقبال کیلئے باہر مو جو د تھے۔ سب نے پر تپاک استقبال کیا۔ بچے اور بڑے سب ایک دوسرے سے ملکر بہت خوش ہو رہے تھے۔ کھا نا کھایا ، پا رک میں گھو مے ، چھوٹا سا کینٹ گھوم پھر کر دیکھا اور خوب باتیں کیں۔باتیں کرتے کرتے پتہ ہی نہ چلا، وقت بہت اچھا گز ر گیا ۔اب رات بہت ہو چکی تھی ، میز بان اور مہما ن سب ہی تھک چکے تھے لہذ ا جلد ی سونے کیلئے چلے گئے۔ میں بستر پر لیٹی تو دن کے واقعات پھرآنکھو ں کے سامنے پھر نے لگے۔ میری نیند اڑ چکی تھی۔ کا فی دیر جاگنے کے بعد آخر میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ مگر رات کر وٹیں بدلتے ہی گز ری ۔ خلا ف عادت صبح بہت جلد آنکھ کھل گئی شائد نماز کے ٹائم سے بھی بہت پہلے۔ میرا دل اس بند کمرے اور اند ھیرے میں گبھر انے لگا۔ اس بیڈروم میں ایک دروازہ با ہر ٹیر س پر بھی کھل رہا تھا۔ میں اٹھی اور ٹیر س پر جا کر کھڑی ہوگئی ۔ باہر صبح کی ہلکی ہلکی روشنی ظاہر ہو رہی تھی۔ سٹریٹ لائٹس بھی آن تھیں۔ یہ کمر ہ جہا ں میں با ہر ٹیر س پر کھڑی تھی ایک گیسٹ ہا وُس تھا وہ پہاڑ کے اوپر بلندی پر تھا۔ کینٹ کا رہائشی علا قہ پہاڑ سے نیچے کھلے مید ان میں تھا ۔ اوراس بالکنی سے پورے کینٹ کا نظا رہ کیا جاسکتاتھا۔ میں بہت دیر تک کینٹ کی نظر آنے والی ہر چیز کا نظارہ کر تی رہی مگر مجھےکچھ بھی اچھا نہیں لگا۔ بلکہ دل میں یہ خیال آیا کہ ’’ یہاں تو پو را کا پو را کینٹ ہی ان بلند پہا ڑوں کی قید میں ہے‘‘َ۔ میرادل گھبر انے لگا اور میں نے فو راً ہا تھ بڑھا کر گیلری کی لائٹ آن کر نےکی کو شش کی ۔ روشنی ٹیر س اور کمر ے دونو ں کو روشن کر رہی تھی ۔ میاں صاحب بھی لائٹ آن ہو نے پر اُٹھ چکے تھے۔ مجھےٹیرس میں کھڑے دیکھ کر با ہرآگئے اور جاگنے کی وجہ پو چھی میں نے رات کی بے سکونی کی شکا یت کی اور وضو کیلئے باتھ روم میں گھس گئی نما ز فجر کے بعد ہم دونو ں ٹیر س پر آکھڑ ے ہوگئے ۔ میں اب بھی اداس ،خا مو ش اور پر یشان تھی۔ مجھےکچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔میں نے اپنے میاں سے کہا "ہم آج ہی واپس چلے جائیں گے۔ بلکہ آج صبح ہی نا شتے کے فوراًبعد"۔ میاں نے بڑی حیرت سے میری بات سنی اور بولے"مگر تمہیں تو بہت شوق تھا اپنی دوست سے ملنے کا ، کلر کہار دیکھنےکا اور تم تو دو دن رہنا چاہتی تھی"۔میں بولی "ہا ں مگر اب نہیں اب میر ا دل یہا ں بہت گھبر ا رہا ہے"۔ کل شام کو عظمیٰ اور خا ور بھائی سے با تیں کر تے ہوئے انہیں پتہ چلا تھاکہ یہاں کے تیتر اور بٹیر اب ختم ہو چکے ہیں ۔ نا یا ب نسل کے نیلے مو ر بھی ختم ہو چکے ہیں۔ مجھے ان خو بصورت جنگلی پر ند وں اور جا نو روں کی نسل کُشی کا سن کر بہت دکھ ہو ا۔ میں اپنی ماضی کی حسین یا دوں کو تازہ کر نے کےلئے یہا ں آئی تھی مگر اب یہاں کچھ بھی مو جو د نہ تھا۔ وقت کی دھول میں ہرچیز چھپ چکی تھی یاختم ہو چکی تھی اب میں خالی ہاتھ واپس جارہی تھی۔میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نا شتے کے بعد واپسی کا سفر کر تے ہوئے میں بالکل خا مو ش تھی۔ خشک اور ویر ان جھیل کے پاس سے گز رتے ہو ئے میری بیٹی نے میری آنکھو ں میں آنسو دیکھ لیے تھے۔ وہ بہت حیر ان ہو کر بولی "ما ما! آپ رو کیوں رہی ہیں"۔ میرے منہ سے بےاختیار نکلا: "کچھ نہیں بیٹا۔ شا ئدآپکے نا نا ابو سے ملنے آئی تھی مگر وہ نہیں ملے"۔ بیٹی کو ماں کا جواب سمجھ نہیں آیا۔ وہ حیرت سے ماں کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ میرےرُکے ہوئے آنسو آنکھو ں سے بہنے لگے اور انکو چھپانے کے لئے میں نے اپنا منہ کھڑکی کی طرف کر لیا اور باہر دیکھنے لگی ۔

SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: