Monday, July 12, 2021

واپسی ایک سچی کہانی


The Privilege of an Evening Walk | Blog | Think Theology


سڑک کنارے رش لگا تھا بوڑھے جوان بچے سب کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھی کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی کوئی کہہ رہا تھا اسکو پولیس کے حوالے کردو کوئی اسکو باندھ کر مارنے پر اصرار کر رہا تھا۔ جو راہگیر وہاں سے گذر رہا تھا وہ رک کر ضرور پوچھتا اور ان میں سے کچھ اس پکڑے گئے شخص پر ہاتھ صاف بھی کردیتے وہ ہجوم سے مار کھا کھا کر ادھموا ہو چکا تھا جمال بھی اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑے تماشہ دیکھ رہا تھا ایک شخص نے جمال سے پوچھا بیتا کیا ہوا ہے یہ سب کیوں مار رہے ہیں ایک آدمی کو؟ جمال جو سمجھدار تھا اور معاملہ سمجھ چکا تھا بتانے لگا کے یہ بچوں کو اغوا کرنے والا ہے ایک چھوٹے بچے کو لیکر جارہا تھا اس بچے کے بھائی نے دیکھ لیا اور شور مچایا تو لوگ اکھٹے ہو گئے اسطرح بچہ اغوا ہونے سے بچ گیا اقبال بہت غور سے بڑے بھائی کی باتیں سن رہاتھا۔۔۔۔ اس دوران پولیس کے سپاہی وہاں پہنچ گئئے پولیس کو دیکھتے ہی مجمع چھنٹنے لگا لوگ ایک ایک کر کے کنارے ہونے لگے جمال نے بھی وہاں سے نکلنا مناسب سمجھا اقبال نے اپنے بھائی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا اس کا ننھا ذہن یہ سوچ رہا تھا کے اس بچے کا بڑا بھائی نہیں دیکھتا اور بچہ اگر اغوا ہو جاتا تو پھر کیا ہوتا رات بستر پر لیٹے لیٹے اقبال نے بڑے بھائی سے سوال کیا ۔۔۔۔۔ بھائی آپ بھی مجھے کھونے نہیں دئیں گے ناں؟؟؟؟ مجھے گم ہونے سے بہت ڈر لگتا ہے جمال کو دن کا واقعہ یاد آگیا اس نے مسکراتے ہوئے کہاکبھی بھی نہیں میرے بھائی۔۔۔ ان دونوں کی عمر میں میں 7 سال کا فرق تھا جمال 13 سال کا تھا جب کے اقبال کی عمر 6برس تھی ان کے والد سلطان احمد4 سال قبل گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے انتقال کر چکے تھے شوہر کے انتقال کے بعد ساری ذمہ داری بلقیس بیگم نے سنبھال لی تھی جو سینا پرونا کر کے گھر کا خرچہ پورا کرتی تھیں ایک مکان تھا جس کے دو حصے کر رکھے تھے ایک حصہ کرائے پردے دیا تھا اورخود دونوں بیٹوں کے ساتھ نسبتا چھوٹے پورشن میں گذارہ کر رہی تھیں۔۔۔ جس وقت اقبال اور جمال بات کر رہے تھے وہ سب سن رہی تھیں مگر اس وقت کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا بلقیس بیگم نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی پہلو تہی نہیں کرتی تھیں وہ بچوں کو قران پاک کی تعلیم خود ددیتی تھیں اس کے علاوہ اسکول کے ہوم ورک اپنے سامنے کرواتی تھیں حالانکہ اسکول کی شکل انھوں نے نہیں دیکھی تھی مگر گھر میں جو بنیادی تعلیم حاصل کی تھی وہ ان کے کام آرہی تھی۔۔۔۔ اگلے دن بلقیس بیگم نے اقبال سے پوچھا رات بھائی سے کیا کہہ رہے تھے اقبال نے ساری داستان ماں کو سنا دی بلقیس بیگم کو یاد آیا کے پچھلے سال جب وہ اقبال اور جمال کے ہمراہ صدر عید کی خریداری کے لئیے گئی تھیں تو ایک جگہ اقبال اچانک غائب ہو گیا تھا ہوا کچھ یوں تھا کہ کپڑا دیکھتے ہوئے وہ اتنا محو ہوئیں کہ کب اقبال ان کا ہاتھ چھڑا کر آگے نکل گیا انکو پتہ ہی نہیں چلا جمال سمجھتا رہا اقبال ماں کے پاس ہے اور ماں سمجھتی رہی کے جمال اور اقبال ساتھ ہی ہوں گے جب ہوش آیا تو اقبال کی تلاش شروع ہوئی بلقیس بیگم کا گھبراہٹ کے مارے برا حال تھا مگر چند منٹوں کے بعد جمال اقبال کو ڈحونڈ لایا اقبال صاحب ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نکل پڑے اور دوسری گلی تک جا پہینچے جب دیکھا ما ں اور بھائی نہیں ہیں تو رونا شروع کردیا ایک بھلے آدمی نے گود میں اٹھایا اور سامنے دکان کے قریب رکھے اسٹول پر بٹھا دیا اسی دوران جمال وہاں پہنچ گیا یوں اقبال میا ں خیر سے ماں کے پاس پہنچا دئیے گئے، بلقیس بیگم سمجھ گئیں وہ چند لمحات اقبال کے ذہن میں نقش ہو گئے ہیں جب ہی کل جو واقعہ اس کے مشاہدے میں آیا تو وہ اس قدر خوف ذدہ ہوگیا بلقیس بیگم نے اقبال کو گلے سے لگایا اور اسکو سمجھانے لگیں کچھ دیر بعد اقبال مطمئن ہو کر صحن میں کھیلنے میں مشغول ہو گیا وقت تیزی سے گذرتا رہا ان دنوں جمال ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کررہا تھا جو کافی مناسب تھی مگر جمال کو باہر جانے کی دھن سوار ہوگئی اس نے ماں کو راضی کرنا شروع کر دیا بلقیس بیگم بمشکل راضی ہوئیں مگر شرط یہ رکھی کے جب شادی ہو جائے گی تب ہی وہ اسے باہر جانے کی اجازت دیں گی جمال فورا مان گیا پھر بلقیس بیگم نے اس کے لئیے لڑکی ڈھونڈ لی جمال کو بھی ناہید بہت پسند آئی یوں جھٹ پٹ شادی ہوگئی گھر میں رونق آگئی اقبال بھی بھابی کے آجانے سے بہت خوش تھا اب جمال نے باہر جانے والی پلاننگ پر زور و شور سے کام شروع کر دیا قسمت نے ساتھ دیا سعودی عرب کی ایک فرم میں اسکی نوکری ہو گئی جب جمال نے سعودی عرب کے لٗیے اڑان بھری تو دونوں ماں بیٹااور جمال کی بیوی اس کو رخصت کرنے ائیرپورٹ گئے اقبال پہلی مرتبہ ایر پورٹ گیا تھا اسے یہاں کا ماحول بہت متاثر کر رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ کتنا مزہ آتا ہوگا جہاز پر سفر کرنے میں اس نے تہیہ کر لیا کے اک دن وہ بھی جہاز پر بیٹھ کر بیرون ملک جاٗئے گا جمال کی محنت رنگ لانے لگی پیسے آنے شروع ہوئے تو بلقیس بیگم نے اوپر کی منزل تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر لی اسی طرح ۲ سال گزر گئے جمال پاکستان چھٹیوں پر آیاتو ماں اور بھائی بہت خوش تھے وہاں کے قصے حج اور عمرے کی داستان سن سن کر بلقیس بیگم کی آنکھیں بھر آتیں ان کے دل میں بھی مکہ مدینہ دیکھنے کی خواہش سر اٹھانے لگتی جمال نے جتنا کمایا تھا سب جمع تھا بلقیس نے جمال کو اوپر کی منزل تعمیر کرنے کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو جمال نے اس تجویز کو بہت پسند کیا اور کہا آپ ٹھیکے دار کو بلوا کے اسٹیمٹ لیں کرنے کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو جمال نے اس تجویز کو بہت پسند کیا اور کہا آپ ٹھیکے دار کو بلوا کے اسٹیمٹ لیں اسی دوران ایک دن جب جمال نے واپس جانے کا اعلان تو ماں اور بیوی رونے لگیں مگر جمال کے پاس مزید ۲ سال کا کنٹریکٹ موجود تھا اور ابھی اوپر کی منزل کی تعمیر باقی تھی جمال نے کسی طور ماں اور بیوی کو راضی کر ہی لیا اور عازم سفر ہوا بھائی کے جانے کے بعد اقبال کچھ دن بولایا بولایا رہا اسے بھائی کی کمی اس دفعہ ذیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے چلے گئے اقبال نے بھاگ دوڑ کر کے گھر پر فون لگوا ہی لیا ان دنوں فون کا کنکشن لگوانا بہت ہی مشکل ہوا کرتا تھا جمال نیپہلی بار سعودی عرب جانے سے پہلے درخواست دی تھی اور جب تک پاکستان رہا باقاعدگی سے ٹیلیفون ایکسچینج جا کر معلومات کرتا رہا جاتے وقت اقبال کو تاکید کر کے گیا کہاس سلسلے میں اپنی کوششیں کرتے رہنا گھر میں فون لگا تو اب جمال سے بات چیت میں آسانی ہو گئی وقت پر لگا کر اڑتا رہا اپریل1982 کی ایک شام اقبال کی ذندگی میں نگہت آگئی بلقیس بیگم اپنی پسند کی بہو بیاہ لائیں گویا گھر میں بہار آگئی ساس بہو میں خوب بننے لگی اقبال میاں بھی خوب خوش تھے بیوی ان کو بہت پسند آئیں تو گھرمیں دل بھی لگنے لگاخوب گذر رہی تھی اور اچھی بھلی گذر رہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن اقبال کی ملاقات اپنے پرانے دوست ناصر سے ہوئی باتوں باتوں میں اس نے بتایا کے وہ اپنی قسمت آزمانے ملائیشیا جانا چایتا ہے تو یہ سن کر اقبال کا دل بھی نئی دنیا دیکھنے کے لئیے مچلنے لگا۔ اس نے دوست ناصرسے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے کہا دونوں ملائیشین قونصل آفس چل کر معلومات کرتے ہیں اگلے دن دونوں گورنر ہاوس کے قریب واقع ملائیشین قونصل آفس جا پہینچے مگر یہ جان کر شدید مایوسی کا شکار ہوئے کے آفس کسی وجہ سے ۲ دن کے لئیے وزیٹرز کے لئیے بند ہے وہ مایوس ہوکر جانے کے لیے پلٹے ہی تھے ایک چالیس پینتالیس سالہ شخص نے ان کو آوز دی اور ان سے پوچھا کے وہ کیوں آئے تھے ان کی بات سننے کے بعد اس شخص نے کہا یہ مسلۂ سمجھوحل ہو گیا ٓآ جاو میرے ساتھ وہ دونوں اس شخص کے پیچھے چل پڑے وہ ان دونوں کو لے قریب واقع ایرانی ہوٹل پر لے گیا چائے کا آرڈر کرنے کے بعد اس نے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا میرا نام شریف الدین ہے میں ایک ایجنٹ ہوں تم لوگ ملائیشیا نوکری کرنے جانا چاہتے ہوقونصل آفس سے اس کی اجازت نہیں ملے گی وہاں سے آپ کو وزٹ ویزا ہی ملے گا جو زیادہ سے زیادہ ۳ مہینے کے لئیے ہوگا ہاں گھومنے پھرنے کے لئیے جانا ہے تو ٹھیک ہے نہیں نہیں ہم کو تو وہاں نوکری کرنی ہے دونوں نے بیک وقت جواب دیا تو یہ مدد میں تمہاری کر سکتا ہوں کے تم کو یہیں گھر بیٹھے ورک پرمٹ او ر ویزا بھی مل جائے ملائیشیا کا۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں اور کیا چاہیے ناصر نے کہا اقبال نے اس شخص سے پوچھا کے اس کام میں کل کتنا خرچہ آئے گا؟ وہ شخص کچھ لمحے خاموش رہا جیسے حساب لگا رہا ہو پھرایک گہری سانس لیکر بولا تم دونوں کا ٹکٹ کا خرچہ چھ ہزار آئے گا اور ورک پرمٹ اور ورک ویزا اور پرمٹ پرفی آدمی؎ تقریبا دس ہزار خرچہ آئے گا دونوں اتنی بڑی رقم کا سن کر چپ ہوگئے وہ دونوں کا چہرہ غور سے دیکھتا رہا اور بولا سوچ لو میں کل اسی وقت اسی ہوٹل پر مل سکتا ہوں اگر دل مطمین ہو تو پانچ ہزار لے آنا ٹوکن کے لئیے باقی پیسے ویزا اور ورک پرمٹ ملنے کے بعد دے دینا بس میں تم لوگوں کے لئے اتنا کر سکتا ہوں یہ کہتا ہوا وہ ہ اٹھ کھڑا ہوا وہ دونوں بھی اٹھ گئے ہاتھ ملا کر جب دونوں آگے بڑھے تو اس نے آواز دی کے اگر کل آنا ہو تو پاسپورٹ ساتھ لیکر آنا ایک ہفتے میں ویزہ لگوا دوں گا وہ تو چلا گیا اب دونوں دوست بھی ہوٹل سے باہر آگئے اور پیدل ہی صدر کی طرف روانہ ہو گئے تم کیا کہتے ہو ناصر یہ کوئی دھوکہ تو نہیں دے گا اقبال نے پوچھا؟ بھائی کل تو صرف 5000 ہی دینے ہیں نا اگر اس نے ویزا نا لگوایا تو نقصان 5000 کا ہی ہوگا چانس لیکر دیکھتے ہیں اقبال نے اثبات میں سر ہلا دیا اقبال اور ناصر اگلے دن وقت پر وہاں پہنچ گئے مگر شر یف الدین وہاں موجود نہیں تھا وہ اس کا انتظار کرنے لگے کچھ ہی دیر میں وہ آگیا ادہر ادہر دیکھنے کے بعد سیدھا ان کی طرف ہی آیا ہاتھ کے اشارے سے بیرے کو بلایا چائے کا آرڈر دیا اور ایک ہی سانس میں پانی کا گلاس گھونٹ کر دونوں سے مخاطب ہو ا خوشی ہوئی تم لوگوں نے مناسب فیصلہ کیا لاو پاسپورٹ دو اس نے پاسپورٹ کو کھول کر جائزہ لیا اور بولا اس کی فوٹو کاپی کروانی ہوگی میں اس پر اپنے دستخط کر کے دوں گا کہ اوریجنل پاسپورٹ میرے پاس ہیں ناصر فوٹو کاپی کروانے چلا گیا اس دوران چائے آگئی اقبال اور شریف الدین خاموشی سے چائے کی چسکیاں لینے لگے دن بعد ناصر اور اقبال قونصل آفس پہنچے تا کہ معلومات کر سکیں کے ملائشیا کا ورک ویزا مل سکتا ہے کہ نہیں شریف الدین کی بات درست ثابت ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ صرف وزٹ ویزا ہی اپلائی کیا جا سکتا ہے ورک ویزا صرف پرنسپل کمپنی کے ایجنٹ کے ذریع ہی ملنا ممکن ہے ان معلومات سے دونوں کو خاصا اطمینان ہوا کہ شریف الدین کی ساری باتیں بالکل درست ثابت ہوئیں دن گزارنا اب اقبال اور ناصر کے لئیے بہت مشکل ہو رہا تھا اس دوران اقبال نے اپنی امی اور سعودیہ میں موجود بھائی کو مکمل اعتماد میں لے لیا تھا بلقیس بیگم بیٹے کی خواہش کے آگے سرنڈر کر گئیں مگر نگہت نے رونا دھونا مچا دیا اقبال نے بہت اچھی طرح اس معاملے کو بیگم کے آگے رکھا اور خوب تسلیاں دئیں مستقبل کے حسین خواب دکھائے دل سے تو وہ پھر بھی خوش نا تھیں بحرحال میاں جی کی خواہش کے احترام میں خاموش ہو گئیں اگلے ہفتے وہ دونوں اسی مخصوص ہوٹل میں دھڑکتے دلوں کے ساتھ شریف الدین کے انتظار میں بیٹھے تھے کچھ دیر انتظار کے بعد شریف الدین وہاں پہنچ گیا دونوں سے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور بیٹتھے ہی بولا آج تو خالی چائے نہیں چلے گی ساتھ سموسے بھی منگواتے ہیں بیرے کو آرڈر دینے کے بعد اس نے بیگ میں سے دونوں کے پاسپورٹ نکالے اوران دونوں کو ویزا اسٹیمپ دکھا کر بولا چلو بھئی میرے پیسے نکالو ۔۔۔۔ دونوں کی جانب سے دی گئی رقم کو گن لینے کے بعد اس نے پاسپورٹ دونوں کے حوالے کر دیا غور سے دیکھ اچحی طرح جانچ پڑتال کرلو کام ایسا کروایا ہے جو کوئی کروا ہی نہیں سکتا تھا گو کہ اس کام میں بچت اتنی نہیں ہوئی مگر خیر ہے پھر کما لیں گے دونوں نے پاسپورٹ پر لگی مہر کو دیکھا اور ان کے دل مسرت سے جھوم اٹھے تم لوگوں کے پاس ایک مہینہ ہے تیاری کرلو اگلے مہینے کی ۵ کو تمہاری فلائٹ ہے یہ لو اپنے ٹکٹ دونوں نے بیتابی سے ٹکٹ کو دیکھنا شروع کیا اور یہ ہے ورک پرمٹ جس کے لئیے میں نے بہت محنت کی ہے اس کے بعد تم لوگ قانونی طور پر وہاں نوکری کر سکو گے۔ جب تم کوالا لامپور ایرپورٹ اترو گے وہاں تم کو میرا ایجنٹ ملے گا جو ایک انڈین ہے بابو راج اس کا نام ہے وہ تم دونوں کو دوسرے شہر لے کر جائے گا جہاں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں تم لوگوں کی ملازمت ہو گئی ہے۔ اس نے تنخواہ اور دیگر مراعات بتائیں تو دونوں خوش ہوگئے آخر کا ر وہ دن آگیا یہ جون 1982 کی صبح تھی جب اقبال نے اپنی ماں اور چند ماہ کی دلہن کو چھوڑ کر ملائیشیا کی اڑان بھرلی دونوں دوست کوالالامپور ائیر پورٹ پر بابو راج کا انتظار کر رہے تھے ایک بہت ہی منحوس شکل والے شخص نے ان کے قریب آکر اپنا تعارف بابو راج کے نام سے کر وایا اور ان دونوں سے مخاطب ہو کہا چلو بس فورا نکلنا ہے راستہ لمبا ہے یہ ایک انتہائی پرانے ماڈل کی پک اپ تھی اس میں سفر کرنا آسان نا تھا اقبال گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کے بابو راج نے آواز دی تم دونوں الگ الگ گاڑی میں جاوگے تم میرے ساتھ اور یہ مورکھ گھنٹا لعل کے ساتھ جائے گا میری گاڑی میں سامان ہے زیادہ بندہ بٹھایا تو گاڑی چلے گا نہیں کھڑا ہو جائے گا کدھر بھی۔۔۔۔۔ سامنے سے ایک کھٹار ا سی کار میں دوسرا آدمی آیا جو کہ بابو راج سے بھی ذیادہ منحوس لگ رہا تھا ناصر اس گاڑی میں سوار ہو گیا راستہ طویل تھا اور دونوں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی طویل قطاریں ناریل کے درختوں کی سڑک کے دونوں جانب نظر آرہی تھیں گاڑی جس رفتار سے چل رہی تھی اقبال کو شدید کوفت ہو رہی تھی وہ مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا رہا مگر وہ دوسری کار اس کو نظر نہیں آئی اس نے بابو راج سے پوچھا وہ گاڑی نظر نہیں آرہی بابو راج مسکرا کر بولا میری اسپیڈ کو پکڑ نہیں سکتا گھنٹا لعل ۲ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد وہ ایک پرانی سی عمارت میں داخل ہوئے جہاں کی بوسیدہ دیواریں اقبال کو بالکل پسند نہیں آئیں اندھیرا ہر طرف پھیل چکا تھا انتہائی مدہم روشنی سے ماحول پاسرار سا لگ رہا تھا بابو راج اسکو لئیے ہوئے ایک کمرہ میں داخل ہوا یہ ایک نسبتا بہتر کمرہ تھا چلو چھوکرے اپنا سامان ادہر رکھو منہ ہاتھ دھو لو تم کو ادہر ہی رہنا ہے صبح کام پر لے جاوں گا اور میرا دوست کہاں ہے ابھی تک پہنچا نہیں وہ ادہر نہیں آئے گا اسکا ٹھکانہ دوسری جگہ ہے کام پر ملاقات کر لینا صبح بس ابھی روٹی پانی کرو اور سوجاو اقبال نے مایوسی کا اظار کیا اکیلے رہنا اس کے بس کی بات نا تھی کھانے پر بیٹھا تو کھانا دیکھ کر اس کی بھوک ہی اڑ گئی کچھ عجیب سا سا لن تھا جس کی نا ہی شکل اچھی تھی نا ہی خوشبو اسکو اپنی ماں اور بیوی کے ہاتھ کے کھانے ان کی خوشبو یاد آگئی دل اداس ہو گیا اقبال نے اس بد ذائقہ کھانے کے دو چار نوالے زہر مار کئیے اور پانی پی کر کمرے سے باہر آگیا مگر باہر ہر طرف سناٹے کا راج تھا وہ گھبرا کر واپس کمرے کی جانب مڑ گیا بستر پر لیٹ کر اس نے کروٹ لی تو اسکی نظر سامنے کھڑکی پر پڑی تو اس کو لگا کوئی جھانک رہا ہے اقبال نے کانپتی آواز سے پوچھا کون ہے؟ جواب تو نہیں آیا مگر وہ سایہ غائب ہو گیا نیند اسکی آنکوں سے غائب تھی کروٹیں لیتا رہا نا جانے کب اسکی آنکھ لگی صبح اسی منحوس بابو راج کی آواز سے وہ اٹھ بیٹھا وہ شورمچا رہا تھا ناشتہ کرو اور تیار ہو جاو کام پر جانا ہے سیٹھ انتظار کر رہا ہو گا ناشتے کے نام پر دو ٹکڑے روٹی کے اور ایک کپ کالی چائے دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا اس نے انتہائیناگواری کے ساتھ ناشتہ زہر مار کیا جیسے ہی بابو راج اس کو نظر آیا اس نے ناشتے کے بارے میں شکائیت کی تو بابو راج بولا میں تو نوکر ہوں ابھی سیٹھ کے پاس جارہے ہو ادہر اسکو دینا اپنا کمپلین۔۔۔۔۔۔ کوئی گھنٹے بھر بابو راج کی کھٹارا میں سفر کے بعد ایک بہت بڑے کھیت کے قریب جا کر بابو راج نے انجن بند کر دیا اقبال نے پوچھا کیا ہوا بابو راج گاڑی کیوں روک دی؟ ارے روکوں نہیں توکیا ہندوستان لے جاوں؟ ارے سیٹھ سے نہیں ملنا؟ حیرت سے اقبال کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کنسٹرکشن کمپنی کا سیٹھ ادہر کھیت کھلیانوں میں؟؟؟؟ بابو راج قہقہ مار کر بولا ارے سالا تیرے کو بھی یہیچ گولی دیا؟ اتنے میں کھیتوں میں سے ۳ لوگ برآمدہوئے اور اسی طرف آنے لگے او چھوکرے سیٹھ آ رہاہے اس کے سامنے منہ بند رکھنا چند لمحوں بعد ایک ملائیشین اپنے ۲ چمچوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور اقبال کو غور سے دیکھنے کے بعد بولا 10 رنگٹ کھانا پینا رہائش ملے گی ادہر کھیتوں میں کام کرنا ہوگا سورج نکلنے سے کام شروع ہوگا سورج ڈوبنے پر کام ختم اقبال نے سیٹھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا میں اتنے پیسے خرچ کر کے اتناپڑھ لکھ کر ادہر کھیتوں میں کام کرنے نہیں آیا میں کبھی یہ کام نہیں کروں گا اس سے بہتر ہے میں واپس چلا جاوں اور اپنے ملک میں کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر کیبھی میں ذیادہ کما سکتا ہوں اور میرا دوست ناصر کہاں ہے؟ کون ناصر؟ سیٹھ نے بابو راج سے مخاطب ہو کر پوچھا سیٹھ اس چھوکرے کے ساتھ آیا تھا ادہر، ابھی گھنٹا لعل کے پاس ہے۔۔۔۔ چل چھوکرے لگ جا کام پر بابو راج بولا تو اقبال نے غصے سے بابو راج کی طرف دیکھا اور کہا مجھے نہیں کرنا یہ کام میں واپس جاوں گا بابو راج زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولا اچھا تو پھر تم پاکستان واپس جانا چاہتے ہو؟؟؟ اقبال نے بابو راج کی طرف گھورتے ہوئے بولا ہاں ہاں میں کل ہی واپس چلا جاوں گا۔۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے سیٹھ ہم جاتے ہیں چھوکرے کو پاکستان واپس جانا ہے نا تیاری کرے گا سیٹھ نے مڑتے ہوئے غور سے اقبال کی طرف دیکھا پھر واپس چل دیا۔۔ سارے راستے اقبال غصے میں رہا وہ آنے والے وقت سے بے خبر تھا۔۔۔۔۔۔ وہ بے خبر تھا کہ وہ ان جرائم پیشہ بعدمعاشوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے دوسری طرف ناصر خوش قسمت رہا جب وہ گھنٹا لعل کے ساتھ سفر کر رہا تھاایک جگہ پولیس نے روکا پردیسی کو دیکھ کر پولیس آفیسر نے پاسپورٹ اور کاغذات مانگے ناصر نے پولیس والے کو کاغذات دے دئیے آفیسر نے ورک پرمٹ کو دیکھ کر ناصر سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا یہ کیا ہے؟ ناصر بولا ورک پرمٹ ہے جناب کہاں سے ملا یہ؟ آپ کو ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا پڑے گا اب تو گھنٹا لعل کے ہاتھ پاوں پھول گئے اسنے ملائیشین ذبان میں پولیس آفیسر سے بولا صاحب ہمارا تو اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں میں جاوں؟ کچھ دیر بعد Kelana Jayaپولیس اسٹیشن پر ناصر کو پہنچا دیا گیا اور اس سے ملنے والے ورک پرمٹ پر تفتیش شروع کر دی گئی ناصر نے پوری داستان انگریزی میں سنانا شروع کردی پولیس آفیرجسکا نام احمدالمہدی تھا اس دوران خاموشی سے سنتا رہا اس کی نظریں ناصر پر مرکوز تھیں ناصر صاحب آپ کے ساتھ فراڈ ہوا ہے میرے ملک کا ورک پرمٹ اس طرح نہیں ملتا اور آپ کا وزٹ ویزا ہے 30 دنوں کا بس اس کے بعد آپ کو جانا ہوگا اس دوران آپ کوئی جاب نہیں کر سکتے احمد المہدی نے مختصر الفاظ میں ناصرکے سامنے سب کچھ عیاں کر دیا۔۔۔۔۔ ناصرسر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ سر میرادوست اقبال پتہ نہیں کہاں ہوگا کسحالمیں ہوگا اسکو تو ہم ڈحونڈ لیں گے ادہر اقبال کے بیگ سے پاسپورٹ اور دوسری تمام دستاویزات غائب تھیں اقبال کو یاد آیا کہ کل رات اسکو ایک سایہ کھڑکی پر نظر آیا تھا وہ یقینا پاسپورٹ چوری کرنے آیا تھا۔ اب تو اس کے ہاتھ پاوں پھول گئے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے اقبال نے بابو راج کا انتظار نہیں کیا وہ دندناتا ہو بابو راج کے پاس پہینچا بابو راج ایک تخت پر براجمان تھا اسکے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ تھی آو چھوکرے کب جا رہا ہے پاکستان؟ میرا پاسپورٹ کہاں ہے؟ اقبال نے غصے بھرے لہجے میں سوال کیا ۔۔۔۔۔ تو نے رکھوایا تھا میرے پاس؟؟؟؟ بابو راج نے جواب دیا پھر کچھ دیر بعد اس نے اقبال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا بیٹا وہ سیٹھ کے پاس ہے اب تو سیٹھ کے رحم وکرم پر ہے مزدوری تو تم کو کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس رات اقبال کو نیند نہیں آرہی تھی کروٹیں بدلتا رہا مگر برے خیالات تھے کہ امڈے چلے آرہے تھے۔۔۔۔۔۔ اس نے طے کر لیا کہ موقعے کی تلاش میں رہے گا اور جیسے ہی موقعہ ملا بھاگ جائے گا یہاں سے مگر اس سے پہلے اسکو اپنا پاسپورٹ حاصل کرنا ہو گا اگلے دن وہ کھیتوں پر موجود تھا سیٹھ نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا جلد ہی اسکو بتا دیا گیا کہ فی الحال اس کا کام پانی لگانا ہے۔۔۔۔۔ اسی طرح دن گزرتے گئے اقبال سارا دن سبزی اور پھلوں کے کھیتوں پر مشقت کرتا اور رات میں پڑ کر سو جاتا مگر اس کے ذہن میں ہر وقت یہاں سے فرار کی پلاننگ چلتی رہتی تھیں دوسری طرف ناصر نے اقبال کی معلومات لینے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکا بالاآخراس کو ہر حالت میں ملایشین سر زمین چھوڑنی تھی۔۔۔۔۔ اس کا ٹکٹ کنفرم ہو چکا تحا مگر اس کا دل اداس تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اقبال کے بغیر پاکستان گیا تو اس کے گھر والوں کو کیا بتائے گا ان کا سامنا کیسے کرے گا؟ اس دورران وہ متعدد بار پولیس اسٹیشن جا کر معلومات کرچکا تھا مگر وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر تھے بس اتنا پتہ چل سکا تھا کہ اقبال شائد انسانی اسمگلروں یا بیگار کروانے والوں کے ہتھے لگ گیاہے۔۔۔۔۔ مگر کوئی ٹھوس ثبوت یا سراغ پولیس کے ہاتھ نہیں لگ سکا تھا۔۔۔۔ بالا آخر وہ دن بھی آگیا جب وہ کراچی واپس پہنچ گیا کئی دنوں تک وہ گھر میں قید رہا اس کے والدین اس کی واپسی پر خوش تھے مگر سا تھ ہی اقبال کا سن کر پریشان بھی ہو رہے تھے بالاخر اس نے بڑی ہمت کر کے اقبال کے گھر جانے کا فیصلہ کیا جمال پاکستان آیا ہو تھا ناصر کو دیکھ کر حیران ہو ا مگر جلد ہی حیرانی پریشانی میں بدل گئی ساری بات سننے کے بعد جمال نے اماں اور نگہت کو بھی اس مسلئے سے آگاہ کیا بلقیس بیگم تو مضبوط اعصاب کی مالک تھیں لیکن پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھی اور نگہت تو خبر سنتے ہی سفید پڑ گئی اس کے ہاتھ پاوں سے لگتا تھا جان ہی نکل گئی جمال ناصر کے ہمراہ کئی دنوں تک کونسلیٹ آفس اور اس چائے کے ہوٹل جاتا رہا کے اس دھوکے باز شخص شریف الدین کا اتا پتا چل سکے مگر ایسا لگتا تھا کے اس کو زمین کھا گئی ہو یا آسمان نے نگل لیا ہو وہ دونوں کئی ماہ تک وہاں چکر لگاتے رہے پولیس رپورٹ بھی کروادی مگر سب لاحاصل رہا۔ دوسری طرف اقبال کھیتوں میں کام کرتا رہا اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے پاوں سوج جاتے تھے مگر رحم نام کی کوئی چیز ان کے دلوں میں موجود نہیں تھی بدزائقہ کھانا اقبال کے حلق سے نہیں اترتا تھا بس زندہ رہنے کے لئیے زہر مار کرنا پڑتا تھا۔۔۔۔ دن گزرتے چلے گئے ہفتے مہینوں میں بدلے اور مہینے سال میں اب تک اقبال پاسپورٹ کا سراغ لگانے میں ناکام رہا تھا لہذا اب اس نے سوچا کہ بنا پاسپورٹ ہی وہ یہاں سے فرار ہو جائے گا اور پولیس اسٹیشن جا کر سب کچھ بتادئے گا اس کو یقین تھا قانون اس کی مدد کرے گا اور ایک دن اقبال کو موقعہ مل ہی گیا۔۔۔۔۔۔۔ اس کی نگرانی کرنے والوں کو اب اطمینان ہو چکا تھا کہ اب وہ اپنی قسمت سے سمجھوتا کر چکا ہے مگر اقبال تو ہر لمحہ فرار ہونے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا ایک رات جب سب سو گئے اور نگرانی کرنے والے بھی شراب کے نشے میں ڈوب کر ادہر ادہر لڑھک گئے تو ایسے ہی کسی موقعہ کی تلاش میں رہنے والے اقبال نے فرار ہونے میں دیر نہیں لگائی رات کے سناٹے میں وہ کئی گھنٹے پیدل چلتا رہا اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی وہ ایک ایسی سڑک پر موجود تھا جو دارلحکومت کی طرف جاتی تھی وہ سڑک سے اتر کر اب کھیتوں میں چلنے لگا اس کے جوتے کھیت کی کیچڑ میں لتھڑ گئے مگر اسکو کوئی پرواہ نہیں تھی اسکو انتظار تھا کسی ٹرک یا گاڑی کا کہ جس پر ببیٹھ کر وہ اس علاقعے سے زیادہ سے زیادہ دور نکل سکے آخر کار اس کے کانوں نے کسی گاڑی کی آواز سنی وہ بہت محتاط تھا اس کو اندازہ تھا کہ اس کی تلاش شروع کر دی گئی ہو گی بابو رام غصے سے لال پیلا ہو رہا ہوگا۔۔۔۔ گاڑی کی آواز رفتہ رفتہ قریب آتی جارہی تھی اس نے دیکھا کہ یہ ایک ٹرک تھا جس پر مال لدا ہوا تھا جب ہی اسکی رفتار بہت کم تھی اقبال تیزی سے سڑک تک پہینچا اور ہاتھ کے اشارے کرنے لگا ٹرک قریب آکر رکا تو اقبال ڈرائیور تک پہینچا اور ٹوٹی پھوٹی ملائی زبان میں اس سے درخواست کرنے لگا کہ اسکو شہر تک پہینچا دے کچھ دیر بعد وہ ٹرک ڈرائیور اور اسکے ساتھی کے درمیان بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ اقبال کی جیب میں 70 ڈالر محفوظ تھے جو اس نے چھپا کر رکھے ہوئے تھے باقی 500ڈالرز پاسپورٹ سمیت دیگر کاغذات بابو رام نے نکال کرنا معلوم مقام پر چھپا دئیے تھے یا پھاڑ کر پھینک دئیے تھے صبح ۸ بجے وہ ایک آباد علاقے تک پہنچ گئے جہاں دکانیں، ہوٹل وغیرہ موجود تھے وہ وہاں ٹرک سے اتر گیا اس نے جیب سے ۵ ڈالر نکال کر ڈرائیور کو دینے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کر دیا اور اقبال کو ناشتہ کرنے کی دعوت دی جسے اقبال نے قبول کرلیا وہ تینوں افراد ایک چھوٹے سے ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک ٹیبل پر جا بیٹھے۔ اقبال بہت چوکنا تھا اس کی نظریں مسلسل باہر کی جانب تھیں ڈرائیور نے غور سے اسکی جانب دیکھا اور پوچھا تم کس ملک سے ہو؟ اقبال نے مختصراٌ سارا واقعہ بیان کردیا ڈرائیور نے اپنا نام عبداللہ بتایا اور کہا تم میرے ساتھ چلو میری جا ن پہچان کچھ پولیس والوں سے ہے کسی سے بات کر کے تمہاری مشکل آسان کرنے کی کوشش کروں گا ویسے بھی تم اگر یہاں کسی کو جانتے نہیں مشکل میں پڑ جاو گے اقبال کے پاس انکار کی کوئی صورت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ اگلے ۳ ماہ اقبال نے عبداللہ کے ساتھ ٹرک پر اس کے مددگار کے طور پر نوکری کی ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتا رہا مگر اس کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا ایک دن جب وہ ٹرک لوڈ کر کے منڈی کی طرف جارہے تھے تو پولیس نے اوورلوڈنگ، کاغذات نامکمل ہونے کے چارجز لگا کر ٹرک سمیت عبداللہ اور اقبال کو تھانے میں بند کر دیا۔۔۔۔۔۔ گھنتے بعد ٹرک کا مالک آگیا اور چالانجمع کروا کر عبداللہ کو چھڑوا لیا پولیس آفیسر نے کہا اس کے ساتھ ایک آدمی اور ہے اس کے پاس شناخت موجود نہیں اس کے بارے میں بتاو وہ کون ہے غیر ملکی لگتا ہے ٹرک کے مالک نے اقبال کو پہچاننے سے انکار کردیا تو عبداللہ کو سچ بتانا پڑ گیا۔۔۔۔۔ پولیس آفیسر نے کہا ٹھیک ہے ہم اس سے تفتیش کرتے ہیں آپ لوگ جائیں ہم اس سے معلومات کر کے پھر آپ کو تفصیلات سے آگاہ کر دیں گے پولیس آفیسر نے اقبال کو اپنے کمرہ میں بلایا اور پوچھا کہ تم کون ہو اور اس ٹرک پر کیا کر رہے تھے؟ اقبال نے اس کے سوالات کو سمجھا پھر ٹوٹی پھوٹی انڈونیشین ذبان(جو اس عرصہ میں اس نے سیکھ لی تھی) میں اپنی داستان کراچی سے لیکر یہاں تک پہنچنے تک سنادی۔۔۔۔۔ پولیس آفیسر نے سارابیان ریکارڈ کیا اور اسکو لاک اپ میں بھیج دیا اقبال حیران پریشان تھا کہ لاک اپ میں کیوں بند کر دیا۔۔۔۔۔ ۲ دن اسی طرح گذر گئے کوئی کچھ بتا ہی نہیں رہا تھا کہ اب اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا کس طرح وہ اس مصیبت سے نکلے گا اور کب نکلے گا۔۔۔۔۔۔ تیسرے دن اس کو صبح کو بتایا گیا کہ اس کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے لیئے لے کر جارہے ہیں یہ ایک قدیم بلڈنگ تھی جس میں سٹی کورٹ واقع تھا مقامی زبان مین اسکو Nik Nurul huda akma binti roselan کہتے تھے۔۔۔ مجسٹریٹ شکل سے ہی بہت خرانٹ آدمی لگ رہا تھا اقبال کو اسکی شکل دیکھتے ہی یقین ہوگیا کہ اس سے خیر کی کوئی توقع نہیں اور ہوا بھی یہی مجسٹریٹ نے کیس پڑھا پولیس والوں کا بیان سنا اور اقبال کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہا غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے والوں کے لئیے سخت قانین موجود ہیں تمہارا بیان میں نے پڑھا وہ صرف جھوٹ ہے اب تم کو اس جھوٹ اور قانون توڑنے کی سزا ملے گی تم اس کورٹ سے ملنے والی سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا چاہو تو کر دینا مگر سزا برقرار رہے گی۔۔۔۔۔ اقبال کو 6 مہینے کی سزا سنا کر سیلنگو ر ڈسٹرکٹ کی (Penjara Pudu) یعنی پڈو جیل بھیج دیا گیا 1859میں تعمیر ہونے والی اس جیل کے بیرکس تنگ اور تاریک تھیں اقبال کو یہاں 6 ماہ کی سزا گزارنی تھی۔۔۔۔۔جیل کا عملہ قدرے بہتر تھا مگر قیدی انتہائی اجڈ اور بدتمیز تھے اور اس پر سے وہ اقبال کی ٹوٹی پھوٹی ملائی ذبان کو بمشکل سمجھتے تھے اقبال اس نئی دنیا میں پہنچ کر اپنی قسمت کو روتا رہتا تھا۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا مگر اسکی داد رسی نہیں ہو سکی اقبال کو امید تھی کے اگر کوئی اسکی مدد کرے اور ہائی کورٹ میں اسکا کیس چلا جائے تو اس کی باقی سزا معاف بھی ہو جائے گی اور اسکو واپس پاکستان بھیجنے کے انتظامات بھی ہو جائیں گے لیکن بدقسمتی اقبال کے پیچھے تھی جیل میں قیدیوں کے درمیان ایک جھگڑا ہو گیا جو بڑھتے بڑتے اس قدر بڑھا کے لاتیں گھونسے اور ڈنڈونں کا ازادانہ استعمال ہوا کہ جیل انتظامیہ نے بھی ڈنڈے کا استعمال کیا بہت سے قیدی زخمی ہوئے جس میں سے ایک بعد ازاں جاں بحق ہو گیا قیدیوں میں سے کسی ایک نے ایک سپاہی کے سر پر ڈنڈا مارا جس سے وہ سپاہی شدید ذخمی ہو گیا اقبال بھی زخمی ہوا مگر اصل بدقسمتی تو اس وقت شروع ہوئی تو جھگڑے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جانے لگا اس زمانے میں کیمرے تو موجود نہیں تھے لہذا قیدیوں کے بیانات لئیے گئے اور اس کے نتیجے میں کچھ قیدیوں پر فرد جرم عائد کر دی گئی ان قیدیوں میں اقبال کا نام بھی شامل تھا۔۔۔ ایک دفعہ پھر اقبال ۱۱ مزید قیدیوں کے ساتھ اسی مجسٹریٹ کی عدالت میں موجود تھا مجسٹریٹ نے کیس سنا گواہان کے بیانات سنے اور کیس کا فیصلہ سنا دیا جن ۵ قیدیوں کو اس جھگڑے میں ملوث میں ہونے، ایک سپاہی کو زخمی کرنے اور مرنے والے قیدی کی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ان میں اقبال بھی شامل تھا ان پانچوں قیدیوں کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی اور باقی قیدیوں کے خلاف گواہی نا ملنے پر اس کیس سے بری کر دیا گیا اقبال چیختا چلاتا رہ گیا مگر کون تھا جو اسکی فریاد سنتا، جیل پہیچ کر بھی اقبال چیختا چلاتا رہا کہ وہ بے گناہ ہے مگر سب پتھر دل لوگ خاموش رہے اقبال نے کھانا پینا چھوڑ دیا جب جیلر کو اطلاع ملی تو اس نے اقبال کو اپنے آفس میں بلوایا اور اس سے پوچھا کہ تم اس کیس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا چاہتے ہو؟ اقبال کا نقاہت سے برا حال تھا الفاظ اس کے منہ سے نکل نہیں رہے تھے مگر آنسو تھے جو اس کے دل کا حال بیان کر رہے تھے۔۔۔ جیلر کے دل میں اقبال کے لئیے رحم کا جذبہ امڈ آیا اس نے نرم لہجے میں اقبال کو کہا کہ میں پاکستان ایمبیسی کو تمہاری یہاں موجودگی کے بارے میں آگاہ کرتا ہوں وہ تمہاری اس کیس میں معاونت کرئیں تو تم بری ہو سکتے ہو یہ سن کر اقبال کی آنکھوں میں چمک سی آگئی اس کے دل میں امیدیں جاگ اٹھیں۔۔ مگر اقبال کو نہیں معلوم تھا کہ آنے والے دن اس کےلئیے کتنی مشکلات لیکر آرہے ہیں پاکستان ایمبیسی نے اقبال کو پاکستانی شہری ماننے سے انکار کردیا اور ایمبیسی کے عملے میں سے کسی نے اقبال سے ملاقات بھی نہیں کی۔ اقبال کا کیس جیلر کی کوششوں سے ہائی کورٹ تک پہنچا ۔۔۔۔ جالان کے گورمینٹ کمپلیکس میں واقع ہائی کورٹ کی پرشکوہ عمارت میں جب اقبال داخل ہو تو مایوسی اسکے چہرے سے عیاں تھی اس کو اندازہ تھا کے اسکی سزا برقار رہے گی اور چوتھی پیشی جو تقریبا ۸ ماہ کے بعد ہوئی جج نے فیصلہ سنا دیا عین اقبال کے اندازے کے عین مطابق جج نے لوئر کورٹ کی سزا برقرار رکھی ساتھ ہی کوالا لامپور سے 453کلومیٹر دور پینانگ جیل بھج دیا پینانگ پہنچ کر اقبال کو جیل کی سختیوں کا انداذہ ہوا اب اسکی ذندگی کا مشکل ترین دور شروع ہوا۔۔۔۔۔۔ ادہر پاکستان میں نگہت کے گھر والوں نے اس پر دباو ڈالنا شروع کیا کہ وہ سسرال کو چھوڑ کر ان کے ساتھ چلے کیونکہ ۲ سال ہوگئے اقبال کا کچھ پتہ نہیں مگر نگہت نے کسی دباوؑ کو قبول نہیں کیا اور اپنی ذندگی ساس کی خدمت اور اقبال کے انتظار کرتے ہوئے گزارنے کا فیصلہ کیااس کا یہی کہنا تھا کہ اقبال واپس آئیں گے۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا 14 سال کچھ اس طرح گزرے کہ جب جیل کے دروازے اقبال کے لٗیے کھول دئیے گئے تو وہ وہاں سے باہر جانا نہیں چاہ رہا تھا اس کا دل باہر کی دنیا سے اچاٹ ہو چکا تھا وہ کہاں جائے گا باہر کی دنیا تواجنبی بن گئی تھی اس کے لئیے۔۔۔۔ وہ جیل سے رہا تو ہو گیا تھا مگر پورا ملائیشیا اس کے لئیے قید خانہ تھا وہ اس سے کیسے رہائی پائے گا یہ سوچتے ہوئے اقبال جیل سے باہر نکلا اس کے پاس بیس ہزار ملائیشین رنگت موجود تھے جو جیل میں اس کے کام کا معاوضہ تھا مگر اسکو اس رقم کی قیمت کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا نا ہی یہ پتہ تھا کہ یہ رقم اس کے کتنے دنوں تک کام آئی گی اقبال کو پاکستان سے آئے ہوئے 16 سال گزر چکے تھے یہ 1979 کے ستمبر کی 22 تاریخ تھی نگہت کی عمر محض ۳۳ برس تھی مگر شوہر کی جدائی نے اسکو وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز تک پہینچا دیا تھا وہ عمر سے بڑی نظر آنے لگی تھی مگر سلام ہے اس عورت کے پائے استقامت کو اس کو آج بھی یقین تھا کہ اقبال زندہ ہے اور ایک دن ضرور واپس آئے گا۔ اقبال کی ماں بلقیس بیگم بھی بہو کے پختہ یقین کو دیکھتے ہوئے اس پر فریقتہ تھیں۔۔۔۔ بلقیس بیگم کی نظریں دن با دن کمزور ہوتی جارہی تھیں ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ کالا موتیا آنکھوں میں اتر آیا ہے آہستہ آہستہ ان کی آنکھیں بے نور ہوتی چلی گیئں۔۔۔ جمال اور اسکی بیگم کے یہاں اولاد نہیں ہو سکی وہ دنوں سعودی عرب میں ہی رہائش پذیر تھے۔۔۔۔ دوسری طرف اقبال کی مشکلات تھیں کے کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اقبال کچھ عرصے تک تو جیل سے کمائے گئے پیسوں پر گذارا کرتا رہا لیکن اب اسکو محنت مزدوری کر کے گزارا کرنا تھا اور ساتھ ہی ثابت بھی کرنا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہے تا کہ اپنے وطن لوٹ سکے مگر یہ ہر گز آسان کام نہیں تھا۔ نوکری تلاش کرتے ہوئے اقبال ایک دفعہ پھر بیگار کروانے والوں کے ہتھے چڑھ گیا بس کام کا معاضہ ۲ وقت کا کھانا اور سونے کے لئیے بستر دن بھر ناریل اور پام کے درختوں کی دیکھ بھال کرتا تھا پھلوں کو توڑنا بھی اس کی ذمہ داری تھی اور رات میں کھانے کے بعد اس کے پاوٗں میں بیڑیاں ڈال دی جاتیں بیڑیوں نے اسکے پاوں میں زخم کر دئیے تھے اقبال یہ زخم تو برداشت کر رہا تھا مگر اس کی روح پر جو زخم لگا تھا اس کا مداوا صرف اور صرف وطن واپسی تھا۔۔۔ اس کو اپنی ماں بہت شدت سے یاد آتی تھی اور جب نگہت کی یاد اس کے دل میں آتی تھی تو اس کے سینے میں ہوک سی اٹھتی تھی وہ سوچتا تھا نگہت نے دوسری شادی کر لی ہو گی اس کو کیا پتہ تھا وہ بد نصیب آج بھی اس کی راہ تک رہی ہے۔۔۔۔۔ کئی سال مزید گزر گئے اقبال کو ملائیشیا آئے چوتھائی صدی ہوگئی، گزرے ۲۵ برس میں اقبال ایک بار بھی مسکرایا نہیں۔۔۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ وہ مسکرانا بھی بھول چکا تھا رات جب اقبال بستر کی طرف آیا تو اس نے سجدے میں جاکر گڑگڑا کر دعا کی کہ اللہ میری آزمائش ختم کردئے اور میرے لئیے راستہ بنا دے کہمیں وطن واپس جاسکوں اگر ماں زندہ ہے تو اسکے ہاتح چوم سکوں اگر مر چکی ہے تو اس کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھ سکوں دعئیں تو وہ مانگتا آرہا تھا مگر دعا کے قبول ہونے کا جتنا آج اسکو یقین تھا پہلے کبھی نہیں تھا جب اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے تو بند دروازے کھل جاتے ہیں اور اسک کے لئیے بھی اللہ نے دروازہ کھول دیا کھیت کا مالک سانپ کے ڈسنے سے مر گیا رونا پیٹنا مچ گیا اسکو موقعہ ملا وہ وہاں سے فرار ہو گیا اس بار اسکی ملاقات ایک پاکستانی بزنس مین سے ہو گئی اور پھر اقبال کے راستے کی رکاوٹیں ایک ایک کر کے ختم ہو گئیں لاہور کے اس بزنس مین نے اسکے لئیے تمام تعلقات اور پیسہ استعمال کرتے ہوئے اسکی وطن واپسی کے بند راستے کھولنا شروع کئیے اور پھر وہ مبارک دن بھی آیا جب سبز پاسپورٹ اقبال کے ہاتھوں میں تھا اسکا پاکستان واپسی کا بند دروازہ کھل چکا تھا وہ سجدے میں گر گیا ابھی یہ سچی داستان ختم نہیں ہوئی ؎اقبال صاحب نے اپنی یہ کہانی جب مجھے سنائی تو اس کہانی کے آخری حصے کو سن کرمیرے رونگٹے کھڑے ہو گئے میں نے اقبال صاحب کو سیلیوٹ کیا اور کہا یہ سیلوٹ صرف آپ کی عزم و ہمت کو سلام نہیں ہے بلکہ آپ کی عظیم بیوی کو بھی میری طرف سے خراج عقیدت ہے ۱۱ جولائی 2007 جب اقبال کراچی کے جناح ٹرمینل میں پہنچا تو اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے گھر کیسے جائے پتہ نہیں وہ لوگ اب وہاں رہتے ہیں بھی کے نہیں اسکے حافظے میں 6 ڈیجٹ پرمشتمل فون نمبر 411789 محفوظ تھا اس نے فون کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں موجود پبلک فون تک گیا کئی بار ڈائل کرنے پر اس کو ایک ہی میسج مل رہا تھا کہ آپ کا نمبر تعبدیل ہو چکا ہے مزید معلمات کے لئے رابطہ کرئیں اس نے ڈیوٹی پر موجود شخص کو اس مسلئے کے معتلق بتایا اور اپنی مختصرا کہانی سنائی تو اس نے بتایا انکل 6 ڈیجٹ والا نمبر پہلے7 ڈیجیٹ میں اور اب 8 ڈیجیٹ میں تعبدیل ہو چکا ہے میں ابھی پی ٹی سی ایل سے معلوم کر کے آپ کو بتاتا ہوں تعبدیل شدہ نمبرکچھ دیر بعد ہی معلوم ہو گیا جو کہ اب 8 ڈیجیٹ پر مشتمل تھا اقبال نے کانپتے ہاتھوں سے نمبر ملایا بیل جانے کی مخصوص آواز آنے لگی ہر گذرتا لمحہ اقبال کی دل کی دھڑکن تیز کر رہا تھا۔۔۔پھر اقبال کی سماعت نے ایک نسوانی آواز کو سنا اسلام و علیکم اقبال آواز کو پہچاننے سے قاصر تھااس نے سلام کا جواب دیا اور کہا بلقیس بیگم موجود ہیں ا ن سے بات کرنی ہے جی آپ کون؟؟ میرا نام اقبال ہے دوسری طرف سناٹا چھا گیا چندلمحے مکمل خاموشی کے بعد جواب ملا کون اقبال؟ جی میں اقبال ہوں انکا بیٹا ملائیشیا سے آیا ہوں۔۔۔۔۔ دوسری طرف رونے کی آواز آنے لگی اقبال نے پوچھا آپ کون ہیں میری امی کہاں ہیں وہ خیریت سے تو ہیں ہاں ہاں وہ خیریت سے ہیں اقبال میں نگہت ہوں اب ششدر رہنے کی باری اقبال کی تھی اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نگہت اب تک اس کے انتظار میں بیٹھی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ائیر پورٹ آرہی ہوں آپ کو لینے بس آدھا گھنٹہ انتطار کرئیں اقبال کا انگ انگ خوشیوں سے جھوم اٹھا اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ نگہت اب تک اس کی منتظر ہوگی ایسی محبت ایسا یقین تم نے میرا انتظار ۵ ۲ برس کیا نگہت میں تمہارا منتظر ہوں انٹر نیشنل لاوْنج میں بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔۔ نگہت کا پورا وجود کانپ رہا تھا وہ بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی جہاں بلقیس بیگم نماز میں مشغول تھیں تا کہ ان کو خوشخبری سنا سکے۔ جیسے ہی بلقیس بیگم نے سلام پھیرا نگہت ان سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے ان کو بتایا کہ اقبال واپس آگیا ہے اور وہ اس کو لینے ائیر پورٹ جارہی ہے بلقیس بیگم کی بے نور آنکھیں چمکنے لگیں اور ان سے آنسو رواں ہو گئے وہ بے ساختہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئیں۔ ائیر پورٹ پہنچ کر بلقیس پاگلوں کی طرح ادہر ادہر دوڑتی رہی اس کے ہاتھ میں اقبال کی تصویر تھی مگر تصویر میں دلہا کے روپ میں موجود اقبال مکمل طور پر تعبدیل ہو چکا تھا جب وہ اقبال کے قریب سے تیسری مرتبہ گزرنے لگی تو اقبال کھڑا ہو گیا اور آواز دیکر پوچھا آپ کس کو ڈھونڈ رہی ہیں تو نگہت نے کچھ کہے بنا تصویر اس کے سامنے کر دی۔۔۔۔۔۔ اقبال خوشی سے بے قابو ہو گیا اور نگہت کو بازوں سے پکڑ کر تقریبا چیختے ہوئے بولا نگہت میں اقبال ہوں۔۔۔۔۔ لاونج میں موجود لوگ حیران ہو کر دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ واپسی کا سفر طے کرتے ہوئے اقبال مسلسل روتا رہا اور جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا بے ساختہ سجدے میں گر گیا اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد ماں کے گلے لگا ماں جو اسے دیکھ نہیں سکتی تھی مگر ٹٹول ٹٹول کر دل کو یقین دلاتی رہی کہ اس کا بیٹا واپس آگیا ہے اللہ نے ۵ ۲ برسوں بعد اقبال کو ماں کی خدمت کے لئے بھیجا تھا کچھ عرصے بعدہی صاحب فراش ہو گئیں اور ان کے مرتے دم تک اقبال اور نگہت انکی خدمت دل وجان سے کرتے رہے۔۔۔۔۔

SHARE THIS

Author:

urdufundastory.blogspot.com is the first of its kind of trendsetting venture existent in Pakistan. It is for the first time in the history of this nation that a large scale project of such nature, evolved from an extraordinarily revolutionizing concept to a practical fulfillment.

0 Comments: