Monday, July 12, 2021

وہ کون تھی؟

احمد کو حیدرآباد میں سروس جوائن کئے، چند ہفتے ہونے کو آئے تھے مگر ابھی تک کوئی ڈھنگ کا کرایہ کا گھر نہیں مل سکا تھا. جو گھر اسے پسند آتا اس کا کرایہ بہت زیادہ ہوتا. آخر کار شہر کے ایک پوش علاقے میں اسے ایک بڑی اچھی کوٹھی انتہائی مناسب کرائے پر مل گئی. سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ پوری کوٹھی فلی فرنشڈ تهی. احمد کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا. اس نے اپنے اماں، ابا پر زور دیا کہ وہ فورا اس کے پاس حیدرآباد آجائیں مگر بڑے بھائی کے گھر بڑے سالوں کے بعد خوشی متوقع تھی. اس لئے اماں نے ابھی فورا آنے سے انکار کردیا. احمد شام کو گھر جاتا تو اس کو بہت تنہائی محسوس ہوتی. پچھلے کچه دنوں سے احمد بیمار تها مگر نئی نوکری ہونے کے باعث روز کام پر پہنچتا آج اسے بخار بہت تیز تها اور گهر پہنچتے، پہنچتے بہت دیر ہوگئی. آج شام سے ہی بادل آئے ہوئے تھے. اچانک گرج چمک سے ژالہ باری شروع ہوگئی. گهر پہنچ کر ابھی اس نے کپڑے بدلے ہی تهے کہ بجلی چلی گئی. اندھیرے میں ٹکریں کهاتے بالآخر اس کو ایک موم بتی مل ہی گئی. ابھی اس نے کهانا شروع ہی کیا تھا اچانک اس کو محسوس ہوا کہ کوئی بہت ہولے سے دروازے پر دستک دے رہا تھا. اس نے آٹھ کر دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک خوبصورت خاتون تین بچیوں کے ساته کهڑی تهیں. احمد نے یہی اندازہ لگایا کہ شاید ان کی گاڑی اس موسم میں خراب ہوگئی ہے اور وہ مدد کے حصول کے لئے اس کے دروازے پر آئیں ہیں. احمد نے ان کو اندر آنے کا کہا. اس خاتون نے بہت عجیب سے انداز میں پوچھا کہ وہ کون ہے؟ احمد نے بڑے شائستہ انداز میں انهیں بتایا کہ وہ اس گھر میں کرائے پر رہتا ہے. احمد نے ان کو یہ بھی واضع کردیا کہ ابھی وہ فی الوقت اکیلا ہے. لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس خاتون نے اس کی بات ہی غور سے نہ سنی ہوں. خاتون اور ان کی بچیاں اندر آکر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئیں. خاتون نے احمد سے کہا کہ ان کے ڈرائیور کے آتے ہی وہ یہاں سے چلی جائیگی. احمد نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے کچه گهنٹے اس کے گھر گزارنے پر اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے. احمد کو وہ خاتون بڑی جانی پہچانی سی لگی. شاید انهوں نے آکر اس کی بڑی آپا اور اس کی شیطان بهانجیوں کی یاد دلا دی تھی. احمد نے یقین دہانی کے لئے ایک دفعہ پھر پوچھا :برا نہ منائیے تو میں آپ کو آپا بلا سکتا ہوں، آپ کا چہرہ مجھے بڑا دیکھا بهالا سا لگ رہا ہے "وہ خاتون پہلی دفعہ مسکرائی اور بولیں:"تم نے آج برے آنے والے وقت کو بڑی عقلمندی سے روک لیا ہے." احمد نے بے سمجهی سے بات کو سنا ان سنا کردیا. وقت گزارنے کے لیے احمد نے بچیوں سے گهلنے ملنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوا. خاتون نے احمد کو مخاطب کرکے کہا : "لگتا ہے آپ کو اپنی جان پیاری نہیں ہے. شاید آپ کو پتہ نہیں یہ کوٹھی آسیب زدہ ہے. یہاں پر رخشندہ اور اس کی تین بیٹیوں کی روحیں رہتی ہیں. " احمد یہی سمجھا کہ خاتون مداق کرکے اس کو بےوقوف بنارہی ہیں. اس نے بڑی ظرافت سے جواب دیا کہ میں ایک امن پسند شخص ہوں مجھے یقین ہے کہ میں اور روحیں اکٹھے ایک چھت کے نیچے رہ سکتے ہیں." خاتون نے پهر بڑے پراسرار انداز میں پهر احمد سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ یہاں پر رخشندہ نامی خاتون اور اس کی بیٹیوں کو یہاں بڑی بےدردی سے قتل کیا گیا تھا. احمد کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی اور اس کو اندازہ ہوا کہ وہ خاتون واقعی سنجیدہ تهیں. اس نے ہکلا کر جواب دیا کہ وہ اس حقیقت سے مکمل طور پر لاعلم تها کہ اس کوٹھی میں کوئی دردناک حادثہ ہوا تھا. اس نے خاتون کو بتایا کہ وہ تو یہی سمجھتا تھا کہ مالکان ملک سے باہر ہیں کیونکہ پراپرٹی ڈیلر نے اس کو یہی بتایا تھا . اس خاتون نے احمد کومخاطب کر کے کہا چلو میں تمہیں اس کوٹھی میں ہوئی درندگی کی کہانی سناتی ہوں.: رخشندہ ایک امیر ماں باپ کی اکلوتی خوبصورت اور پڑی لکھی اولاد تهی. اس کی ماں کا انتقال لڑکپن میں ہوگیا تھا. جب رخشندہ نے ایم اے کیا تو اس کے والد کو کینسر ہوگیا. مرنے سے پہلے انهوں نے ایک متوسط طبقے کے لڑکے سے جو ان کی ہی فیکٹری میں ملازم تھا اس سے رخشندہ کی شادی کردی. شادی کے کچه عرصے کے بعد اس کے والد کا انتقال ہوگیا. باپ کے مرنے کے بعد رخشندہ کو پتہ چلا کہ اس کے نہ صرف سسرال والے بلکہ اس کا میاں بهی انتہائی عیار اور تنگ نظر شخص ہے. آہستہ آہستہ سانپ نے کینچلی بدلنی شروع کی اور رخشندہ کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی. اسی دوران میں اللہ نے اسے تین بیٹیوں سے نوازا. اب تو ہر وقت کے طعنے اور مارپیٹ اس کا مقدر بن گئ تھی. ہر وقت اس کو بیٹا پیدا نہ کرنے کے منحوس ہونے کے طعنے دیئے جاتے. رخشندہ نے ایک دو دفعہ عزیز کو یہ کہنے کی غلطی کردی کہ وہ اس کو طلاق دے دے. اس کے بعد عزیز نے اس کو اتنا مارا کہ وہ ایک ہفتہ ہلنے کے قابل بھی نہ رہی. عزیز نے اس کو صاف الفاظ میں بتایا کہ اس کی حیثیت ایک سونا کا انڈا دینے والی مرغی کی سی ہے جس کو وہ زبح کرسکتا ہے مگر آزاد نہیں. رخشندہ کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ تین خوبصورت بیٹیوں کی ماں تھی، تیسری بچی کی پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگی کے نتیجے میں ڈاکٹر نے اس کی جان بچانے کے لیے ایسا طریقہ کار اختیار کیا تھا کہ وہ اب ماں بننے کے قابل نہیں رہی تھی. گهر آتے ساته ہی اس کو سب کے بدلے ہوئے تیور تو نظر آئے تهے مگر اس کو اس بات کا اندازہ نہ ہوا کہ وہ اس سے جان چھڑانے کے لیے بےچین تهے، پچھلے کچه دنوں سے عزیز کا رویہ اس کی طرف اور بچیوں کی طرف بہتر ہوگیا تھا. وہ بھی خوش تهی کہ اللہ نے اس کی سن لی. ایک دن عزیز اس کی اور بچیوں کی اپنی سب کی انشورنس پالیسی کے کاغذات لایا اور بڑے دلار سے رخشندہ سے دستخط کروالئے. ایک رات وہ بچیوں کے ساته سوئی تو اس نے محسوس کیا کہ کسی نے ان کے دروازے کو باہر سے بند کر دیا ہے. وہ پاگلوں کی طرح دروازہ پیٹتی رہی مگر سوئ گیس اس کے کمرے میں بهرتی گئی اور آخر کار کاربن مونو آکسائیڈ پوائزننگ سے ان سب کی موت ہوگئی. عزیز اور اس کے گھر والے صبح مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہے اور پورا کاروبار، گھر اور پانچ کروڑ کی انشورنس کے کلیم کے مالک بن گئے. مگر یہ پیسہ ان کو استعمال کرنا نصیب نہ ہوا. عزیز کے والدین سوتے میں گیس کا ہیٹر کهلا ره جانے سے ٹھیک رخشندہ اور اس کی بیٹیوں کی طرح مرے. عزیز کی ریڑھ کی ہڈی ایک ایکسیڈنٹ میں ٹوٹ گئی اب وہ بستر پر اپنے دن پورے کررہا ہے. احمد نے ایک جھرجھری سی لے کر استغفار پڑھی. اچانک ہی وہ خاتون اٹھ کهڑی ہوئیں. احمد نے نکلتے نکلتے اس سے پوچھا "سنئے آپ کو اس واقعہ کی تفصیلات کا علم کیسے ہوا؟ " وہ پیچھے مڑ کر مسکرائی اور بولی "تم ہی بتاؤ اتنی تفصیلات کسے پتہ ہوسکتی ہیں؟" تم نے مجھے دل سے آپا بلایا ہے اس لیے تمہیں زندہ سلامت چهوڑ کر جارہی ہوں." احمد کے رگ و پے میں سنسنی سی دوڑ گئی اب اسے سمجھ آیا کہ وہ خاتون اسے اتنی جانی پہچانی سی کیوں محسوس ہورہی تهیں کیونکہ ماسٹر بیڈروم میں ان کا اور ان پیاری بچیوں کا پوٹریٹ ہی تو لگا ہوا تھا. زندگی میں پہلی بار اس کو روحوں کے وجود پر یقین آیا. اگلی صبح اس نے سب سے پہلے گھر خالی کیا اور قبرستان جاکر رخشندہ اور اس کی بچیوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی. یہ سارا قصہ اس کے بخار سے دہکتے دماغ کی کارستانی تهی یا حقیقت وہ آج بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے.

SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: